ڈاکٹر طاہرالقادری آخر چاہتے کیا ہیں؟

تحریر: فیاض وڑائچ (سابق رکن صوبائی اسمبلی)

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری 8اگست 2017 ء کو وطن آرہے ہیں، ان کی یہ واپسی ان کے شیڈول سے ہٹ کر ہے، عوامی تحریک کے کارکنوں نے 8اگست کو لاہورایئرپورٹ پر ان کے پرتپاک استقبال کا پروگرام بنا رکھا ہے، پروگرام کے مطابق وہ ایئرپورٹ کے باہر میڈیا اور کارکنوں سے خطاب کرینگے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف مانگیں گے اور اپنی آمد کی غرض و غایت کے حوالے سے آگاہ کرینگے ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکن پڑھے لکھے، منظم اور بلا کے مقرر ہیں، آئین فہمی، موجودہ سیاسی نظام کی قباحتوں اور ان کے حل کے حوالے سے ان کا فہم کسی اور جماعت کے کارکنوں سے کہیں زیادہ ہے، یہ کارکن آزمودہ کار اور گرم سرد موسموں سے بے نیاز ہیں، ان کے عزم، ہمت کا مشاہدہ پاکستان کے عوام، دانشور، سیاسی، صحافتی حلقے، جنوری 2013ء کے لانگ مارچ، 17 جون 2014 ء کے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے حملہ اور اگست 2014ء کے انقلاب مارچ میں کر چکے ہیں، یہ کارکن پولیس کے ڈنڈوں، لاٹھیوں، گنوں کو دیکھ کر دوڑنے کی بجائے کھڑے ہو کر اپنے موقف کا دفاع کرتے اور اپنے مطالبات کو دہراتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پڑھی لکھی خواتین عوامی تحریک کی بہت بڑی تنظیمی قوت ہیں، 2014ء کے دھرنے میں جو اسلام آباد کے ڈی چوک میں ہوا تھا اس میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ نہیں تو ان کے برابر ضرور تھی، 70 دن کے دھرنے میں کوئی ایک خاتون بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلی تھی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایک کریڈٹ نہ دینا سخت زیادتی ہوگی، وہ انتہائی جوش میں بھی کارکنوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتے، شاید ان کی زندگی کا نازک ترین مرحلہ 17 جون 2014ء کا وہ دن تھا جب پولیس کی بھاری نفری نے ان کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کر رکھا تھا اور مختلف چھتوں پر بیٹھے ہوئے ماہر نشانہ باز تاک تاک کر بیڈ رومز پر نشانے لگارہے تھے اور ان کے اہلخانہ اپنے گھر کے اندر دیواروں کی اوٹ لیے گولیوں کی بوچھاڑ سے بچنے کی کوشش کررہے تھے اور ان کے گھر کی دہلیز پر ان کے کارکنوں کی ایک ایک کر کے لاشیں گررہی تھیں اور گھر کے محافظ دفاع کی اجازت مانگ رہے تھے تو اس مرحلہ پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے حکم دیا کہ وفادار محافظوں سے اسلحہ چھین لیا جائے اور ان تمام کو کمروں میں بند کر دیا جائے، ریاست ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس فیصلہ اور صبر و تحمل کی احسان مند رہے، اگر ڈاکٹر طاہرالقادری کارکنوں اور محافظوں کو دفاع کی اجازت دے دیتے تو اس دن 14 کارکنوں کے ساتھ ساتھ پولیس کی 14سو لاشیں بھی گرتیں اور ہزاروں خاندانوں کے گھروں میں صف ماتم بچھتی اور نہ جانے ملک کی سیاست کس ڈگر پر چل نکلتی، ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس تدبر اور صبر پر ریاست کو ان کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے اور ان کے 14 کارکنوں کو قتل کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے چاہیے، انصاف سے معاشرے متوازن ہوتے اور مضبوط ہوتے ہیں، بے انصافی، تشدد، انتشار، لاقانونیت اور عدم تحفظ کو جنم دیتی ہے، ان عوارض نے پہلے ہی سوسائٹی کے اجتماعی تصور کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور عدم برداشت کا عنصر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری انصاف کے سوا کچھ نہیں مانگ رہے، فی الوقت ڈاکٹر طاہرالقادری کا مطالبہ ہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی اس رپورٹ کو پبلک کیا جائے جو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی عدالتی تحقیقات کیلئے قائم کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جائیگا۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن نے اپنا کام مقرر مدت کے اندر مکمل کر لیا تھا اور 9 اگست 2014ء کو یہ رپورٹ پنجاب حکومت کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کو جمع کروا دی تھی، آج تین سال گزر جانے کے بعد بھی اس رپورٹ کو پبلک نہیں کیا گیا، ڈاکٹر طاہرالقادری کے وکلاء رپورٹ کے حصول کیلئے 3سال سے لاہور ہائیکورٹ میں قانونی جدوجہد کررہے ہیں، آئین کا آرٹیکل 19A ہر شہری کو معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے تو پھر کیوں تین سال گزر جانے کے بعد شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو عدالتی کمیشن کی رپورٹ نہیں دی جارہی؟ آخر اس رپورٹ میں ایسا کیا ہے کہ جسے ہوا نہیں لگنے دی جارہی، فی الحال ڈاکٹر طاہرالقادری جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ مانگ رہے ہیں، ان کا یہ مطالبہ قانونی بھی ہے اور انسانی بھی، اس مطالبہ پر حکومت نہ پہلے سنجیدہ تھی نہ آئندہ اس کے سنجیدہ ہونے کے کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اس حکومت نے پاناما لیکس آنے کے بعد بھی غیر سنجیدگی دکھائی تھی، اپوزیشن کی ٹی او آرز بنانے کی کوششوں کو سبوتاژ کیا حالانکہ وہ ٹی او آرز انتہائی سود مند تھے ان ٹی او آرز میں صرف یہ بات شامل تھی کہ احتساب کے عمل کا آغاز حکمران خاندان سے کیا جائے اس کے بعد باقی کا احتساب کیا جائے، نواز حکومت یہ مطالبہ مان لیتی تو قطری خطوط، کیلبری فونٹ اور اقاموں کی داستانیں زبان زد عام نہ ہوتیں۔ حکمران پاناما سے سبق سیکھیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے بھی قانون کو اپنا راستہ بنانے دیں، عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کیا جائے اور اگر وزیراعلیٰ پنجاب سمجھتے ہیں کہ ان کا سانحہ ماڈل ٹاؤن سے کچھ لینا دینا نہیں تو عدالتیں ان کیلئے کھلی ہیں جس طرح سپریم کورٹ نے انہیں منی ٹریل دینے کیلئے 273 دن دئیے اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بھی عدالتیں انہیں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے حوالے سے پورا وقت دیں گی اور وہ عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کریں بصورت دیگر قانون بھی اپنا راستہ بنائے گا اور عوامی تحریک کے کارکنوں کا جنون بھی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان آرہے ہیں اور ان کی آمد کا واحد مقصد سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف ہے۔ حکومت نے اگر انصاف کے عمل میں کردار ادا کرنے کی بجائے ان کی کردار کشی پر توجہ مرکوز کی تو پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی پاناما لیکس کی طرح ٹاک شوز کا موضوع بنے گا۔ دیکھتے ہیں حکومت کون سا راستہ اختیار کرتی ہے۔ انصاف کا یا انحراف کا۔

تبصرہ