پاکستانی معاشرے پر تحفظِ نسواں ایکٹ کے اثرات
پارلیمنٹ کی طرف سے حال ہی میں منظور کی جانے والے قانون تحفظ نسواں 2006 کے بارے میں ملک بھر میں گہری تشویش پائی جارہی ہے۔ کیونکہ اس قانون کے مندرجات اس بات کی مظہر ہیں کہ یہ قانون جو کہ بنظر ظاہر خواتین کے تحفظ کے لیے منظور کیا گیا ہے فی الاصل نہ صرف قرآن وسنت اور آئین پاکستان کی روح سے متصادم اور اس کے منافی ہے بلکہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بجائے ان کو پامال کرنے کا سبب بننے والاہے۔
تحفظِ حقوق نسواں ایکٹ 2006ء کی جملہ شقوں کا تجزیہ اس امر کو واضح کرتا ہے کہ اس قانون کو تحفظ نسواں ایکٹ 2006ء کی بجائے پامالی حقوق نسواں ایکٹ 2006ء قرار دیا جائے۔ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ آئین کے آرٹیکل 15 اور 16 کا حوالہ دیتے ہوئے یہ قرار دیا گیا کہ یہ قانون خواتین کی عزت و وقار، ان کی نجی راز داری، معاشرے میں ان کے تحفظ اور سماجی برائیوں خاتمے کے لئے منظور کیا جارہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام بنیادی لوازمات کے پورے ہونے کا کوئی امکان تک اس قانون میں موجود نہیں ہے بلکہ حالت یہ ہے کہ پہلے سے موجود حدود آرڈیننس میں بھی زنا جیسے جرم اور سماجی برائی کے خاتمے کے جو امکانات موجود تھے ان کو بھی مسدود کر دیا گیا ہے۔ ضروری تو یہ تھا کہ حدود آرڈیننس کی تنفیذ اور اسے رو بہ عمل کرنے میں جو نقائص ہیں ان کو دور کیا جاتا، انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے حدود آرڈیننس کے غلط استعمال کے راستے بند کیے جاتے اور اس کے استعمال کو مزید موثر، بامقصد اور سماجی برائیوں کے قلع قمع کا ضامن بنایا جاتا مگر قانون سازوں نے اس کو ایسی شکل میں نافذ کر دیا ہے جس میں معاشرے میں بے حیائی، عریانی اور بدکاری کے فروغ کے امکانات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ اگرچہ اس قانون میں کئی باتیں محل نظر اور قابلِ اعتراض ہیں تاہم اس میں اٹھائے گئے کچھ اقدامات ایسی نوعیت کے ہیں جن کے نتیجے میں یہ قانون اپنے عنوان کے بالکل برعکس حیثیت اختیار کرگیا ہے:
1۔ اس قانون میں قرار دیا گیا ہے کہ زنا کی شکایت صرف سیشن جج کی عدالت میں ہی درج کرائی جاسکے گی اور یہ حقیقت ہے کہ پورے ضلع میں ایک سیشن جج کی عدالت تک رسائی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، مزید یہ کہ نہ صرف عامۃ الناس کے لیے اس سماجی برائی کے خاتمے کی کوشش کرنے کے لیے عدالت تک رسائی محال بنا دی گئی ہے بلکہ اس بنیادی معاشرتی برائی کی ابتدائی شکایت تک کے اندراج کے لیے سیشن جج کی شرط سے ضلع بھر کے دوسرے عدالتی ڈھانچے پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کر دیا گیا ہے جبکہ وہ اس سے بھی سنگین نوعیت کے معاملات نمٹا رہا ہے
2۔ اس قانون کے تحت زنا کو قابل ضمانت جرم قرار دے دیا گیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ جرم کے ارتکاب پر حکومت کی طرف سے گرفت اورمجرموں کو سزا کی شدت کا جو خوف راہ راست پر لانے کا باعث بن سکتا تھا وہ ختم ہوجائے گا اور یہ انتہائی ہلکا جرم قرار پائے گا۔
3۔ اس قانون کے تحت زنا کو ناقابل دست اندازی پولیس قرار دیا گیا ہے گو کہ پہلے سے بھی یہ ایک اعتراض موجود تھا کہ حدود آرڈیننس کو پولیس غلط استعمال کر رہی ہے، سو ضروری یہ تھا کہ اسے مجسٹریٹ کی اتھارٹی کے تحت قابل دست اندازی پولیس قرار دیا جاتا مگر موجودہ صورت میں یہ قانون اس جرم کے فروغ کا باعث بنے گا۔
4۔ اس قانون کے تحت یہ قرار دیا گیا ہے کہ پولیس اس وقت تک زنا کے مجرم کو گرفتار نہیں کرسکتی جب تک کہ سیشن جج کی طرف سے اس کے لیے احکامات جاری نہ کیے جائیں۔ اور سیشن عدالت بھی اس طرح کے احکامات اس وقت جاری کرے گی جب اسے یقین ہوگا کہ اس طرح کے جرم کا ارتکاب ہوا ہے صاف ظاہر ہے اس اقدام کے بعد شکایت کنندگان تو عدالتوں کا چکر لگاتے رہیں گے اور مجرم اس وقت تک آزاد رہے گا جب تک عدالت ازخود اس بات کا یقین حاصل نہیں کرلیتی کہ واقعی مجرم نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
5۔ سب سے خطرناک امر جس کا تذکرہ اس قانون میں کیا گیا ہے یہ ہے کہ قرآن وسنت میں زنا اور قذف کی کوئی تعریف نہیں بیان کی گئی اور نہ ہی ان کی کوئی سزا بیان کی گئی ہے۔ قانون سازوں کی طرف سے اس طرح کی بات کو قانون کا حصہ بنانا یہ تو ان کی جہالت، عدم آگہی اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے غفلت کا نتیجہ ہے یا ان کی بدنیتی اور بددیانتی ہے کہ قرآن و سنت میں مذکور واضح احکامات میں چشم پوشی کرتے ہوئے اس طرح کے تصور کو قانون کا حصہ بنایا گیا ہے جبکہ اس حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں۔
اندرِیں حالات جبکہ ملک بھر کے اہل دین اور اہل دانش حلقوں کی طرف سے اس قانون کو قرآن و سنت سے متصادم قرار دیا جارہا ہے مقتدر حلقوں کو ہم اس طرف متوجہ کرنا چاہیں گے کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام سے باز رہیں جس سے پاکستان کی نظریاتی اساس اور اسلامی تشخص پر زد پڑتی ہو اور پاکستانی معاشرے کے لیے ایسی ڈگر پر چلنے کے امکانات پیدا ہوتے ہوں جو آئین میں طے کردہ بنیادی ضابطوں اور رہنما اصولوں کے منافی ہے۔ جس سے معاشرے میں مثبت اخلاقیات کی پامالی، خاندانی نظام کی شکست و ریخت اور مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل کے امکانات پیدا ہوتے ہوں۔ کیونکہ اس سے ہم معاشرتی زوال کی اس ڈگر پر چل نکلیں گے کہ مستقبل میں اس کی اصلاح کے امکانات بہت ہی کم ہوں گے۔
بانی پاکستان قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا تصورِ پاکستان ایسا نہ تھا
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا بطور گورنر جنرل کراچی بار ایسوسی ایشن میں عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب میں بطورِ مہمان خصوصی 25 جنوری 1948ء کو خطاب
یہ خطاب مقتدر حلقوں کے لیے جو قرآن و سنت کے نام پر قرآن و سنت کے منافی قانون سازی کرکے ملک کے آئینی اور نظریاتی تشخص کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ بات بہت قابل غور ہے کہ یہ خطاب قائداعظم نے کسی عوامی جلسے میں نہیں بلکہ ایک انتہائی سنجیدہ تقریب میں ان لوگوں سے کیا جو قانون کی توضیح اور تشریح کرنے والے یعنی وکلاء تھے۔ اور یہ خطاب قائداعظم نے بطورِ گورنر جنرل کیا جس کی حیثیت ان کی طرف سے ریاست کے لیے بالعموم اور ریاست کے قانون ساز اور قانون کی تشریح کرنے والے طبقات کے لیے بالخصوص ایک پالیسی بیان کی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب پر اپنے اعزاز میں بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دیئے گئے ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔
قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا۔ ‘‘
گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا: ’’جو لوگ گمراہ ہو گئے ہیں یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو گئے ہیں، میں انہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کو بھی خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
’’اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے۔ کسی کو جمہوریت، مساوات اور حریت سے خوف زدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے جبکہ وہ دیانت کے اعلیٰ ترین معیار پر مبنی ہو اور اس کی بنیاد ہر شخص کے لیے انصاف اور عدل پر رکھی گئی ہو۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا ہمیں اسے (پاکستان کا آئندہ دستور) بنا لینے دیجئے۔ ہم یہ بنائیں گے اور ہم اسے ساری دنیا کو دکھائیں گے۔‘‘
صوبائی عصبیت کے بارے میں گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا کہ ’’یہ ایک بیماری ہے اور ایک لعنت‘‘۔ انہوں نے فرمایا ’’میں چاہتا ہوں کہ مسلمان صوبائی عصبیت کی بیماری سے چھٹکارا پا لیں۔ ایک قوم جب تک کہ وہ ایک صف میں نہ چلے، کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ ہم سب پاکستانی اور اس مملکت کے شہری ہیں اور ہمیں مملکت کے لیے خدمت، ایثار اور زندگی کا نذرانہ پیش کرنا چاہیے تاکہ ہم اسے دنیا کی عالیشان اور خود مختار مملکت بنا سکیں۔‘‘
قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس عظیم اور تاریخی موقع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے خوش آمدید کہا۔ اس بار ایسوسی ایشن سے کافی عرصے سے واقف ہوں۔ آج ہم یہاں تھوڑی سی تعداد میں اس عظیم شخصیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے جن کے لیے نہ صرف لاکھوں دل احترام سے لبریز ہیں بلکہ جو دنیا کے عظیم ترین لوگوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔ میں ایک حقیر آدمی، اس عظیم المرتبت شخصیت کو کیا خراج عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔ ‘‘
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم مدبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم فرمانروا تھے جنہوں نے حکمرانی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔
’’اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ قادر، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور یگانگت، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔‘‘
گورنر جنرل پاکستان نے فرمایا: ’’اس زمانہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سادہ تھی۔ تاجر کی حیثیت سے لے کر فرمانروا کی حیثیت تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس چیز میں بھی ہاتھ ڈالا کامیابی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم چومے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم ترین انسان تھے جن کا چشم عالم نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے نظارہ نہیں کیا۔ تیرہ سو سال گزرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمہوریت کی بنیاد ڈالی۔‘‘
تبصرہ