رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا کہ:

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

حکیم الامت کے اس شعر کی تفسیر پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پورے اترتے ہیں، مجالس العلم ہوں تو شیخ الاسلام کی محققانہ، مفسرانہ، مفکرانہ اور صوفیانہ گفتگو کانوں میں رس گھولتی اور حلقہ یاراں کو اپنا گرویدہ بناتی اور ذہنِ انسانی کو قلب و نظر کی وسعتوں کے ایک نئے جہان سے جوڑ دیتی ہے اور جب معاملہ فرعونی اقتدار کے ’’ورثاء‘‘ کے ظلم و ستم، استکبار و استکراہ اور استبدادی طرز حکومت کا ہو تو وہ اقبال کے ’’فولادی مومن‘‘ کی عملی تصویر بن جاتے ہیں اور پھر ان کی زبان ہر قسم کی مصلحتوں سے پاک کلمہ حق ادا کرتی اور ان کے دلائل مخالفین کے لیے اژدھا موسیٰ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

دنیا میں بہت کم ایسی ہستیاں آئیں جنہوں نے اپنی مختصر زندگی میں ہمہ جہت علمی خدمات انجام دی ہوں۔ مطالعہ تاریخ سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ایک وقت میں ایک علم میں رسوخ و ثقاہت کے حامل اہل علم موجود رہے اور اپنے علم و فضل سے فکری اندھیروں میں بھٹکنے والوں کو روشنی فراہم کرتے رہے، کسی دور میں علمِ حدیث کے ماہر ملتے ہیں، کسی دور میں مفسر قرآن، کسی دور میں اصول فقہ کے ماہر ملتے ہیں اور کسی دور میں اہل تصوف روحانی و باطنی کے رازوں کو آشکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نابغہ روزگار کی اس فہرست میں ان گنے چنے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی شخصیت کو اللہ نے ہمہ جہت بنایا، فہم و فراست سے نوازا اور پھر یہ توفیق بھی بخشی کہ وہ اپنی زندگی کے اندر اپنی فکر اور نظریے کو قرطاس ابیض پر اتاریں اور اسے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کے لیے ذریعہ رہنمائی بنا دیں۔

شیخ الاسلام نے ایک ہزار سے زائد کتب تصنیف کیں جن میں 552 زیور طبع سے آراستہ ہو چکیں، ان کی تصنیف علوم القرآن، علوم الحدیث، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، علوم الفقہ، سیاسیات، معاشیات، اخلاقیات، دعوت و تبلیغ، بین الادیان مکالمہ، حقوق اللہ، حقوق العباد، تاریخ اور تصوف کے ساتھ ساتھ ان کا اسی طاقت کا حامل قلم آئین، جمہوریت، عدل و انصاف، قانون، معیشت و معاشرت، کے موضوعات پر بھی چلا اوراپنوں کے ساتھ ساتھ مخالفین بھی عش عش کر اٹھے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی زندگی کے ہر لمحہ سے انصاف کیا اور ہمیشہ انصاف سے کام لیا، انہوں نے اگر سیاست کی پرخار وادی میں قدم رکھا تو روایتی سیاستدانوں کی طرح اقتدار اور مراعات کو مقصدِ حیات نہیں بنایا بلکہ عوام کے آئینی حقوق کی بازیابی کیلئے اپنی جملہ صلاحیتوں اور فہم و فہراست کو بروئے کار لائے اور اہل پاکستان کی فکری آبیاری کی، ان کو ان کے آئینی، انسانی اور دینی حقوق سے روشناس کروایا۔ بحیثیت سیاستدان انہوں نے نہ صرف جمہوری نظام کی خامیوں کو اجاگر کیا بلکہ آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرنے کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے انتخابی نظام کو دھاندلی اور کرپٹ پریکٹسز سے پاک کرنے کے لیے اپنی تمام توانائیاں استعمال کیں اور انتخابی نظام کو آئین اور عوامی امنگوں کا ترجمان بنانے کے لیے جنوری 2013 ء کے یخ بستہ شب و روز میں لاہور سے اسلام آباد لاکھوں شہریوں کے ہمراہ لانگ مارچ کیا اور پوری قوم کی توجہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 سمیت ان 40 آرٹیکلز کی طرف مبذول کروائی جو صرف خواص کے مفادات کی تکمیل تک محدود کر دئیے گئے تھے۔ ان کی جدوجہد کا نیوکلیس عام آدمی کی فلاح و بہبود اور خوشحالی تھی، ان کی سیاسی فکر تھی کہ ’’بددیانت کی کامیابی سے کبھی تبدیلی نہیں آئے گی‘‘۔ مخالفین ان کے دلائل و براہین کا جواب دینے میں عاجز آجاتے تو ان پر آئین تلپٹ اور جمہوریت ختم کرنے کا الزام لگاتے۔ اس کا مقصد پاکستان کے عوام میں انہیں ڈس کریڈٹ کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ مغربی ممالک کو یہ پیغام دینا ہوتا تھا کہ ہم جمہوری نظام کے محافظ ہیں، ہماری پشت پر ہاتھ رکھا جائے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مخالفین کے اس الزام کو رد کیا۔ 23 دسمبر 2012ء کے دن مینار پاکستان کے سائے میں انہوں نے حلف دے کر کہا کہ میری جدوجہد آئین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرنے کے لیے ہے، ہم جمہوریت اور آئین کے خلاف نہیں ہیں بلکہ سیاست کو غلاظت سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ آغاز میں کہا کہ وہ ایک منصف بھی ہیں جواپنے کام، فکر اور ارادوں سے بھی انصاف کرتے ہیں۔ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی سیاسی جدوجہد میں ریاست مدینہ کے دستور کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ وطن سے وفاداری، قومی سلامتی کے تحفظ اور فرقہ واریت کے خاتمے کا عہد کیا بھی اور عہد لیا بھی ۔

تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کی سیاسی و دینی جدوجہد کے دوران سانحہ ماڈل ٹاؤن کا خون آلود باب بھی آتا ہے، اشرافیہ نے اپنے فرعونی تخت کو بچانے کے لیے ماڈل ٹاؤن میں معصوم شہریوں کاقتل عام کیا اور پھر اس کی غیر جانبدار تفتیش بھی نہ ہونے دی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری 17 جون 2014ء سے لے کر تاحال ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے غیور، جرأت مند اور شہید کارکنوں کے انصاف سے غافل نہ ہوئے۔ انہوں نے غریب کارکنوں کے انصاف کی جنگ لڑنے کا حق ادا کر دیا۔ وہ اس ضمن میں کہتے ہیں کہ اگر ہماری جگہ کوئی اور ہوتا تو کب کا خون بک چکا ہوتا اور لوگ اس سانحہ کا ذکر بھی بھول چکے ہوتے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بہترین وکلاء کے ذریعے انصاف کی جنگ لڑی اور پھر ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ وہ خود سپریم کورٹ میں یتیم بچوں کو انصاف دلوانے کے لیے سب سے بڑی عدالت کے سب سے بڑے ججز کے سامنے کھڑے ہو گئے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لیے غیر جانبدار نئی جے آئی ٹی کی ناگزیریت پر دلائل دئیے اور لارجر بنچ کو اپنے دلائل سے مطمئن کیا۔ ان کی کٹھن جدوجہد اور دلائل سے لارجر بنچ نے نئی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا۔ کم ازکم پاکستان کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جا سکتی کہ ایک قائد اپنے غریب کارکنوں کے لیے اس طرح لڑا ہو اور کامیاب ہوا ہو۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہر مظلوم کا ساتھ دیا اور ردعمل کی پروا کیے بغیر سینہ سپر ہوئے۔ جب قصور کی ننھی زینب درندگی کی بھینٹ چڑھی تو وہ خود قصور گئے اور ننھی زینب کی نماز جنازہ ادا کی۔ ان کے اس طرح قصور جانے سے فرعونی اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال آگیا اور پھر پاکستان سمیت پوری دنیا کے عوام زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف ڈٹ گئے۔ حکومت کے پاس زینب کے قاتل کو گرفتار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھااور اس طرح زینب کے قاتل کی گرفتاری عمل میں آسکی اور انصاف ممکن ہو سکا۔انہوں نے زینب کی پہلی برسی کے موقع پر قانون شہادت میں موجود سقم دور کرنے کا مطالبہ کیا اور مقتدر ایوانوں کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ بچوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ قانون شہادت میں ڈی این اے کو Conclusive Evidence تسلیم کیا جائے کیونکہ یہ جرم خفیہ ہوتا ہے، چشم دید گواہان موجود نہیں ہوتے اور اسی نقص کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوسائٹی کے بدترین عناصر سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ بچوں سے بداخلاقی کے واقعات کی ایف آئی آر 7 اے ٹی اے کے تحت درج کی جائے اور اسے معمول کا جرم نہ سمجھا جائے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی پوری زندگی انسانیت کی خدمت اور انصاف کی فراہمی کے لیے وقف کی، آج ہم ان کی 68 ویں سالگرہ منارہے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازے رکھے اور وہ اپنے لاکھوں، کروڑوں چاہنے والوں کے سروں پر ہمیشہ سلامت رہیں۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، فروری 2019ء

تبصرہ