ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا معتکفین سے خطاب

شہر اعتکاف کے دوسرے روز 11 اگست 2012ء کو نماز عصر کے بعد صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے فلسفہ وحدت و اجتماعیت اور ہماری تحریکی زندگی کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ کا خطاب منہاج ٹی وی کے ذریعے براہ راست نشر کیاگیا۔

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کہا کہ وحدت کا فلسفہ انسان کی اصل سے متعلق ہے۔ جس طرح انسان کی ابتداء عارضی اور ناقص تھی، اسی طرح انسان کی انتہاء بھی ناقص ہے۔ انہوں نے کہا کہ کائنات کی اِبتداء بھی وحدت سے اور کائنات عروج پر جائے گی تو وحدت پر منتج ہوگی۔ تصور تخلیق کے عناصر اربعہ میں سے پہلا عنصر یہ ہے کہ کائنات کی تخلیق کا آغاز ابتداء ایک تخلیقی وحدت Primary Single Mass سے ہوا۔ قرآن مجید کا عطا کردہ تصور یہ ہے کہ کائنات کے بالائی اور زیریں حصے (زمین و آسمان) سب کچھ ایک وحدت (Unique Mass) کی طرح باہم پیوست تھے، یعنی ایک بلاک (Block) کی طرح تھے۔ بالآخر اسی تخلیقی وحدت کو پھوڑا گیا اور مختلف حصے ایک دوسرے سے جُدا جُدا ہوگئے۔

انہوں نے کہا کہ جب انسان غیر مذکور تھا، تو نور مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کن، فیکون بن گیا۔ سائنس کہتی ہے کہ جب اکائی جڑی ہوئی تھی، تو ایک جز تھی، یہ اکائی نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجتماعیت بن گئی۔ 1915ء سے پہلے نیوٹن نے ایک نظریہ دیا کہ یہ کائنات جامد ہے۔ پھر 1915ء میں آئن سٹائن نے اس نظریہ کو رد کر دیا۔ اس طرح کائنات میں کئی نظریات رد ہوتے گئے لیکن کائنات کی جو اکائی تھی، جس نے کائنات کو جنم دیا تھا، یہ فلسفہ حقیقت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں چھپا ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو 7 طبقات میں تقسیم کیا اور زمین کو بھی اس کی مثل بنا دیا اور زمین کی 7 لیئرز رکھ دیں۔ اللہ تعالیٰ کائنات کو جیسے چاہتا تھا، بناتا چلا گیا۔ پھر اللہ نے زمین کو بنانے کے بعد اس کو سنبھالنا بھی تھا تو اس پر پہاڑ نصب کر دیا کہ یہ کہیں ادھر سے ادھر نہ ہو جائے۔ پھر فرمایا کہ اس وادی زمین کی حفاظت تب تک ہوگی، جب تک زمین کی وادی پر یہ پہاڑ ہوں گے۔ اس طرح انسان کا جسم ہے جس میں ایک دل ہے، جس کی حفاظت کے لیے اس دل کے اردگرد کا نظام بنا دیا۔ یہ دل دھڑکتا رہے گا تو انسان کا جسم توانا اور زندہ رہے گا۔ جب دل کی دھڑکن رک گئی تو پھر یہ جسم مردہ ہو جائے گا۔ یہ فلسفہ وحدت ہے۔

کائنات کی وسعت پر اقبال نے فرمایا

يہ کائنات ابھي ناتمام ہے شايد
کہ آرہي ہے دما دم صدائے 'کن فيکون'

کائنات کی ابتداء وحدت ہے تو اس کی انتہاء بھی وحدانیت پر ہی ہے۔

اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر یعنی کیمیائی مادے سے تخلیق کیا پھر اس کو نطفے میں منتقل کیا، پھر اسے مدغہ میں منتقل کیا، پھر اس کو ایک پردا دے دیا، اس کو مخلوق میں تبدیل کر دیا کیونکہ جب اللہ مرحلے بدلتا ہے تو اس کی شکلیں بھی تبدیل ہوتی جاتی ہیں۔ انسان کو ایسے حسین پیکر میں بنایا کہ اس کو دیکھ کر کوئی اس کی تکمیل کے مرحلے پر غور بھی نہیں کرتا۔ یہ سب کچھ بوسیلہ تخلیق مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوا۔

انہوں نے کہا کہ جب بچہ آنکھ کھولتا ہے تو وہ روتا آتا ہے۔ اس لیے کہ بچہ اللہ تعالیٰ سے پکارتا ہے کہ اے مولا تو نے وحدت میں رکھا تھا، اب اجتماعیت میں کیوں بھیج دیا؟ تیری وحدت میں جو مزے تھے، وہ اجتماعیت میں نہیں ہیں۔ پھر وہ بچہ اپنے والدین کے تابع ہوجاتا ہے اور بچہ والدین کا محتاج ہوجاتا ہے۔ جب بندہ کسی کا محتاج ہوجائے تو سمجھ لو کہ یہ اجتماعیت میں آ گیا۔ اجتماعیت میں محتاجی ہے، وحدت میں محتاجی نہیں ہے۔ اوپر روحیں ایک جیسی تھیں، لیکن یہاں نیچے کوئی کیسا ہے، کوئی کیسا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اللہ نے اپنے حق کے لیے دل کا انتخاب کیا۔ اس لیے رات کی تاریکی اور اندھیرے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تہجد پڑھنے کا حکم دیا۔ سارا دن جسم کی مدد سے حقوق العباد ادا کرو، جب رات کے اندھیرے چھا جائیں تو قلب کی حقیقت سے نماز تہجد سے مجھے مناؤ۔ دل خالص ہے، جس سے مولا کو مناؤ۔ لوگو! للہیت اسی میں ہے کہ دل سے عبادت کر کے اللہ کو مناؤ کیونکہ جب مولا خوش نہیں ہوگا تو پھر حقوق العباد کی ادائیگی بھی نصیب نہیں ہوگی۔ بس یہی نقطہ وحدت ہے، جو اجتماعیت میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔

تبصرہ