اے آر وائی نیوز: ڈاکٹر طاہرالقادری کا ڈاکٹر دانش کو خصوصی انٹرویو (آرٹیکل 62، 63 اور سکروٹنی کے نام پر الیکشن کمیشن کا آئین سے مذاق)

پروگرام: سوال یہ ہے (ARY News)

تاریخ: 14 اپریل2013ء

ڈاکٹر دانش: معیشت کا برا حال ہے سیاست کا برا حال ہے اور سماجیات کا برا حال ہے اور کیا کیا چیز بتائیں آئین کا برا حال ہے جو آئینی ادارے آئین کا تحفظ کرنے والے ہیں وہ خود آئین کا تحفظ نہیں کر رہے اور اب آج ہم اس ایشو پر بات کریں گے۔ 23 دسمبر کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے جن چیزوں کی نشاندہی کی تھی آج ہمیں وہ نظر آرہا ہے ہم پوچھتے ہیں ان سے کہ وہ آج جہاں کھڑے ہیں جو انہوں نے کہا تھا وہ ہمیں نظر آرہا ہے وہ اٹھارہ کروڑ عوام کو بھی نظر آرہا ہے وہ دنیا کو بھی نظر آرہا ہے۔ اس پر وہ کیا کہیں گے آج ہم ان سے بات کریں ہمارے ساتھ ہیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، ڈاکٹر صاحب بہت شکریہ آپ نے ہمیں جوائن کیا۔

ڈاکٹر صاحب جو آپ نے کہا تھا وہی نظر آرہا ہے۔ بڑی مخالفت ہوئی آپ کی سر۔ آج وہی مخالفین ٹی وی پر بیٹھ کے چیخ چیخ کے کہہ رہے ہیں کہ کوئی سکروٹنی نہیں ہورہی ہے۔ کچھ نہیں ہورہا ہے نہ آرٹیکل 62، 63 پر عمل ہورہا ہے ہر قسم کے کرپٹ لوگ سب کے سب پاس ہو رہے ہیں یہ الیکشن کمیشن جو غیر آئینی ہے جس کی تشکیل نو کے لیے آپ کورٹ میں گئے وہی غیر آئینی الیکشن کمیشن اپنے سارے جعلی اختیارات استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو آگے لے کر آرہا ہے سپریم کورٹ کی ناک کے نیچے یہ سارے کام ہو رہے ہیں لیکن ہمیں آئین کے تحفظ کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، ہمیں شفافیت کا کوئی نظارا دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ کیا کہیں گے آپ؟

ڈاکٹر طاہرالقادری: ڈاکٹر دانش صاحب! آپ نے اپنی افتتاحی گفتگو میں جتنی باتیں کہی ہیں اس میں ایک بات بھی ایسی نہیں جس سے اختلاف کیا جاسکے۔ اور جو میں کہنے والا تھا آپ نے اپنے ابتدائیہ میں خود کہہ دیا۔ 23 دسمبر 2012ء مینار پاکستان کے جلسے میں میں نے یہی باتیں کیں اور اسی وجہ سے اس نظام انتخاب کی مکمل تبدیلی کا مطالبہ کیا پھر 12 جنوری 2013ء سے لے کر 17جنوری تک لانگ مارچ اور اسلام آباد کے دھرنے میں میں نے ہر روز تسلسل کے ساتھ ان باتوں پر زور دیا، یہ مطالبات کئے اور لوگوں کو بیدار کیا اور ان حقائق سے پوری قوم کو آگاہ کیا اور ایک بہت بڑی گھنائونی سازش جو تیار کی گئی ہے انتخابات کی شکل میں اس قوم کو ایک بہت بڑے تباہ کن مستقبل میں اور تباہ کن اندھیری رات میں دھکیلنے کا جو پلان کیا گیا اور کرپٹ لوگوں کو انتخابات کے نام پر جھوٹی اور جعلی جمہوریت کے نام پر پلٹا کر پھر مسند اقتدار پر بٹھانے کا انتظام کیا گیا ہے جس کو میں نے مک مکا کا نام دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن غیر آئینی ہے، غیر قانونی ہے، غیر اخلاقی ہے، جس ادارے کی تشکیل آئین کے خلاف ہوئی ہو، جس ادارے کی تشکیل اور کمپوزیشن قانون کے خلاف ہوئی ہو، جس ادارے کے اراکین کی تقرری میں آئین، قانون، عدل، انصاف کو نظر انداز کردیا گیا ہو قوم اس ادارے سے کیسے عدل اور انصاف پر مبنی اور صاف اور شفاف انتخابات کی توقع کرسکتی ہے؟ پھر 17 مارچ کا جلسہ راولپنڈی لیاقت باغ تک کا، میں تسلسل کے ساتھ یہی باتیں قوم کو بتاتا رہا اور وہ وقت تھا جب میں ان چیزوں پر زور دیتا تھا تو بہت سے لوگ سیاسی بھی، غیر سیاسی بھی دوسری طرف میری ہر روز صبح و شام مخالفت کرتے تھے اور میرے مطالبات کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیتے تھے۔ میں جن چیزوں پر زور دیتا تھا، تاکید کرتا تھا، اسے آئین کے خلاف کہتے تھے مذاق اڑاتے تھے۔ آج اللہ کا شکر ہے کہ میرا کہا ہوا ایک ایک لفظ نہ صرف سچا ثابت ہوا بلکہ اس وقت کے مخالفین اور ناقدین آج اسی طرح چیخ رہے ہیں۔ اب یہ چیخیں گے اور یہ چیخنا ڈاکٹر دانش صاحب ابھی تھوڑا ہے اب آگے چلئے 11 مئی کے بعد کیا ہوتا ہے ان کی چیخیں اس وقت نکلیں گی۔ میں یہ بات واضح طور پر ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہا ہوں یہ ایک سمجھوتہ ہے بدی کا جس میں کئی ادارے شریک ہیں، جس میں سیاستدان شریک ہیں، جس میں قانون اور عدل دان شریک ہیں، جس میں الیکشن کمیشن شریک ہے، جس میں ریٹرننگ آفیسر شریک ہیں جس میں نگران شریک ہیں، یہ سارے لوگوں نے مل کر جس طرح دیکھئے ناں آپ نے ڈگریز کے بارے میں دو لفظ سنے کہ جعلی ڈگری ہولڈر ہیں fake ڈگریز، میں قوم کو اور ہر ایک قومی اور آئینی ادارے کو بتاتا رہا کہ یہ جعلی جمہوریت اس ملک کا بیڑا غرق کردے گی، اس ملک کا مستقبل تباہ کردے گی۔ نا اہل، کرپٹ، بددیانت، جھوٹے قسم کے لوگوں پر مشتمل قوم کی قیادت اس ملک کی کشتی کو ڈبو دے گی اور یہ قوم روئے گی۔ ہمیں جمہوریت جعلی نہیں چاہئے، جمہوریت اصلی چاہئے۔ یہ پھر سے جعلی جمہوریت کولانے کا سارا ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ اب اس الیکشن کمیشن نے جس کو آپ نے کہا کہ ان کے ناک کے نیچے سب کچھ ہورہا ہے، ان کے ناک کے نیچے بھی ہورہا ہے، ان کے ناک کے اوپر بھی ہورہا ہے ان کی آنکھوں کے سامنے بھی ہو رہا ہے، یہ ان کے ارادے سے ہورہا ہے ان کے ڈیزائن سے ہورہا ہے، ان کی سازش، پلاننگ اور منصوبہ بندی سے ہورہا ہے،۔ مجھے آپ یہ بتایئے! جب امیدواروں کو آرٹیکل 62، 63 کے نام پر ریٹرننگ افسر سات دن تک پورے ملک میں تماشا کرتے رہے، کسی سے اس کی بیویاں پوچھتے تھے، کیا آرٹیکل 62، 63 میں بیویوں کے پوچھنے کا کوئی جواز ہے؟ کسی سے قومی ترانے پوچھتے تھے سندھ کے امیدواروں سے، آرٹیکل 62، 63 قومی ترانہ پوچھنے کی کوئی کلاز دیتا ہے۔ میں نے خود سنا کسی کو کہتے تھے انگلش زبان میں 12 پھلوں کے نام تیزی سے سنا دو۔ بددیانت ریٹرننگ آفیسرز، یہ بددیانت جھوٹی عدلیہ کے افسران، یہ راشی، یہ نااہل اس پوری قوم کے سامنے آئین کا مذاق بناتے رہے۔ آرٹیکل 62، 63 کا مذاق اڑتا رہا۔ اس جج سے پوچھو ریٹرننگ آفیسر سے کہ تم خود سنا دو تیزی سے انگلش میں 12 پھلوں کے نام۔ تمہاری 5 نسلوں کو نہیں آئیں گے، کسی سے براعظموں کے نام پوچھتے رہے، کسی سے نماز جنازہ پوچھتے ہیں، کسی سے دعائے قنوت پوچھتے ہیں۔ بھئی یہ چار اور تین بیویوں کا دنگل ہورہا ہے یا ملک میں سیاسی قیادت کا انتخاب ہو رہا ہے، اور ایاز امیر جیسا شخص جن کا نام ملک کے چند گنے چنے نہایت معتبر اور سنجیدہ کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں میں آتا ہے اسے نظریہ پاکستان کے خلاف بنا کے ڈس مس کردیا، جو بعد میں بحال ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا یہ سارا ڈرامہ الیکشن کمیشن بھی دیکھ رہا ہے اور سات دن ہوتا رہا پاکستان کا ہر ٹی وی چینل براہ راست دکھاتا رہا کہ کیا تماشے ہو رہے ہیں۔ عدلیہ دیکھ رہی تھی، عدلیہ گھوم رہی تھی پورے ملک میں شہر در شہر کیا وہ ٹی وی نہیں دیکھتے، کیا الیکشن کمشنر صاحب ٹی وی نہیں دیکھتے، کیا باقی چار اراکین چلو بڑے صاحب تو بوڑھے ہیں، باقی اراکین تو جوان ہیں وہ ٹی وی نہیں دیکھتے، کیا نگران وزیراعظم نہیں دیکھتے تھے، اِن چھیاسی سال کے بوڑھوں کو رکھا ہی اس لئے ہے کہ انہیں نہ کچھ سنائی دے نہ دکھائی دے نہ سُجھائی دے، تاکہ جو جھرلو پھیرنا ہے وہ سیاسی لوگ مل کر پھیرتے رہیں، میرا سوال یہ ہے کہ جب قوم کے ہر فرد کو پتہ ہے اور الیکشن کے سات دن کے پراسس کو ٹی وی کا ہر چینل دکھاتا رہا ہے، ہر اینکر بتاتا رہا ہے کہ کیا پوچھا جارہا ہے، خبر نامے بتاتے رہے ہیں الیکشن کمیشن کیوں خاموش رہا؟ اس ملک کی عدلیہ کیوں خاموش رہی اور یہ تماشا ان کے ناک کے نیچے آنکھوں کے سامنے کیوں ہوتا رہا؟ کیوں ہونے دیا؟ پہلے دن کیوں نہیں روکا؟ تم کون ہوتے ہو آرٹیکل 62، 63 میں جو پوچھنا تھا وہ پوچھا نہیں اور جو نہیں پوچھنا تھا جس کا کوئی تعلق نہیں تھا وہ سارا دن غلط بتاتے رہے۔ اب میں بتاتا ہوں دانش صاحب یہ کیوں ہوا، یہ اس لئے ہوا کہ یہ ایک سازش ہے میں آج بتانا چاہ رہا ہوں آرٹیکل 62، 63 کو اگلی آنے والی جعلی پارلیمنٹ کے ذریعے آئین سے نکلوانے کی سازش ہے، اس کی تضحیک اور مذاق اڑایا گیا کہ تم آرٹیکل 62، 63 کی بات کرتے تھے یہ آرٹیکل 62، 63 ہے، 62، 63 کا نام کہاں اور نااہل بددیانت قسم کے ریٹرننگ آفیسر اور چیف الیکشن کمیشن کہاں۔ اُنہوں نے یہ ساز باز کرکے سیاسی جماعتوں کے ساتھ 63، 62 کے آرٹیکل کو ایک انٹرٹینمنٹ آئٹم بنادیا، امیدواروں کے نامی نیشن پیپرز اور سکروٹنی کو انٹرٹیمنٹ آئیٹم بنایا۔ ریٹرننگ آفیسر مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ان کو برطرف کردینا چاہئے یہ جیل میں بھیجے جانے کے قابل ہیں، یہ جج بنا کر کرسی پر بیٹھانے کے اہل نہیں ہیں۔ کس نے نوٹس لیا ہے ان سے، عدلیہ نے لیا ہے، یہ آزاد عدلیہ کہلاتی ہے اور آزاد عدلیہ کا معنی پاکستان میں یہ ہے کہ آزاد عدلیہ جو چاہے کرے اس سے کوئی پوچھنے والا نہ ہو، یہ آزاد عدلیہ ہے۔ یہ الیکشن کمیشن ہے، اسی وجہ سے میری پٹیشن کی سماعت نہیں ہوئی تھی، اور الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل کا مسئلہ سنا نہیں گیا تھا کہ یہ ڈرامہ جو آج ہورہا ہے اس کی منصوبہ بندی تھی، اگر یہ سن لیا جاتا اور اس الیکشن کمیشن کو توڑا جاتا اور آئین کے طریقے سے، شفاف طریقے سے اچھے لوگوں پر مشتمل سوائے چیف الیکشن کمیشن کے ایک شخص کے باقی افراد کرپٹ ہیں، میں بتا رہا ہوں چار اراکین وہ خریدے ہوئے ہیں وہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی مفادات کی حفاظت کے لئے بیٹھے ہیں، ابھی چار دن پہلے آپ نے نہیں دیکھا وزیر داخلہ صاحب اور ایک سیاسی جماعت کی حمایت میں الیکشن کمیشن کے افسر کو چیختے ہوئے، میڈیا والوں کے ساتھ لڑائی کرتے ہوئے، ہر روز میڈیا ہر شام کو دکھا رہا ہے یہ ان کے نمائندے ہیں یہ سیاسی پارٹیوں کا پولیٹیکل الیکشن سیل ہے۔ ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے یہ سب ڈرامہ رچایا گیا ہے کہ لوگوں کے ذہن خراب کئے جائیں آرٹیکل62، 63 کے خلاف ایک ذہن سازی ہو اور بعد میں کہیں دیکھا تم نے آرٹیکل62، 63 کیا ہے وہ یہ ہوتا ہے تاکہ جعلی پارلیمنٹ بنے اور سب سے پہلا کام یہ ہو کہ اس میں سے وہ ساری کلازز نکال دی جائیں تاکہ آئندہ گند کو صاف کرنے کی کوئی آئینی کلاز باقی نہ بچے۔

ڈاکٹر دانش: ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب ایک چیز آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں اس کی بھی وضاحت کیجئے کہ اس الیکشن میں 62، 63 کے لحاظ سے سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ اس آئین کے لحاظ سے لوگ جائیں اب نیتوں کا حال تو خدا کو معلوم، لیکن عمل اور assesment سامنے بھی نظر آرہے ہیں جس میں تضاد ہی تضاد نظر آرہا ہے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ آئین کے مطابق اور 62، 63 کے مطابق سکروٹنی ہورہی ہے ریٹرننگ آفیسر 62، 63 کی سکروٹنی کررہے ہیں اب ہم نے جو دیکھا ہے میڈیا نے دکھایا ہے اور ہم نے دیکھا۔ اب ریکارڈز یہ دیکھا رہے ہیں کہ 90ء سے جو لوگ stay لئے ہوئے ہیں فنانشل میٹر پہ ڈیفالٹرز ہیں بہت بڑے بڑے بہت بڑے بڑے نام ہیں جن کا کیس کورٹوں میں موجود ہے اور آئین کہتا ہے کہ 6مہینے سے زیادہ فنانشل میٹر میں آپ stay نہیں دے سکتے۔ سپریم کورٹ نے کچھ نہیں کیا نہ ان کورٹوں میں کچھ کیا گیا۔ 19 کیسز پڑے ہوئے ہیں جعلی ڈگری کے لوئر کورٹس ان کا فیصلہ نہیں کررہی ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں میمو سکینڈل، غداری کا اصل مقدمہ میمو سکینڈل ہے، اس پر کچھ نہیں ہے۔ کمیشن نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے، ایبٹ آباد کمیشن، NLC، اوگرا اس کے علاوہ ایفی ڈرین کیس، اس کے علاوہ ڈرگز کیس، حج کرپشن کیس، کتنے ہی کیس ہیں جو سپریم کورٹ کے اس وقت پڑے ہوئے ہیں اور وہ کیس مسلسل pending پڑے ہوئے ہیں اور اس کا فیصلہ نہیں ہورہا۔ اسی طرح پبلک اکائونٹس کمیٹی میں رائٹ آف کئے ہوئے بڑے بڑے لوگوں کے قرضے، جنہوں نے لون رائٹ آف کیا ہے، قومی بینکوں سے، اس کے کیس پڑے ہوئے ہیں اور خود بتایا پبلک اکائونٹس کمیٹی کے ممبر نے، عدلیہ اس کو نہیں دیکھ رہی ہے، نہ ہی الیکشن کمیشن اور اسی طریقے سے جو ڈیفالٹرز ہیں آپ کے یوٹیلٹی بلز کے، ٹیکس کے اور جن لوگوں کے بھی بڑے بڑے نام سارا میڈیا دے رہا ہے لیکن، سر! میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ 62، اور 63 کی سکروٹنی سپریم کورٹ کے کہنے پر الیکشن کمیشن کے کہنے پر جو ریٹرننگ آفیسرز کر رہے ہیں اور جو لوگ کلئیر ہورہے ہیں اتنے بڑے بڑے ڈیفالٹرز، اتنے بڑے بڑے کرپٹ لوگ، اتنے بڑے بڑے رائٹ آف کئے ہوئے لوگ، تو پھر کیا کل یہ جب یہ اس سے نکل رہے ہیں 62 اور 63 کے آئین کے اس آرٹیکل کے تحت سکروٹنی سے، تو پھر یہ کل کہہ سکتے ہیں سر! سارے لوگ کہ جناب ہم پر کوئی دھبہ نہیں ہے کیونکہ ہمیں تو ریٹرننگ آفیسرز نے 62، 63 کے تحت کلیئر کردیا ہے، تو یہ کتنا بڑا گناہ کرنے جارہے ہیں اور گناہ کررہے ہیں، کیا کہیں گے سر! آپ؟

ڈاکٹر طاہرالقادری: یہ قوم کے ساتھ ڈاکٹر دانش صاحب بہت بڑا دھوکہ ہو رہا ہے۔ آئین کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے، آرٹیکل 62، 63 کے نام پر ایک دھوکہ ہو رہا ہے اور اس ملک کے خلاف بہت بڑی سازش ہو رہی ہے اور حیرت ہے مجھے ان اداروں پر جو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خاموش بیٹھے ہیں، یہ کوئی الیکشن نہیں ہورہا اس ملک میں۔ کوئی الیکشن نہیں ہو رہا۔ یہ سراسر دھاندلی ہو رہی ہے، سراسر بدعنوانی ہورہی ہے، سراسر خلاف آئین کام ہورہا ہے سکروٹنی کے نام پر۔ آپ کو یاد ہے اس وجہ سے میں نے سکروٹنی کے 30دن کہے تھے، انہوں نے ایک ہفتہ بنا کر تاکہ ایک ہفتے کے اندرایک قیامت مچ جائے اور ایک ایسا نفسا نفسی کا عالم اور ملک میں ایک ایسا ہنگامہ آرائی اور تماشہ create کر دیا جائے کہ کسی کو کچھ ہوش ہی نہ رہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ آپ نے جو ڈیفالٹر کیسسز کی بات کی میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ سپریم کورٹ میں وہ لسٹ موجود ہے۔ میں اس پر اضافتاً کچھ کہنا چاہتا ہوں آپ کی بات کی تائید میں۔ نہ صرف سپریم کورٹ میں لسٹ موجود ہے بلکہ سپریم کورٹ نے ایک عدالتی کمیشن بھی بنایا تھا اور اس میں 1971ء سے لے کر 1990ء تک کے بینکوں کے ڈیفالٹرز کی لسٹ تیار کی تھی اور جنہوں نے قرضے معاف کروائے اس کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں ہے۔ پھر 1992ء سے 2009ء تک جنہوں نے قرضے معاف کروائے وہ ریکارڈ بھی اسی سپریم کورٹ میں ہے۔ یہ تو ایک ادارے کا حال ہے۔ اب دوسرا ادارہ پارلیمنٹ ہے۔ ستمبر 2012ء میں پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں، پارلیمنٹ میں وہ رپورٹ پیش کی گئی کہ پچھلے نام نہاد پانچ سالہ جمہوری دور میں کتنے سو ارب روپے کے قرضے لے کر ہضم کردیئے گئے اور معاف کروادیئے گئے، بھئی یہ پارلیمنٹ میں بھی ریکارڈ ڈاکٹر دانش صاحب پڑا ہے، یہ سپریم کورٹ میں ریکارڈ پڑا ہے اور ہزارہا دستاویزات سپریم کورٹ میں ہیں جو بینکوں نے جمع کرائی ہیں۔ بعض لوگوں نے معاف نہیں کرایا اور ادا بھی نہیں کیا اور اس کے عوض متنازعہ جائیدادیں بینکوں میں دے کر جان چھڑا لی، بینک اس دن سے لے کر آج تک، بڑے بڑے بینک مقدمے کر رہے ہیں سپریم کورٹ میں ان کی دستاویزات پڑی ہیں۔ ایک منٹ کے اندر وہ ساری دستاویزات اگر طلب کریں تو الیکشن کمیشن کو مل سکتی ہیں۔ پھر میں آپ کو 2010ء کی بات بتاتا ہوں یہ میرے ہاتھ میں آفیشل لسٹ ہے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی۔ یہ 20 اکتوبر 2010ء کی لسٹ ہے۔ اس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے سپریم کورٹ کو submit کیا بدھ کا دن 20 اکتوبر 2010ء کہ یہ یہ ساری کمپنیز اتنے ہزارہا ارب روپے کی ڈیفالٹرزہیں اور یہ لون ڈیفالٹرز ہیں۔ میں نام کسی کا نہیں لینا چاہتا یہ میرا منصب نہیں ہے۔ سپریم کورٹ ان تمام کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کو کھنگال سکتی ہے کھنگالا ہوگا، نام اس کے سامنے پڑے ہوں گے، الیکشن کمیشن کے سامنے نام پڑے ہوں گے، یہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی سرکاری فہرست ہے جو سپریم کورٹ کو جاری کی گئی انہوں نے ایشو کی۔ مگر اس ساری چیزوں کے باوجود ہوا کیا ہے۔ ظلم کی انتہاء یہ ہے، ریکارڈ پر سب کچھ ہے مگر وہ یہ کرنا نہیں چاہتے وہ سارے مجرموں کو safe راستہ دے رہے ہیں، وہ صفائی کرنا نہیں چاہتے، صفائی تب ہوگی جب اداروں سے سیاست نکلے گی، پاکستان کے ادارے ریاست کے لئے نہیں سیاست کے لئے کام کررہے ہیں۔ اس لئے میں نے آواز بلند کی تھی ’’سیاست نہیں، ریاست کو بچائو‘‘ میں سیاست کا مخالف نہ تھا نہ ہوں مگر گندی سیاست کا مخالف ہوں۔ بدعنوانی کی سیاست کا مخالف ہوں، کرپشن کی سیاست کا مخالف ہوں، جانبداری کی سیاست کا مخالف ہوں، بے ایمانی کی سیاست کا مخالف ہوں، لوٹ کھسوٹ اور لوٹ مار کی سیاست کا مخالف ہوں جو ہماری ریاست پاکستان کو کھائے جارہی ہے۔ اس میں ادارے گینگ اپ ہوگئے ہیں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوںپانچ ادارے مجرم ہیں قوم کے۔

1. سب سے بڑا مجرم الیکشن کمیشن آف پاکستان جس کے اندر چار اراکین چیف الیکشن کمشنر کے نیچے کرپٹ بیٹھے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے نمائندے بیٹھے ہیں۔ سب سے بڑا مجرم الیکشن کمیشن ہے۔ جسے ناجائز تحفظ دیا گیا بائی ڈیزائن جان بوجھ کر کیونکہ یہ کام کروانا تھا۔

2. نیب مجرم ہے اس قوم کا نیب کے پاس ان تمام بڑے بڑے وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، صدر، گورنرز، ایم این اے ایم پی اے، سینیٹرز اور بیوور کریٹ سب کی کرپشن کے پورے ریکارڈ موجود ہیں مگر وہ نہیں دیئے گئے میں آگے چل کر بات اکٹھی conclude کرتا ہوں۔

3. تیسرا مجرم FIA ہے۔ جس کے پاس جس کی انویسٹی گیشن میں پورا ڈیتا موجود ہے اس نے شیئر نہیں کیا۔ دبا کے بیٹھا رہا۔

4. چوتھا مجرم FBR ہے۔ انہوں نے ڈیٹا شیئر نہیں کیا، مہیا نہیں کیا۔

5. پانچواں مجرم سٹیٹ بینک آف پاکستان ہے، انہوں نے ڈیفالٹرز کی لسٹ اپنے وقت پر ویب سائٹ پر نہیں ڈالی اور پاکستانی قوم کو ڈائریکٹ انفارمیشن نہیں دی۔

یہ پانچ ادارے گینگ اپ ہوگئے، کیوں؟ اب سوال پیدا ہوتا ہے ان پانچوں اداروں نے یہ جرم کیوں کیا؟ اس لئے کہ یہ انہی سیاستدانوں کی تقرریاں ہیں۔ تقرریاں یہی پولیٹیکل لیڈر ان افسروں کی کرتی ہیں، ترقیاں یہی کرتے ہیں، تنزلی یہی کرتے ہیں، ٹرانسفر یہی کرتے ہیں۔ اور بڑوں بڑوں کو اگر ڈس مس ہو جائیں تو بحال بھی انہوں نے کروایا ہے۔ یہ بحال ہونے کا صلہ دیا جارہا ہے۔ یہ ترقیوں کا صلہ دیا جارہا ہے، یہ تقرری کا صلہ دیا جارہا ہے اور آئندہ تنزلی سے اپنے آپ کو بچایا جارہا ہے۔ ان کو پتہ ہے کہ یہ کرپشن کے الیکشن ہیں، دو مہینے کی بات ہے پلٹ کے انہوں نے پھر اقتدار میں آنا ہے، وہ آئیں یا یہ آئیں، یا مل جل کر آئیں، آنا انہوں نے ہے نئے لوگ نہیں آئیں گے۔ الیکشن کا نظام نئی قیادت کا دشمن ہے، الیکشن کا نظام امانت اور دیانت کا دشمن ہے، الیکشن کا نظام سچی سُچی جمہوریت کا دشمن ہے، الیکشن کا نظام آئین، قانون، عدل اور انصاف کا دشمن ہے۔ انہیں پتہ ہے انہی لٹیروں نے آنا ہے اب اگر ان کے ریکارڈ اوپن کر دیں اور معلومات شیئر کر دیں، پبلک تک پہنچ جائیں تو آتے ہی ہمارے گریبان کو پکڑ لیں گے، گردنیں توڑ دیں گے، ہم نے نوکری کرنی ہے، یہ اپنی نوکریاں بچانے کے لئے ان میں سے کسی نے بروقت معلومات شیئر نہیں کیں اور الیکشن کمیشن کے پاس آگے ظلم کی انتہا ہے۔ میں کل کی statement بتانا چاہتا ہوں جو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ میں دی ہے۔ ڈاکٹر دانش صاحب بڑی important statement ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کل 10 اپریل کو بیان دیا ہے لاہور ہائیکورٹ میں اور اس میں تسلیم کیا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم ڈائریکٹر عمران احمد خان یہ apear ہوئے لاہور ہائیکورٹ میں کل کی بات ہے 10 اپریل اور الیکشن کمیشن کا statement offical دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے پاس FBR کی طرف سے، NAB کی طرف سے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جتنی تفصیلات بینک کے قرضوں کے ڈیفالٹرز کی تھیں، رائٹ آف کروانے والوں کی، لٹیروں کی وہ لسٹ ہمارے پاس تیار نہیں ہے۔ یہ کل کہا ہے ہمارے پاس لسٹ تیار نہیں تھی۔ لاہور ہائیکورٹ میں کل statement offical دیا ہے یعنی آرٹیکل 63 کو چھیڑا ہی نہیں گیا۔ ریٹرننگ افسروں نے آرٹیکل 62 کا حلیہ بگاڑا، آرٹیکل 62 کے تحت سارا ڈرامہ رچایا، تضحیک کی، مذاق اڑایا۔ انٹرٹینمنٹ کی اور آرٹیکل 63 جو ڈیفالٹرز کو روکتا تھا، جو لٹیروں کو روکتا تھا اس کا ایک سوال نہیں کیا گیا۔ کیوں؟ ریٹرننگ آفیسرز کے پاس لسٹیں نہیں تھیں۔ کون لوگ ڈیفالٹرز ہیں، کس کس نے قرض معاف کروائے ہیں، کس کس نے لوٹ گھسوٹ کی ہے، بینکوں کے کس نے قرضے واپس نہیں کئے، کس نے بلز ادا نہیں کئے، کون ٹیکس پیئر ہے، سارے محکموں نے یہ معلومات ریٹرننگ آفیسرز کو نہیں پہنچائیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس نہیں تھیں۔ میں یہ سوال کرتا ہوں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کل جو سرکاری بیان دیا ہے کہ میرے پاس لسٹیں تیار نہیں تھیں انہوں نے الیکشن کرایا کیوں؟ اس الیکشن کمیشن کے پانچوں اراکین نے پریس کانفرنس کیوں نہیں کی کہ ہم سکروٹنی نہیں کرواسکتے کہ ہمارے پاس لسٹیں موجود نہیں، ڈیفالٹرز کی لسٹ سٹیٹ بینک شیئر نہیں کر رہا، ایف بی آر شیئر نہیں کر رہا، نیب نہیں کر رہا، سپریم کورٹ سے ہمیں نہیں مل رہیں، یہ پریس کانفرنس کر کے پوری قوم کو بتانا چاہئے تھا، میڈیا کے ذیعے قوم کے ہر فرد کو بتانا چاہئے تھا کہ سکروٹنی کیسے ہو؟ قرض ہڑپ کرنے والوں کو کیسے پکڑیں؟ لٹیروں کو کیسے پکڑیں؟ ہم نے لسٹیں تیار کرکے ریٹرننگ آفیسرز کو دی ہی نہیں جب ان کے پاس لسٹیں ہی نہیں ہیں وہ سوال کیا کریں؟ سکروٹنی کیا کریں؟ چیک کیا کریں؟ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ لٹیروں کو دروازے سے گزارنا تھا، ان کرپٹ لیڈروں کو جو ملک کا مال حرام طریقے سے کھا کے پل گئے ہیں ان کو دوبارہ ملک کا لیڈر اور حکمران بنانا تھا۔ الیکشن کمیشن نے اس جرم کاا رتکاب کیا اور اپنی زبان سے لاہور ہائیکورٹ میں اس کا اعتراف کر لیا۔

اب سوال یہ ہے کہ Tax Avoidersکی لسٹ نہیں دی، لون ڈیفالٹرز کی لسٹ نہیں دی اور پھر ایک بڑی دلچسپ بات الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈاکٹر دانش صاحب ایک ہینڈ بک تیار کی ہے فار ریٹرننگ اینڈ اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسرز۔ ریٹرننگ آفیسرز کو جو ہینڈ بک دی ہے ہدایات کی۔ اس ہینڈ بک میں جو پٹیشن اس وقت لاہور ہائیکورٹ میں ہے ان حوالوں سے ان ایشوز کو ایڈجسٹ ہی نہیں کیا الیکشن کمیشن نے۔ گویا ان کے نزدیک لون ڈیفالٹرز چلے جائیں، Tax Avoiders چلے جائیں، ٹیکس چور چلے جائیں، قرضہ خور چلے جائیں پارلیمنٹ میں، الیکشن کمیشن ان کو پارلیمنٹ بھجوانے کے لئے بیٹھا ہے رکوانے کے لئے نہیں اور حالت یہ ہے کہ کن کن کے stay ہیں یہ ڈپٹی گورنر جو سٹیٹ بینک آف پاکستان کا آخری دن جاتے جاتے حکومت لگاگئی۔ اس الیکشن کمیشن نے سٹیٹمنٹ دی کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں اسے برقرار رکھا جائے سب سے پہلی سٹیٹ منٹ آئی تھی کہ اسے کیوں لگایا آپ کو یاد ہوگا کہ الیکشن کمیشن نے کہا یہ تو ہر دوسرے دن بیان بدل لیتا ہے۔ یہ شور مچاتے ہیں پوری قوم کو بے وقوف کرنے کے لئے یہ کئی اداروں کی ملی بھگت ہے۔ ایک ہنگامہ کھڑا کرتے ہیں، میڈیا میں تاکہ ہر روز بات اچھالی جائے اور قوم کہے کہ واہ بھئی واہ الیکشن کمیشن نے کمال کردیا۔ 62، 63 کا حق ادا کر دیا پکڑ لیا، ایسے تماشے کریں تاکہ قوم میں ان کی نیک نامی ہو۔ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ اگلے دن اصل میں جو ہدایات گئی ہیں اس کے مطابق سب نے پار ہوجانا ہے اور وہی ہوا fake ڈگریز کے بارے کوئی ہدایات نہیں دیں، کسی کو صرف disqualify کیا سزا نہیں دی، کسی کو disqualify کر کے ایک سال کی سزا، کسی کو تین سال کی سزائے قید دی اور وہ بھی اوپر جاکر چھوٹ گیا۔ یعنی fake ڈگری ہولڈرز کے اوپر ایکشن لینے میں بھی consistency نہیں ہے، ایک ضابطہ نہیں ہے۔ لہٰذا ریٹرننگ افسروں کو آزاد چھوڑ دیا گیا وہ بھی جج ہیں ناں عدلیہ کے آزاد جج ہیں اور آزاد کا مطلب ہے جو چاہو کرو تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا یہ ہے آزاد۔ چھوڑ دیا تاکہ ہر کوئی اپنی ثواب دید پر جو چاہے کرے۔ الیکشن کمیشن کو چاہئے تھا کہ انہیں ہدایات دیتے کس طرح ڈیل کرنا ہے۔

ڈاکٹر دانش: ڈاکٹر قادری صاحب یہ سب چیزیں تو آپ نے بتائیں، میں آگے بھی آپ سے بات کروں گا اس پروگرام میں، لیکن مجھے یہ بتایئے کہ قوم ایک تبدیلی چاہتی ہے اور لوگوں کو قوم کو آپ کے علاوہ جو لوگوں نے یہ کہا کہ یہ الیکشن کے ذریعے تبدیلی لائے گی، عوام کو بظاہر ایک منصفانہ الیکشن نظر نہیں آرہا اور جو لوگ الیکشن کرانے جا رہے ہیں نگران حکومت یا الیکشن کمیشن یا دوسرے ادارے وہ ایسے کوئی اقدام نہیں کررہے ہیں جس سے کوئی صاف اور شفاف الیکشن ہو اور تبدیلی آئے اور نئے لوگ اور 62 اور 63 سے اصل کوالیفائیڈ لوگ پارلیمنٹ کا حصہ بنیں یہ نظر نہیں آرہا اور اگر ایسا ہوتا ہے اور کوئی تبدیلی نہیں آتی اور اس صورت میں انارکی آتی ہے، خون خرابہ ہوتا ہے۔ لوگ مارے جاتے ہیں پاکستان کو بہت نقصان پہنچتا ہے تو اس کے اصل ذمہ دار کون ہوں گے؟ یہ بھی بتایئے آج؟

ڈاکٹر طاہرالقادری: چونکہ ٹائم مختصر ہے، میں اس پر کوئی اگلا تفصیلی پروگرام آپ کے ساتھ ہوا تو اس میں detail میں بات کروں گا، میں صرف کوئی آدھے منٹ میں پہلی بات کو complete کر کے آپ کے سوال کی طرف آرہا ہوںیہ میرے پاس سٹیٹ بنک آف پاکستان کا اوریجنل لیٹر ہے اس کی کاپی جو 31مارچ 2013ء کو ایشو ہوا 10 دن پہلے کا لیٹر ہے۔ سید علی جعفر عابدی ان کے دستخطوں کے ساتھ دوسرا لیٹر میرے پاس احتساب بیورو کا ہے یہ تین اپریل 2013ء کو جاری ہوا ہے۔ میجر ریٹائرڈ طارق محمود ملک او آئی سی این ای سی ان کے دستخطوں سے جاری ہوا ہے۔ میں لیڈروں کے نام نہیں لینا چاہتا بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ان سب لیڈروں کے ڈیفالٹر کے کیس اور کرپشن کے کیس پڑے ہوئے ہیں مگر یہ کیا کرتے ہیں اپنے ذاتی نام پر قرضے نہیں لیتے، لوگوں کو بتانے کے لئے کہتے ہیں میرے ذمے ایک پیسہ نہیں ہے۔ نام پر قرضے نہیں لیتے کمپنیوں کے نام پر قرضے لیتے ہیں۔ یہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا لیٹر ہے اس کے اندر درج ہے فلاں شخص اس کے نام پر قرضہ ڈیفالٹر۔ کہتے ہیں No record found ریکارڈ نہیں ہے۔ پھر اسی کے نیچے اسی شخص کے نام پر کمپنی کا نام ڈالا ہے تو کمپنی کے اوپر ڈیفالٹر ہیں۔ اپنے ذاتی نام پر قرضہ صرف وہ شخص لے گا جو بہت ہی سادہ، پرلے درجے کا بیوقوف ہے۔ ان سب لوگوں نے کمپنیاں بنا رکھی ہیں، اور اپنے اور اپنے independence کے شیئر 49فیصد تک رکھتے ہیں۔ قیامت تک آپ ان کو بینکنگ لاز کے مطابق پکڑ نہیں سکتے یہ اتنے ماہر ہیں کرپشن میں اور نیب نے 3 اپریل 2013ء کا یہ لیٹر میں آپ کو دکھا رہا ہوں اس میں ایک بہت بڑی جماعت کے سربراہ ہیں لیڈرز ہیں سیاسی جماعت کے سربراہ ان کو لکھتے ہیں کہ will full loan defaulter کا کیس ان کا pending پڑا ہے ہائیکورٹ راولپنڈی اکائونٹیبلٹی میں۔ 2001ء سے لے کر آج 12 سال سے pending پڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آزاد عدلیہ کے پاس آنکھیں نہیں ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس آنکھیں نہیں ہیں کہ دیکھ سکیں، کان نہیں ہیں کہ سن سکیں اور یہ پڑھ سکیں، یہ ڈاکومنٹ میرے ہاتھ میں ہے، کیا ان کے ہاتھ میں نہیں ہے؟ سب کے ہاتھ میں ہے۔ یہ الیکٹریکل سپلائی کمپنی کا لیٹر ہے پارٹی کے ایک ہیڈ کے نام کہ بجلی کے کروڑہا کے ڈیفالٹر ہیں۔ میں نے جان بوجھ کر شہر کا نام نہیں لیا تاکہ آپ پہنچ نہ جائیں میرا مقصود کسی کی ذات پر انگلی اٹھانا نہیں اس نظام کو ننگا کرنا ہے۔ آپ کا سوال اس نظام سے قیادت نہیں بدلے گی اس لئے یہ گیارہ مئی کو ہم ووٹ نہیں ڈالیں گے اور میں پوری قوم کو اپیل کرتا ہوں کہ وہ پرامن احتجاج کریں اس دھاندلی کے نظام کے خلاف اور عوامی تحریک کے قائم کردہ دھرنوں میں شریک ہوں۔ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں دھرنوں میں آ کر پرامن طریقے سے بیٹھیں اور دنیا کو دکھائیں کہ ہم اس کرپشن کے نظام کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم جعلی جمہوریت کو نہیں مانتے۔ سچی جمہوریت کے لئے ڈاکٹر دانش صاحب بہت بڑا انقلاب چاہئے اور میں آپ سے یہ کہہ دوں کم و بیش دس ہزار سیاستدان اور افسران کو جیل میں ڈالنا ہوگا۔ دس ہزار افسران اور مختلف بیورو کریٹ اور سیاستدانوں کو سیاست اور اقتدار کے میدان سے نکال کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑے ہونا ہوگا۔

You need a substnetial change.

You need a very big democratic revolution.

You need complete change of system.

اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اس قوم کی تقدیر نہیں بدلے گی۔ ملک تباہ ہوگا۔ اللہ اس کو بچائے اللہ اس کو بچائے۔ ذمہ دار سارے قومی ادارے ہوں گے۔ خواہ خون بہے، خواہ ادارے برباد ہوں، خواہ ملکی معیشت برباد ہو، قوم مایوس ہو، سارے ادارے ذمہ دار ہوں گے، جو اس وقت خاموش تماشائی ہیں۔ میں اپنی آواز ہر ادارے کے کان تک پہنچا رہا ہوں اور اٹھارہ کروڑ عوام کو گواہ بنا رہا ہوں وہ 11 مئی کو دھرنوں میں شریک ہوں اور احتجاج سے ثابت کریں کہ ہم اس بددیانتی، بدعنوانی کے نظام کو مسترد کرتے ہیں اور اٹھیں پھر انقلاب کے لئے، جب تک اس نظام کا تختہ نہیں الٹا جائے گا اس ملک کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔

متبادل لنک

متبادل لنک

متبادل لنک

تبصرہ