عالمی میلاد کانفرنس 2014، بنگلور انڈیا اور پاکستان کے 250 شہروں میں عظیم الشان اجتماعات

عالمی میلاد کانفرنس میں شدید سردی کے باوجود اہل لاہور نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی
بنگلور انڈیا اور پاکستان کے 250 شہروں میں ہونے والی میلاد کانفرنسز میں مجموعی طور پر ملینز افراد نے شرکت کی
کانفرنس کی صدارت ڈاکٹر حسین محی الدین القادری نے کی، سٹیج پر آنے پر انکا پرتپاک استقبال کیا گیا

شدید سردی کے باوجود کھلے آسمان تلے مینار پاکستان کے سبزہ زار میں صرف لاہور شہر سے لاکھوں عشاق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالم اسلام کی سب سے بڑی 30ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس میں شرکت کر کے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد وفا کیا۔ امسال یہ کانفرنس اس لحاظ سے تاریخی بن گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق کا اظہار تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام پورے ملک کے 250 شہروں میں ہونے والی میلاد کانفرنسز کے ذریعے کیا گیا جن میں ہر جگہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ انڈیا کے شہر بنگلور میں منہاج القرآن انٹرنیشنل انڈیا کے زیراہتمام میلاد کانفرنس میں بھی لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اس طرح مجموعی طور پر ملینز افراد نے تحریک منہاج القرآن کے تحت ہونے والی میلاد کانفرنسز میں شرکت کی۔ ARY Zauq ،QTV اور منہاج ٹی وی کے ذریعے بالواسطہ طور پر پوری دنیا سے کروڑوں عشاق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شرکت کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ مینار پاکستان کی عالمی میلاد کانفرنس میں 70 ہزار سے زائد خواتین نے بچوں سمیت شرکت کی۔

دیگر شہروں سے :

اسلام آباد | راولپنڈی | گوجرخان | بھنگالی شریف | چکوال | تلہ گنگ | جہلم | منگلہ | گجرات | کھاریاں | وزیرآباد | کوٹلہ عرب علی خان | لالہ موسی | سرائے عالمگیر | منڈی بہاؤالدین | پھالیہ | سیالکوٹ | پسرور | نارووال | شکرگڑھ | گوجرانوالہ | کامونکی | علی پور چٹھہ | حافظ آباد | سرگودھا | فیصل آباد | جڑانوالہ | کمالیہ | شاہ پور | گوجرہ | جھنگ | بھوانہ | خوشاب | بھکر | کلورکوٹ | لیہ | کروڑ لال عیسن | چوک اعظم (لیہ) | میانوالی | ڈیرہ غازی خان | فاضل پور | روجھان | حاصل پور | بہاولپور | لودھراں | دنیاپور | کسووال | میاں چنوں | کبیروالا | پاکپتن شریف | ہارون آباد | اوکاڑہ | حجرہ شاہ مقیم | بصیر پور | حویلی لکھا | چیچہ وطنی | اورنگی ٹاؤن کراچی | لیاری ٹاؤن (کراچی) | بن قاسم ٹاؤن کراچی | ڈھرکی | حیدرآباد | کھپرو | رحیم یار خان | خان پور | میرپور خاص | ایبٹ آباد | حویلیاں | ہری پور ہزارہ | کامرہ | ٹیکسلا واہ کینٹ | مردان | کوہاٹ | کھوئی رٹہ (آزادکشمیر) | میرپور (آزاد کشمیر) | بھمبر (آزادکشمیر) | عباس پور (آزاد کشمیر) | کھڑی شریف |

میلاد ریلیاں :

جہلم | لودھراں | ڈیرہ غازی خان | عباس پور (آزاد کشمیر) | کوہاٹ | مردان |

عالمی میلاد کانفرنس کی صدارت تحریک منہاج القرآن کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین القادری نے کی۔ وہ سربراہ میلاد کانفرنس شیخ زاہد فیاض، ناظم اعلیٰ خرم نواز گنڈا پور اور سیکرٹری میلاد کانفرنس جواد حامد کے ہمراہ سٹیج پر آئے تو پنڈال میں موجود جم غفیر نے کھڑے ہو کر ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ ملک بھر سے نامور مشائخ عظام، علمائے کرام، مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین، سماجی رہنما، تاجر برادری، وکلا برادری اور طلبہ تنظیموں کے قائدین کے علاوہ مسیحی، سکھ، ہندو اور دیگر غیر مسلم رہنماؤں نے بھی خصوصی شرکت کی۔

مینار پاکستان گراؤنڈ اور سٹیج کو برقی قمقموں، غباروں، پھولوں کے گجروں اور دیگر آرائشی سازوسامان سے دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ کانفرنس میں مصر، عرب ممالک اور وطن عزیز کے نامو ر قراء اور نعت خوانان نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت پیش کئے۔ پنڈال کے اندر اور ملحقہ سڑکوں پر دیو قامت جدید ڈیجیٹل سکرینوں کے ذریعے سٹیج کی کارروائی کو براہ راست دکھانے کا انتظام تھا۔ ساؤنڈ سسٹم مینار پاکستان کے ساتھ ملحقہ سڑکوں تک پہنچا دیا گیا جس سے پنڈال کے باہر ہزاروں افراد تک آواز باآسانی پہنچتی رہی۔ سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے گئے تھے، ملک میں امن و امان کی ابتر صورتحال کے پیش نظر منہاج القرآن یوتھ لیگ کے 2000 نوجوان اور 500 خواتین سیکیورٹی کی ڈیوٹی پر مامور تھیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب سے قبل اپنا پیغام امن و محبت پیش کیا۔ انڈیا میں بنگلور اور دیگر مقامات پر منعقدہ کانفرنسز کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے مہاتما گاندھی کے چند اقوال پیش کیے۔ آپ نے کہا کہ مہاتما گاندھی لکھتے ہیں کہ میں نے قرآن کا کئی بار مطالعہ کیا اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قرآن ہرگز ہرگز کسی قسم کے تشدد اور قتل و غارت کی اجازت نہیں دیتا۔

اسی طرح آپ نے قائداعظم محمد علی جناح کے اقوال سے ان کے تصور امن کو بھی حوالے کے طور پر پیش کیا۔ آپ نے کہا کہ محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ امن و محبت، مساوات اور بھائی چارے کی بات کی۔ قائداعظم محمد علی جناح کا تصور امن پاکستان کے آئین کا حصہ ہے جو تمام اقوام عالم کو دہشت گردی اور بربریت سے بچا سکتا ہے۔ آپ نے کہا کہ تصور امن کا یہ پیغام آقا علیہ السلام نے چودہ صدیاں قبل پیش کر دیا تھا۔

شیخ الاسلام نے اپنے خطاب کے باقاعدہ آغاز میں لفظ نبی کے متعدد معنی پیش کیے۔ آپ نے کہا کہ نبی کا ایک معنی ہے: جو سب سے بلند ہو، اونچا اور ارفع ہو۔ اس طرح نبی کا ایک معنی جدا ہونے کا بھی ہے۔ اس اعتبار سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے بشری پیکر تھے، جو انسان ہو کر بھی دوسرے انسانوں سے جدا تھے۔ بشری پیکر ہو کر بھی آپ بشری خصائل سے الگ اور جدا تھے۔ یہ شان جدائی آپ کی ذات کے اندر موجود تھی۔ جیسے بشر ہوتے ہوئے بھی آپ کا سایہ نہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں جیسے سامنے دیکھتیں ویسے ہی اپنے پیچھے دیکھتیں۔

دوسری جدائی اس سارے ماحول میں موجود تھی، جہاں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاشرے کی روش اور طریقہ سے جدا ہو گئے۔ اس معاشرے کی خصلتوں سے جدا ہو گئے۔ جس معاشرے میں آپ مبعوث ہوئے اس معاشرے میں قتل و غارت گری تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس معاشرے میں پیکر امن بن گئے۔ آپ نے جس معاشرے میں جنم لیا، اس معاشرے کو استاد نہیں بنایا بلکہ اس سے جدا ہو کر اسی معاشرے کے استاد، معلم، مرشد اور مربی بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ جدائی قرآن نے سکھائی۔

سن پانچ اور چھ ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے لوگوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ 101 لوگ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے۔ جہاں جعفر بن ابی طالب کی قیادت میں مہاجر مسلمان نجاشی کے دربار میں پہنچے۔ نجاشی کے دربار میں جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اے بادشاہ ہم ایک غیر مہذب قوم تھے، دور جہالت میں ہم بتوں کی پوجا کرتے تھے، ہر قسم کی بے حیائی کا ارتکاب کرتے تھے، خونی رشتہ داروں کو کاٹتے تھے۔ ہمارے معاشرے کا طریقہ تھا کہ قوی ضعیف پر حملہ آور ہوتا، طاقت ور اپنے جبر سے کمزوروں پر قبضہ کر لیتا۔ اس حال پر اللہ نے ہم میں اپنا رسول محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھیجا، جس نے ہمیں عبادت اور اللہ کی توحید کا درس دیا۔ اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روش اور راستہ پرانے طریقہ سے جدا تھا۔

اس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک نیا راستہ دکھایا، سچ بولنے، امانتوں کی ادائیگی، ایمانداری، صلہ رحمی اور امن کا درس دیتے ہوئے یتیم کا مال کھانے سے روکا، جس کی وجہ سے لوگ ہمارے خلاف ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی، جس کو شرک سے پاک کیا، چوری، بدکاری اور ایک دوسرے کو قتل کرنے سے روکا۔ آقا علیہ السلام نے معاشرے میں سچ، خیر بھلائی اور قیام امن کا درس دیا۔ امن کا ایسا درس کہ جنگ کے قوانین مقرر کر دیئے، بچوں، خواتین اور بزرگ شہریوں کو قتل نہیں کر سکتے۔ کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کو ناحق قتل نہیں کر سکتے۔ دوسرے مذاہب کے سفارتکاروں اور حتی کہ غیر مسلم پر امن شہری کو قتل نہیں کر سکتے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے پرامن غیر مسلم کو قتل کیا تو اس پر جنت حرام کر دی گئی۔ اس تصور امن کو چودہ صدیاں قبل کے تناظر میں دیکھیں، جب ہر طرف دہشت گردی کا راج تھا، جب انسانیت کی عصمت دری و بربریت تھی۔

تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا کردہ ایک ایک تصور جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرے کو ہر سطح پر اس کا حقیقی وقار عطاء کیا۔ معاشی سطح پر غربت، بھوک اور معاشرے میں کرپشن کا خاتمہ کی بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ جس کے پاس ضرورت سے زیادہ کھانے کو ہے تو وہ اس کے حقدار کو لوٹا دے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ شخص مومن اور مسلمان نہیں، جو خود پیٹ بھر کر سوئے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔ آج ہندوستان، پاکستان میں لاکھوں لوگ بھوکے سوتے ہیں۔ کیا ہمارا ایمان اور اسلام باقی رہ گیا؟

شیخ الاسلام نے لفظ نبی کا دوسرا معنی بیان کرتے ہوئے کہا کہ لفظ نبی کا ایک معنی بلند ہونے کا ہے۔ اللہ کے سوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام عوالم میں بلند ہیں اور ہر شے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نیچے اور تابع ہے۔ کل کائنات جن و انس آپ کے ماتحت ہے۔

بخاری شریف کی حدیث ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ اپنے صحابہ کے ساتھ پہاڑ پر کھڑے ہیں اور پہاڑ وجد میں آ گیا۔ اس موقع پر آقا علیہ السلام نے دعا نہیں کی کہ پہاڑ پر زلزلہ آ گیا ہے، بلکہ اس پہاڑ کو حکم دیا کہ رک جا، تمہارے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور شہداء کھڑے ہیں۔ اس وقت پہاڑ پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ آٹھ صحابہ کرام تھے، جن میں حضرت عمر، عثمان غنی، طلحہ بن زبیر، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم سمیت دیگر صحابہ کرام تھے جو برسوں بعد رتبہ شہادت کو پہنچے۔ لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برسوں پہلے یہ غیب کی خبر دے دی تھی۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تصرف کا یہ عالم تھا کہ غزوہء بدر میں صحابی رسول سلمہ بن اسلم رضی اللہ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری تلوار ٹوٹ گئی ہے، کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قریب پڑی کھجور کی ٹہنی انہیں پکڑا دی، جو اسٹیل کی تیز دھار تلوار میں بدل گئی۔ سلمہ بن اسلم رضی اللہ عنہ ساری عمر اسی تلوار سے لڑتے رہے۔

مشہور واقعہ ہے کہ جب کھجور کے خشک تنے استن حنانہ کی جگہ منبر نے لے لی کہ جس خشک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے؛ تو وہ خشک تنا ہجر و فراق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رونے اور چیخنے لگا۔ جب آقا علیہ السلام منبر سے نیچے تشریف لائے، اس پر دست اقدس رکھتے ہوئے فرمایا: تجھے مجھ سے عشق ہو گیا ہے، اگر تو چاہے تو میں تجھے جنت میں لگا دوں جہاں انبیاء اور صلحاء تیرا پھل کھائیں گے، یا تجھے آج زندہ کردوں اور دنیا میں لوگ تیرا پھل کھائیں؟ اس تنے نے کہا: میرے آقا! مجھے جنت میں لگا دیں تاکہ نبی اور ولی میرا پھل کھائیں۔ اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ قدرت عطاء کر رکھی تھی کہ اگر آپ چاہیں تو دنیا کے درخت کو جنت میں لگا دیں۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ ایک کھجور کا خشک تنا جو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جڑ گیا تھا، اس میں اتنا شعور آ گیا کہ وہ ایک تنا ہو کر آخرت کو ترجیح دے رہا ہے، لیکن آج ہم انسان ہو کر دنیا کی نعمتوں کو اخروی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں۔

شیخ الاسلام نے ہندو پاک کے مسلمانوں سمیت تمام ملت اسلامیہ کو پیغام دیتے ہوئے کہا: آؤ! آج شب میلاد ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنی زندگیوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں بسر کریں گے۔ جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو اپنا لیں گے تو پھر ہر شخص ایک دوسرے سے محبت کا پیکر بن جائے گا جس سے یہ دنیا امن کا گہوارا بن جائے گی۔

آخر میں شیخ الاسلام نے تحریک منہاج القرآن کے گوشہ درود و فکر اور حلقہ ہاے درود و فکر میں پڑھا جانے والا درود پاک بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کیا اور ملک و قوم کی سلامتی و استحکام کے لیے خصوصی دعا کی۔

تبصرہ