تحریک منہاج القرآن کی سب سے بڑی پہچان عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، اسکا تشخص تبلیغی نہیں انقلابی ہے
جسے ظالم اور مظلوم دونوں اچھا جانیں وہ اچھا نہیں ہو سکتا
عطائے خدا بذریعہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تحریک منہاج القرآن کے عقیدے کی اساس ہے
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا شہر اعتکاف میں جمعۃ المبارک کے بڑے اجتماع سے خطاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا ہے کہ ہر صدی میں ایک اجتماعیت ایسی ہو گی جسکا مشن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی سر بلندی ہو گی وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کرے گی اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکی سب سے بڑی پہچان ہو گی۔ اس اجتماعیت کا تشخص تبلیغی نہیں انقلابی ہو گا۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ بپا کرنے والوں کے خلاف ڈٹ جانے والوں کیلئے آج کے دور میں بھی اسی اجر کا اعلان فرمایا جو صحابیوں اور تابعیوں کا مقدر تھا۔ آج کے دور میں تحریک منہاج القرآن پوری دنیا میں دین کی دعوت بھی دے رہی، برائی سے روکنے کیلئے عملی اقدام بھی کر رہی ہے اور معاشرے میں پائے جانے والے فتنوں کے خلاف ڈٹ کر سیاسی جدوجہد بھی کر رہی ہے۔ جسے ظالم اور مظلوم دونوں اچھا جانیں وہ اچھا نہیں ہو سکتا۔ تحریک منہاج القرآن کی مخالفت میں جتنے طوفان بھی اُٹھے اللہ نے انہیں گرد کی طرح بٹھا دیا۔ اس انقلابی تحریک کا کوئی بال پھیکا اس لئے نہیں کر سکا کہ یہ اس دور کی وہ اجتماعیت ہے جو حق کو غالب کرنے کیلئے فتنوں کے خلاف ہمہ جہتی جدوجہد پر امن انداز میں کر رہی ہے۔ تحریک منہاج القرآن اللہ کے کرم اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت عظیم کے صدقے سے دنیا کے گلوب پر تنظیمی نیٹ ورک کے اعتبار سے سب سے بڑی تحریک بن چکی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی سب سے بڑی پہچان عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اسکا تشخص تبلیغی نہیں انقلابی ہے۔ ۔ وہ شہر اعتکاف میں جمعہ کے بڑے اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن ہمیشہ گنبد خضری کے در کی سوالی رہی ہے اور اللہ نے اسے اپنے خزانوں سے دیا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک، ایجنسی، ادارہ کبھی یہ دعوی نہیں کر سکے گا کہ تحریک منہاج القرآن نے ان سے کوئی منفعت حاصل کی ہے۔ عطائے خدا بذریعہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تحریک منہاج القرآن کے عقیدے کی اساس ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ تحریک منہاج القرآن اس صدی میں تجدید دین کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے اسکی فکری اور عملی کاوشوں سے اسلام کے خلاف منفی پراپیگنڈے کی گرد بیٹھنے لگی ہے مگر ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے امن پسندوں کو متحرک ہونا ہو گا۔
تبصرہ