حقوقِ نسواں بل

تحریر: عین الحق بغدادی

پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے والے تحفظ نسواں بل کی بڑی دھوم ہے جس میں عورتوں پر تشدد کرنے والے مرد کو 2دن کیلئے گھر سے بے دخل کیا جائے گا، عدالتی حکم پر ٹریکنگ کڑا لگایا جائے گا اس بل میں گھریلو تشدد، سائبر کرائم، معاشی استحصال اور جذبانی و نفسیاتی اور بدکلامی جیسے جرائم شامل ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے کیا اسلام میں عورتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے قوانین موجود نہیں کہ اس طرح کے قوانین بنانے کی ضرورت پیش آئی کیونکہ اس بل میں زیادہ تر گھریلو تشدد پر زور دیا گیا ہے جبکہ اسلام نے میاں بیوی کے حقوق اور ازدواجی زندگی کو احسن طریقے سے بیان کیا ہے، میاں بیوی کی ناچاقی کی صورت میں اللہ رب العزت کا دیا ہوا اصول کیا ہم سے غائب ہو گیا، سورہ بقرہ کی آیت نمبر 229 میں فرمایا طلاق دو مرتبہ ہے پھر یا تو بیوی کو اچھے طریقے سے زوجیت میں رکھ لیں یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دیں اور تمہارے لیے جائز نہیں کہ جو چیزیں تم انہیں دے چکے ہو واپس لو سوائے اس کے کہ دونوں کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے،سو اس صورت میں ان پر کوئی گناہ نہیں کہ بیوی خود کچھ بدلہ دے کر اس تکلیف دے بندھن سے آزادی لے لے۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم ہیں، اس آیت مبارکہ میں صاف طور پر عورت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ اگر اسے یقین ہو جائے کہ میاں بیوی اکٹھے نہیں رہ سکتے تو وہ علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے اور کسی بھی ناچاقی کی صورت میں علیحدگی میں بھی بھلائی کا عنصر نمایاں رکھا گیا ہے۔

اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں فرمایا، مرد عورتوں پر محافظ و منتظم ہیں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور یہ اس وجہ سے بھی کہ مرد ان پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں، پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں، شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ اپنی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں اور تمہیں جن عورتوں کی سرکش و نافرمانی کا اندیشہ ہو تو انہیں نصحیت کرو اور اگر نصحیت نہسمجھیں تو انہیں اپنی خواب گاہوں سے علیحدہ کرو اور اگر پھر اصلاح پذیر نہ ہوں تو ان سے تادیباً عارضی طور پر الگ ہو جائو اگر وہ رضائے الٰہی کے لیے تمہارے ساتھ تعاون کرنے لگیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔

مندرجہ بالا آیات میں بھی اللہ رب العزت نے میاں بیوی کے درمیان کسی بھی قسم کی ناچاقی کا مرحلہ وار حل دیا ہے، ناچاقی کی صورت میں پہلی نصیحت کرو، پھر خواب گاہوں سے الگ کرو اور تیسرے مرحلے میں عارضی علیحدگی اختیار کرنے کا حکم دو اور آخری حل سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 229 میں دیا کہ دو بار طلاق دیں پھر بھی اصلاح نہ ہو تو بھلائی سے مستقل علیحدگی اختیار کریں اور یہ بھی حل دیا کہ اگر عورت سمجھ رہی ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اور خاوند اسے آزاد نہیں کررہا تو شریعت نے عورت کو اجازت دی ہے کہ وہ خود علیحدگی کا مطالبہ کر سکتی ہے۔محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوئی مرد کسی عورت کو دشمن نہ رکھے اگر کسی کی ایک عادت سے ناخوش ہو تو اس کی دوسری عادت سے خوش ہو جائے۔

ایک صحابی نے سوال کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے کسی پر اس کی بیوی کا کیا حق ہے آپ نے فرمایا جب تم کھائو اسے بھی کھلائو، جب پہنو اسے بھی پہنائو، اس کے منہ پر نہ مارو اسے برے الفاظ نہ نہ بولو اور اسے خود سے الگ نہ کرو مگر گھر کے اندر ہی۔

ایک اور حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص پر حیرت فرمائی جو اپنی عورت کو غلاموں کی طرح مارتا پیٹتا ہے اور پھر رات کو اس سے قربت اختیار کرتا ہے، اسی طرح کی کئی آیات او احادیث مبارکہ ہیں جن میں عورتوں کے حقوق کی بات کی ہے مگر شوہر کی نافرمانی پر عورت کیلئے بھی سخت وعید فرمائی گئی ہے مگر سخت سزائیں تجویز نہیں کی گئیں، اگر اسلام میں چوری پر ہاتھ کاٹنے، قتل کے بدلے قتل، بدکاری کرنے پر سو کوڑے یا سنگسار کرنے کی سزائیں مقرر ہیں تو میاں بیوی کیلئے بھی سخت سزائیں مقرر ہونی چاہیں تھیں، ایسا نہ ہونے کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ محبت کا رشتہ ہے، اسے قانونی سزائوں کے ذریعہ قائم نہیں رکھا جا سکتا، میاں بیوی کی ناچاقی کی صورت میں خاندان و معاشرے کے معزز ین مداخلت کر کے معاملات ختم کراتے ہیں، اب آج کے ترقی یافتہ دور میں معززین کا کردار اگر پولیس اور حکومت کے منتخب نمائندے ادا کرینگے تو اس سے خیر کی توقع کم ہی رکھنی چاہیے، اگر سخت سزائوں کے ذریعہ یہ رشتہ قائم رکھا جاسکتا تو خالق کائنات اور محسن انسانیت ضرور اپنے قوانین بناتے، یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی عورت ناچاقی کی صورت میں اپنے خاوند کو تھانے میں بند کرائے اور پھر اس کے ساتھ خوش و خرم ازدواجی زندگی گزانے کی متمنی بھی ہو، اسلام نے سزائوں کے جو مراحل بیان کیے ہیں ان میں آخری مرحلہ علیحدگی کا ہے جو بذات خودایک کڑی سزا ہے جس سے خاندان تقریباً تباہ ہو جاتا ہے، بچے دربدر ہو جاتے ہیں لہٰذا مرد و خواتین کو تعلیم و آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کو سمجھ کر احترام کرنا سیکھیں، اخروی جزا و سزاء کی آگاہی جس قدر جرائم سے دور کرتی ہے دنیاوی سزا اتنا ہی جرائم میں اضافہ کر دیتی ہے۔

اب بھی اگر تحفظ خواتین بل بنانے کی ضرورت باقی رہتی ہے تو پہلا کام یہ ہونا چاہیے تھا کہ اس بل کو علمائ، ماہرین قانون اور میڈیاپر زیر بحث لایا جاتا اور پھر تمام کی متفقہ رائے سے بل تیار ہوتا، نظریاتی کونسل سے بھی اوجھل رکھا گیا، لہٰذا یہ رازداری اس بل کو مشکوک بناتی ہے کہ حکومت اس بل کے ذریعہ عورتوں کی حفاظت کرنا چاہتی ہے یا مغرب کی ایماء پر عورت کو اختیارات دے کر فحاشی پھیلانا چاہتی ہے اور مغرب کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہے۔

یہ چند مثالیں بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ میاں بیوی کے آپس میں ایک دوسرے پر حقوق ہیں جنہیں ہمارے مذہب نے تفصیلاً بیان فرمادیا ہے، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی اولادوں کو اسلام کے ان بنیادی اصولوں سے آگاہی دلائیں،انہیں نصاب تعلیم کا لازمی حصہ بنائیں تاکہ رشتہ ازدواج میں بندھنے سے پہلے وہ ایک دوسرے کے حقوق مقام اور عزت و احترام کو سمجھ سکیں، یہ ایسا نازک رشتہ ہے جو بھلائی کے ساتھ قائم رکھا جا سکتا ہے، حضور کا فرمان ہے کہ سوائے عزت والے اور برگزیدہ شخص کے بیوی کی عزت کوئی نہیں کرتا اور سوائے ذلیل و کمینے شخص کے ان کی ایانت کوئی نہیں کرتا، آپ کا یہ فرمان واضح پیغام ہے یاران نکتہ دان کیلئے کہ کیا عورت کی عزت و تحفظ اسلامی قوانین میں مضمر ہے یا آج کے دین سے نابلد معاشرے کے بنائے قوانین میں؟

ضرورت اس امر کی تھی کہ معاشرے سے جہالت کو ختم اور تعلیم عام کی جائے مگر ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ بن گیا ہے کہ سیاست و حکمرانی ڈنڈے سے کرنی ہے اور عورت کا تحفظ کڑے سے کرنا ہے، آزادی وہ نہیں جو انسانی جبلت اور اس کا نفس چاہتا ہے بلکہ آزای وہ ہے جو رب کے بنائے اصول و ضوابط کے مطابق ہے، ایسے قوانین بنانے والوں کا مذہب داغدار کرنے کے سواء کوئی مقصد نہیں وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اسلامی قوانین میں نقص ہے جو انہوں نے سماجی تنظیموں اور ارکان اسمبلی سے پورا کروایا ہے، قابل افسوس امر یہ ہے کہ جن ارکان اسمبلی اور سماجی تنظیموں کی مشاورت سے یہ قانون بنایاگیا ہے ان کی اپنی وہلیت و کردار کیا ہے اسی سے یہ بل مشکوک ہو جاتا ہے آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے حکمران قرآن و حدیث سے راہ فرار اختیا رکررہے ہیں،اسی بل کو لے لیں اس میں سائبر کرائم کا ذکر ہے جبکہ پاکستان میں فیڈرل لیول پر سائبر کرائم کا کوئی واضح بل موجود نہیں۔

جی پی ایس ٹریکر کی شق شامل کی گئی جس کے میکنزم کا کوئی ذکر ہی نہیں اور اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس کا غلط استعمال نہیں ہو گا اور دوسری بات کہ یہ کڑا پہنانے سے مرد کی عزت نفس مجروح نہیں ہوگی کیا، اسلام تو بھلائی کا درس دیتا ہے کہ ناچاقی کی صورت میں بیان کردہ مرحلہ وار اصلاحی پہلوئوں کے باوجود اکٹھا رہنا ممکن نہ ہو تو بھلائی کے ساتھ علیحدگی ہے مگر بل کی اس شرط میں بالخصوص سقم موجود ہے جو اصلاح کے بجائے بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔

خواتین کے تحفظ کا بل اس سے قبل سندھ اور بلوچستان اسمبلی سے پاس ہو چکے ہیں مگر وہاں کیا جرائم کم ہو گئے؟ اگر نہیں ہوئے تو اس کی دو ہی وجوہات ہیں ایک عملدرآمد کروانے والوں کی کوتاہی اور دوسرا دین سے دوری، حکومتیں قوانین بنواتی ہیں مگر عملدرآمد سے گریزاں دین اسلام عین انسانی فطرت کے مطابق ہے لہٰذا دینی اقدار و قوانین کو اجاگر کر کے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے قریب لا کر انہیں عزت اور معاشرے کو شانتی دی جائے نہ کہ ایسے بل پاس کروا کر عورت کو مرد سے آزاد کرواکر اس کے تقدس کو پامال کر کے بازاری عورت بنادیا جائے، اسی کے لیے اللہ رب العزت نے فرمایا تھا کہ جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہی ظالم لوگ ہیں۔

تبصرہ