پاکستان عوامی تحریک غیرآئینی الیکشن کمشن کے تحت انتخابات میں حصہ نہیں لے گی، ڈاکٹر طاہرالقادری کا راولپنڈی میں جلسے سے خطاب

خطاب کا متن پڑھنے کے لیے
یہاں کلک کریں

لیاقت باغ سے۔ ۔ ۔ ۔ ایم ایس پاکستانی

پاکستان عوامی تحریک کے زیراہتمام غریب دشمن نظام کے خلاف تاریخ ساز جلسہ عام (لیاقت باغ، راولپنڈی) سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ آج میرا خطاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ خطاب کا پہلا حصہ پاکستان کی موجودہ صورتحال کے تجزیہ پر مشتمل ہوگا۔ دوسرا حصہ امید اور یقین پر، تیسرا حصہ ویژن کے حوالے سے ہوگا کہ قوم پاکستان کے مستقبل سے مایوس نہ ہو۔ چوتھا حصہ موجودہ سیاسی حالات میں تبدیلی لانے کے طریق کار پر منحصر ہوگا۔ جبکہ پانچواں حصہ تبدیلی کے لائحہ عمل پر مشتمل ہوگا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ میں 2002 میں رکن اسمبلی بنا اور اس کے اندر کی صورتحال دیکھ کراستعفیٰ دے دیا، میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اسوقت بھی اکثر و بیشتر وہی لوگ اسمبلی میں تھے، جو آج بھی پارلیمنٹ میں ہیں۔ اس ملک کا نام نہاد سیاسی نظام، جمہوریت یا ڈکٹیٹر شپ سمیت سب کچھ اشرافیہ کی حفاظت کے لیے ہے۔ اس پورے نظام میں پاکستان کی عوام بالکل خارج ہے۔ 2004 سے 2012 تک 8 سال تک، میں نے اس ملک کے انتخابی نظام کے خلاف بیداری شعور کے نام سے ایک آواز کو مہم کی صورت میں بلند کیا۔ جس کے تحت آج یہ جلسہ بھی ہو رہا ہے۔ پھر 23 دسمبر کو مینار پاکستان پر اس تبدیلی کے پیغام کو عام کرنے کے لیے تاریخ کا سب سے بڑا، عظیم الشان اور فقید المثال جلسہ منعقد کیا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ہم نے اس ملک میں آئینی و قانونی مہم کو شروع کیا۔ پھر پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں اسلام آباد کی شاہراوں نے ایک تاریخی دھرنا دیکھا۔ جس میں امن کا یہ عالم کہ ایک پتا نہ ٹوٹا، ایک شیشہ نہ ٹوٹا، امن اور ڈسپلن لازوال کی مثال، جمہوری روئیے کی ایک لازوال مثال یہ دھرنا، جس نے ساری دنیا میں پاکستان کا نام بلند کر دیا، وقار بلند کر دیا۔ ہم نے اقوام عالم کو یہ رخ دکھایا اور پیغام دیا کہ پاکستانی قوم سے بڑھ کر کوئی قوم دنیا میں منظم نہیں۔ یہ وہ قوم ہے کہ جس نے ثابت کر دیا کہ اگر اس قوم کو قیادت ملے تو ساری قوم کا رویہ پانچ دن میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ہم چاہتے تو اس لانگ مارچ کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کی کرسیاں چھین سکتے تھے، لیکن ہم نے امن اور جمہوریت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، ہم نے سنت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔ ہم نے آئین و قانون کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ اس ملک کے غریب عوام، مزدور، ماوں بہنوں اور بھائیوں کے لیے ہم نے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، لیکن قانون بھی طاقتوروں کے قبضہ میں ہے۔ جنہوں نے انصاف کو طاقت سے روکا اور اسے غریب تک نہ پہنچنے دیا۔ لانگ مارچ میں ساری سیاسی جماعتیں اور سیاسی قوتیں ایک طرف تھیں، لیکن مذاکرات کے لیے حکومت کو لانگ مارچ میں آنےسے نہ روک سکے۔

موجودہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 213 کے تحت غیر قانونی ہے۔ بدقسمتی کہ جس جگہ آئین کو شنوائی ملنی تھی، جس جگہ عدل و انصاف ملنا تھا، وہاں عدل و انصاف کی جان نکال لی گئی۔ انہوں نے غیر آئینی الیکشن کمیشن کو تحفظ دیا، جس نے غیر آئینی انتخابات کی تیاریاں کر لی ہیں۔ پارلیمنٹ کمیٹی کے چئیرمین سید خورشید شاہ سے پوچھیں تو انہوں نے دس لوگوں کے سامنے میرے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کہا کہ ہم سے غلطی ہوئی اور ہم نے آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کا انتخاب نہیں کیا۔ اس بات کا اعتراف وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک صاحب نے بھی کیا۔ میں الیکشن کمیشن کے پانچوں اراکین کو کہتا ہوں کہ وہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ ان کی تقرری آئینی اور کمیٹی کے سامنے ہیرنگ ہوئی تھی تو آج میں اپنا دعویٰ واپس لے لوں گا۔ میں تینوں جج صاحبان کو کہتا ہوں کہ وہ بھی قرآن پر ہاتھ رکھ کرکہہ دیں کہ الیکشن کمیشن کی تقرری آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق ہوئی تھی تو میں آج لاکھوں لوگوں کے سامنے اپنا دعویٰ واپس لے لوں گا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ سپریم کورٹ ہر مسئلہ پر سوموٹو لیتا ہے، لیکن الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تقرری پر اس نے سوموٹو نوٹس کیوں نہیں لیا۔ یاد رکھیں اللہ کی عدالت میں ایک دن ضرور جواب دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا الیکشن کمیشن غیر قانونی تھا اور غیر قانونی ہے۔ ایسے الیکشن کمیشن سے آپ جائز اور شفاف انتخابات کی توقع کیسے کرتے ہیں۔ جو ادارہ خود شفاف نہیں، تو وہ پاکستانی قوم کو شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کیسے دےگا۔

انہوں نے کہا کہ آج تک میڈیا پر میرے خلاف جو کچھ بھی ہوا، جس جس نے مجھے گالی دی یا بہتان لگائےتو آج میں سب کو معاف کرتا ہوں۔ آپ نے اگر سو گالیاں بھی دیں تو ہم کسی کا جواب نہیں دیں گے۔ ہم اس قوم کو تہذیب ادب اور برداشت کا کلچر دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ آج بھی لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے پیچھے کون ہیں، میں ان کو بتا دوں کہ میرے پیچھے غریب، محکوم عوام اور وہ لوگ جو اپنی مدد آپ کے تحت قربانیاں دے رہے ہیں۔ اس طرح فنڈ پوچھتے ہو کہ کہاں سے آئے، تم ہم سے صرف چار جلسوں کے فنڈ کا پوچھتے ہو، میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہم عوام کی مدد سے چھ ماہ سے ایک سال تک آئی ایم ایف سمیت پیرس کلب اور تمام غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کا بندوبست کر دیں گے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے خطاب میں کہا کہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ دوہری شہریت کا حامل شخص اس ملک کی عدالت میں نہیں جا سکتا۔ لیکن کل پندرہ مارچ کو الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ دوہری شہریت کا حامل شخص نگران وزیراعظم بن سکتا ہے۔ یہ دوہرے معیار چھوڑ دو اور یک رنگ ہو جائو۔ کتنا جھوٹ اور تضاد ہے کہ دوہری شہریت کا حامل شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا، لیکن نگران وزیراعظم بن سکتا ہے۔ یہ سارے غیر جمہوری حربے ہیں، جن سے انقلاب کا راستہ نہیں روکا جاسکتا، عوام اٹھیں گے اور سب کو کچل کر رکھ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے نام نہاد متوالوں نے دو روز قبل اپنے مفادات کا بل اسمبلی میں پاس کروایا۔ اپنے فنڈ بڑھوانے کا بل پاس کروایا۔ اس کے علاوہ ان پانچ سالوں میں ہر ایم پی اے کو ایک ارب سے لے کر ڈیڑھ ارب تک ترقیاتی فنڈ کے نام پر فنڈ دیئے گئے۔ مجھے بلوچستان کے ایم پی اے نے خود بتایا۔ اگر یہ بات غلط ہو تو میں دعوت دیتا ہوں کہ صدر پاکستان محترم آصف علی زرداری صاحب خود اس کی تردید کردیں۔ دوسری طرف اگر یہی پیسے عوام پر خرچ کیے ہوتے تو یہ دن نہ دیکھنے نہ پڑھتے۔ اس طرح پنجاب اسمبلی میں صرف ایک شخص کو چھوڑ کر باقی کسی وزیر کے پاس کون سی وزارت ہے، یہ کسی کو معلوم ہی نہیں۔ اکیلے وزیراعلیٰ کے پاس اٹھارہ وزارتیں ہیں۔ وہ اربوں روپے غریبوں کے حقوق کے تھے، وہ ایک وزیر کے کھاتے میں چلے گئے۔

حکومت کے آخری دن جس دن چھٹی تھی بینک کھلے رکھنے کا اعلان ہوا، جس سے بینکوں پر ڈاکے ڈالے گئے اور آخری دن بھی کرپشن کے بازار کھول دئیے گئے۔ دوسری طرف وزیراعظم اپنے حلقے میں 37 ارب روپے خرچ کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر قادری کا کہنا تھا کہ آج اسمبلیاں ٹوٹ چکی ہیں لیکن نگران وزیراعظم کا اعلان نہیں ہو سکا۔ اس لیے کہ مزید 9 دن تک وزیراعلیٰ اور وزیراعظم بھی 9، 9 دن تک اپنی کرسیوں پر براجمان رہیں گے اور یہ لوٹ مارکا بازار گرم رہے گا۔ اس پر الیکشن کمیشن اندھا بھی ہے، بہرا بھی ہے، گونگا بھی ہے۔ الیکشن کمیشن ساری کرپشن میں خود شریک ہے۔

انہوں نے کہا کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، ترکی، ملائیشیا، ایران، مصر اور انڈیا سمیت دنیا کے کسی جمہوری ملک میں کئیر ٹیکر حکومت نہیں ہوتی۔ نگران حکومت کی بجائے حکومت خود الیکشن کراتی ہے۔ اُن ممالک میں الیکشن کمیشن اتنا پاور فل ہے کہ حکومت کی مجال نہیں ہوتی ہے کہ ان کے سامنے کرپشن کر سکے، یا دھاندلی کر سکے۔ کئیر ٹیکر حکومت کا ڈرامہ صرف پاکستان میں ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ ہم نے اپنے اداروں کو مضبوط نہیں بنایا، کرپشن اور دھاندلی عروج پر ہے۔

پاکستان میں کونسی جمہوریت؟

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ 2008ء میں یو ایس ڈالر، 68 روپے کا تھا، آج 100 روپے کا ہے۔ آٹا 12 روپے کا ہے، آج 38 سے 45 روپے کا ہے، چینی 43 روپے کی تھی، آج 55 روپے ہے۔ یوریا کھاد 700 روپے کی تھی، آج 1800 روپے میں ہے۔ مرغی 71روپے میں تھی، آج 200 روپے میں ہے۔ چھوٹا گوشت 230 روپے کا تھا، آج 580 روپے کا ہے۔ بجلی کا یونٹ 3.13 پیسے کا تھا، آج 9 روپے سے زائد کا ہے۔ پانچ سالوں میں 40 ہزار لوگ شہید ہو گئے۔ کراچی میں ہر روز شہادتیں ہو رہی ہیں۔ بلوچستان میں لوگ سٹرکوں پر لاشیں رکھ رہے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں۔ پانچ سالوں میں ہمارے مسیحی بھائیوں کے 200 گھر جلا دیئے گئے۔ ارے ظالمو، قائداعظم نے پاکستان کیا ان مقاصد کے لیے بنایا تھا؟

کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے

ڈاکٹر طاہرالقادری نے عوام کو امید کی کرن دکھاتے ہوئے کہا کہ میرے عزیز بہن، بھائیو اور ہم وطنو! آج ان سب حالات کے باوجود آپ نے مایوس نہیں ہونا، مایوس نہیں ہونا، مایوس نہیں ہونا۔ تبدیلی ضرور آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج غریب، محنت کش، مزدور، کسان، طالب علم سمیت معاشرے کا ہر طبقہ زندگی نہیں گزار رہے بلکہ وہ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایسے میں قائداعظم محمد علی جناح نے قوم سے ایک وعدہ کیا تھا کہ پاکستان عوام کو امن و انصاف اور معاشرتی عدل فراہم کرے گا۔ یہ وعدہ پورا ہو رہا ہے؟ کیا آج پڑھے لکھے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ اس ملک میں ڈگری رکھنے والا بے روزگار اور جعلی ڈگری والا اسمبلی میں جاتا ہے۔

قائداعظم نے ہر شخص کو امن اور حفاظت دینے کا وعدہ کیاتھا، کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟ آئین کے آرٹیکل 38 کے مطابق قانون کا تحفظ ہر شخص کو ملے گا۔ کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟ آئین میں ہر بچے کو تعلیم دینے کا وعدہ کیاگیا تھا۔ کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟ آئین کے آرٹیکل کے مطابق مساویانہ معاشی تقسیم کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟ علاج، روزگار کا وعدہ کیا گیا تھا، کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟ آئین میں پہلے چالیس آرٹیکل عوام کے لیے ہیں۔ لیکن آج تک کسی حکومت نے عوام سے ایک آرٹیکل کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ آج 17 مارچ 2013ء کو ہماری جدوجہد کا آخری دن نہیں۔ 23 دسمبر 2012ء کو اپنی جدوجہد کا آغاز کیا، آج سے یہ جدوجہد اپنی اصل روح کے مطابق شروع ہو رہی ہے۔ اٹھو اور اس نظام سیاست کو مسترد کر کے انقلاب کے لیے کھڑے ہو جائو۔ آج اس ملک میں بھوکے مرجانا، لیکن دہشت گردی کے دستر خوان سے حرام کھا کر اپنی بھوک نہ مارنا۔ کچھ کھانے کو نہ ملے تو کوئی حرج نہیں، لیکن گدوں کی طرح مردار نہ کھانا۔ شاہین بن کر اپنی پرواز بلند رکھنا، منزل ایک دن ضرور آپ کے قدم چومے گی۔ میں قوم کو کرگس اور گدھ نہیں بنانا چاہتا کیونکہ اقبال نے اس قوم کو بہادری کا درس دیا تھا۔ میرا درس غوث اعظم (رحمۃ اللہ علیہ) کا درس ہے، سیدنا اجمیر (رحمۃ اللہ علیہ) کا درس ہے۔ علی شیر خدا (رضی اللہ عنہ) کا درس، صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کادرس ہے، عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) کا درس ہے، امام حسین (رضی اللہ عنہ) کا درس ہے اور میرا درس تاجدار کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درس ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا لوگو! مایوس نہیں ہونا، اگر ایک راستہ بند ہوا تو سو راستے کھل جائیں گے۔ اگراسی نظام میں آپ ان لٹیروں کو دوبارہ ووٹ دے کے لائیں گے تو آپ مجرم ہوں گے یا نہیں۔ جو لوگ کرپٹ اور ظالم نظام میں لٹیروں کو عوام دیں گے تو اس نظام کو سہارا دیں گے۔ میں اپنی ایمانی یقین کی بناء پر کہہ رہا ہوں کہ اس نظام سے کبھی تبدیلی نہیں آئےگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک غریبوں کے گھروں میں اجالا نہیں ملتا۔ جب بھوکوں کو نوالا نہیں مل جاتا۔ جب تک کسان اپنی آباد کی ہوئی زمین کا مالک نہیں بن جاتا۔ جب تک مزدور اپنی محنت کا خود پھل نہیں کھاتا۔ ہماری جدوجہد اس وقت جاری رہے گی، جب تک اعتدال پسندی ملک سے انتہاء پسندی کا خاتمہ نہ کر دے، جب دہشت گردی کا خاتمہ نہ ہو جائے۔ جب تک معاشی خوشحالی غریبوں کو نہ مل جائے۔

مزدورو، بھائیو، بہنو آج اس یقین کے ساتھ واپس لوٹو کہ مجھے یقین ہے کہ کشمیر کی وادیوں میں خوشحالی آئے گی۔ خیبرپختونخواہ کی چوٹیوں پر خوشحالی آئے گی۔ پنجاب کے میدانوں میں سونا چمکے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ملک میں ہر سو خوشحالی ہو گی۔

ڈاکٹر قادری نے کہا کہ ہم پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرح ایک رول ماڈل بنانا چاہتے ہیں۔ آئین و قانون، تعلیم سمیت ہر شعبہ میں انقلابی اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ آج ترکی کو دیکھیں کہ اس میں صرف ساڑھے سات کروڑ آبادی ہیں اور 81 صوبے ہیں۔ ایران کے 31 صوبے ہیں۔ جاپان کے 47 صوبے ہیں۔ چین کے 33 صوبے ہیں۔ ویتنام 58 صوبے ہیں۔ کینیا میں 26 صوبے ہیں۔ فرانس میں بھی 26 صوبے ہیں۔ اٹلی میں 26 صوبے ہیں۔ ان سب ممالک کے مقابلے میں ہماری اٹھارہ کروڑ آبادی اور صرف چار صوبے ہیں۔

ساری دنیا میں مرکز نے اختیارات اپنے صوبوں کو دے دیئے۔ امریکا میں سارا ملک ناظم یعنی مئیرز چلا رہے ہیں، جن کی تعداد ساڑھے انیس سو ہے۔ خود اوبامہ اپنے اوپر والے معاملات دیکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کم از کم 37 صوبے بنا دئیے جائیں اور سارے اختیارات تقسیم کر دیئے جائیں۔ مرکز کے پاس صرف پانچ محکمے ہوں۔ جن میں داخلہ، خارجہ وزارت کے علاوہ ان لینڈ سیکیورٹی شامل ہوں۔

ہماری اسمبلی میں لیڈر آف دی ہاؤس وزیراعظم ہوتا ہے، ہمارے فارمولے میں وہ لیڈر آف دی نیشن ہونا چاہیے۔

پورے ملک میں دھرنے

ڈاکٹر طاہرالقادری نے اعلان کیا کہ پاکستان عوامی تحریک ملک توڑنے والے انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔ بلکہ ہم اس ملک میں نظام کی تبدیلی کے لیے کھڑے ہیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کرپٹ انتخابی و سیاسی نظام کی تبدیلی کے لیے اب پورے ملک میں دھرنے ہوں گے۔ گھر گھر مہم چلے گی۔ ہمارا احتجاج پر امن ہوگا۔

آج سے ہمارا نعرہ یہ ہوگا کہ

"الیکشن کے دن دھرنا ہو گا
اس نظام کو مرنا ہو گا"

خطاب صدر پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر رحیق احمد عباسی

ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے کہا کہ آج کا یہ تاریخی جلسہ ان محروم طبقات کا اجتماع ہے، جنہوں نے تیس دسمبر کو مینار پاکستان میں ملک کی منافقانہ سیاست کو مسترد کر کے سیاست نہیں، ریاست بچائو کا نعرہ بلند کیا تھا۔ یہ اجتماع ان لوگوں کی نمائندگی ہے، جنہوں نے قائداعظم کے پاکستان کو حقیقی پاکستان بنانے کا عہد کیا تھا۔ اس اجتماع اور غریبوں کی آواز سے سیاست دانوں کے ایوانوں میں زلزلہ بپا ہو گیا ہے۔ اس جدوجہد سے حکمران طبقے کی روشنیاں گل ہو گئیں۔ ان کے مقابلے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت ہے۔ ہم نے گوجرانولہ، فیصل آباد، ملتان میں کامیاب ترین جلسے کیے، ہم نے ان جلسوں میں ثابت کیا کہ سارے سیاستدان ایک طرف سہی، لیکن دوسری طرف شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری اکیلے نہیں کھڑے، بلکہ پاکستان کی عوام ان کے ساتھ ہیں۔ آج میں ان قوتوں کو کہتا ہوں کہ پورے راولپنڈی کو دیکھو، تمہاری کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ دنیا کی کوئی طاقت انقلاب کے راستے کو نہیں روک سکتی۔

تبصرہ