مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے زیراہتمام مہمند ایجنسی میں نیٹو جارحیت کے خلاف لاہور پریس کلب کے سامنے سینکڑوں طلبہ نے پر امن احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے میں شریک طلبہ نے کتبے اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر نیٹوجارحیت کے خلاف اور پاک فوج کے ساتھ اظہار یکجہٹی کے نعرے درج تھے۔ مظاہرے کی قیادت مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے مرکزی صدر تجمل حسین نے کی۔ مظاہرین نے اپنے نعروں میں مطالبہ کیا کہ حکومت اس معاملے کو فورا اقوام متحدہ کے فورم پر اٹھائے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے مرکزی صدر تجمل حسین نے کہا کہ نیٹو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو بالائے طاق رکھ کر اسکی سالمیت پر حملہ آور ہے جو ناقابل برداشت عمل ہے۔ پاکستان آرمی پاکستان کے دفاع کی ذمہ دار ہے۔ پاکستان آرمی کے خلاف ہونیوالی کارروائی براہ راست پاکستان پر حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ اور نوجوان نیٹو کی اس غیر ذمہ درانہ اور بزدلانہ کارروائی پر سراپا احتجاج ہیں حکومت عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے عالمی اداروں اور مؤثر ممالک کو شدید احتجاج نوٹ کروائے تا کہ آئندہ ایسی کارروائی کی کسی کو جرآت نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بڑے اور اہم فیصلے کئے جائیں۔
مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے سیکرٹری جنرل عبدالغفار مصطفوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمران غلامی کا طوق اتار کر ملک کی خود مختاری پر حملہ کرنے والوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔ انہوں نے کہا کہ نیٹو فورسز کا حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور ملکی خود مختاری کے خلاف ہے۔ عوام حملے کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور حکمران صرف مذمت سے کام لے رہے ہیں۔ مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے طلبہ نے پاک فوج زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگا کر پاکستانی افواج سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔
مظاہرہ میں مختلف کالجز اور یونیورسٹیز کے سینکڑوں طلبہ اور نوجوانوں نے شرکت کی۔ مظاہرین نے پاک فوج کی حمایت میں اور نیٹو فورسز کے خلاف کتبے اٹھا رکھے تھے۔ سینکڑوں طلبہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پوری قوم افوج پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے اور کسی کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہونی چاہیے۔ طلبہ نے مطالبہ کیا کہ خود مختار معاشی پالیسیاں ہی پاکستان کو خطے میں عزت و وقار عطا کرسکتی ہیں اس لئے کشکول توڑ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ احتجاجی مظاہرے سے میاں عرفان آصف اور دیگر طلبہ رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔
تبصرہ