تحریک منہاج القرآن ہی کیوں؟

تحریک منہاج القرآن کے یوم تاسیس 17 اکتوبر کی مناسبت سے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی فکر انگیز پیغام

یہ دور حقیقت میں فتنوں کا دور ہے جس کے بارے میں آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے ادوارِ فتن ہوں گے۔ فتنوں کا دور شروع ہو چکا ہے۔ اب یہ دور کتنے سو، ہزار یا لاکھوں سال چلتا ہے، اللہ بہتر جانے۔ آقا علیہ السلام نے قیامت سے پہلے فتنوں کے درج ذیل ادوار کا ذکر فرمایا:

  1. چھوٹے فتنوں کا دور
  2. بڑے فتنوں کا دور

1۔فتنوں کا آخری دور:

فتنوں کا آخری دور مختصر ترین دور ہوگا، جس میں دس علامات ظاہر ہوں گی مثلاً: سورج کا مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہونا وغیرہ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے واپس آنا، دجال کا ظاہر ہونا، اِسی دور میں فتنوں کی اصلاح کے لیے سیدنا امام مہدی علیہ السلام پیدا ہو چکے ہوں گے۔ فقہ جعفریہ کے مطابق امام مہدی دوبارہ ظاہر ہوں گے، جبکہ اہل سنت کے مطابق وہ پیدا ہوں گے۔ بہرحال فتنوں کی سرکوبی کے لئے اُن کی آمد ہوگی۔

فتنوں کا پہلا دور:

فتنوں کے پہلے دور کی حضور علیہ السلام نے جتنی علامات بیان فرمائیں وہ ساری علامات سو فیصد ظاہر ہو چکی ہیں۔ خوارج کا دوبارہ ظہور دہشتگردوں کی صورت میں ہوچکا ہے۔ پاکستان سمیت پوری امت میں سپاہ، جیش، طالبان، القاعدہ اور داعش جیسے مختلف ناموں سے دہشت گرد گروہ دراصل خوارج ہی ہیں۔ میری نئی کتاب ISIS Exposed through Prophetic Traditions داعش کے موضوع پر پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ میں نے اس کتاب میں آقا علیہ السلام کی ان تمام احادیث کو بیان کیا ہے جو آپ نے خوارج کے دوبارہ ظاہر ہونے کے حوالے سے بیان فرمائیں۔ مثلاً:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نشاندہی فرمائی کہ یہ دہشت گرد گروہ عراق کے صحرائی علاقے سے نکلیں گے، یمن کو گھیر لیں گے، پورا خلیج عرب اس کی زد میں آ جائے گا۔ اُن کے جھنڈے کالے رنگ کے ہو ں گے اور وہ اپنے آپ کو اصحاب الدولہ کہیں گے۔ آج لفظِ داعش ’’الدولۃ الا اسلامیہ للعراق والشام‘‘ کا مخفف ہے۔ یہ لوگ اسلامک سٹیٹ کا نعرہ لگائیں گے، لوگوں کو قتل کریں گے اور پانی کی طرح بے گناہ خون بہائیں گے۔

پہلے دور فتن کی دیگر علامات میں یہ بھی ہے کہ جھوٹ عام ہو گا، شراب عام ہو جائے گی، بدکاری اور کرپشن عام ہوگی۔ جہالت عام ہو جائے گی۔ گھٹیا کردار کے لوگ ریاست کے سربراہ اور لوگوں کے سردار و رہنما بن جائیں گے جن کے شر کے ڈر سے لوگ ان کے تابع ہوجائیں گے۔

انہی علامات میں سے ایک علامت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ صحرا میں فلک بوس عمارتیں بن جائیں گی۔ آج ہم عرب ممالک کو دیکھتے ہیں کہ وہاں دنیا کی بلند ترین عمارات قائم ہیں۔ ننگے پاؤں اونٹ چرانے والے بڑے بڑے محلات میں ہوں گے۔

یہ چند نمونے ہیں جو میں نے ذکر کئے۔ ان ساری علامات پر بھی میری ایک کتاب ’’علامات الفتن‘‘ ہے۔ یہ تمام علامات ظاہر ہو چکی ہیں۔ فتنوں کے اس دور میں مادیت غالب آ چکی ہے۔ مادیت اور دنیا پرستی نے لوگوں کے ذہنوں، دماغوں، سوچوں اور خواہشوں پر قبضہ کرلیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان فتنوں کے متعلق یہاں تک فرمایا کہ سچ بولنے والا چھپتا پھرے گا، ایمان دار مجرم تصور کیا جائے گا، سوسائٹی میں بددیانت، خائن اور کرپٹ لوگ فخر سے سر اونچا کر کے چلیں گے۔

ہم روز مرہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ یہ کلچر بھی ہمارے اندر آگیا ہے۔ اس کلچر میں آگے چل کر ایمان پر حملے ہی حملے ہیں اور بظاہر ایمان کے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے۔ نفس کے بھی حملے ہیں اور دنیا، سوسائٹی، ماحول، شیطان اور زمانے کے بھی حملے ہیں۔

ایمان کی حفاظت کیونکر ممکن ہے؟

صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ! ایسے زمانے میں ایمان کیسے بچائیں گے؟

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان بچانے کی دو صورتیں بیان فرمائیں:

  1. اس دور میں جو شخص دنیا، سوسائٹی، گھر بار چھوڑ کر غاروں میں چلا جائے گا اور عبادت کرے گا صرف اسی کا ایمان بچے گا۔

مطلب یہ ہے کہ حالات ایسے ہو جائیں گے کہ ایمان، نیکی، تقویٰ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی و محبت اور سچائی کی راہ پر مروجہ نظام کے مطابق سوسائٹی، فیملی اور اُن کے تقاضے بندوں کو چلنے ہی نہیں دیں گے۔ مثلاً: رزقِ حلال کمانے والا مشکل سے گزر بسر کرتا ہے جبکہ دوسری طرف حرام کمانے والے کا معیارِ زندگی (standard of living) اعلیٰ ہے۔ رزق حلال پر مشکل سے گزر بسر کرنے والی فیملی اعلیٰ زندگی بسر کرنے والوں کی مثال دے کر اپنے گھر کے مردوں سے بھی ان ہی آسائشات کا مطالبہ کرے گی۔ نتیجتاً حلال کمانے والا بھی گھر والوں کے طعنوں سے تنگ آکر رزق حرام کی طرف متوجہ ہوگا اور اس طرح سوسائٹی اور فیملی کے تقاضے پورے کرنے کے لئے تقویٰ و نیکی کی راہ پر چلنا ترک کردے گا۔

ایسے حالات میں ایمان پر اس طرح کے حملے ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِن حملوں سے بچاؤ کا طریقہ بیان فرمایا کہ ان حملوں سے اسی کا ایمان بچے گا جو غاروں میں چلا جائے گا اور اونٹ بکریاں چرا کر دودھ سے اپنا پیٹ پالے گا اور عبادت کرے گا۔

  1. ان حملوں سے بچاؤ کے لئے دوسری صورت آقا علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ:

میری امت کی ایک جماعت (طبقہ) قیامت تک ان تمام فتنوں کے دور میں حق پر قائم رہنے والوں کی بھی ہو گی۔ جماعت سے مراد خاص تنظیم (specific organization) نہیں بلکہ مراد ایک طبقہ ہے۔ یعنی ان فتنوں کے تمام ادوار میں ایک طبقہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہو گا جو حق پر رہے گا، حق کی دعوت دے گا، باطل سے لوگوں کو منع کریں گے، لوگوں کو بچائیں گے، حق کے لیے لڑیں گے اور باطل کے ساتھ جنگ کریں گے۔ دوسری جگہ فرمایا:

یہ طبقہ اُن لوگوں کا ہوگا جو مجھ سے محبت کریں گے، اپنی جان و مال بھی لٹا کر میرے دیدار کی خواہش کریں گے، وہ میرے اخوان (بھائی) ہوں گے، میں اُن کی ملاقات کا طلبگار ہوں۔

یعنی وہ لوگ جو فتنوں کے دور میں ایمان پر قائم رہیں گے اور قرآن و سنت سے اپنا تعلق جوڑ کر رکھیں گے، یہ لوگ اپنے ایمان کو بچالیں گے۔ یہ طبقہ میری امت میں ہمیشہ رہے گا اور حق کے لیے لڑے گا، یہ لوگ نہ صرف ان فتنوں کے دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کریں گے بلکہ دوسروں کے ایمان کی حفاظت کی جنگ بھی لڑیں گے۔

تحریک منہاج القرآن کے قیام کی ضرورت و اہمیت:

فتنوں سے بچاؤ اور ایمان کی حفاظت کا دوسرا طریقہ دراصل تنظیمی وجود کی طرف اشارہ ہے کہ ہمیشہ میری امت میں ایک طبقہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے والا اور حق کے لیے جنگ لڑنے والا، باطل سے لڑائی کرنے والا اور حق کو زندہ کرنے والا رہے گا۔ کیوں رہے گا؟ اس لئے کہ آقا علیہ السلام کو معلوم ہے کہ اُن ادوار میں انفرادی (individual) طور پر کسی کے بس میں نہیں رہے گا کہ وہ رہے بھی سوسائٹی میں اور اُس کا ایمان، نیک عمل، حضور علیہ السلام سے نسبت، اللہ کی بندگی، خیر، ذہنی طہارت اور پاکیزگی بھی بچ سکے۔ جیسے اگر کوئی کسی کو دریا میں دھکا دے دے اور کہے آپ نے اپنے کپڑوں کو گیلا نہیں ہونے دینا تو یہ ناممکن ہے، اس لئے کہ جب دریا میں دھکا دے دیا تو اب بھیگے بغیر نہیں رہ سکتے۔

آج سوسائٹی میں اس طرح کے فتنوں کے ماحول کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ فتنے آئے روز بڑھتے جارہے ہیں۔ اس برائی کے سمندر میں رہتے ہوئے کس طرح بچنا ہے؟ اُس کا حل آقا علیہ السلام نے مذکورہ دو طریقوں سے عطا فرمادیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پہلا طریقہ بیان فرمایا ہے کہ غاروں میں چلے جاؤ، وہ وقت شاید ابھی نہیں آیا۔ یہ صورت اس وقت اختیار کی جائے گی جب فتنوں کا آخری دور ہوگا۔ شاید سیدنا امام مہدی علیہ السلام کی آمد یا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت وہ دور آ جائے کہ جب ہر شخص کو ایمان بچانے کے لیے پناہ گاہوں کی ضرورت ہو۔ اس لئے کہ وہ یہ دور ہوگا جس میں آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ ایمان بھی اپنے آپ کو بچانے کے لیے مدینہ میں آ جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ سارا جہان ایمان سے خالی ہو جائے گا اور ایمان کی پناہ بھی مدینہ میں ہو گی۔

آخری دور سے پہلے فتنوں کے جو ادوار ہیں، اُن میں ایمان کی حفاظت کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسرا طریقہ بیان فرمایا کہ فتنوں کے ان ادوار میں اہل حق کا ایک طبقہ ہو گا جو ایمان کے قیام اور باطل سے لڑنے کے لیے ہمیشہ اپنی جدوجہد جاری رکھے گا۔ اِس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعمیل کے لئے لوگ اپنے اپنے دور میں اجتماعی کاوش کرتے رہے اور آج کے دور میں ان فتنوں سے حفاظت اور ایمان کے بچاؤ کے لئے ہم نے تحریک منہاج القرآن کا آغاز کیا ہے۔

اجتماعی بگاڑ کا ذمہ دار کون؟

اِس دور میں اگر کوئی شخص انفرادی حیثیت سے چاہے کہ وہ اپنے اور اپنی اولاد کے ایمان کو بچائے تو اُسے حق کے قیام کی اجتماعی کاوش کا حصہ بننا ہوگا۔ اگر ہم اردگرد کے ماحول کا تھوڑا تجزیہ کریں کہ کتنے والدین ہیں جو خود نمازی تھے، اچھی راہ پر تھے مگر ان کے بچے والدین جیسے نہیں رہے۔ آج وہ بچوں کے حالات پر روتے نظر آتے ہیں۔ اعزاء و اقارب، دوست احباب میں جگہ جگہ اس کے نمونے ملیں گے۔ کیا وجہ کہ والدین اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت میں کامیاب نہیں ہوسکے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے والدین ایمان کی حفاظت کے خود بڑے دفاعی ماہر نہیں تھے۔ جتنا اُن سے ہو سکا، جتنی ان کی صلاحیت تھی، جتنی سمجھ تھی، جتنی اُن کے اندر ایمانی مضبوطی تھی، انہوں نے اپنا کردار ادا کیا ہو گا مگر وہ اتنے دفاعی ماہر نہیں تھے کہ جنگ کے ایسے ماحول میں جہاں گولے بھی چل رہے ہیں، تیر بھی چل رہے ہیں، تلواریں بھی چل رہی ہیں، ہر طرف سے ایمان پر حملے ہو رہے ہیں، اُس ماحول میں وہ بچوں کو اور اپنی نسلوں کو بچا سکیں۔

اس لئے کہ بدعقیدگی بھی ہے، بداعمالی بھی ہے، بداخلاقی بھی ہے، بدفکری بھی ہے۔ الغرض اس طرح کا کلچر پورے ماحول پر چھایا ہوا ہے، ساری دنیاglobal village بن گئی ہے۔ فحاشی و عریانی اور بے حیائی کے ہزار قسموں کے حملے ہیں۔ صرف انٹرنیٹ یا موبائل فون کی سہولت ہی لے لیں۔ کسی کو برباد کرنے کے لیے یہی ایک چیز کافی ہے۔ یہ جہاں ضروریات پوری کرتا ہے اور معلومات بھی دیتا ہے، وہیں ایمان اور اخلاق کو جلا کر راکھ کر دینے کے لیے بھی کافی (more than enough) ہے۔ مطلب یہ ہے کہ والدین بذاتِ خود اپنے طور پر (on their own) نہ اپنے ایمان کو مضبوط کر سکتے ہیں اور نہ اپنی اولادوں کے ایمان کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہر کوئی یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ میرے بچوں کو یہ ہوگیا، وہ ہوگیا، دعا کریں۔

یاد رکھیں! یہ چیزیں دعاؤں سے ٹھیک نہیں ہوتیں، اس کے لیے دعا سے بڑھ کر دوا کی ضروت ہے۔ دوا یہ ہے کہ ایک ایسی تنظیم قائم کی جائے، جو اس ماحول میں ایمان اور حق کی حفاظت کا علم لے کر نکلے۔ تنظیم کی مثال درخت کی مانند ہے۔ درخت کو جڑوں سے پانی ملتا ہے، اُس پر شاخیں لگتی ہیں، شاخوں پر پھل اگتے ہیں۔ اُسی شاخ پر پھل لگتا ہے جو تنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہو۔ شاخ کو الگ کر کے رکھ دیں اور کہیں کہ اس پر پھل لگ جائے، ایسا نہیں ہو گا۔ اس پر نہ پتے آئیں گے اور نہ پھل آئے گا۔ اُس شاخ کو بھی ہرا بھرا ہونے کے لیے کسی تنے سے جڑنا ہے۔ ایمان کی شاخ بھی اس طرح ہری بھری ہوتی ہے کہ کسی ایک اجتماعیت میں اپنے آپ کو جوڑیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.

(آل عمران، 3: 104)

’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں‘‘۔

قرآن مجید نے جابجا اعلان کیا کہ تم میں سے ایک طبقہ ایسا ہونا چاہیے جو آیت میں مذکور فرائض کو سرانجام دے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ حکم اس لئے آیا ہے کہ اس میں اُن لوگوں کے لئے عافیت اور ایمان کی حفاظت ہے جو اپنی سطح پر (on their own) اپنے، اپنے خاندان یا بچوں کے ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ تنظیم کے قیام کے بے شمار زاویے ہیں مگر یہ ایک زاویہ بڑا اہم ہے۔

اجتماعیت سے جڑنا کیوں ضروری ہے؟

جب آپ اجتماعیت پیدا کرتے ہیں تو اس اجتماعیت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ اُس کی کوئی organization بنانی ہوتی ہے، اُس کو کوئی نام دینا ہوتا ہے، اُس کی ممبرشپ ہوتی ہے، رفاقت ہوتی ہے، وابستگی ہوتی ہے۔ جب آپ اس تنظیم و تحریک سے مکمل طور پر وابستہ ہوجاتے ہیں، اُس اجتماعیت کا حصہ بنتے ہیں تو پھر وہ تعلق حیا میں اضافہ کرتا ہے۔ مطالعہ کرنے، خطابات سننے، لٹریچر پڑھنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ جس شرح و تناسب سے وابستگی اور تعلق بڑھتا چلا جاتا ہے اسی تناسب سے اس اجتماعیت سے مزید فوائد حاصل کرنے کے لئے شوق میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

یعنی وابستگی (attachment) انسان کے اندر کچھ چیزیں پیدا کرتی ہے، ایک فطری طریقہ (natural process) سے قرب اور تعلق پیدا ہوتا ہے اور وہ چیزیں ایمان کو محفوظ کرنے کے tools and means (ذرائع) بنتے چلے جاتے ہیں۔

تحریک منہاج القرآن میں کئی رفقاء و کارکنان ایسے ہیں جن کی تیسری نسل کو بھی میں اپنی آنکھوں کے ساتھ منہاج القرآن سے وابستہ دیکھتا ہوں، وہ بھٹکے نہیں ہیں۔ جو لوگ وابستہ نہیں ہوئے اللہ پاک اُن کو توفیق دے کہ وہ جس طرح خود نماز، روزہ اور نیکی کی راہ پر ہیں، آگے اولادوں کو بھی وہ عمل منتقل کر سکیں۔

ہم معاشرے میں بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی حد تو نیک و پارسا ہیں مگر ان کی اولاد اس طرح نہیں ہے۔ اِن کو ان کے والدین نے نیک کام کی رغبت دلائی، اِن کے والدین پہلے زمانے یعنی 60ء، 70ء، 80ء کے دہائی کے تھے۔ اُس زمانے میں دین و ایمان پر اتنے حملے نہیں تھے۔ آج سے چالیس، پچاس سال پہلے حالات بڑے مختلف تھے۔ آج جو والدین کسی بھی ایسے نئے کام کے لیے اجتماعیت میں منسلک نہیں ہوئے اور وہ اس خیال میں ہیں کہ ہم بھی تو ٹھیک راہ پر ہیں، لہذا ہم اپنے بچوں کو بھی قائم رکھ لیں گے، یہ ان کا مغالطہ ہے۔ وہ ٹھیک راہ پر از خود نہیں ہیں بلکہ یہ اُن کے والدین کی تربیت کا اثر ہے۔ ان کے والدین نے بڑی محنت کی تھی اور رزق حلال کمایا اور کھلایا تھا، مارتے تھے، سکھاتے تھے، آداب دیتے تھے، گھر میں بے حیائی نہیں تھی۔ اُن والدین جیسی تربیت کی سختی آج کے والدین میں نہیں ہے۔ اب نیا دور آ گیا ہے اور بچے بھی وہ سختی قبول نہیں کرتے۔ پورا کلچر تبدیل ہوگیا ہے۔ اب اُس طرح ہم بچوں کی پرورش نہیں کر سکتے جس طرح ہماری پرورش کی گئی تھی۔ اب نئے tools اور means چاہئیں۔ جنہوں نے اپنے اوپر بھروسہ کیا وہ نقصان میں ہوگئے۔ اب اُن گھروں میں بچے شرابیں پیتے ہیں، کلبوں میں جاتے ہیں، دنیا کی ہر برائی کی طرف جاتے ہیں، الامان الحفیظ۔

اجتماعیت کے انتخاب کا پیمانہ:

اجتماعیت کے ساتھ منسلک ہونا ہی آج کے دور میں اپنے اور اپنی اولادوں کی حفاظت کے لئے ناگزیر ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کس اجتماعیت کے ساتھ منسلک ہوں؟

میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں منسلک ہونے سے پہلے اچھی طرح سوچیں اور دیکھیں کہ جس تنظیم اور اجتماعیت سے رفاقت یا تعلق قائم کررہے ہیں، وہ جگہ درست اور اہل بھی ہے یا نہیں۔۔۔؟ سوچیں کہ جس مقصد کے لیے داخل ہو رہا ہوں میرا وہ مقصد پورا بھی ہو گا یا نہیں۔۔۔؟ ایسی جگہیں بھی ہیں کہ آپ کسی عقیدت کے ساتھ کسی کے ساتھ منسلک ہوگئے مگر انہوں نے آپ سے پیسے ہی بٹورنے ہیں، آپ سے نذرانے ہی لینے ہیں۔ آپ ان کے ہاتھ چومیں گے، خدمت کریں گے، نذرانہ دیں گے اور دعائیں لے کر گھر آ جائیں گے۔ اُس کے علاوہ وہاں سے ساری زندگی کچھ نہیں ملنا۔ لہذا بنیادی اور اہم بات یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے اجتماعیت کا حصہ بننا ضروری ہے کیا وہ مقصد بھی وہاں میسر آیا یا نہیں؟ لہذا فیصلے سے پہلے یہ ضرور پرکھیں۔

اگر میرے پرانے خطابات کو سنیں، جنہوں نے مجھے 80ء اور 90ء کی دہائی میں سنا ہے اُن کو یاد ہوگا کہ میں اپنے طلبہ اور رفقاء سے کہتا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہتے ہیں، مجھے سنتے ہیں، میری مجلس و صحبت میں بیٹھتے ہیں، عقیدت میں شاید یہ سمجھتے ہوں گے کہ میرے جیسا دنیا میں ہے ہی نہیں۔ ایسا خیال ہر گز نہ کریں، یہ مبالغہ آرائی ہے۔ آپ معاشرے میں گھومیں پھریں، تلاش کریں مگر یہ کہ اپنے کچھ معیارات بنائیں کہ آپ کے تقاضے اور requirements کیا ہیں؟ اس دور میں اپنے ایمان کو بچانے بلکہ مضبوط تر کرنے اور اگلی نسلوں کو منتقل کرنے کے لیے کیا کیا تقاضے ہیں، وہ ضرور لکھ لیں اور پھر عرب بھی جائیں، عجم بھی جائیں، شام جائیں، عراق جائیں، دو دو چار چار مہینے لوگوں کے پاس گزاریں۔ دنیا کے نامور لوگوں کو سنیں، اُن کے پاس کچھ وقت گزاریں۔ جہاں سب سے بہتر آپ کو مل جائے یا طبیعت اطمینان پائے، بس اُس اجتماعیت کا حصہ بن جائیں اور مجھے بھول جائیں۔

میں نے سیکڑوں بار یہ بات کہی۔ اس لئے کہ جس مقصد کے لیے میرے پاس آپ نے آنا تھا وہ مقصد مجھ سے بہتر کسی اور جگہ اگر پورا ہو جائے تو میں آپ کو حکماً کہوں گا کہ اُدھر مڑ جائیں، مجھ سے بہتر وہاں مقصد پورا ہو رہا ہے۔ لیکن اگر گھوم پھر کر پوری دنیا میں دیکھیں کہ کسی اور جگہ اجتماعیت کو اختیار کرنے کا مقصد اُس طرح پورا نہیں ہو رہا، بلکہ منہاج القرآن میں ہوتا ہے، تب واپس آجائیں۔ اگر اِس سے بہتر یا اس جیسا کہیں اور پورا ہوتا ہے تو جائیں مگر یہ ضروری ہے کہ اجتماعیت سے جڑیں۔ تنہا رہیں گے تو آپ ناکام ہوجائیں گے، اس لئے کہ حملے سخت ہیں، اپنی زندگی میں ناکام ہو جائیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ اپنی گزر اوقات کر لیں مگر بچوں کے ایمان کی حفاظت میں ناکام ہوجائیں گے اور انہیں ایمانی، اخلاقی اور روحانی طور پر برباد کر بیٹھیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا.

(التحریم، 66: 6)

’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ‘‘۔

گویا ہمارے اوپر کم سے کم ایک نسل کی ذمہ داری ہے، ہم سے پوچھا جائے گا کہ وہ کیوں برباد کی، ان کے ایمان کی حفاظت کے لئے کیا اقدامات کئے۔ دماغ اور آنکھوں کو کھلا رکھ کر، تنقیدی نگاہ سے ہر ایک کو پرکھ کر، اپنے معیارات کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ کریں کہ کس اجتماعیت سے وابستہ ہوا جائے۔ اس لئے کہ اجتماعیت سے منسلک ہونا وقت اور ماحول کی ضرورت ہے۔ اجتماعیت کے بغیر رہنا اپنے آپ کو بڑے خطرے میں رکھنا ہے۔ آپ اکیلے بڑی لہروں کا اور بڑے طوفانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ خاص طور پہ اپنی نسلوں کو تیار کریں، پھر اُن کے جو بچے آئیں گے وہ اُن کو محفوظ کریں گے، اس طرح نسل در نسل ایمان، آقا علیہ السلام کے تعلق اور غلامی کا رشتہ آگے منتقل ہوتا چلا جائے گا۔

کسی اجتماعیت کا حصہ بننے کے لئے آنکھیں اور دماغ کھلا رکھیں، اندھا نہ بنیں، سوچ بچار کریں۔ اس لئے کہ بڑے بڑے دعویدار ہوں گے، ہماری تنظیم کے لوگ بھی دعوے کرتے ہوں گے، کوئی عقیدت مند مبالغہ بھی کرتا ہوگا۔ لیکن وابستگی سے پہلے سوچیں، جس کے ساتھ جڑنا ہے اُس کے رات دن دیکھیں کہ باہر کیا کرتا ہے اور اندر کیا کرتا ہے؟ لوگوں کی مجلس میں کیا ظاہر کرتا ہے اور جب تنہا ہوتا ہے، خاص دوستوں میں ہوتا ہے تو اُس وقت اُس کا کردار، گفتگو اور طرزِ عمل کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ اُس کی اپنی نجی سوچیں کس طرح کی ہیں اور لوگوں کو تبلیغیں کس طرح کی ہیں۔۔۔؟ ان چیزوں پر ضرور غور کریں۔

لوگ جب باہر نکلتے ہیں تو بڑا جبہ، عمامہ، تسبیح ہاتھ میں لے کر بڑی وضع قطع کے ساتھ نکلتے ہیں۔ بڑے بڑے لوگ سادگی میں دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ ان کو پرکھنے کے لئے جہاں ان کے شب و روز اور خلوت و جلوت کو دیکھیں وہاں ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ ان کی اولاد کو بھی دیکھیں کہ اُن کی اولاد اپنے باپ کی پیروی (follow) کرتی ہے یا نہیں۔ یہ بھی ایک زبردست پیمانہ ہے۔ میرے پاس کئی مشائخ اور پیر آ کر روتے ہیں کہ ایک یا دو بیٹے ہیں، بگڑ گئے، کہنا نہیں مانتے، دوسری راہ پر چلے گئے ہیں، دعا کریں۔ یا اُن کو میرے پاس بھیجتے ہیں کہ آپ کے بہت عقیدت مند ہیں، آپ کوئی نصیحت کر دیں کہ باپ کی بات سن لیں۔ میں ان کے بچوں کو نصیحت ضرور کرتا ہوں لیکن اُن کے باپ کو اس عمر میں بات سمجھا نہیں سکتا کیونکہ اب اُن کے ہاتھ میں رہا کچھ نہیں۔

سوال تو کرنے کا یہ ہے کہ اولاد نے باپ کو بطور نمونہ (ideal) سامنے کیوں نہیں رکھا۔۔۔؟ اس کی راہ پر کیوں نہیں چلے۔۔۔؟ یہ سوال اپنے آپ سے کرنے کا ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ باہر کے لوگ میری راہ پر چلتے ہیں لیکن میری اولاد اور گھر والے نہیں چلے۔ یہ اصل سوال ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر کے لوگ آپ کا جبہ، دستار، عمامہ، تسبیح، وضع قطع، دکھلاوا اور زندگی کا باہر دیکھتے ہیں جبکہ اولاد، خاندان کا فرد (family members) ہے، وہ آپ کی اصل حقیقت دیکھتے ہیں۔ جب آپ گھر میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کا ظاہر اتر جاتا ہے اور اصل روپ بچوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ بچے تو رات دن دیکھتے ہیں کہ ہمارا باپ کیا کرتا ہے اور کیا نہیں کرتا۔۔۔؟ کس طرح سوچتا اور گفتگو کیا کرتا ہے۔۔۔؟ اُس کے اندر دنیا داری کتنی ہے اور دین کتنا ہے۔۔۔؟ تقویٰ و پرہیزگاری کتنی ہے اور عیاری مکاری کتنی ہے۔۔۔؟ سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا ہے۔۔۔؟ بچوں سے تو کچھ چھپا ہوا نہیں ہوتا۔ لہذا سوچنا چاہیے کہ اولاد نے idealise کیوں نہیں کیا۔ اس لیے idealise نہیں کیا کہ ہمارے ظاہر اور باطن کا تضاد سب سے پہلے اولاد اور فیملی پر ظاہر (expose) ہوتا ہے۔

منہاج القرآن سے نسبت کے روحانی ثمرات:

منہاج القرآن سے نسبت کے روحانی فائدے بھی کئی ہیں، ان میں دو چیزیں بتاتا ہوں:

  1. 1۔ اول یہ کہ یہ محمدی مشن ہے، یہ مرکز منہاج القرآن آقا علیہ السلام کے فرمان پر ہی قائم کیا۔ یہ حضور علیہ السلام کا مشن ہے، اُن کی نوکری ہے اور یہ سارا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا فیض ہے۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اتنی کتابیں کیسے لکھ لیں۔۔۔؟ اتنے وقت میں اتنا کام کیسے ہو گیا۔۔۔؟ اتنے وقت میں دنیا میں نیٹ ورک کیسے بن گیا۔۔۔؟ اتنا کام کیسے ممکن ہے۔۔۔؟ اس کا جواب میرے پاس بھی نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض ہے اور اللہ کا کام ہے۔ یہ جن کا کام ہے، جنہوں نے کروانا تھا، انہوں نے ہی توفیقات دیں، انہوں نے ہی تکمیل کروا دی اور انہوں نے ہی یہاں تک پہنچا دیا۔ میں تو ایک ذریعہ (tool) تھا، بس انہوں نے کرم کر دیا اور نوکری کے لیے چن لیا۔ یہ بھی اُن کا کرم ہے، ورنہ بڑے بڑے اچھے نوکر ہیں۔ اُن کے پاس کوئی کمی نہیں، ہم تو نوکروں میں بھی کسی قطار کے نہیں ہیں۔ انہوں نے کرم کر دیا تو یہ ہوگیا، ورنہ انسانی بس میں یہ نہیں۔ منہاج القرآن پر حضور علیہ السلام کا روحانی فیض ہے۔
  2. دوسرا روحانی فائدہ یہ ہے کہ حضور سیدنا غوث الاعظمؓ سے میں نے روحانی طور پر ایک درخواست کی تھی کہ جو منہاج القرآن کا رفیق ہوجائے اُس کو کسی اور پیر کی ضرورت نہ ہو اور وہ صرف سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا مرید ہو۔ جیسے میں ان کا مرید ہوں۔ اس درخواست پر انہوں نے عالم رؤیا میں مجھ سے اس کا تحریری وعدہ فرمایا ہے۔ لہذا اب جو تحریک منہاج القرآن کی رفاقت اختیار کر لے گا بشرطیکہ اس پر عمل بھی کرے اور مرتے دم تک اس پر صدق و اخلاص اور وفا سے قائم رہے تو وہ سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے مریدین میں وہیں کھڑا ہوگا، جہاں میں ہوں گا۔ میں نے یہ درخواست کی تھی اور ایک سال تک انتظار کیا، سال کے بعد تمام منظوریوں کے بعد مجھے جواب آیا۔ اس تحریک اور مشن سے وابستگی کا یہ دوسرا روحانی اضافی فائدہ ہے۔

یہ تحریک اور مشن، محمدی مشن ہے اور سارا فیض ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض ہے۔ منہاج القرآن، آقا علیہ السلام کے ہی چشمے سے سیراب ہو رہا ہے۔ بلاشبہ ہر صدی میں جنہوں نے ایسے کام کیے اور دین و ایمان کو زندہ کیا، تجدید کی، وہ آقا علیہ السلام کے فیض سے ہی کیا۔ ہر صدی میں جنہوں نے اتنے بڑے کام کیے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیض اور اللہ کی مدد کے ساتھ ہی ممکن ہوئے۔ ہمارے بعد کی صدیوں میں بھی اللہ جن کو چنے گا اور ایسے کام جن کے سپرد کرے گا، انہیں بھی اپنی خاص مدد اور آقا علیہ السلام کے فیض سے ہی نوازے گا اور اسی سے ہی تکمیل ہوگی۔ اتنا بڑا کام انسانی وسائل و ذرائع سے نہیں ہوتا۔ یہ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے ہی ہوتا ہے۔

اس وابستگی کا مطلب یہ ہے کہ تجدید دین کا کام جو ہو رہا ہے، بندہ اُس تجدید کا حصہ بن جاتا ہے۔ اپنے ایمان کی بھی تجدید کرتا ہے اور امت اور سوسائٹی کے ایمان کی تجدید کے اجتماعی process کا حصہ بھی بن جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں مصطفوی مشن پر استقامت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

تحریک کی تجدیدی خدمات پر ایک نظر

17 اکتوبر1980ء تحریک منہاج القرآن نے اپنے آغاز سے لے کر آج تک 37 سالوں میں قومی و بین الاقوامی سطح پر عدیم النظیر خدمات سرانجام دیں۔ بلاشبہ تحریک اس صدی کی تجدیدی تحریک ہے جو مجدّدِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں احیائے اسلام، تجدیدِ دین، اصلاحِ احوال، قیامِ امن اور بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے لئے ہر سطح پر مصروفِ عمل ہے۔ ذیل میں تحریک کی تجدیدی خدمات کا ایک اجمالی جائزہ نذرِ قارئین ہے:

  1. فروغِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  • دنیا بھر میں فروغ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنسز کا انعقاد
  • عقیدہ رسالت کا حقیقی و علمی دفاع
  • گستاخی رسالت کے خلاف قانون سازی میں کردار
  • عالمی سطح پر گستاخی رسالت کے خلاف آواز بلند کرنا
  • عالمی محفل میلاد کا تین عشروں سے انعقاد
  • میلاد فیسٹیول کے ذریعے نئی نسلوں میں عشق رسول کا فروغ
  • امت میں ضیافت میلاد کے کلچر کو بحال کرنا
  1. اعتقادی خدمات
  • عقیدہ رسالت کا دفاع اور فروغ
  • عقیدہ توحید اور اس سے متعلق اشکالات کا ازالہ
  • دورہ صحیح البخاری اور دورہ صحیح مسلم کا انعقاد
  • جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا بھر میں ایک کلچر بنانا
  • عقیدہ سیدنا امام محمد مہدی کے بارے میں امت کے اشکالات کا خاتمہ
  • دفاع شان شیخین رضی اللہ عنہما
  • دفاع شان علی شیر خدا رضی اللہ عنہ
  • عقیدہ ختم نبوت کا علمی و فکری ہر سطح پر دفاع
  • عقیدہ ختم نبوت پر سب سے ضخیم کتاب
  • عقائد کے باب میں 70 سے زائد کتب کی اشاعت
  1. دعوت و تبلیغ اور اشاعت اسلام
  • 6000 سے زائد موضوعات پر خطابات
  • 530 سے زائد کتب کی اشاعت
  • دنیا بھر میں لائبریریز اور سیل سینٹرز کا قیام
  • تعلیمات اسلام کو میڈیا کے ذریعے گھر گھر پہنچانا
  • بین الاقوامی یونیورسٹیز میں لیکچرز
  1. اصلاحی خدمات
  • اعتقادی اصلاح احوال
  1. توحید و رسالت کے عقیدے میں توازن قائم کرنا
  2. اہل سنت کے عقائد میں پیدا ہونے والے بگاڑ کی اصلاح
  3. مناظرانہ کلچر کا خاتمہ
  4. بین المسالک رواداری کا قیام
  • فکری و نظریاتی اصلاح احوال
  1. مایوس قوم کو فتح کا یقین دلانا
  2. قرآنی فلسفہ انقلاب کے ذریعے انقلاب کی فکر کو مضبوط کرنا
  3. 60 سالوں سے بے منزل قوم کو منزل کا شعور دینا
  4. قوم کو اس کے دشمن نظام سے آگاہ کرنا
  • اخلاقی و روحانی اصلاح احوال
  1. تصوف کے علمی احیاء میں خدمات
  2. تصوف کی تاریخ اور اسکے دیگر موضوعات پر 100 لیکچرز
  3. تصوف کے عملی احیاء میں خدمات
  4. تصوف پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب
  5. دنیا بھر میں لاکھوں کارکنان کا پرامن کردار و عمل
  6. تین عشروں سے سالانہ روحانی اجتماع کا انعقاد اور لاکھوں افراد کے لئے توبہ کے ماحول کی فراہمی
  • علمی و تعلیمی اصلاح احوال

تعلیمی ثنویت کا خاتمہ

توجہی نہیں تخلیقی علم کا فروغ

  1. علم الحدیث میں گرانقدر خدمات
  • علم حدیث میں 100 سے زائد کتب کی اشاعت
  • علمی دنیا میں 5 صدیوں کے بعد ایک معرکۃ کتاب المنہاج السوی کی اشاعت
  • معارج السنن (موضوعات ترتیب کے لحاظ سے) احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسلامی تاریخ کا دوسرا بڑا ذخیرہ
  1. تعلیمی و تدریسی خدمات
  • MES کا قیام
  • کالجز آف شریعہ کا قیام
  • چارٹرڈ یونیورسٹی کا قیام
  • غیر سرکاری سطح پر دنیا بھر میں تعلیمی اداروں اور اسلامک سینٹرز کا قیام
  • قدیم نصاب میں ترمیم
  1. تنظیمی نیٹ ورک کا قیام
  • یونین کونسل سطح تک مضبوط ترین تنظیمی نیٹ ورک کا قیام
  • دنیا کے 100 سے زائد ملک میں تنظیمی نیٹ ورک کا قیام
  1. سیاسی خدمات
  • پاکستان عوامی تحریک کا قیام
  • عوام الناس کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی تربیت
  • سیاست میں مثبت تنقید اور حقیقی اپوزیشن کا کردار
  • نوجوان نسل کی درست سمت سیاسی و سماجی رہنمائی
  1. آئینی و قانونی شعور کا فروغ
  • تحریک بیداری شعور کا آغاز
  • انتخابی اصلاحات کا تعارف اور نفاذ کیلئے تاریخ ساز کوشش
  • عوام کے آئینی حقوق شعور کی آگاہی
  • تبدیلی نظام کیلئے تاریخ ساز انقلاب مارچ اور دھرنا
  • منزل کے حصول تک جدوجہد جاری رکھنا
  1. فلاحی خدمات
  • منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کا قیام
  • تعلیم میں فلاحی خدمات
  • صحت کی سہولیات کی فراہمی میں خدمات
  • فلاح عام میں خدمات
  1. تبدیلی نظام کی جہد مسلسل
  • قوم کو ان کے حقیقی مسائل سے آگاہی
  • نظام کی تبدیلی کی انقلابی جدوجہد
  • ملکی مسائل اور ان کے حل کی فراہمی
  • احتساب کے نظام کی فراہمی
  • تعلیمی نظام میں وسعت کا فارمولا
  • ملک کے عدالتی نظام کے مسائل کا حل
  • ملک کے انتظامی مسائل کا حل
  • ملکی سیاسی مسائل اور ان کا حل
  • وسائل کی فراہمی کا انقلابی منصوبہ

تحریک منہاج القرآن کے فکری و نظریاتی امتیازات

  1. جامعیت
  2. خالصیت
  3. صالحیت
  4. انقلابیت
  5. آفاقیت

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2017

تبصرہ