شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی حدیثِ نبوی (ص) کی ترویج میں نمایاں خدمات

تحریر: ڈاکٹر علی اکبر قادری الازہری

دین اسلام کے بنیادی مآخذ دو ہیں، ایک کتاب اللہ اور دوسری سنت و سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ قرآن حکیم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنے والی 23 سالہ وحی الہٰی کا وہ حتمی مجموعہ ہے جس کی لفظی ومعنوی حفاظت کا ذمہ خود اللہ رب العزت نے اٹھایا۔ چنانچہ قرآن حکیم دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس کا ایک ایک حرف ایک ایک حرکت اور ایک ایک سطر اسی طرح اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جس طرح یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر اترا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو سنایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کی سب سے بڑی حقانیت، کتاب زندہ قرآن ہے۔ حقانیت اسلام کی دوسری بڑی اساس پیغمبر انسانیت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت مطہرہ ہے۔ قرآن حکیم کی طرح صاحب قرآن کی زندگی کا بھی ایک ایک لمحہ، ایک ایک دن اور ایک ایک زاویہ اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ ایک کھلی کتاب کی طرح ہر شخص کے سامنے موجود ہے۔ اپنوں کے سامنے بھی اور غیروں کے سامنے بھی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مقدسہ کو خود اللہ رب العزت نے ’’اسوہ حسنہ‘‘ یعنی بہترین نمونہ عمل قرار دیا ہے اس لئے ضروری تھا کہ اس پاکیزہ اور اعلیٰ ترین انسانی نمونۂ عمل کی تمام جزئیات بنی نوع انسان کے سامنے موجود ہوتیں۔ ان تفصیلات سے قیامت تک کی ہر نسل انسانی کو آگاہ کرنے کے لئے اللہ پاک نے صحابہ کرام کی برگزیدہ جماعت کو ذہانت، شجاعت، محبت، قوت مشاہدہ، صداقت، دیانت اور حفظ و ضبط جیسی نادر خصوصیات سے بیک وقت نواز رکھا تھا جو دنیا کے کسی دوسرے گروہ انسانی میں ہمیں یکجا نظر نہیں آتیں۔ چنانچہ ان خوبیوں کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا، پسند و ناپسند اور اظہار فرحت و کوفت کی ہر کیفیت کو انہی الفاظ کے ساتھ محفوظ کرلیا گیا جو آپ نے اپنی زبان اقدس سے ادا فرمائے۔ انہی کلمات، انداز، کیفیات اور احوال کے بیان کو ’’علم حدیث‘‘ موسوم کیا جاتا ہے۔ ان اقوال و افعال اور کیفیات کو بیان کرنے والوں کو راوی اور ان روایات پر کام کرنے والے خوش نصیب لوگوں کو محدث کہا جاتا ہے۔

علم حدیث کی اہمیت اور حجیت پر گفتگو اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں لیکن ایک بات واضح کئے بغیر آگے بڑھنا مناسب نہیں کہ جب تک دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کی جاتی رہے گی، آپ سے محبت کے چراغ اہل ایمان کے سینوں میں جلتے رہیں گے، آپ کی اطاعت کو عین ایمان سمجھا جاتا رہے گا، آپ کے اسوہ حسنہ کے نشانات کو سنگ میل بنایا جاتا رہے گا اور آپ کی عطاؤں کے سامنے پوری انسانیت دامن سوال دراز کئے رکھے گی قرآن کے ساتھ ساتھ حدیث کی حجیت خودبخود مسلم ہوتی رہے گی۔

آج کے ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے انسانی معاشرے میں یہ بات سمجھنی نسبتاً آسان ہے کہ ذرائع ابلاغ کی موجودہ ترقی نے زمان ومکان کے فاصلوں اور وسعتوں کو حیرت انگیز طور پر سمیٹ دیا ہے۔ معلومات کا سیلاب ہے جو ہر شخص تک پہنچ رہا ہے۔ آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے ہر شخص کی حرکات و سکنات تک رسائی اس قدر آسان ہوچکی ہے کہ آج سے 50 سال قبل اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سارے علوم و فنون انسان کی خدمت میں دست بستہ حاضر ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سی ڈیز، اخبارات، رسائل اور کتب، الغرض ایک سے ایک سریع اور آسان ذریعہ علم میسر ہے، ہم بڑے خطباء، قائدین، دانشوروں اور حکمرانوں کے قیمتی لمحات کو ریکارڈ بھی کر رہے ہیں لیکن ان تمام سہولیات کے باوجود کیا کوئی شخص کوئی حکومت یا کوئی ادارہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے فلاں شخصیت اور فلاں حکمران کی ساری زندگی محفوظ کردی ہے؟ اس کا ہر پہلو پبلک کے سامنے کھلا ہوا ہے اور اس کی خلوت و جلوت کی تفصیلات عوام کی پہنچ میں ہیں؟ نہیں، اس دنیا میں اس معیار پر کوئی بھی پورا نہیں اترتا۔ پوری کائنات میں یہ امتیاز صرف اور صرف حضور تاجدار کائنات کو حاصل ہے کہ آج سے ساڑھے 14 سو سال قبل جب ان جدید ذرائع اور سہولیات میں سے کسی ایک چیز کا بھی وجود نہیں تھا۔ ۔ ۔ صرف دیکھنے والوں کی محبت بھری نظریں اور محسوس کرنے والوں کی زبان حق ترجمان تھی، آج بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلوت وجلوت کا ہر لمحہ، سفرو حضر کی ہر تفصیل نشست و برخاست کا ہر انداز اور خوشی غمی کی ہر کیفیت ریکارڈ پر ہے۔

سیرت و سنت کا یہی معجزہ نما ریکارڈ ’’ذخیرہ حدیث‘‘ ہے۔ جو اس وقت سینکڑوں کتب کی صورت میں ہزاروں کتب خانوں کے اندر لاکھوں صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ کس قدر پر لطف اور باعث حیرت و تعجب بات ہے کہ جن لوگوں نے اس علم کی خدمت میں خود کو مٹادیا اور اپنے عظیم وجلیل پیغمبر علیہ السلام کے اقوال و افعال کو محفوظ کرتے رہے۔ اللہ پاک نے ان کی حیات و خدمات کو بھی بقاء دوام کی نعمت سے سرفراز فرمادیا چنانچہ رواۃ حدیث کے حالات اور ان کی سیرت و کردار کے بیان پر مشتمل ایک مستقل صنفِ علم وجود میں آگئی جسے ’’علم اسماء الرجال‘‘ کہا جاتا ہے اور اس علم کی اس قدر دلچسپ تفصیلات جمع ہوگئیں کہ دنیا کا کوئی مذہب اس کا عشر عشیر بھی فراہم نہیں کرسکتا۔

چنانچہ ہر دور میں کچھ خوش نصیب لوگ ایسے ضرور آتے رہے جو اپنی اپنی جھولیوں میں علم حدیث کی خیرات سمیٹنے کو زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھ کر اس میدان میں استقامت کے ساتھ جمے رہے۔ انہوں نے علم حدیث کی خدمت کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ایسے ہی مخصوص لوگوں (محدثین) میں سے بعض کو اللہ پاک نے حفظ و ضبط کی خصوصیت کے ساتھ ساتھ استنباط و استخراج احکام مسائل کی اضافی صلاحیت سے بھی نواز رکھا تھا، جنہیں ہم ائمہ مجتہدین کہتے ہیں مجتہدین اور محدثین کے اس سنہرے سلسلے کی کڑیوں میں سرفہرست امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ، امام مالک رضی اللہ عنہ، امام شافعی رضی اللہ عنہ، امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ امام محمد شیبانی رضی اللہ عنہ، امام طحاوی رضی اللہ عنہ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ، امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے نام ہیں۔

تاریخ تدوین حدیث۔ ۔ ۔ ایک نظر میں

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی دینی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جماعت سے لیکر آج تک اسلامی دنیا کے اعلیٰ ترین دماغ احادیث کی تعلیم و تدریس اور ترویج و اشاعت میں مصروف رہے۔ تدوین حدیث کا کام دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہی شروع ہوچکا تھا اور کئی صحابہ نے اپنے طور پر اپنی مسانید جمع کر رکھی تھیں لیکن چونکہ قرآن حکیم اتر رہا تھا، کئی صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترغیب پر قرآن حفظ کر رہے تھے اور جو لوگ لکھنا جانتے تھے وہ وحی الہٰی کی کتابت کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اور بعد ازاں خلفائے راشدین نے بھی حفاظت و تدوین قرآن کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس وقت احادیث کے کسی مجموعے کی تدوین اور ترویج کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی۔ تاہم صحابہ کے حیرت انگیز حافظے میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال، احوال اور پسند ناپسند پوری طرح محفوظ رہی اس لئے جمع و تدوین قرآن کا کام جب پوری طرح مکمل ہوگیا اور دور دراز ممالک میں قرآن کے قلمی نسخے فراہم ہوگئے تو اس کے بعد تدوین حدیث پر کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔

اسلامی سلطنت کی وسعتوں اور نئے مفتوحہ علاقوں میں نت نئے مسائل و معاملات اور فتنوں کے تدارک میں صحابہ کرام قرآنی احکام کی تشریح و تعبیر میں فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی مدد لیتے تھے اور حسب ضرورت ایک دوسرے سے ان اقوالِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تبادلہ بھی فرماتے تھے۔ صحابہ اور تابعین کا جذبہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ اپنے پیارے آقا کی باتوں کو حرزِ جاں بنائیں۔ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلرباء اداؤں کے تذکرووں سے ایمان کی تازگی کا سامان کریں۔ چنانچہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی فیضان علم حدیث کی حفاظت اور اس کی تدوین کا بنیادی سبب بھی بنا۔

جمع و تدوین قرآن میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بصیرت اور قوت فیصلہ سے کام لیا اور یہ کام بعد ازاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں تکمیل پذیر ہوا اسی طرح باقاعدہ جمع و تدوین حدیث کی سعادت جس حکمران شخصیت کے حصہ میں آئی وہ فاروق اعظم ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ تھے۔ اس پانچویں خلیفہ راشد نے جب بوجوہ احادیث کو یکجا اور مرتب کرنے کا ارادہ فرمایا آپ نے تو اس وقت کے معتمد اور مستند ترین علماء کا ایک بورڈ تشکیل دیا جن میں

1۔ ابوبکر بن محمد بن عمر بن حزم رحمۃ اللہ علیہ

2۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمۃ اللہ علیہ ۔ ۔ ۔ ۔ اور

3۔ ابوبکر محمد بن مسلم بن عبداللہ بن شہاب زہری رضی اللہ عنہ

کے اسمائے گرامی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ چنانچہ اول الذکر دونوں حضرات کی مدد سے ابن شہاب زہری نے میسر احادیث کا پہلا اور شاندار مجموعہ مرتب کیا۔ امام ابن شہاب زہری (124ھ) اکابر تابعی اور اپنے زمانے کے محدثین میں ممتاز ترین مقام و مرتبہ کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بلا کا حافظہ بھی دیا تھا اور حدیث نبوی کو محفوظ کرنے کا شوق بھی جنون کی حد تک تھا۔ علاوہ ازیں انہیں جن نامور شخصیات سے علم حدیث حاصل کرنے کا موقع ملا ان میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ، سہل بن سعد رضی اللہ عنہما جیسے اکابر صحابہ اور سعید بن مسیب محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ جیسے تابعین شامل ہیں۔ حدیث کے نامور ائمہ، امام اوزاعی رضی اللہ عنہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور سفیان بن عینیہ رحمۃ اللہ علیہ آپ ہی کے فیض یافتہ تلامذہ میں شامل ہیں۔ (ا)

(حافظ جلال الدین سیوطی، تدریب الراوی 73)

کہا جاتا ہے کہ حدیث کو سند کے ساتھ بیان کرنے کی ابتداء بھی ابن شہاب زہری رضی اللہ عنہ نے کی، یہی وجہ ہے کہ آپ کو علم اسناد کا واضح بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ (1) یوں صحابہ کرام تابعین اور بالخصوص مذکورہ بالا حضرات ائمہ نے جو کاوشیں بروئے کار لائیں یہ تدوین حدیث کا دورِ اول ہے۔

1۔ (مقدمہ الحرح والتعدیل رضی اللہ عنہ 20)

اسی دور کے دوسرے اہل علم نے پورے بلادِ اسلامیہ میں تدوین حدیث کا کام شروع کر دیا چنانچہ عبدالملک بن جریج (م 150ھ) نے مکہ میں، امام اوزاعی (م 157ھ) نے شام میں، معمر بن راشد (م 153ھ) نے یمن میں، امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ (م 150ھ) اور امام سفیان ثوری (م161ھ) نے کوفہ میں ربیع بن صبیح (م 160ھ) اور امام حماد بن سلمہ (م 167ھ) نے بصرہ میں امام عبداللہ بن مبارک (م 181ھ) نے خراسان میں اور عبداللہ بن وھب (م 197ھ) نے مصر میں جمع و تدوینِ حدیث کے مقدس مشن کا آغاز کر دیا۔

کوفہ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دارالخلافہ بن چکا تھا اس لئے مدینہ منورہ کے بعد اہل علم صحابہ اور تابعین یہاں آکر آباد ہوگئے تھے جن میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ، سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جیسے اکابر صحابہ کے نام بطور خاص قابل ذکر ہیں جن کی صحبت و مجلس میں پروان چڑھنے والے ائمہ میں سراج الامۃ حضرت امام ابوحنیفہ بطور خاص قابل ذکر ہیں جنہوں نے اپنی سند سے جو احادیث روایت کیں ان کے تلمیذ رشید امام محمد، امام ابو یوسف امام حسن بن زیاد وغیرہ نے ’’الآثار‘‘ کے نام سے مرتب کیں۔ امام اعظم نے یہ کتاب ترتیب و تبویب کی عمدہ شکل میں مرتب کروائی، یہی وجہ ہے کہ بعض محققین اسی کتاب کو حدیث کی پہلی باقاعدہ تصنیف قرار دیتے ہیں۔ امام سیوطی حافظ مغلطانی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’وہ کئی ائمہ کی طرح موطا کو حدیث کی پہلی مرتبہ کتاب قرار دیتے ہیں لیکن میرے نزدیک کتاب الآثار موطا سے پہلے کی تصنیف ہے جس سے خود موطا کی تالیف میں استفادہ کیا گیا۔

(تنویر الحوالک ج 1 رضی اللہ عنہ 4 طبع مصر)

امام سیوطی نے اسی موقف کو تبییض الصحیفہ میں یوں دہرایا۔

من مناقب ابی حنيفة التی انفرد بها انه اول من دَوَّنَ علم الشريعة ورتبه ابوابا ثم تبعه مالک بن انس فی ترتيب الموطا ولم يسبق ابا حنيفة احد.

’’امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ان خصوصی مناقب میں، جن میں وہ منفرد ہیں ایک یہ بھی ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت کو مدون کیا اور اس کو ابواب میں مرتب کیا پھر امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ نے موطا کی ترتیب میں ان کی پیروی کی اور اس بارے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر کسی کو سبقت حاصل نہیں‘‘۔

(تبییض الصحیفہ رضی اللہ عنہ 36 طبع حیدر آباد 1234ھ)

مدینہ منورہ میں ترتیب و تدوین احادیث کا جو کام امام زہری نے شروع کیا تھا اس کو آپ کے مایہ ناز تلامذہ نے آگے بڑھایا حتی کہ دوسری صدی ہجری کے آخیر میں ان کے نامور شاگرد امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ نے فقہی ترتیب پر پہلا منظم مجموعہ ’’موطا‘‘ کے نام سے پیش کر دیا۔ امام مالک کو مدینہ منورہ میں موجود جن جلیل القدر مشائخ سے حصول علم کا موقعہ ملا ان کی تعداد 9سو سے زائد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے چشمہ علم سے دور دراز تک اہل اسلام کو مستفید فرمایا چنانچہ حجاز کے علاوہ شام، عراق، یمن، فلسطین، مصر، افریقہ، اندلس اور بخارا و سمر قند سے جو تلامذہ حاضر ہوتے رہے ان میں لیث بن سعد (م 157ھ)، ابن مبارک (م 151ھ)، امام شافعی (م 204ھ) اور امام محمد بن حسن الشیبانی (م 189 ھ) جیسے مشاہیر قابل ذکر ہیں۔ دوسری صدی کے اس نصف آخر میں ان آئمہ نے جو مجموعہ ہائے حدیث مرتب فرمائے ان میں سفیان ثوری، عبداللہ ابن مبارک، امام اوزاعی اور ابن جریج کی جوامع، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الام اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الخراج وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں مگر جو شہرت اور قدرو منزلت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی ’’موطا‘‘ کو حاصل ہوئی وہ اس دور کی کسی اور کتاب کے حصے میں نہ آئی۔ اس کے کئی اسباب میں سے امام مالک کی شخصیت، علمی تبحر اور ان کا اخلاص تقویٰ اور صاحب حدیث حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت کا عنصر غالب ہے۔ تدوین حدیث کا یہ دور جو دوسری صدی کے نصف تک جاری رہا یہ دور ثانی ہے۔

تدوین حدیث کا سنہری دور

تدوین حدیث کا تیسرا دور دوسری صدی ہجری کے نصف آخر سے چوتھی صدی ہجری کے خاتمے تک پھیلا ہوا ہے۔ اڑھائی سو سالہ یہ عرصہ، تدوین حدیث کی تاریخ کا سب سے سنہری دور ہے جس میں محدثین نے اپنی ان تھک کاوشوں سے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ ان کاوشوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں مختلف شعبوں میں نمایاں کارناموں کی طویل فہرست ملے گی۔ جن میں سے چند ایک کا تذکرہ درج ذیل ہے۔

  • رواۃ حدیث کی چھان بین کے بعد اسی دور میں صحاح ستہ، مسند الدارمی، مسند امام احمد بن حنبل مصنف عبدالرزاق صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان جیسی معیاری اور معتبر کتب حدیث مرتب ہوئیں۔ جن میں گذشتہ صدی کی کتب خود بخود سمٹ آئیں۔
  • احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آثار صحابہ اور اقوال تابعین سے الگ کرکے مرتب کیا جانے لگا۔
  • نامور فقہاء کے اجتہادات اور مسائل کی تدوین و ترتیب کی روشنی میں محدثین نے احادیث مبارکہ کو فقہی ابواب اور واضح عنوانات (ترجمۃ الابواب) کے ساتھ مرتب کرنا شروع کر دیا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم اس کی بہترین مثال ہیں۔
  • اسی دور میں علم اصول حدیث مدون ہوا جس کی روشن میں مصطلحات حدیث وضح ہوئیں، صحت اور ضعف اور ردو قبول کے اصول و ضوابط متعین کئے گئے اور سینکڑوں کتب لکھی گئیں جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
  • علم ’’غریب الحدیث‘‘ کی بنیاد پڑی جس کے تحت احادیث مبارکہ کے مشکل الفاظ کی لغوی تحقیق کی گئی تاکہ فتوحات کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے والے غیر عرب مسلمانوں کے لئے احادیث کی تفہیم کو ممکن بنایا جاسکے۔ اس سلسلے میں تیسری صدی ہجری سے لے کر اب تک درجنوں کتب لکھی گئی ہیں، جن میں ابو عبید قاسم بن سلام (م 224ھ)، امام ابراہیم بن اسحاق الحربی (م 285ھ)، ابو سلیمان بن محمد بن ابراہیم الخطابی البستی (م 388ھ)، ابو عبید احمد بن محمد الہروی (م 401ھ)، ابو القاسم جار اﷲ الزمخشری (م 538ھ)، محمد بن ابی بکر اشعری مدینی (م 581ھ)، علامہ ابن جوزی (م 597ھ)، امام ابن اثیر (م 606ھ)، امام سیوطی (م 911ھ) اور محمد طاہر پٹنی (م 986ھ) کی کتب بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

حدیث کی حفاظت اور چھان بین کے لئے محدثین کرام نے درجنوں علوم کی بنیاد ڈالی جن پر اب تک کام جاری ہے اور ہزاروں کتب کا بے مثال ذخیرہ ہماری علمی تاریخ میں اضافے کا باعث بنا۔ اس دور میں شروع ہونے والے علوم حدیث میں سے علم اسماء الرجال، تاریخ الحدیث، علم جرح والتعدیل، علم الانساب، تخریج الحدیث، علم معرفۃ الاسماء ولکنیٰ اور علم الطبقات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ اختصار کے پیشِ نظر قارئین کی دلچسپی کے لئے ہم صرف علم اسماء الرجال کا اجمالی تذکرہ کر رہے ہیں۔

علم اسماء الرجال اور اس کی خصوصیت

مختلف باطل فرقوں کی طرف سے بپا کی جانے والی شر انگیزیوں کا تدارک کرنے کے لئے محدثین نے کڑے معیار متعین فرمائے اور اپنی زندگیاں ان اصولوں کی پرورش و نگہداشت کے لئے وقف کردیں۔ علم اسماء الرجال کے تحت کم و بیش 5 لاکھ راویوں کے حالات، پیدائش، وفات ان کے اخلاق، طرز زندگی، اساتذہ، تلامذہ اور دیگر شواہد پر مشتمل ایسا ذخیرہ علم ہے جس کی وسعت، پختگی اور تسلسل پر غیر مسلم اہل علم آج تک انگشت بہ دندان ہیں۔ یہ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کا حصہ ہے کہ جنہوں نے اپنے آقا نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال اقوال اور سنت کی حفاظت کے لئے خود کو وقف کر دیا اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان کرم کے طفیل ان پانچ لاکھ افراد کو بھی تاریخ میں زنادہ و جاوید کر دیا۔ ان پانچ لاکھ ’’رجال حدیث‘‘ میں تقریباً 13 ہزار وہ شخصیات ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور آپ سے روایت سن کر آگے بیان فرمائی، علامہ شبلی نعمانی نے اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہوئے بڑا خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔

’’مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہوسکتا کہ انہوں نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات و واقعات کا ایک ایک حرف استفصار کے ساتھ محفوظ رکھا کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلم بند نہیں ہوسکے اور نہ آئندہ اس کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس سے زیادہ کیا عجیب بات ہوسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و افعال کی تحقیق کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنے والوں اور ملنے والوں میں سے تقریباً تیرہ ہزار شخصیتوں کے نام اور حالات قلم بند کئے گئے اور یہ اس زمانے میں ہوا جب تصنیف و تالیف کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا‘‘۔

(شبلی نعمانی سیرت النبی جلد اول مطبع اردو بازار لاہور)

عظمت تو وہ ہے جس کا اعتراف مخالفین کریں، مشہور جرمن مستشرق ڈاکٹر سپرنگر نے ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘ کے ایڈیشن طبع 1886 کے مقدمے میں لکھا۔

’’کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری اور نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو۔ جس کی بدولت پانچ لاکھ مسلمانوں کا حال معلوم ہوسکتا ہے‘‘۔

(ابن حجر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، مقدمہ سپرنگر مطبوعہ کلکتہ)

متن حدیث کے ساتھ ساتھ سند کی تحقیق کے لئے فنِ علمِ الرجال کا ارتقاء ہوتا رہا اور اس پر تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ چنانچہ تیسری صدی ہجری میں علی بن المدینی (م234ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں، امام احمد بن حنبل (م 241ھ) نے ’’کتاب العلل و معرفۃ الرجال‘‘ میں، امام بخاری (م 256ھ) نے ’’تاریخ‘‘ میں، امام مسلم (م261ھ) نے ’’مقدمہ صحیح مسلم‘‘ میں اور امام ترمذی (م 279ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں رجال پر شاندار کام اسی دور میں سرانجام دیا۔

تیسری صدی ہجری میں علی بن المدینی (م 234ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں، امام احمد بن حنبل (م241ھ) نے ’’کتاب العلل و معرفۃ الرجال‘‘ میں، امام بخاری (م256ھ) نے ’’تاریخ‘‘ میں، امام مسلم (م261ھ) نے ’’مقدمہ صحیح مسلم‘‘ میں، امام ترمذی (م279ھ) نے ’’کتاب العلل‘‘ میں اسماء الرجال پر اسی ابتدائی دور میں کام شروع کر دیا تھا۔

چوتھی صدی ہجری میں اس فن پر کام کرنے والے درج ذیل لوگ ہیں امام نسائی (م303ھ) نے ’’کتاب الضعفاء والمتروکین‘‘ اور محمد بن احمد حماد الدولابی (م310ھ) نے ’’کتاب الاسماء والکنی‘‘ تصنیف کی اس کتاب میں راویان حدیث کے ناموں اور کنیتوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ ابو محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم الرازی (م327ھ) ’’کتاب الجرح والتعدیل‘‘کے مصنف ہیں اس کا مقدمہ قابل دید ہے اس کے علاوہ ’’کتاب الکنی‘‘ اور ’’کتاب المراسیل‘‘ بھی ان کی تصانیف ہیں جو اسی موضوع پر مشتمل ہیں۔ امام محمد بن حبان بستی (م354ھ) نے ’’کتاب الثقات‘‘ اور ’’کتاب المجروحین‘‘ لکھی ہیں۔ ابو احمد علی بن عدی بن علی قطان (م365ھ) نے فن اسماء الرجال پر ’’الکامل فی ضعفاء الرجال‘‘ کے نام سے کتاب لکھی، دار قطنی (م385ھ) نے اپنی ’’کتاب العلل‘‘ میں رجال پر بہت مفید بحثیں کی ہیں۔ امام دار قطنی نے ’’کتاب الضعفاء‘‘ بھی تالیف کی جو چھپ چکی ہے۔ اسی طرح ان کی کتاب ’’الموتلف والمختلف‘‘ بھی چھپ چکی ہے۔

پانچویں صدی ہجری میں ابو یوسف بن عمر بن عبدالبر (م463ھ) اور خطیب بغدادی (م463ھ) نے بھی اسماء الرجال پر بہت کام زیادہ کیا۔

چھٹی صدی ہجری کے مولفین رجال میں سے امام بیہقی (م558ھ) امام ابن جوزی (م597ھ) ہیں۔ اس کے علاوہ معروف محدث عبدالغنی مقدسی (م600ھ) نے ’’الکمال فی اسماء الرجال‘‘ لکھی۔

ساتویں صدی ہجری میں امام نووی (م676ھ) نے اس فن پر گراں قدر کام کیا۔ ان کی کتاب ’’تہذیب الاسماء واللغات‘‘ بہت معروف ہے۔

آٹھویں صدی ہجری میں حافظ یوسف بن زکی مزی (م742ھ) اور حافظ ذہبی (م748ھ) نے ’’تاریخ اسلام‘‘، ’’سیر اعلام النبلا‘‘ اور ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں اور ابوالفداء عمادالدین ابن کثیر (م774ھ) نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں رجال پر شاندار کام کیا۔

نویں صدی ہجری میں حافظ ابن حجر (م852ھ) نے اس فن پر اس حد تک گراں قدر کام کیا کہ رواۃ پر حکم کے معاملے کو حتمی شکل دے دی۔ ان کی کتب میں ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘، ’’تہذیب التہذیب‘‘ اور ’’تقریب التہذیب‘‘ بہت معروف ہیں۔ تقی الدین بن فہد (م 871ھ) نے بھی اس فن پر قابلِ ذکر کام کیا۔

دسویں صدی ہجری میں شمس الدین سخاوی (م902ھ) اور امام سیوطی (م 911ھ) نے بھی اس فن پر کام کیا۔

گیارھویں صدی ہجری کے رجال کے متعلق محمد المحبی نے ’’خلاصہ الاثرفی اعیان القرن الحادی عشر‘‘ لکھی اور بارہویں صدی ہجری میں اسماء الرجال کے متعلق ابوالفضل محمد خلیل بن علی المرادی (م1206ھ) نے ’’سلک الدررفی اعیان القرآن الثانی عشر‘‘ لکھی۔

(علوم الحدیث: تاریخی مطالعہ: ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر)

چنانچہ اس فن اسماء الرجال پر تحقیق کا یہ سلسلہ پہلی صدی ہجری سے لے کر اب تک جاری ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ راقم جب جامعہ الازہر میں زیر تعلیم تھا تو قاہرہ میں شیخ احمد المہندس کی ذاتی لائبریری میں Ph.D کے کام کے سلسلے میں آنا جانا رہتا تھا شیخ احمد جو کوئی عالم دین نہیں بلکہ ایک ضعیف العمر انجینئر تھے انہوں نے 45 ضخیم جلدوں میں اسماء الرجال کا ایک ’’موسوعہ‘‘ تیار کیا تھا اس کے قلمی نسخے سے محققین استفادہ کر رہے تھے لیکن یہ کتاب تاحال طبع نہیں ہوسکی تھی۔

کتب احادیث کے طبقات

محدثین نے روایات کی صحت و قوت کے لحاظ سے ان ادوار میں تیار ہونے والی تمام کتب حدیث کو چار طبقات پر تقسیم کیا ہے۔

٭ طبقہ اولیٰ میں موطا امام مالک، صحیح بخاری اور صحیح مسلم تینوں کتابیں شامل ہیں جو صحت سند اور راویوں کی ثقاہت کے اعتبار سے اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔

٭ طبقہ ثانیہ میں سنن ابوداؤد، سنن ترمذی، سنن نسائی شامل ہیں کیونکہ ان کتابوں کے بعض راوی ثقاہت کے اعتبار سے طبقہ اولیٰ کے مقابلے میں کمزور ہیں لیکن ان کو بہر حال قابل اعتماد مانا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (م1176ھ) نے موطا امام مالک کو اپنی تحقیق کے مطابق صحیحین سے بھی بہتر درجہ دیا ہے۔

(ملاحظہ ہو حجۃ اﷲ البالغہ ج: 1)

٭ طبقہ ثالثہ میں سنن دارمی (225ھ)، سنن ابن ماجہ (273ھ)، سنن بیہقی (457)، سنن دار قطنی (385ھ) طبرانی کی معاجم (360ھ) امام طحاوی کی کتب (221ھ) مسند شافعی (204ھ) اور مستدرک حاکم (405ھ) شامل کی جاتی ہیں۔ ان کتابوں میں صحیح، حسن اور ضعیف ہر قسم کی روایات موجود ہیں لیکن قابل اعتماد روایات کا عنصر غالب ہے۔

٭ طبقہ رابعہ میں ابن جریر طبری (310ھ) خطیب بغدادی (463ھ) ابو نعیم (403ھ) ابن عساکر (371ھ) دیلمی (509ھ) ابن عدی (365ھ) ابن مردویہ (410ھ) واقدی (207ھ) اور اسی نوع کے دوسرے مصنفین کی کتابیں شامل ہیں۔ ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک یہ تالیفات زیادہ تر کمزور اسناد سے مروی روایات کا مجموعہ ہیں لیکن ان کمزوریوں اور تسامحات سے ہٹ کر یہی کتب، تاریخ، اخلاقیات اور علوم و معارف کا بیش بہا خزانہ ہیں۔ عصر حاضر میں یہ کتب بھی نئی تحقیق و تخریج کے ساتھ چھپ کر مکتبوں کی زینت بن چکی ہیں اور ان کے حواشی پر محققین نے ان کی صحت و ضعف کی نشاندہی کردی ہے۔

کتب احادیث کی اقسام

تدوین احادیث کا چوتھا دور پانچویں صدی ہجری کے نصف آخر کے بعد شروع ہوتا ہے اس دور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سند کی تحقیق کا کام مکمل ہوچکا تھا اس لئے اس دور میں مرتب کی جانے والی کتب میں سند اور مکررات کو حذف کر دیا گیا ہے۔

اپنی روایت اور سند کے ساتھ احادیث جمع کرنے والے محدیثین کرام میں آخری کڑی کے طور پر امام بہقی (م457ھ) بطور خاص قابل ذکر ہیں یعنی ان پر روایت و تخریج کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اوران کے بعد جتنے ائمہ نے کام کیا انہوں نے مندرجہ بالا مرتب مجموعوں سے ہی نئی تبویب و ترتیب اور ضرورت کے تحت احادیث جمع کیں اور مذکورہ بالا علوم حدیث کے تحت مزید بہتر مجموعے تیار ہوئے۔ اہم کتب کی شروعات، حواشی اورتلخیص پر کتب کا آغاز ہوا اور الگ موضوعات پر مستقل کتب وجود میں آنے لگیں۔

کتب حدیث کو ہم درج ذیل عنوانات دے سکتے ہیں مثلاً کتب المسانید، کتب السنن، کتب المستدرکات، کتب المستخرجات، کتب غریب الحدیث، کتب الاطراف، کتب الامالی، کتب الزھد، کتب التشریحات، کتب المختصرات، کتب المنتخبات اور کتب الابعین۔ ان کتب احادیث کی ہرقسم میں درجنوں کتب ہیں جن کے یہاں نام گنوانے بھی مشکل ہیں اس لئے ہم اپنے موضوع سے متعلق صرف آخری قسم یعنی ’’المنتخبات فی الحدیث‘‘ کی چند مثالیں دے رہیں ہیں۔

کتب منتخبات الحدیث

بے شمار مصنفین نے منتخبات پر کام کیا اور خاص طور پر صحاح ستہ کے خلاصے لکھے۔ بطور خاص صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے احادیث کا انتخاب کیا گیا۔

  1. پہلے شخص جنہوں نے الجمع بین الصحیحین لکھی وہ ابو عبداللہ محمد بن ابو نصر فتوح بن حمید الحمیدی (م 488ھ) ہیں۔
  2. ابوالحسن زرین بن معاویہ العبدی (م 532ھ) نے تجرید الصحاح والسنن مرتب کی۔
  3. ابو محمد، عبدالحق اشبیلی (م 582ھ) نے الجمع بین الصحیحین لکھی۔
  4. ابو عبداللہ محمد بن حسین بن احمد بن محمد الانصاری (م 582ھ) نے الجمع بین الصحیحین لکھی۔
  5. مجدالدین المبارک بن ابی الکرم محمد بن محمد المعروف ابن الاثیر (م 606ھ) نے الجامع الاصول من احادیث الرسول لکھی جو کہ رزین بن معاویہ کی کتاب کا تکملہ تھی۔
  6. ابو عبداللہ محمد بن عتیق بن علی الغرناطی (م 646ھ) نے کتاب ’’انوار المصابیح فی الجمع بین الکتب الستہ الصحاح‘‘ لکھی۔
  7. رضی الدین حسن بن محمد الصاغانی (م 650ھ) نے صحیحین سے’’مشارق الانوار النبویۃ من صحاح الاخبار المصطفویۃ‘‘ مرتب کی۔
  8. شرف الدین ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن عبدالرحیم بن ابراہیم (م738ھ) نے ’’تجرید جامع الاصول من احادیث الرسول‘‘ لکھی یہ بھی ابن اثیر کے کام کا اختصار ہے۔
  9. عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن عمر المعروف ابن کثیر (م 774ھ) نے کتاب ’’جامع المسانید‘‘ لکھی انہوں نے صحاح ستہ کے ساتھ مسند احمد، مسند البزار، مسند ابویعلی اور المجعم الکبیر للطبرانی وغیرہ کتب سے بھی احادیث لیں۔
  10. نورالدین علی بن ابی بکر الہیشمی(807ھ) نے کتاب ’’مجمع الزوائد ومنبع الفوائد‘‘ میں ان حدیثوں کو جمع کیا جو مسند احمد، مسند ابو یعلیٰ، مسند البزار اور طبرانی کی معاجم میں ہیں لیکن صحاح ستہ میں نہیں۔
  11. ابو طاہر مجدالدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی (م 817ھ) نے کتاب ’’تحصیل طریق الوصول الی احادیث الزائدہ علی جامع الاصول‘‘ لکھی۔
  12. حافظ جلال الدین السیوطی (م911ھ) نے ’’جمع الجوامع‘‘ مرتب کی جس میں صحاح ستہ اور موطا امام مالک کی تمام مرویات کو حروف تہجی کی ترتیب کے ساتھ جمع کیا۔
  13. ابو ضیاء وجیہ الدین، عبدالرحمن بن علی بن محمد بن عمر المعروف ابن دیبع (م 944ھ) نے ’’تیسیر الوصول الی جامع الاصول‘‘ لکھی جو کہ ابن اثیر کے کام کا خلاصہ ہے۔
  14. علاء الدین علی المتقی الہندی (م 975ھ)، کنز العمّال في سنن الاقوال والافعال
  15. محمد طاہر پٹنی (م 986ھ) نے ابن اثیر کے کام کی مزید تلخیص کی۔
  16. محمد بن محمد بن سلیمان (م1094ھ) نے ’’جمع الفوائد من جامع الاصول ومجمع الزوائد‘‘ میں مجمع الزوائد، جامع الاصول اور سنن دارمی کی احادیث کوجمع کیا۔ اس طرح سے یہ کتاب 14 کتابوں کا مجموعہ بن گئی۔
  17. منصور بن علی ناصف نے ’’التاج الجامع للاصول‘‘ لکھی۔ اس میں انہوں نے ابن ماجہ کو چھوڑ کر باقی پانچ کتابوں کی احادیث کو اسناد کے بغیر جمع کیا۔
  18. محمد فواد عبد الباقی نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ اَحادیث پر مجموعہ اللؤلؤ والمرجان فیما اتفق علیھا الشیخان کے نام سے اسی دور میں مرتب کیا۔
    ٭ کچھ لوگوں نے صرف احکام پر کتب مرتب کیں ان میں چند مندرجہ ذیل ہیں:
  19. ابو محمد عبدالحق الاشبیلی کی (م 582ھ)، کتاب الاحکام الشریعۃ الکبریٰ
  20. تقی الدین ابو محمد عبدالغنی بن عبدالواحد المقدسی (م 600ھ) نے کتاب عمدۃ الاحکام مرتب کی۔
  21. عبدالسلام بن عبداللہ بن ابی القاسم بن تیمیہ (م653ھ) (جو کہ معروف علامہ ابن تیمیہ کے دادا ہیں) نے المنتقٰی من اخبار المصطفیٰ لکھی۔
  22. محمد بن علی المعروف ابن دقیق العید (م702ھ) نے احکام الاحکام شرح عمدۃ الاحکام لکھی۔
  23. احمد بن علی بن حجر العسقلانی (م 852ھ) نے بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام لکھی۔
  24. محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی (م 1182ھ) نے سبل السلام شرح بلوغ المرام لکھی۔
  25. محمد بن علی الشوکانی (م 1255ھ) نے نیل الاوطار شرح مثقی الاخبار لکھی۔
    ٭ بعض لوگوں نے تقویٰ، پرہیزگاری آداب و اخلاق اور زہد پر کتب جمع کیں جن میں سے درج ذیل قابل ذکر ہیں:
  26. ذکی الدین عبدالعظیم بن عبدالقوی المنذری (م 656ھ) نے چار جلدوں میں الترغیب والترہیب لکھی۔
  27. ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی (م 676ھ) نے ریاض الصالحین لکھی اس کتاب میں آداب سے متعلق احادیث جمع کیں۔ اس کتاب کو بھی شہرت دوام ملی۔
  28. ابو محمد شرف الدین الدمیاطی (م 705ھ) نے ’’المتبحرالرابغ فی ثواب العمل الصالح‘‘ مرتب کی۔
  29. ولی الدین خطیب التبریزی (م 741ھ) نے ’’مشکوۃ المصابیح‘‘ میں امام بغوی کی مصابیح السنہ کے علاوہ دیگر کتب سے احادیث کو منتخب کیااس کتاب کو پوری دنیا میں بالعموم اور برصغیر پاک وہند میں بالخصوص بہت زیادہ سراہا گیا اور تقریباً ہر دینی ادارے کے نصاب کا حصہ بنایا۔ عربی اور فارسی میں اس کی دو شروحات (لمعات التنقیح اور اشعۃ اللمعات) شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م 1054ھ) نے لکھیں اور ملا علی قاری (م 1014ھ) نے مرقاۃ المفاتیح کے نام سے اس کی شرح لکھی۔

برصغیر میں شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد خدمت حدیث کا سہرا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے سر سجا رہا۔ ان کے وصال کے بعد ان کے فرزند ارجمند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مسند حدیث کی زینت بنے رہے اور انہوں نے بھی نصف صدی سے زائد عرصہ خدمتِ حدیث کی۔ خاندان ولی اللہٰ کے علاوہ علماء سند علماء بریلی، علماء دیوبند علماء بدایوں، علماء لکنھو اور موجودہ پاکستان میں ہر مکتبہ فکر میں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مقدور بھر کام ہوتا رہا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ گذشتہ پانچ چھ صدیوں کے دوران برصغیر سمیت بلادِ عرب و عجم میں سینکڑوں اجل محدثین نے ہر صنف حدیث پر کتب تحریر کیں اور اب بھی ان ممالک میں الحمدللہ دن رات کام ہورہا ہے لیکن کوئی ایسا منتخب مجموعہ احادیث منظر عام پر نہیں آسکا جس کو مشکوٰۃ یا ریاض الصالحین کی طرح شہرت اور قبول عام مل سکا ہو۔ عرب ممالک میں امہات الکتب کے نت نئے خوبصورت محققہ ایڈیشن آرہے ہیں۔ جامعات و مدارس میں احادیث کی تخریج و تحقیق پر بھی شاندار کام ہورہا ہے مگر آسان فہم پیرائے میں عوام و خواص کی ضرورت کی تکمیل کے لئے کوئی ایسی قابل ذکر کوشش نہ ہوسکی۔ یہ توفیق اور سعادت اللہ پاک نے موسس تحریک منہاج القرآن کے لئے مختص کردی کہ انہوں نے اصلاح احوال امت کے لئے دین کے حقیقی سرچشموں سے اکتساب فیض کیا اور تعلیمات قرآن و سنت کو عصری ضرورتوں کے سانچوں میں ڈھال کر پیش کرنا شروع کیا۔ آپ کی خدمت حدیث پر روشنی ڈالنے سے قبل آیئے جائزہ لیتے ہیں کہ عصر رواں میں حدیث مبارکہ کے حوالے سے کن کن میدانوں میں کام کی ضرورت ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ بانی تحریک منہاج القرآن نے حدیث مبارکہ کی خدمت فی الواقع وقت کی ضرورت کے عین مطابق شروع کی ہے۔

عصر حاضر میں مطالعہ حدیث کا مطلوبہ منہج

آج زندگی نئے ادوار و مقتضیات میں داخل ہوچکی ہے۔ ہر دور کی طرح آج کی حشر سامانیوں کا مقابلہ بھی اہل علم رجال دین کا فرض ہے۔ آج جس طرح قرآن کی تشریحات، اطلاقات اور مفاہیم کی تعبیر نو وقت کا تقاضا ہے اسی طرح احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اسلام کا دوسرا بڑا ماخذ اور ذریعہ عمل (Source of Inspiration) ہے اس کی حقانیت اور حجیت مسلّم کرنے کی کہیں زیادہ ضرورت ہے اور اس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں۔

٭ پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی قطعیت، آفاقیت اور حجت امرتابتہ ہے اگرچہ مبغضین اسلام اس پر بھی اظہار تشکیک سے باز نہیں آئے لیکن قرآن کی حقانیت و صداقت پر اعتراض کرنے والوں کے مقابلے میں احادیث و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حجیت و متابعت پر انگلی اٹھانے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

٭ احادیث نبویہ پر کام کرنے کی ضرورت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ نسل نو جدید علوم و افکار سے متاثر ہورہی ہے۔ ان کے ذہنی افق پر جدید مادی اور الحادی افکار و نظریات کی چھاپ نمایاں ہورہی ہے جس کے مظاہر روزمرہ حالات و واقعات میں عیاں ہیں۔ ایسے میں ذہن جدید کی تسکین، اضطراب اور تشکیک کا اعلاج قرآن حکیم کے بعد حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ممکن ہے۔

٭ احادیث کا ذخیرہ امت مسلمہ کے پاس ایک نعمت خداوندی ہے جس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔ یہ علوم اور معارف کی ایک مستند تاریخ ہے جس سے قیامت تک ہر دور کا انسان مستفیض ہوتا رہے گا۔ انسانی علوم کے ماہرین نے ہر دور میں وحی کی احتیاج اور ضرورت محسوس کی ہے۔ یہ دور سائنسی علوم کی معراج اور ارتقاء کا دور ہے آج کا انسان اپنی علمی انتہاؤں پر پہنچ کر بھی علم بالوحی کے بغیر حقیقت مطلقہ تک رسائی سے قاصر ہے اس لئے نام نہاد ترقی کی منزلیں طے کرنے والی انسانیت کے لئے ہدایت ربانی کے اس رسول ساختہ نظام اور دستور کی معرفت بہت ضروری ہے۔

٭ قرآن حکیم کی طرح حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تمام علوم و معارف کا سرچشمہ ہے۔ ہر دور کے انسان نے اس سرچشمہ صافی سے راہنمائی حاصل کی۔ آج علوم معاشرت (Social Sciences)، علوم سائنس Natural Sciences علوم الاقتصاد (Economics) علوم طب Medical Sciences اور دیگر علوم کی نئی نئی جہتیں سامنے آرہی ہیں۔ نئی تہذیب اور ثقافت جنم لے رہی ہے مسلم تاریخ ایک بالکل نئے موڑ پر آپہنچی ہے جہاں اسے نئے مسائل اور نئے چیلنج در پیش ہیں۔ ان مسائل اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں وہی نور وہی یقین اور وہی وثوق اور عرفان درکار ہے جو ہر دور میں اہل ایمان کا طرہ امتیاز رہا ہے اور اس کا حصول قرآن و سنت جیسے یقینی علم کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست، معیشت، معاشرت، تربیت، تجارت اور تدریس و تعلیم جیسے بنیادی موضوعات پر نئے سرے سے حدیث نبوی کے محققہ مجموعے مرتب کئے جائیں۔ اس میں شک نہیں کہ آج کل ہمارے مذہبی، تعلیمی اداروں اور خصوصاً جامعات میں اس نوعیت کے منتخبات پر کام ہورہا ہے مگر۔ ۔ امتحانی ضرورت اور مخصوص تحقیقی نقطہ نظر سے ہٹ کر عامۃ الناس کی ضرورت اور افادیت کو سامنے رکھا جانا زیادہ ضروری ہے۔

٭ متون حدیث کی ترتیب نو کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ احادیث کے مفاہیم و معانی اور تشریح کو دور جدید کے تناظر میں لایا جائے کیونکہ پرانی شرحیں پرانے پس منظر میں لکھی گئیں، اب وہ حالات نہیں اس لئے پرانا اسلوب اپنے اندر وہ افادیت نہیں رکھتا۔ مثلا مختلف فرقوں اور باطل مذاہب کی طرف سے اعتراضات وارد کئے گئے تو ان کا جواب احادیث سے دیا گیا لیکن ان مذاہب اور افکار میں سے اب اکثر ختم ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ اب نئے اعتراضات اور جدید مسائل نے لے لی ہے۔ جیسے یونانی فلسفہ ایک عرصے تک ذہنوں پر چھایا رہا لیکن اب ختم ہوگیا ہے مگر اس کی جگہ مغربی علوم کی چھاپ ہماری ثقافت پر گہری ہوتی جارہی ہے لہذا اب ان فلسفیانہ اور منطقی ابحاث کی ضرورت نہیں رہی بلکہ نئے چیلنجز کو نئے انداز سے Address کرنے کی ضرورت ہے۔

٭ عام مسلمانوں میں کچھ غلط فہمیاں دورِ زوال کا تحفہ ہیں اور کچھ تنازعات کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ بندی کار فرما ہے۔ خصوصاً عقائد میں ایسے اختلافات جو انسان کو مرنے مارنے پر ابھارتے ہیں جن کی وجہ سے اسلامی جمعیت منتشر بھی ہورہی ہے اور باطل استعمار کو اس اختلاف و انتشار سے فوائد بھی حاصل ہورہے ہیں۔ اس کی واضح مثال موجودہ دور کے متشددانہ رحجانات کا فروغ ہے جس کے رد عمل میں اسلام کا تاثر (Image) عالمی سطح پر نہایت ہی متنازعہ ہوچکا ہے۔ اسلام کے خلاف بڑی سے بڑی جنگ بھی اتنا نقصان نہیں کرسکتی تھی جتنا ایک دہشت گردی کے الزام نے اس کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔ بلاشبہ اس تاثر کو زائل کرنا بھی اس دورکا ایک بڑا مسئلہ اور اسلام کی بہترین خدمت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و سنت کی صحیح تعلیمات اپنے حقیقی رنگ میں پیش کرنے سے یہ تاثر بھی اپنی موت آپ مرجائے گا۔

حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترویج میں نمایاں خدمات

مندرجہ بالا حقائق سے واضح ہوجاتا ہے کہ عصر حاضر میں خدمت حدیث کا کتنا وسیع سکوپ موجود ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام مجد الدین والملہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ جیسے دانا و بینا شخص کی نظروں سے یہ میادین علم و فکر اوجھل نہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیات بھی مرحمت فرمائی ہے کہ وہ محض علمی ذخیرے جمع نہیں کرتے بلکہ امت مسلمہ کا ایک قابل ذکر حصہ خصوصاً نئی نسل ان سے مانوس بھی ہے اور ان کے اشارہ ابرو پر جان بھی چھڑکتی ہے۔ ان کے مواعظ حسنہ اور علمی و تحقیقی نشریات سے ایک جہان مستفیض ہورہا ہے۔ یوں تو انہوں نے تفسیر سیرت، تصوف، سائنس، معاشیات، سیاسیات، عمرانیات اور فکریات پر بے مثال ذخیرہ سمعی، بصری اور کتابی شکل میں قوم کو دیا ہے اور یہ مقدس مشن اب بھی جاری ہے لیکن احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کے محاذ پر جتنی عرق ریزی اور جانفشانی سے انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے یہ توفیق ہمارے دور میں عرب و عجم کے کسی شخص کے حصے میں نہیں آئی۔ بلاشبہ ان کی مجتہدانہ شان اور علمی منصب اس بات کا متقاضی بھی تھا کہ وہ اس بنیادی دینی ضرورت کی طرف متوجہ ہوتے۔ ذیل میں ان کی چند اہم کتب حدیث کا نام اور بعض کا مختصر تعارف دیا جارہا ہے۔

  1. المنہاج السوی من الحدیث النبوی
  2. الاربعین فی فضائل النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  3. الاربعین بشری للمومنین فی شفاعۃ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  4. البدر التمام فی الصلوۃ علی صاحب الدنو والمقام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  5. احسن السبل فی مناقب الانبیاء والرسل
  6. العقد الثمین فی مناقب امہات المومنین
  7. غایۃ الاجابۃ فی مناقب القرابۃ (اہل بیت اطہار کے فضائل و مناقب)
  8. القول الوثیق فی مناقب الصدیق ص
  9. القول الصواب فی مناقب عمر ابن الخطاب ص
  10. روض الجنان فی مناقب عثمان بن عفان ص
  11. کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب ص
  12. السیف الجلی علی منکر ولایت علی رضی اللہ عنہ (اِعلانِ غدیر)
  13. الدرۃ البیضاء فی مناقب فاطمۃ الزہراء سلام اﷲ علیہا
  14. مرج البحرین فی مناقب الحسنین علیہما السلام
  15. کنز الانابۃ فی مناقب الصحابۃ (صحابہ کرام کے فصائل و مناقب)
  16. القول المعتبر فی الامام المنتَظر ں (اِمام مہدی ں)
  17. روضۃ السالکین فی مناقب الاولیاء والصالحین
  18. الکنز الثمین فی فضیلۃ الذکر والذاکرین
  19. العبدیۃ فی الحضرۃ الصمدیۃ (آداب و حقوقِ بندگی)
  20. اللباب فی الحقوق والاداب (انسانی حقوق و آداب سے متعلق مجموعہ احادیث)
  21. البینات فی المناقب والکرامات (اولیاء اﷲ کے فضائل اور ظہورِ کرامت کا جواز)
  22. الصلاۃ عند الحنفیہ فی ضوء السنۃ النبویۃ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ نماز)
  23. التصریح فی صلاۃ التراویح (بیس رکعت نمازِ تراویح کا ثبوت)
  24. الدعاء بعد الصلاۃ (نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے کے جواز پر اَحادیث)
  25. الانتباہ للخوارج والحروراء (گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں منتخب احادیث نبوی)

عرفان السنۃ

  1. کتاب المناقب
  2. کتاب فضائل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  3. کتاب شمائل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  4. کتاب معجزات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  5. کتاب العقائد
  6. کتاب العبادات
  7. کتاب الاحکام
  8. کتاب الآداب
  9. مسند اہل البیت
  10. مسند الزواج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  11. مسند خلفاء الراشدین
  12. مسند الامام الاعظم ابی حنیفۃ
  13. کتاب الدعوات السبعۃ
  14. کتاب فضائل الاماکن

مندرجہ بالا مجموعہ ہائے حدیث میں اکثر و بیشتر کتب زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر قبول عام حاصل کرچکی ہیں۔ تاہم عرفان السنۃ کا عظیم الشان پراجیکٹ ابھی تک زیر تکمیل ہے جس میں کم و بیش پچیس ہزار سے زائد احادیث مبارکہ درج بالا عنوانات کے تحت نئی ترتیب اور مروجہ تخریج کے ساتھ مرتب ہوں گی۔ یہ کام بلاشبہ اس صدی کا ایک نمایاں علمی کارنامہ اور حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شاندار خدمت ہوگی۔ عرفان السنۃ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، مندرجہ بالا اَہم ترین عنوانات سے ڈیڑھ درجن سے زائد ضخیم جلدوں پر مشتمل تاریخی اور مستند مجموعہ اَحادیث ہوگا۔ ہر جلد کئی ابواب اور ہر باب متعدد فصول پر مشتمل ہوگا جس کی مکمل منصوبہ بندی ہوچکی ہے، اور حضرت شیخ الاسلام کی زیر نگرانی فریدِ ملّت رحمۃ اللہ علیہ رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ کی ایک فاضل ٹیم اس پر دن رات کام کر رہی ہے۔ اس کی نمایاں خصوصیات میں حدیث الباب اور ترجمۃ الباب کی مطابقت، سلیس اُردو ترجمہ، جدید تحقیق و تخریج اور اِنتخابِ حدیث میں موزوں اور صحیح ترین اَحادیث کا چناؤ بہ طور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اس کی ایک جلد۔ کتاب المناقب۔ پر کام مکمل ہوچکا ہے، جب کہ اس کے دیگر اَجزاء مثلاً کتاب الدعوات السبعۃ جو دعوتِ اِصلام کے ان سات عناصر پر مشتمل ہے جو تحریک منہاج القرآن کے مقاصد ہیں۔

ان کتب کی فرداً فرداً تفصیلات کو زیر بحث لانے کی بجائے صرف نمونے کے طور پر اَوّل الذکر کتاب۔ المنہاج السوی من الحدیث النبوی۔ کی خصوصیات نذرِ قارئین ہیں۔

1۔ المنہاج السوی من الحدیث النبوی۔ اِمتیازات و خصوصیات

یہ منتخب مجموعہ 1100 احادیث پر مشتمل ہے۔ اس کے کل 16 ابواب ہیں جن کی ترتیب یہ ہے:

  1. الایمان والاسلام والاحسان
  2. حکم الخوارج والمرتدین والمتنقصین النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  3. العبادات والمناسک
  4. کیفیۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  5. صلاۃ التراویح وعدد رکعاتھا
  6. الدعاء بعد الصلوات المکتوبۃ۔
  7. الاخلاص والرقائق
  8. فضل العلم والاعمال الصالحۃ
  9. عظمۃ الرسالۃ وشرف المصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  10. جامع المناقب
  11. المعجزات والکرامات
  12. شرف ھذہ الامۃ
  13. الاعتصام بالسنۃ
  14. البر والصلۃ والحقوق
  15. الآداب والمعاملۃ
  16. الاحادیات والثنائیات والثلاثیات

٭ جیسا کہ عنوانات سے ظاہر ہے اس میں صحت عقائد اور مذہب حنفی کے دلائل کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

٭ نہایت جامع مگر مختصر مجموعہ احادیث ہے جس میں ضروریات دین سے متعلق تمام امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔

٭ احادیث کے انتخاب میں نہایت احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ ہر حدیث صحت کے اعلیٰ معیار کی حامل ہو۔ ان موضوعات پر بلاشبہ کتب احادیث میں کافی ذخیرہ موجود ہے مگر منہاج السوی میں وہی احادیث جمع کی گئی ہیں جو براہ راست موضوع سے متعلق ہوں۔

٭ اسے ہر طبقہ اور ہر مسلک کے لئے برابر باعث کشش بنایا گیا ہے تاکہ بین المسالک پہلے سے موجود خلیج کو وسیع کرنے کی بجائے ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔

٭ ان موضوعات میں سے بیشتر ایسے ہیں جن پر علیحدہ علیحدہ کتب لکھی گئی ہیں لیکن یہاں ایک ہی کتاب میں وہ مستقل عنوانات ابواب کی صورت میں یکجا کردیئے گئے ہیں مثلاً صلاۃ التراویح وعدد رکعاتہا، الدعا بعد الصلاۃ اور حکم الخوارج والمرتدین والمتنقصین النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

٭ اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت ترجمہ الابواب ہے۔ یہ بلاشبہ ایک اجتہادی کاوش ہے، اتنے واضح عنوانات کے تحت براہ راست احادیث شاید ہی کسی اور کتاب میں دی گئی ہوں مثلاً اس کے باب نمبر 9 کا عنوان ہے۔ عظمۃ الرسالہ وشرف المصطفی‘‘ یعنی یہ فضائل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مشتمل باب ہے جس میں 10 فصلیں باندھی گئی ہیں اور ہر فصل میں متعدد احادیث ہیں۔ ہر فصل کا عنوان اپنی جگہ ایک مستقل موضوع ہے اور یہ وہی موضوعات ہیں جن پر اکثر وبیشتر مناظرے اور مکالمے جاری رہتے ہیں مثلاً پہلی فصل میں حیات انبیاء کی احادیث جمع کی گئی ہیں۔ دوسری فصل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم اور معرفت کی شان بیان کی گئی ہے۔ اس طرح تیسری فصل میں ہر شخص سے قبر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق پوچھے جانے والے سوال کا بیان ہے۔ چوتھی فصل بیان شفاعت پر مشتمل ہے۔ پانچویں فصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور صالحین کی صحبت کی فضیلت پر مشتمل ہے۔ چھٹی فصل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار مبارکہ سے حصول تبرک سے متعلق ہے۔ ساتویں فصل میں انبیاء و صالحین سے توسل کا بیان ہے۔ آٹھویں فصل میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت خصوصیت بیان ہوئی ہے۔ نویں فصل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدم مثلیت کا بیان ہے اور دسویں فصل ایسی احادیث کا مرکب ہے جن میں تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم دی گئی ہے۔

٭ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ وہ موضوعات ہیں جن میں سے ہر ایک پر بحث مباحثے ہوتے ہیں اور دلائل دیئے جاتے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام کی محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض ہے کہ انہوں نے ان دس عنوانات کے تحت وہ ساری احادیث یکجا فرما دیں جو متعلقہ موضوعات کے باب میں اہم ترین دلائل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ لوگ ان بنیادی عقائد کو ثانوی مصادر اور کتب سے پڑھنے اور سمجھنے کی بجائے براہ راست حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سمجھیں اور دلوں میں ایمان کا نور سمیٹیں۔ جب ایک چیز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہورہی ہے تو یہ بحث خود ہی خارج ہوجاتی ہے کہ یہ جائز ہے یا نہیں۔

٭ پوری احادیث کی باقاعدہ تخریج کی گئی ہے، یہ طریقہ عام طور پر عرب ممالک میں نئی چھپنے والی کتب احادیث میں رائج ہے۔ ہمارے ہاں تخریج و تحقیق پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی تھی لیکن اس کتاب سمیت شیخ الاسلام کی دیگر کتب حدیث اور عقائد پر اسی طرح اہتمام سے تخریج کی جارہی ہے۔ ظاہر ہے یہ کام جہاں محنت طلب ہے وہاں پوری ذمہ داری کا حامل بھی ہے۔

٭ ابواب سمیت پوری کتاب کی احادیث کا آسان سلیس اردو ترجمہ بھی کر دیا گیا ہے جس سے عربی سے نابلد اردو جاننے والے خواتین و حضرات کے لئے آسانی پیدا ہوگئی ہے اور اس کے ساتھ اس کتاب کے قارئین کا حلقہ بھی بڑھ گیا ہے۔ پاکستان اور بیرون ملک تحریک کی تنظیمات دروس قرآن کے اہتمام کے ساتھ ساتھ دروس حدیث بھی منعقد کروارہی ہیں جن میں اسی کتاب سے احادیث پڑھی اور سنی جاتی ہیں یوں اس مبارک کام کی پذیرائی ابتدائی سالوں میں ہی پوری دنیا میں پھیل گئی ہے اور یہ عنداللہ اس عمل خیر کی قبولیت کی روشن دلیل ہے۔

ترجمۃ الباب کی خصوصیات

محدثین کرام نے صحیح بخاری کو جن امتیازات کے سبب اسے قرآن کے بعد سب سے بہترین کتاب کا درجہ دیا ان میں سند کی صحت کے علاوہ ’’ترجمۃ الباب‘‘ کی خصوصیت بھی ہے۔ یعنی امام بخاری نے ابواب کے جو عنوانات رکھے ہیں وہ بڑے ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ محدثین اس بات پر متفق ہیں کہ ’’فقہ البخاری فی ابوابہ‘‘ مراد یہ کہ یہ عنوانات ہی امام بخاری کی فقہی اور اجتہادی بصیرت کا محکم ثبوت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ترجمۃ الباب کو احادیث الباب کا مصداق بنایا جس سے ان کی فقاہت اور قوتِ استنباط کی خوبی جھلکتی ہے اور یہی ملکہ انہیں دیگر معاصر محدثین سے ممتاز کرتا ہے۔ احادیث کے باب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امام بخاری ان احادیث سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ابواب کے انہی عنوانات سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ بھی ہوتا ہے کہ امام بخاری احناف وغیرہ سے بعض مسائل میں واضح اختلاف کرتے ہیں حالانکہ ان احادیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔

امام بخاری کی اس خصوصیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ان کی حدیث فہمی کا فیض سمیٹنے والے بطل جلیل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فقہ الحدیث کا تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ’’عرفان السنۃ‘‘ اور ’’المنہاج السوی‘‘ کی جو امتیازی خصوصیت ہے وہ بھی ان کتب احادیث کے ترجمۃ الابواب یعنی ابواب کے عنوانات ہیں۔ ترجمۃ الابواب اور احادیث الابواب کی یہ خوبصورت مطابقت پورے ذخیرہ حدیث میں اور کہیں نہیں ملتی۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اس کام کی ضرورت و اَہمیت واضح کرتے ہوئے خود بیان فرماتے ہیں:

’’میں نے المنہاج السوی کے نام سے حدیث کی کتاب مرتب کیوں کی؟ حالانکہ حدیث تو کائنات میں کوئی شخص اپنے پاس سے نہیں بناسکتا اور جو نئی حدیث گھڑے گا وہ کافر ہوجائے گا اسلئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّاَ مَقْعَدَه مِنَ النَّار.

(صحیح البخاری، ج1، رضی اللہ عنہ 434، حدیث 1229)

مشکوٰۃ شریف کے مرتب ہونے سے پہلے امام نووی کی ریاض الصالحین اور امام منذری کی ’’الترغیب والترہیب‘‘ جیسی کتب تھیں۔ الغرض امہات الکتب کے بعد احادیث کی جتنی بھی کتب مرتب و مدون ہوئیں ان سب مجموعوں کا وقت تدوین آج سے چھ سات سو سال قبل کا ہے۔ اس عرصہ میں احادیث کی جمع و تدوین کا کام نہیں ہوا۔ ان تمام کتب میں حدیث کا عنوان اور تراجم الابواب مختلف ہیں اور ترجمۃ الباب و حدیث الباب میں مطابقت نہیں ہے۔ اس وجہ سے اہل علم کو اپنا مذہب، عقیدہ، مسلک کے ثبوت اور بعض احکام و مسائل کے حل کے لئے حدیث تک رسائی پانے میں مشکل پیش آئی۔ سوائے اس کے کہ وہ ساری احادیث لفظ بلفظ خود پڑھیں اور تب جاکر اپنے مسائل کے حل اور عقیدہ و مسلک کے ثبوت میں احادیث تک رسائی حاصل کریں اگر کتاب اور فقط ترجمۃ الباب پر جائیں تو مسائل حل نہیں ہوتے۔

چھ سات صدیاں گزرنے کے بعد علمی ضروریات بدل گئیں۔ ۔ ۔ اس وقت عقائد کے باب میں فتنے نہیں تھے۔ ۔ ۔ تمام عقائد کی جہت خواہ وہ حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی تھے ایک ہی تھی۔ ۔ ۔ عقائد میں کوئی تضاد نہ تھا۔ ۔ ۔ اختلاف صرف فقہی مذہب میں تھا یا عقائد کی تشریحات اور فروعی تفصیلات میں تھا۔ ۔ ۔ مگر بنیادی عقائد خاص طور پر شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق عقائد میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ ۔ ۔ 6 / 7 صدیاں گزرنے کے بعد بڑے بڑے فتنوں نے سر اٹھایا۔ ۔ ۔ بڑے بڑے مسائل وضع ہوئے۔ ۔ ۔ امت میں تفرقے پیدا ہوئے۔ ۔ ۔ فرقے، مسالک، مکاتب و فکر میں موجود آئے جغرافیے بدل گئے۔ ۔ ۔ نئی نئی تعبیرات نے سر اٹھایا اور دین و عقیدہ کے باب میں بڑے فتن اور زلازل پیدا ہوئے۔ کتب حدیث وہی تھیں۔ ۔ ۔ ان کے تراجم الابواب وہی تھے۔ ۔ ۔ ایک عام عالم، واعظ، خطیب، استاد، طالب علم تراجم الابواب کی فہرست دیکھ کر احادیث تک رسائی نہیں پاسکتا تھا۔ ۔ ۔ اور لاکھوں کی تعداد میں لفظ بلفظ تمام احادیث کو پڑھنا کسی کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ ۔ ۔ پس اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ جس طرح آئمہ نے احادیث کے مطالب و معانی کے مطابق اپنے اجتہاد سے تراجم الابواب متعین کئے تھے اور ان تراجم الابواب کے مطابق احادیث ملتی تھیں۔ ۔ ۔ اب دوبارہ نئے سرے سے احادیث کے تراجم الابواب مقرر کئے جائیں۔ ۔ ۔ لہذا منہاج السوی میں اصل محدثانہ کام یہ ہے کہ ان احادیث نبوی پر مدار قائم کرتے ہوئے نئے سرے سے تراجم الابواب، علمی ضروریات کے مطابق مقرر کئے ہیں۔ ۔ ۔ تاکہ جس موضوع پر حدیث دیکھنا چاہیں اسی موضوع پر باب مل جائے‘‘۔

(اقتباس درس بخاری برمنگھم UK)

جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے واضح بھی فرمایا ہے کہ ہمارے دور کا اہم مسئلہ فقہی مسائل کا استنباط نہیں بلکہ ان اعتقادی اور نظری مسائل کا حل ہے جو مسلمانوں کے درمیان باعث نزاعات و اختلافات ہیں۔ ان میں سے بعض نظری اور اعتقادی مسائل تو صدیوں پر پھیلے ہوئے ہیں لیکن کچھ گذشتہ صدی کی پیداوار ہیں۔ ان کی وجہ سے افراط و تفریط کا شکار گروہ اور مسالک باہم دست و گریبان رہتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان مسائل کو معتدل انداز کے ساتھ فریقین کے سامنے رکھا جاتا اور حتی الامکان ان کی شدت میں کمی کی کوشش کی جاتی۔ یہ کوشش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی تھی جب تک قرآنی نصوص کے ساتھ احادیث مبارکہ کو قول فیصل نہ بنایا جاتا۔ یہ کاوش حضور شیخ الاسلام نے ترجمۃ الابواب اور احادیث الابواب کے انتخاب کے ذریعے کی ہے۔ وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ مستقبل قریب کا مؤرّخ ہی بہتر بتا سکے گا مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ان کی اتحاد بین المسلمین کی علمی و عملی کاوشیں کماحقہ رنگ لارہی ہیں۔ علماء ایک دوسرے کے موقف کو سنتے ہیں برداشت کرتے ہیں اور دوسروں کو جینے کا حق دینے کے لئے تیار ہورہے ہیں۔

منہجِ اعتدال

مقدس شخصیات کے بارے میں اختلافات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان کے مقام و مرتبہ کو سمجھنے میں راہِ اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں مثلاً ایک گروہ اگر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اور اصحاب اہل بیت کو ان کے جائز مقام ومرتبے سے آگے لے جائے اور انہیں نبی سے بڑے رتبے پر فائز کرنے کے دلائل دینا شروع کردے تو لامحالہ رد عمل تو ہوگا۔ اسی طرح یہ ردّ عمل بھی اگر اعتدال سے ہٹ جائے تو ذاتی مخالفت میں انسان ان مقدس شخصیات کے بارے میں توہین اور نامناسب رویوں کا حامل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت امت کو جن داخلی خلفشار ات کا سامنا ہے ان میں سر فہرست یہی شیعہ سنی کا جھگڑا ہے جس کی جڑیں ہر اسلامی ملک میں ہیں اور اس کے ڈانڈے موجودہ بین الاقوامی سازشوں سے ملے ہوئے ہیں۔ آج بھی امت کا قابلِ ذکر حصہ خوارج اور شیعہ کی دو انتہاؤں میں بٹا ہوا ہے اور دونوں طرف سے کچھ تخریبی عناصر خون خرابے کا افسوسناک کھیل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان دگرگوں حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ان چند عالمی شخصیات میں سے ایک ہیں جو مسلک اعتدال کے نمائندہ اور اتحاد کی علامت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ اس خصوصیت کو ان کے مرتبہ مجموعہ ہائے احادیث اور دیگر کتب کے علاوہ ہزاروں خطابات و دروس میں دیکھا جا سکتا ہے جو گزشتہ بیس سالوں سے ایک فعال ذریعہ تعلیم و تربیت کے طور پر اَطراف و اَکنافِ عالم میں مؤثر کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے اگر ’’القول الوثیق فی مناقب الصدیق‘‘، ’’القول الصواب فی مناقب عمر بن الخطاب‘‘ اور ’’روض الجنان فی مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ‘ میں فضائل اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی احادیث جمع کی ہیں تو دوسری طرف ’’السیف الجلی علی منکر ولایت علی‘‘ اور ’’کنزالمطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب‘‘ جیسے تاریخی مجموعے بھی مرتب کئے ہیں۔

٭ ان کتب کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان میں بیان کردہ احادیث مبارکہ کو منتخب کرتے ہوئے راوی کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے مثلاً سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے مناقب بیان کرتے ہوئے ان احادیث کو ترجیحاً ذکر کیا گیا ہے جو سیدہ عائشہ صدیقہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی تھیں۔ اسی طرح سیدنا صدیق اکبر فاروق اعظم اور عثمان غنی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب و فضائل میں ان احادیث کو خصوصی طور پر درج کیا گیا ہے جو سیدنا علی المرتضیٰ اور سیدنا عبداللہ بن عباس سے مروی تھیں تاکہ حاسدین اور مفسدین ان شخصیات کے مابین اختلافات کی خلیج وسیع کرنے کی جرات نہ کرسکیں۔

تبصرہ