شہر اعتکاف 2013: عورت کو تعلیم سے دور رکھنا ظلم ہے۔ شیخ الاسلام

اسلام میں عورت کی مرضی کے خلاف شادی کی اجازت نہیں
عورتوں کے حقوق کو معاشرتی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھا دیا گیا
عورتوں کی تعلیم و تربیت کا سہرا منہاج القرآن کے سر ہے۔

(شہراعتکاف 2013ء) رمضان المبارک کی 28 ویں شب کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نماز تراویح کے بعد "خواتین اور بیویوں کے حقوق" پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر عورت کے حقوق بھی مرد کے برابر ہیں۔ عورت کے ساتھ مودت، محبت اور ادب سے پیش نہ آنا غیر اسلامی عمل ہے۔ ہمارے معاشرے کا عالم یہ ہے کہ مرد، عورت کے حقوق کو سرے سے مانتا ہی نہیں۔ بلکہ دیہاتوں میں تو یہ غلط رواج ہے کہ مرد، عورت کو اپنی جوتی سمجھتے ہیں۔ عورت کو خادمہ اور نوکرانی نہ سمجھو، یہ تصور قرآنی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔

نکاح، شادیوں میں بھی ہم عورت کے حق کا استحصال کرتے ہیں۔ پاکستانی سوسائٹی میں عورت کا حق ہی نہیں سمجھتے کہ شادی کے معاملے میں اس سے پسند ناپسند کی رائے لیں۔ والدین خود ہی اوپر اوپر سے رشتے طے کر دیتے ہیں۔ لوگو، سن لو شادی کے معاملے میں ماں باپ کا بھی حق نہیں کہ وہ اپنی مرضی نافذ کرے، قرآن نے یہ حق بھی بیٹی کو دیا ہے۔ ماں باپ اپنی مرضی بیٹی پر تھونپ نہیں سکتے۔ بخاری اور مسلم شریف میں آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ بیوہ کا نکاح بھی اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا اور بالغہ کنواری لڑکی کی شادی کے لیے بھی اس کی اجازت ضروری ہے۔

شادی بیاہ کی رسومات میں ہماری زندگی میں دین کی عملاً کوئی قدر و قیمت نہیں بچی۔ ہم دور جاہلیت میں چلے گئے اور کفر سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم نے دین کی جگہ رسم ووواج کو ترجیح دے دی۔ اس وجہ سے کہ ہماری ناک کٹتی ہے، لعنت ہو ایسی ناک پر، جسے اللہ اور رسول کا خوف نہیں۔ ہماری زندگی کا معیار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام پر ہونا چاہیے۔

آپ نے کہا کہ شادی کی فرسودہ رسومات میں آج اکثر مرد اپنی بیوی کو حق مہر ادا ہی نہیں کرتے کہ ہم نے کون سی طلاق دینی ہے۔ اس طرح طلاق دے کر ہم عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کمینگی کی حدتک چلے جاتے ہیں۔ عورت کی عزت، آبرو کا خیال بھی نہیں کرتے اور فوری طلاق دے دیتے ہیں۔ طلاق کا ظلم کرتے وقت کوئی یہ نہیں سوچتا کہ مطلقہ عورت کا کیا بنے گا۔ اس کی پوری زندگی کیسے بسر ہوگی۔ اس کے مقابلے میں مرد تو نئی بیوی لے آئے گا۔ مومن وہ ہے جو اچھے گزرے ہوئے وقت کو یاد کرے۔

آج ہمارا عالم یہ ہے کہ دین کے معاملے میں ہم عورت کو دور رکھتے ہیں۔ خود دین کی مجالس میں آتے اور تعلیم وتربیت پاتے ہیں، لیکن جب عورت اجازت مانگے تو غیرت کے نام پر اس کو گھر بٹھا دیتے ہیں۔ جب وہی عورت سج دھج کے، بازار، تقاریب اور شادیوں میں جاتی ہے تو اس وقت ہماری غیرت کو کچھ نہیں ہوتا۔ عورت آپ کے بچوں کی تربیت کرتی ہے۔ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہوگی تو آپ کی اولاد میں دین کی تربیت کیسے ہوگی۔ کیونکہ مرد نے تو سارا دن گھر سے باہر کام کاج اور کاروبار میں گزار دیا۔ ماں اس لیے دین کی تربیت نہ کر سکی کہ نہ اس کے والدین نے دین سیکھا اور نہ اس کے ظالم شوہر نے دین سیکھنے دیا، یہ ظلم ہے۔ پھر اولاد بدکاریاں نہ کرے تو کیا کرے، اولاد شرابیں نہ پیئے تو کیا کرے، اولاد بری سنگتوں میں نہ جائے تو کیا کرے۔ اولاد کو بری صحبت میں ڈالنے کے مرد ہی ذمہ دار ہیں۔ جس نے عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا سہرا منہاج القرآن کے سر ہے۔ لوگ مجھے کہتے تھے کہ مرد ہو کر عورتوں کو خطاب کرتے ہیں۔ لیکن آج ہر کوئی اس پر عمل کر رہا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "اللہ کی باندیوں کو مسجدوں میں آنے سے مت روکا کرو، انہیں آنے دیا کرو"۔ منہاج القرآن کے ہر رفیق مرد کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کو دین کی تربیت حاصل کرنے کے برابر مواقع فراہم کرے۔ حضور علیہ السلام کے بارگاہ میں کچھ صحابیات نے عرض کی کہ آقا، آپ کی مجلس میں سارا وقت تو مرد لے جاتے ہیں، ایک دن ہمارے لیے وقف فرما دیں۔ اس دن کے بعد آقا علیہ السلام نے ایک دن عورتوں کے لیے مقرر فرما دیا۔ اس دن سے عورتوں کا اجتماع ہوتا، عورتوں کو دین سکھاتے اور ان کی تعلیم وتربیت ہوتی۔

آقا علیہ السلام نے اپنی ذاتی زندگی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر ازواج مطہرات سے حق زوجیت کا بہترین سلوک کر کے خود کو عظیم نمونہ کے طور پر پیش کر دیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ راتوں میں سے ایک رات میری باری آگئی، جب آقا علیہ السلام میرے گھر تشریف لائے اور بستر پر قیام پزیر ہوئے تو وہ رات عبادت کی رات تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عبادت کرنے کو جی چاہتا تھا، تو مجھے فرمانے لگے اے عائشہ کیا مجھے اجازت دیتی ہو کہ آج کی رات عبادت میں بسر کرلوں۔ تو میں نے عرض کیا کہ آقا مجھے آپ کا قرب اور آپ کی خوشی دونوں چیزیں پیاری ہیں۔ لہذا آپ عبادت کر لیں۔

شیخ الاسلام کا خطاب سوا دو بجے ختم ہوا۔ خطاب سے پہلے نامور ثناء خواں ارشاد اعظم چشتی نے عارفانہ کلام پیش کیا۔ حماد مصطفی المدنی نے بھی اپنے مخصوص انداز میں عربی نعت "یا نور العین" پڑھی۔ خطاب سے قبل شیخ الاسلام مسجد میں موجود ہزاروں معتکفین کے پاس خود چل کر گئے اور انہیں سلام پیش کیا۔ اس موقع پر ہزاروں معتکفین نے بھرپور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور نعرے لگاتے رہے۔

تبصرہ