سانحہ ماڈل ٹاؤن ۔۔۔۔۔ مورخہ 17 جون 2014

نعیم الدّین چوہدری ایڈووکیٹ (لاہور ہائی کورٹ)
ترجمان سانحہ ماڈل ٹاؤن لیگل ٹیم

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور عوام کے حقوق کی بازیابی کے لیے ماہ جون 2014 کو پاکستان آکر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تو حکومت بوکھلا اُٹھی اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی اور اس تحریک کو کچلنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی اور فیصلہ کیا کہ ادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر لگےہوئے بیرئیر ز کو ہٹانے کے بہانے دھاوا بولا جائے گااور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ بنے گا اسکو ختم کردیاجائےگا۔ بیرئیرز جو کہ عدالت عالیہ لاہور کے حکم سے پولیس نے خود اس وقت کے SPماڈل ٹاؤن ایاز سلیم کی موجودگی و نگرانی میں لگوائے تھے اور رٹ پٹیشن 22367/2010 کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ کے حکم سے مورخہ 20/01/2011 کو ایازسلیم سابق SPماڈل ٹاؤن لاہور عدالت عالیہ میں حاضر ہوئے اور اپنا بیان قلمبند کروایاجس میں عدالت عالیہ کو تحریری یقین دہانی کروائی کہ انہوں نے ادارہ منہاج القرآن اور گردونواح کے مکینوں کی سیکیورٹی کے لئے 16پولیس اہلکاران کو 24گھنٹے متعین کردیا ہے اور متعلقہ سڑکوں پر جرسی بیرئیرز (Jersey Barriers) رکھوا دیے ہیں۔

یہ بیرئیرز اس لیے لگے تھے کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سال 2010 میں پاکستان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی اہمیت کا فتویٰ جاری کیا جو کہ 600 صفحات پر مشمتل دہشت گردی اور فتنہ خوارج کتاب کے نام سے تحر یر شدہ ہے جسے پوری دنیا میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اس سے پاکستان اور دنیا بھر میں دہشت گرد مشتعل ہو کر بوکھلااُٹھےاور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے جانی دشمن بن گئے۔ پاکستان اور دنیا بھر کے دہشت گروں نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں جس پر پاکستان کی مختلف ایجنسیوں نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ان دہشت گردوں کے مذموم عزائم کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ بھی کیا۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تحریک کو روکنے کے لیے جو منصوبہ بندی کی گئی تھیں اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مورخہ 16 جون 2014 کو رانا ثناءاللہ وزیر قانون کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔ جس میں سید توقیر شاہ پرسنل سیکرٹری ٹو وزیر اعلیٰ، میجر (ر) اعظم سلیمان ہوم سیکرٹری، راشد محمود لنگڑیال کمشنر لاہور، محمد عثمان DCO لاہور، طارق منظور چانڈیوACماڈل ٹاؤن لاہور، علی عباس TMO ماڈل ٹاؤن لاہور، رانا عبدالجبار DIG آپریشن لاہور و دیگران شامل تھے۔ جس میں اس بات کے فیصلہ کیا گیا کہ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف کے فیصلے کی تکمیل کے لیے ادارہ منہاج القرآن کے اردگرد رکاوٹوں کو ہٹانے کے بہانے دھاوا بولا جائے گااور جو بھی شخص اس میں روکاوٹ بنے اُس ختم کردیا جائے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا ایک بھیانک کھیل ہے۔ جس میں گورنمنٹ نے طے شدہ منصوبہ کے تحت منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے معصوم نہتے اور بے گناہ کارکنان کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ خونی اور دہشت گردی پر مبنی مناظر موقع پر موجود لوگوں کے علاوہ پوری دنیا نے میڈیا چینلز پر براہ راست دیکھے جس میں 14 افراد شہید جس میں 2خواتین بھی شامل تھیں اور 100 سے زائد افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئیں اور ظلم وریاستی دہشت گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی قطع نظر اس سے کہ حکومت اعتراف گناہ کے ساتھ مظلوموں کی اشک شوئی کے اقدامات کرتی لیکن پولیس کی مدعیت میں جھوٹی FIR درج کرکے زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کرکے دنیا کی تاریخ میں ظلم وناانصافی کی نئی مثال قائم کردی۔

وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے اُسی دن پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن بنا رہا ہوں اگر میری طرف انگلی بھی اُٹھی مجھے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار ٹھہرایا تو میں فوری طور پر استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردوں گا۔

وزیراعلیٰ نے ایک خط کے ذریعہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ لاہورکو کمیشن قائم کرنے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ لاہور نےمسٹر جسٹس علی باقر نجفی جج لاہور ہائی کورٹ لاہور پر مشتمل یک رکنی عدالتی ٹربیونل قائم کیا جس پر جج صاحب نے حقائق جاننے کے لیے جائے وقوعہ کا خود معائنہ کیا۔ اور اس علاقہ کا بھی خفیہ دورہ بھی کیا تاکہ حقائق کو جانا جا سکے۔ جج صاحب نے حساس اداروں سے بھی معاونت حاصل کی اور انسانی حقوق کی بعض تنظیمات نے بھی شواہد ازخود ٹربیونل کے رو بررو پیش کیے جس کے بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرکے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی نے حکومت کو ارسال کی جس میں حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس کو قتل وغارت گری کا ذمہ دار قراردیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ رانا ثناءاللہ کے اجلاس کے فیصلے پاکستانی تاریخ کے بد ترین قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔ منہاج القرآن کے باہر بیرئیر ز قانونی تھے۔ پولیس نے وہی کچھ کیا جس کا حکومت نے اسکو حکم دیا تھا۔ حکومت پنجاب کی منظور ی سے پولیس نے آپریشن کیا۔ حکومت کا 17 جون 2014 کا ایکشن غیر قانونی تھا۔ پولیس پوری طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن میں خون کی ہولی میں ملوث ہے۔

اس رپورٹ کو حاصل کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ لاہور میں رٹ پٹیشن 33702/2014 دائر کی ہوئی ہے۔ جو کہ ابھی تک لاہور ہائی کورٹ لاہور کے فل بنچ میں زیر سماعت ہے تاہم پاکستانی عوام ٹربیونل کی رپورٹ سے میڈیا کے ذریعہ آگاہ ہو چکی ہے اور حکومت کا رپورٹ کو دباکر بیٹھ جانا اور کسی بھی قیمت پر شائع نہ کرنا اس بات کا بین ثبوت ہے جوڈیشل کمیشن نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دارحکومت کو ٹھہرایا ہوا ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی حکومت مخالف تحریک سے حکومت اتنی زیادہ پریشان ہو گئیں تھیں کہ اس وقوعہ کے چند روز بعدمورخہ 23 جون 2014کو جب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بیرون ملک سے بذریعہ طیارہ اسلام آباد آئے تو ہوائی جہاز کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترنے نہ دیا گیا بلکہ طیارہ 15, 16 چکر اسلام آباد کی حدود میں لگاتا رہا اور اس کے بعد ہوئی جہاز کارخ لاہور کی طرف کر دیا گیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی FIRکے اندراج کے لیے شہداء کے لواحقین وزخمی جب تھانہ فیصل ٹاؤن میں گئے تو پولیس نے FIR درج کرنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ اس میں حکومت اور اعلیٰ پولیس افسران کے نام شامل تھے پولیس کے FIRکے اندارج کے انکار پر سیشن کورٹ میں گئے تو ایڈیشنل سیشن جج صاحب نے FIR درج کر نے کا حکم دیا لیکن اس کے باوجود پولیس نے FIR درج نہ کی کیونکہ اس سانحہ میں حکومت اور بااثر اعلیٰ پولیس افسران شامل تھے۔ حکومتی وزراءنے سیشن کورٹ کے اس حکم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن فائل کی جو عدالت عالیہ لاہور نے خارج کردی۔

حکومتی ورزاءکی رٹ پٹیشن کے اخراج کے باوجود پولیس نے FIR درج نہ کی کیونکہ اس میں موجود ہ وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، وزراءاور اعلیٰ پویس افسران شامل تھے۔ دھرنا کے دوران چیف آف آرمی سٹاف کی مداخلت سے FIR درج ہوئی لیکن بعدازاں گورنمنٹ نے جانبدار JIT بنا کر اس میں گورنمنٹ کے افراد سمیت تمام پولیس افسران کو کلین چٹ دےدی صرف دو پولیس اہلکاروں کا چالان عدالت میں پیش کیا گیا۔ کیونکہ اس سانحہ میں شریف برادران اور انکے حواری /وزراءبراہ راست ملوث تھےاورپولیس کےذریعہ انہوں نے قتل وغارت گری کروائی تھی۔ اس لئے کسی بھی پولیس افسر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی بلکہ اس سانحہ میں ملوث پولیس افسران کو مراعات اورعہدوں سے نوازا گیا۔ تو پھر اس سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حصول انصاف کے لیے مورخہ 15 مارچ 2016 کو انسداد دہشت گردی عدالت میں استغاثہ دائر کردیا گیا۔ اس استغاثہ میں 56 زخمی وچشم دید گواہان کے بیانات ہوئے ہیں۔

مورخہ 7 فروری 2017 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے اس سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں 124 پولیس والوں کو طلب کر لیاہے جو اس سانحہ میں ملوث ہیں جبکہ جن افراد کے حکم سے یہ ریاستی دہشت گردی ہوئی قتل وغارت گری ہوئی ہے انکو طلب نہیں کیا ہے گورنمنٹ کے افراد کو طلب نہ کرنے پر ہائی کورٹ میں رٹ فائل کی ہوئی ہے۔

انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں استغاثہ کیس میں 115 پولیس والے عدالت میں پیش ہو رہے ہیں جبکہ بقیہ ملزمان کو سمن جاری ہو رہے ہیں۔ اس کیس میں پولیس افسران DIG رانا عبدالجبار، SP عبدالرحیم شیرازی پیش نہیں ہوئے۔ جن کو گورنمنٹ نے بیرون ملک فرارکروایا ہوا ہے جبکہ دیگر پولیس افسران SP طارق عزیز، SP محمد ندیم، SP معروف صفدر واہلہ، SP عمر ریاض چیمہ، SSP اقبال خاں، SSP ڈاکٹر فرخ رضا اور عمر ورک اس کیس میں عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔

شیخ عاصم SHO جو محمدعمر ولد محمد صدیق کا قاتل ہے وہ بھی بیرون ملک فرارہے۔

مقدمہ نمبر 510/14 میں JIT نے SP سلمان علی خاں کو بھی اس سانحہ میں ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پر خود فائرنگ کرنے اور دیگر پولیس افسران کو فائرنگ کرنے کاحکم دینےپر ذمہ دار ٹھہرایا۔ اسی طرح مقدمہ نمبر 696/14 کی JIT نے بھی کہا کہ پولیس ملازمین نےاور SP سلمان علی خاں نے خود اور اسکے حکم پر کچھ ملازمین نے ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان پر پولیس ملازمین نے فائرنگ کی جسکی تصدیق ویڈیو فوٹیج سے ہوتی ہے۔ کیونکہ اس وقت سلمان علی خاں SP سیکورٹی تھے۔ ان کا اس سانحہ میں بہت بڑا کردار ہے۔

SP سلمان علی خاں جو کہ بیرون ملک فرار ہو گیا تھا۔ اور مقدمہ نمبر 510/14میں اشتہاری ہو گیا تھااور جب تمام گرفتار پولیس والوں کی ضمانتیں انسداددہشت گردی کورٹ سے ہو گئیں تو SP سلمان علی خاں نے بھی مقدمہ نمبر 510/14 FIR میں ضمانت قبل ازگرفتاری کروالی اب حکومت اور پولیس افسران کے ساتھ سازباز کرکے ضمانت کیس میں پولیس رپورٹ اپنے حق میں کروالی کہ ’’صفحہ مثل پر SP سلمان علی خاں کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں ہیں اس لیے یہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 169کے تحت اسکی گرفتاری کو التواء کیا جاتا ہے۔ جب اس کے خلاف کوئی ٹھوس شہادت آئے گی تو پھر دیکھیں گے ‘‘ جب یہ رپورٹ پولیس کی طرف سے عدالت میں پیش کی گئی تو SP سلمان علی خاں کے وکیل نے bail Petition کو withdraw کر لیا۔ کیونکہ اب پولیس اور حکومت کے ساتھ سازباز کرنے کے بعد SPسلمان علی خاں کو ضمانت کروانے کی ضرورت نہ رہی تھی۔

ملزمان کی طلبی سے پہلے انسداد دہشت گردی کورٹ میں درخواست دی تھی کہ جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ کو منگوایا جائے اور اس رپورٹ کو استغاثہ کا حصہ بنایا جائے لیکن انسداد دہشت گردی عدالت نے خارج کر دی تھی اس آرڈر کے خلاف ہائی کورٹ میں گئے تھے، ہائی کورٹ نے بھی اس رٹ کو خارج کردیا تھا تو اب ہم سپریم کورٹ گئے ہوئے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ لاہور میں جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانےکے لئےدسمبر 2014 سے رٹ دائر کی ہوئی ہے جس کے لئے فل بنچ نے باقاعدہ سماعت کی اور فریقین کی بحث /دلائل سنے - لیکن فیصلہ نہ کیا اس بنچ کی سربراہی جسٹس خالد محمود خاں کر رہے تھے بعدازاں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف درخواستیں دے کر جسٹس یاور علی کا فل بنچ بنوایا لیکن دسمبر 2016 میں تاریخ پیشی کے بعد اب تک اس کیس میں کوئی سماعت نہیں ہوئی ہے۔

IG مشتاق سکھیرا کو انسداد دہشت گردی عدالت نے طلب کیا تھا لیکن IG نے لاہور ہائی کورٹ لاہور میں اپنی طلبی کو چیلنج کیا ہوا ہے اور لاہور ہائی کورٹ لاہور نے IG کی طلبی کی حد تک ATC کے آرڈر کو Suspend کیا ہوا ہے اس میں آئندہ تاریخ 21 ستمبر 2017 ہے۔ یہ کیس جسٹس یاور علی کے فل بنچ میں زیر سماعت ہے۔

اسطرح لاہور ہائی کورٹ لاہور میں کیپٹن (ر) عثمان DCO اور علی عباس TMOنے بھی اپنی طلبی کو چیلنج کیاتھاتو ابتدائی سماعت کے دوران ہی فل بنچ لاہور ہائی کورٹ لاہور انPetitionsکو خارج کرنے لگا تو کیپٹن (ر) عثمانDCO اور علی عباس TMOکے وکلاء نے ان Petitionsکو واپس لے لیاتھا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کی آئندہ تاریخ 10 اگست 2017 ہے۔

تبصرہ