شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جمعۃ الوداع کے موقع پر "اسلام کے تصور امن میں اقلیتوں کے حقوق" پر خطاب کیا۔ اس کے لیے انہوں نے قرآن مجید سے دو آیات کی تلاوت کی۔
1. لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ.
دین میں کوئی زبردستی نہیں۔
2. قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَO. لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَO وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ O
(الْبَقَرَة ، 2 : 256)
آپ فرما دیجئے: اے کافرو!o میں ان (بتوں) کی عبادت نہیں کرتا جنہیں تم پوجتے ہوo اور نہ تم اس (رب) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوںo (الکافرون: 1٫2٫3)
آپ نے کہا کہ دین اسلام اقلیتوں کے حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ اس کے باوجود عالم مغرب میں اسلام کا تصور درست نہیں ہے۔ مغرب والوں نے اسلام پر دہشت گردی جیسے الزامات لگا کر اسے مزید دھندلا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے عالم مغرب میں اسلام کے دین امن، تحمل، برداشت اور معتدل دین ہونے کے تصور پر غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس کے داخلی، خارجی، سیاسی، تہذیبی، ملکی اور بین الاقوامی سمیت معتدد کئی اسباب ہیں۔ آپ نے کہا حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہر قسم کی انتہاء پسندی اور دہشت گردی سے پاک ہے۔ اسلام بندوق کی نوک پر کسی کو مسلمان نہیں کرتا بلکہ ہر مذہب کے پیروکاروں کو اجازت ہے کہ وہ اپنے دین پر رہیں اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر فرما دیا کہ
لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِO
(سو) تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہے۔ (الکافرون: 6)
آپ نے کہا قرآن مجید میں سورہ کافرون Right of Religious freedom پر ہے۔
آپ نے حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "انسانیت کو قتل کرنے والا میری امت میں سے نہیں ہے۔" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات انسانی کے وہ عظیم اور برتر رہبر تھے جنہوں نے انسانی حقوق کے حوالے سے انسانیت کو وہ احیاء بخشا جو کسی اور پیغمبر اور اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کے حصہ میں نہیں آیا۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ ایک طرف مغربی مفکرین بغض اور حسد کی عینک پہن کر اسلام پر انتہاء پسندی اور دہشت گردی جیسے الزامات تھوپ رہے ہیں۔ دوسری طرف پروفیسر ہیٹی جیسے مفکرین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اسلام دین امن ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ اسلام میں کوئی جبر نہیں ہے اور مسلمان کسی پر اپنا مذہب مسلط نہیں کرتے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدات امن کے حوالے سے شیخ الاسلام نے کہا کہ آقا علیہ السلام کا میثاق مدینہ کائنات انسانی کا پہلا امن معاہدہ تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کیساتھ کیا۔ یہ معاہدہ عالمی قیام امن کی عظیم مثال ہے۔ دنیا کے اس پہلے تحریری دستور میں آقا علیہ السلام نے یہود کے کلچر، ثقافت، مذہب اور سیاست سمیت دیگر شعبوں کو تحفظ دیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آقا علیہ السلام نے یہ سب کچھ اس وقت کیا جب آپ اقتدار میں تھے اور ریاست مدینہ کے سربراہ تھے۔ اس معاہدہ کے بعد آپ نے ثابت کر دیا کہ کائنات میں دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے امن کی بنیاد رکھی۔ آپ نے کہا کہ آج اسلام پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ جنگ و جدل سے دنیا میں پھیلا۔ یہ سراسر غلط تاثر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس سالہ مدنی زندگی ہے اور اس میں ایک بھی جنگ ایسی نہیں ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دشمن پر حملہ آور ہو کر لڑی ہو۔ تمام جنگیں مسلمانوں پر مسلط کی گئیں اور آپ نے اپنے بارڈر پر دفاع کے لیے تمام جنگیں لڑیں۔ جنگ بدر، جنگ احد اور جنگ خندق اس کی مثالیں ہیں۔ آج مغربی دنیا جو غلط فہمیوں کی بنیاد پر اسلام کو جنگوں کا دین قرار دیتی ہے، اس حقیقت سے ناواقف ہے۔ آج صرف اسلام دشمنی کی وجہ سے مغربی مفکرین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پر امن سیرت مبارکہ پر ایسے داغ لگاتے ہیں جو سراسر غلط اور جانبدارانہ تصور ہے۔
آپ نے کہا کہ صلح حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام امن کے لیے اپنا عمرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ جب صحابہ کرام احرام باندھ کر مکہ مکرمہ کی طرف عازم سفر ہوئے تو راستہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف قیام امن کے لیے صلح حدیبیہ کر لیا۔ اس معاہدہ امن کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام کیساتھ احرام اتار کر عمرہ کیے بغیر واپس آ گئے اور بغیر عمرہ ادا کیے ہی وہیں قربانیاں دیدیں۔ یہ معاہدہ خالصتا کفار کے حق میں تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف امن کی خاطر ایسا کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاہدہ کے آغاز میں کفار کے کہنے پر "باسمک اللہ اللھم" کے الفاظ کاٹ دیئے۔ اس کے بعد اس معاہدہ کے آخر میں دستخط والی جگہ سے اپنے ہاتھ سے محمد رسول اللہ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھا۔ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لیے کیا کہ کفار کو اس پر اعتراض تھا کہ ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محمد رسول اللہ نہیں مانتے۔ یہ کام آپ نے صرف قیام امن کے لیے کیا کہ محمد بن عبداللہ لکھنے سے میری رسالت اور نبوت پر فرق نہیں پڑیگا لیکن ایسا نہ کیا تو معاہدہ کو خطرہ تھا۔ دوسری جانب 8 ھجری میں یہ معاہدہ کفار نے توڑا جس کے بعد فتح مکہ ہوئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اقلیتوں اور غیر مسلموں کو مذہبی آزادی دی ہے۔ امام ابو یوسف کی کتاب الخراج کا حوالہ دیتے ہوئے شیخ الاسلام نے بتایا کہ اس کی مثال نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ تھا جس میں یہ لکھا گیا کہ وہ آج سے محمد مصطفیٰ کی حفاظت میں ہیں۔ آپ نے کہا کہ آج سے اسلام ان کے گرجا گھروں، ان کی عبادت گاہوں، ان کی ثقافت سمیت ان کی ہر چیز کی حفاظت کریگا۔ اسلام ان کے پادریوں، راہبوں کو ان کے مناصب سے نہیں ہٹائے گا اور ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی اجازت ہے۔ مسلمان حکومت انہیں تحفظ دیے گی۔ اس کے علاوہ جب نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہمان بنا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرا کر انہیں اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کی اجازت دی۔
آپ نے ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب حبشہ سے ایک وفد مسلمانوں کا مہمان بنا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ ان کی خاطر تواضع کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے انہیں کھانا کھلایا۔
شیخ الاسلام نے کہا کہ آج کچھ لوگ اسلام کیخلاف سازش کرتے ہوئے پیغمبر اسلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے کہا اسلام واحد دین ہے جس نے سب سے پہلے غیر مذاہب کے لوگوں کی کفالت کا ذمہ لیا۔ ان کی ہر طرح کی کفالت کرتے ہوئے ویلفیئر سٹیٹ کا بھی ذمہ لیا۔ آپ کے دور میں صدقہ و خیرات غیر مسلموں کو بھی دیا جاتا۔ امہات المومنین میں سے حضرت ام صفیہ رضی اللہ عنھا کے یہود رشتہ دار تھے جن کو انہوں نے 30 ہزار درھم مالیت کا مال بطور صدقہ دیا۔ اس کے علاوہ صحابہ کرام عیسائی راہبوں کو بھی صدقہ و خیرات بھیجتے تھے۔ ریاست مدینہ میں غیر مسلموں میں سے کوئی شہری بڑھاپے، بزرگی یا کسی اور وجہ سے کام سے ناکارہ ہو جاتا تو اسلام کے قانون کے مطابق اسے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا جاتا۔ اس کے بعد اسے ماہانہ اعزازیہ دیا جاتا۔
آپ نے کہا کہ لوگو سن لو دنیا میں سب سے پہلے اور سب سے بڑے دہشت گرد خوارج ہیں۔ آج بھی ان کی نسل سے یہ کام آگے پھیل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام تو ایک فرد کے قتل کی اجازت نہیں دیتا تو انسانیت کے قتل کو کس طرح جائز قرار دے سکتا ہے؟ دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ دہشت گردی ایک رویہ ہے جس میں امریکی، برطانوی، انڈینز، جاپانی اور چینی بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ آپ نے کہا پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی ملکی نہیں بلکہ بیرونی پیداوار ہے۔ آج ملک میں ہونے والے حملوں میں استعمال ہونے والا اسلحہ حکومتی اسلحہ سے بھی زیادہ طاقتور ہے تو یہ کام صرف بیرونی عناصر کروا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے اس تناظر میں سازشی عناصر دوبارہ سرد جنگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کے سوا دنیا کا کوئی مذہب دیشت گردی کیخلاف جنگ نہیں کر رہا۔
آپ نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا تحریک منہاج القرآن اس صدی کی وہ تحریک ہے جس نے مذاہب عالم اور اسلام کے درمیان مفاہمت کے لیے ایک پل کا کام کیا ہے۔ یہ وہ تحریک ہے جس نے مصطفوی انقلاب کے اعلان سے دہشت گردی کیخلاف اعلانیہ جنگ کا اعلان کیا۔ ہم دنیا کو امن کا پیغام دے رہے ہیں۔ امن کی طرف لا رہے ہیں۔ لوگو! آؤ آج دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھو اور یہی تحریک منہاج القرآن کا پیغام ہے۔
تبصرہ