تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف 2011ء کا دوسرا دن

اعتکاف کے دوسرے روز مؤرخہ 23 اگست 2011ء کو بعد از نماز فجر تزکیہء نفس، فہم دین، اصلاح احوال، توبہ اور آنسوؤں کی بستی، تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں شریک ہزاروں معتکفین و معتکفات سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے سلوک و تصوف کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ سلوک تصوف میں یہ بات صوفیاء و عرفاء کے درمیان طے شدہ ہے کہ سلوک الی اللہ میں بہت سی منزلیں آتی ہیں۔ بہت سے کیفیات، احوال اور مقامات آتے ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ ناپائیدار چیز کیفیت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب انسان اللہ کی راہ میں ذاکر ہوتا ہے تو اس کے دل پر انوار کی واردات ہوتی ہیں۔ اور جب مناجات کرتا ہے تو اس کے دل پر دعوات و مناجات وارد ہوتے ہیں۔ انسان اللہ کی جتنی اطاعت و عبادات کرتا چلا جاتا ہے تو اسے فرائض و نوافل سب میں تجلیات نصیب ہوتی ہیں۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ جیسے انسان کی شخصیت میں پانی کی ٹھنڈک اثر دکھاتی ہے، اسی طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب بندہ راضی ہو جائے تو رضا کے اثرات حلاوت و لذت کے طور پر انسان کو ملتے ہیں، جس سے کیفیت بنتی ہے۔ پھر جب وہ عبادت کرتا ہے اور کلام الٰہی کی تلاوت کرتا ہے تو اس کو کیفیات نصیب ہوتی ہیں۔

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَO

بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گےo

صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آپ کی مجلس میں ہوتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے جنت و دوزخ ہمارے سامنے ہیں۔ جب گھر واپس جاتے ہیں تو ساری کیفیت جاتی رہتی ہیں۔ اس پر آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ جب کیفیت آئے اور جائے تو یہ ایمان کی حالت ہے۔ اس سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔

جب انسان پر کیفیت وارد ہوتی ہے تو پھر اس پر نور ٹپکتا ہے۔ کئی ایسے ہوتے ہیں، جن پر انوار کا ایک ایک قطرہ ٹپکتا ہے۔ ان میں سے کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جن پر نور برستا ہے۔ جن پر نور کی برسات ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض ایسے خوش نصیب ہیں، جن کا دل نور کی وجہ سے مالاء اعلیٰ بن جاتا ہے۔ یہ انسان کی کیفیات ہیں۔ کیونکہ جب انسان میں صرف صحبت کا اثر ہو اور اپنی ریاضت نہ ہو تو پھر اس کی شخصیت میں انوار و کیفیات کا اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔

پھر آقا علیہ السلام نے کہا کہ جو کیفیت میری مجلس میں ہوتی ہے اگر وہ گھر جا کر بھی برقرار رہے تو پھر تمہارا حال یہ ہو جائے تو تم گلیوں میں چلو اور دائیں، بائیں ملائکہ اتریں اور وہ تم سے مصافحہ کرنے کے لیے قطار اندار قطار انتظار کریں۔

آپ نے کہا کہ اگر کیفیت زیادہ دیر تک رہے تو اس کو حالت کہتے ہیں۔ روحانی اصطلاح میں ایسے شخص کو صاحب حال کہتے ہیں۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ جب انسان اللہ کے تعلق میں مست رہے تو اس کو کوئی برا بھلا بھی کہتا رہے تو اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ جو لطف اس کو لوگوں کی تعریف اور مدحت سے ملنا تھا، اس سے کروڑہا درجے بہتر اللہ کی طرف سے ملتا ہے۔ اس لیے ان کو لوگوں کی پرواہ نہیں ہوتی۔

دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

کبھی کبھی انسان کے "حال" میں اونچ نیچ ہوتی ہے اور تغیر بھی آتا ہے۔ دوسری جانب شیطان اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ انسان ساری زندگی محنت کرے، لیکن اس کو ذوق نہ ملے۔ یا وہ اس پر خوش ہوتا ہے کہ بندے کو عبادت کی توفیق ہی نہ ملے۔ جو انسان غافل ہے شیطان اس سے مطمئن ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ جو آدمی غفلت چھوڑ دے اور ذاکر ہو جائے تو اس کے لیے شیطان تڑپنے لگ جاتا ہے۔ جوں جوں بندہ سلوک الی اللہ کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے توں توں شیطان کے حملے بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ شیطان کے حملے اس وقت شکست خوردہ ہو جاتے ہیں، جب بندہ صاحب مقام ہو جاتا ہے تو اسے صاحب مقام بننے کے بعد اپنے مقام کی محفاظت کرنی پڑتی ہے۔

پھر انسان کو اپنے اندر مراقبہ، محاسبہ، مجاہدہ، مقافحہ اور مکالمہ کرنا ہوتا ہے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ ہم تو دن بھر کے اعمال کا بھی محاسبہ نہیں کرتے۔ ہم سے پہلے لوگوں کا یہ عالم تھا کہ وہ دن بھر کے خیالات کا بھی محاسبہ کرتے تھے۔

آپ نے کہا کہ سلوک و تصوف کی راہ میں انسان اس وقت تک پختہ نہیں ہوتا، جب تک اس کی بنیاد مضبوط نہ ہو۔ سلوک و تصوف کی راہ میں بنیادیں جتنی مضبوط ہوں گی اوپر کی منزلیں بھی اتنی ہی مضبوط بنتی چلی جائیں گی۔ ورنہ وہ آگے جا کر دھڑام سے نیچے گر جائے گا۔ مضبوط بنیاد ہونے پر انسان کو پتہ چلتا ہے کہ کیفیات کے بعد حال تک کیسے جانا ہے۔ پھر نفس کے حملوں سے کیسے بچنا ہے۔ نفس عمارہ کے حملوں سے کیسے بچنا ہے۔ نفس کی پہچان ہوگی تو حملے کی پہچان ہوگی۔

انسان کی طبعیت پر نفس کبھی شہوت، کبھی کبر اور کبھی غیض و غصہ سے حملہ آور ہوتا ہے۔ اب اس کی پہچان کیسے ہوگی۔ پھر نفس لوامہ کے بھی حملے ہیں۔ نفس ملحمہ کے بھی اتار چڑھاؤ ہیں، یہ نفس مطمئنہ تک پہنچنے کے سب مراحل ہیں۔ اس پورے سفر کو طے کرنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری علم ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تصوف میں جہالت کے ساتھ ان کا کام چل جائے گا تو وہ بہکاوے، گمراہی اور مغالطے میں ہیں۔ علم صحیح اور علم نافع کے بغیر کوئی تصوف نہیں ہے۔ روحانی علم کے بغیر نہ مرض کی تشخیص ہوتی ہے اور نہ علاج۔

آپ نے کہا کہ جن لوگوں نے طریقت اور تصوف کو کاروبار بنا لیا ہے تو وہ مریدوں کے سامنے علم کی نفی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ علم تو علماء کا کام ہے، ہم تو حال والے لوگ ہیں۔ یہ جہالت کی انتہاء ہے اور یہ مرض پاکستان اور ہندوستان میں عام ہے۔ آپ نے کہا کہ طریقت و تصوف ایک فن ہے۔ اس فن کے ماہر اولیاء و صوفیاء ہیں۔ جو علم کے بغیر نامکمل ہیں۔

آپ نے کہا کہ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش کے لوگ سن لیں کہ شریعت کے بغیر کبھی طریقت نہیں ملتی۔ جو ایسا دعویٰ کرے وہ دجال ہے۔ وہ جھوٹا اور کاذب ہے۔ ایسے شخص کا سوائے جہنم کے کوئی ٹھکانہ نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیشیوں نے تصوف کو تعویذ اور رکھ گنڈے کا نام دے دیا ہے۔

حضور غوث الاعظم، بایزید بسطامی، جنید بغدادی، داتا گنج بخش علی ہجویری نے فرمایا کہ شریعت کے بغیر عمل کا دعویٰ باطل ہے۔ شریعت کے بغیر دعویٰ طریقت کرنے والا شیطان اور دجال ہے۔ وہ پیر نہیں وہ شیطان ہے۔ شیخ الاسلام نے کہا ہے کہ بغیر عمل کے پیری کا دعویٰ کرنے والے دھوکے باز ہیں۔ اعمال صالح کے بغیر صرف نسبت سے بیڑا پار کرنے کا تصور اولیائے کرام کے ہاں نہیں تھا یہ تصور جاہلوں اور دنیا پرستوں کا ہے۔ شریعت پر عمل کئے بغیر جو طریقت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، کاذب اور شیطان ہے۔ تصوف حسن اعمال، حسن احوال اور حسن اخلاق کا نام ہے جبکہ ہمارا معاشرہ حقیقت تصوف کو سمجھنے کے حوالے سے دو انتہاؤں پر کھڑا ہے، ایک طرف تصوف کا کلیتاً انکار ہے جبکہ دوسری طرف اسکے نام پر کاروبار کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی کہ آج تعویذ گنڈوں اور پھونکوں کو تصوف سمجھ لیا گیا ہے اور یہ تصور پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں بکثرت پایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیک اعمال کرنے والے شخص کو اللہ کی طرف سے خاص کیفیت نصیب ہوتی ہے اور یہ کیفیت کچھ دیر کیلئے آ کر چلی جاتی ہے۔ صاحب حال وہ ہے جس پر کیفیت زیادہ دیر کیلئے رہے اور صاحب مقام کو اللہ کے انوار و تجلیات کی کیفیت میں دوام حاصل ہو جاتا ہے۔ صاحب مقام ہونے سے پہلے سالک پر شیطان، نفس اور دنیا کا حملہ شدید تر ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ علم نافع صاحب مقام کی حفاظت کرتا ہے۔ آنے والے وقت میں علم نافع کے بغیر برتری کا کوئی تصور نہیں ہے، اس لئے جاہل ملاؤں اور دنیا دار پیروں سے دامن بچا کر اہل علم اور حقیقی اللہ والوں کی صحبت اختیار کی جا نی چاہیے تاکہ ایمان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کا عمل جاری رہ سکے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ آج مادیت کے غلبہ کے باعث ہم دن بھر کے اعمال کا رات کو محاسبہ نہیں کرتے جبکہ ہمارے اسلاف دن بھر آنے والے خیالات اور وسوسوں کا بھی محاسبہ کیا کرتے تھے اور خیالات میں ہلکے سے بگاڑ پر اتنے متفکر ہو جاتے تھے کہ عبادت اور مجاہدہ سے اس خیال سے چھٹکارا پانے کی محنت کیا کرتے تھے۔

شیخ الاسلام کا خطاب سوا 7 بجے ختم ہوا۔ خطاب کے اختتام پر آپ نے دعا کرائی۔

تبصرہ