معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس

رپورٹ: ایم ایس پاکستانی

منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے زیر اہتمام 20 اگست 2006 کو شب معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی یوں تو برطانیہ میں ہر سال یہ سالانہ پروگرام منعقد ہوتا ہے تاہم اس مرتبہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس کی خاص بات شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صدارت تھی۔ یہی نہیں بلکہ اس مقدس و بابرکت محفل کو شام سے تشریف لائے معزز مہمان الاستاذ الفقیہ المحقق الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی نے بطور مہمان خصوصی رونق بخشی۔ عالم اسلام کی دو معتبر شخصیات کی موجودگی میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس کا انعقاد اہل برطانیہ کے لئے ایک اعزاز سے کم نہیں تھا۔ یہ پروگرام Qtv نے براہ راست پیش کر کے دنیا بھر کے ناظرین کو بھی اسمیں شریک کیا۔

پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جسکی سعادت شیخ الاسلام کے پوتے صاحبزادہ حماد مصطفیٰ القادری المدنی نے حاصل کی بعد ازاں قاری محمد جمیل نے صحیفہء انقلاب کی تلاوت کا شرف حاصل کیا۔ تلاوت کلام پاک کے بعد حضور سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی بھی کی گئی۔

الھدایہ کیمپ کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر زاہد اقبال نے کیمپ کے انعقاد بارے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ شیخ الاسلام ہمارے درمیان طویل دورانیہ کے لیے موجود ہیں۔ ان کی اس موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہل برطانیہ کے لیے بالعموم مسلم کمیونٹی اور خاص طور پر نوجوانوں کے لیے الہدایہ کیمپ شروع کیا گیا ہے۔ جس میں شیخ الاسلام خود اسلام کے بارے اٹھنے والے سوالات کا جواب دینگے علاوہ ازیں اسمیں خصوصی روحانی تربیت بھی کی جائے گی۔

اس بریفنگ کے بعد مہمان خصوصی الاستاذ الفقیہ المحقق الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی نے خطاب کیا۔ آپ دمشق کی عظیم جامع مسجد اُموی کے امام بھی ہیں۔ اس کے علاوہ علم الفقہ پر مستند کتاب "الفقہ الحنفیہ" کے مصنف بھی ہیں۔ علم الفقہ پر عالم اسلام کے لیے یہ کتاب نادر سرمایہ ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ آپ برطانیہ تشریف لائے جس کا مقصد "معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس" میں شرکت کرنا تھا۔ آپ نے عربی میں خطاب کیا جسکا اردو ترجمہ پروفیسر نثار احمد سلیمانی نے پیش کیا۔ آپ نے معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت پر سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کریمہ کو موضع بنایا۔ آپ نے معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو "لیلۃ المعراج" سے موصوم کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ بخشش، مغفرت اور طلب عطا کی رات ہے اسمیں اللہ تعالیٰ اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے اپنی امت پر کرم فرماتے ہیں۔ لیلۃ المعراج میں ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور آقا علیہ السلام کا وسیلہ پیش کر کے مانگنا چاہئے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایسے پروگراموں کا انعقاد کر کے حب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حق ادا کیا ہے۔ میں انکو اس پروگرام کے انعقاد پر صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

اس مختصر خطاب کے بعد شیخ الاسلام کا خصوصی خطاب شروع ہوا۔ آپ نے 2گھنٹو ں کا خصوصی خطاب "شب معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" پر کیا، اس خطاب کی خاص بات یہ ہے کہ آپ نے اس موضوع کو ایک اچھوتے اور منفرد انداز میں بیان کرتے ہوئے "سورۃ التین" کی ابتدائی آیا ت کو بطور موضوع منتخب کیا۔

شیخ الاسلام نے معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین حصوں میں بیان فرمایا جسکا پہلا حصہ "مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ" کو قرار دیا یہاں آپ نے سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کو بحوالہ موضوع چنا۔ (سُبْحَانَ الَّذِي اسْرٰى بِعَبْدِہِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاقْصَى) آپ نے فرمایا کہ آقا علیہ السلام کی معراج کا پہلا حصہ "اسْرٰى" ہے یہ حصہ اس سفر پر مشتمل ہے جو آپ نے جسمانی خلائق سے نکل کر کیا یہاں معراج انسان کے بشری وجود کی دلالت ہے۔ اسکاسارا تعلق انسان کے وجود اور جسمانی خلائق سے ہے۔ معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا حصہ "رحمانیہ" ہے یہ حصہ مسجد اقصیٰ سے سدرۃ المنتہیٰ تک ہے یہ مکمل "نورانیہ" کہلاتا ہے۔ اسمیں جب آپ سدرۃ المنتہیٰ پر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "سید النور" بن گئے۔ آپ کو تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت کے بعد سید النور بنا کر اللہ تعالیٰ نے سب سے یگانہ بنا دیا۔ معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تیسرا اور آخری حصہ "قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنَى" پر مشتمل ہے۔ حضرت شیخ نظام الدین اولیاء نے اسکو "اعراج" کا نام دیا ہے۔

آپ نے سفر معراج کو نئے نقطے کے ساتھ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ "سورۃ التین" میں انجیر اور زیتون "والتین و الزیتون" کا ذکر کیا گیا ہے۔ التین یعنی انجیر کا تعلق شام سے ہے یہ وہاں بکثرت پایا جاتا ہے جبکہ زیتون فلسطین میں بکثرت موجود ہے۔ اس کے ساتھ آیت کریمہ میں والطور سینین کا ذکر ہے جسکا تعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہے۔ اس سے مراد وادی طور سینا اور مکہ دو جگہیں ہیں۔ طور سینا وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر تجلی گرائی اور وہ بے ہوش ہوگئے، یہاں موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے گفتگو فرماتے تھے۔ اس مناسبت سے آقا علیہ السلام کی معراج کا سفر مکہ سے شروع ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شام میں قیام فرمایا۔ پھر آپ وادی سینا "جبل طور" گئے۔ جہاں موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے بات چیف فرماتے تھے۔ یہاں بھی آپ رکے اور آپ نے اس جگہ کا دورہ کیا۔ اسطرح حضرت ابراہیم، حجرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیھم السلام کی شریعتوں پر عمل کرنیوالوں کو اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جو ان کے پیروکار ہیں وہ شریعت محمدی کو اپنا لیں، اسمیں تمام شریعتوں کا خذینہ جمع کر دیا ہے۔ در اصل واقعہ معراج انسانی معراج، بلندی، رفعت اور حقیقت بشری کی وہ عظیم مثال ہے جسکو سائنس اور مادی دنیا آج تک سمجھ نہ سکی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس معراج سے اپنے محبوب کی محبت کے ڈنکے چار دانگ عالم عام کر دیئے۔ اس عظیم الشان پروگرام کا اختتام دعائیہ کلمات سے ہوا۔

تبصرہ