تفسیر منھاج القرآن

تفسیر منھاج القرآن (عصری مسائل اور تقاضوں کے تناظر میں ایک مطالعہ)

تحریر : ڈاکٹر طاہر حمید تنولی

ملت اسلامیہ کا یہ اعزاز و امتیاز ہے کہ اللہ تعالی نے اسے انسانیت کے لیے آخری اور حتمی منشور حیات یعنی قرآن حکیم کا وارث و امین بنایا۔ اپنے پیغام کے ابلاغ کے لیے قرآن حکیم کا انداز تخاطب عمومی انداز کا حامل ہے۔ طلب عمل، تعمیر کردار اور مژدہ اکرام و انعام کا کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں جس میں قرآن حکیم نے کائنات انسانیت کو طبقاتی یا اصطفافی (Segregational) انداز سے مخاطب کیا ہو۔ قرآن حکیم کی ابدی ہدایت و اثر آفرینی اور امت مسلمہ کی عمومی معروضی حالت میں موجود واضح فرق ہمیں اس تاریخی حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ :

1۔ عالم اسلام اپنے عروج کے دور سے تا حال اپنے مرکز زوال سے دوبارہ نہیں ابھرا۔ بغداد، قرطبہ، خلافت عثمانیہ اور دہلی کے زوال کی داستانیں ہمارے سامنے ہیں۔ گو اہل ایمان صورت خورشید طلوع ہو کر نئی تاریخ رقم کرتے رہے ہیں۔

2۔ آج مغرب بتدریج عروج کی طرف گامزن ہے اور مغرب کا عروج دنیاوی لحاظ سے ہمہ گیر ہے۔ مذہب و الوہی اقدار سے ماسوا زندگی کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جس کا مغربی عروج نے احاطہ نہ کیا ہوجبکہ عالم اسلام اور مغرب میں عروج و زوال کی خلیج مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

عروج و زوال کے اس واضح و نمایاں خلیج کے سبب سے غالب اور مائل بہ زوال کلچرز کے فطری رویوں کے سبب عالم اسلام میں کئی طبقات کی طرف سے انتہا پسندانہ رحجانات کے سبب سے مسلم فکر کے بین الاقوامی اور بین الثقافتی اثر و نفوذ کی راہیں محدود ہو رہی ہیں۔

قرآنی فکر کی نتیجہ خیزی اور عمومی عملی رویّے

قرآن حکیم کے عمومی طرز تخاطب کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ :

1۔ معاشرے میں موجود اور متداول ذہنی ثنویت (Intellectual Duality)کا خاتمہ ہوت، کیونکہ دریں حال مسلم معاشرے میں دو اذہان کارفرما ہیں :

  1. قرآنی ذہن
  2. عمومی ذہن

اس دوہرے ذہنی معاشرے کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کا بیان کردہ تصور اجر و اخذ ہمارے عمومی عملی رویے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہم روزمرہ زندگی میں کچھ اعمال اللہ کی رضا کے لیے اور کچھ زندگی کے کاروبار کو رواں دواں رکھنے کے لیے انجام دے رہے ہیں اور ہماری پوری زندگی ایک طرح کے compromise پر مشتمل ہے۔ جب نیت و عمل کی اتنی بنیادی سطح پر ہی قرآن حکیم کے احکام اور فکرسے ہم آہنگی نہ ہو گی، تو اعلی سطح کے قرآنی وعدوں کو حقیقت کا روپ کس طرح ملے گا۔

2۔ زندگی کو عمومی ڈگر پر رواں دواں رکھتے ہوئے قرآنی نتائج کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ ہر شعبہ زندگی سے متعلق افراد معاشرہ کو قرآنی مقصود کا یقین میسر ہوت، گو علم نہ ہوتا۔ مگر ’اندیشہ عجم‘ نے اسے نہ صرف پنہاں کر دیا بلکہ اسلام چند رسوم و قیود تک محدود ہو کر رہ گیا۔

تعریفِ تفسیر اور علم التفسیر کے اجزاء

قرآن حکیم سے اخذ ہدایت کے لیے ہر دور میں تفسیری کاوشیں کی گئیں۔ علامہ آلوسی نے تفسیر کی تعریف یوں کی :

علم يبحث فيه عن کيفية النطق بالفاظ القرآن و مدلولا تها واحکا مها الافرادية والترکيبية ومعانيهاالتي تحمل عليها حالة الترکيب وتتماست لذلک،

’’علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظ قرآن کی ادائیگی کے طریقے، ان کے مفہوم، ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور ان کے معانی سے بحث کی جاتی ہے جو ان الفاظ سے ترکیبی حالت میں مراد لئے جاتے ہیں، نیز ان معانی کا تکملہ، ناسخ ومنسوخ، شان نزول اور مبہم قصوں کی تو ضیح کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے‘‘۔

اس تعریف کی روشنی میں علم تفسیر مندرجہ ذیل اجزاء پر مشتمل ہے۔

  1. الفاظ قرآن کی ادائیگی کے طریقے
  2. الفاظ قرآن کے مفہوم
  3. الفاظ کے انفرادی احکام
  4. الفاظ کے ترکیبی احکام
  5. ترکیبی حالت میں الفاظ کے مجموعی معنی
  6. معانی کے تکملے، یعنی آیات قرآنی کا پس منظر اور مجمل کی تفصیل

تفسیر و تاویل میں فرق

اہل علم کے ہاں تفسیر کے لئے ایک اور لفظ تاویل بھی بکثرت استعمال ہوتا تھا اور خود قرآن کریم نے بھی اپنی تفسیر کے لئے یہ لفظ استعمال فرمایا ہے، وما یعلم تاویلہ الا اﷲ، تاہم علماء میں یہ اختلاف رہا کہ آیا یہ دونوں الفاظ بالکل ہم معنی ہیں، یا ان میں کچھ فرق ہے؟ امام ابو عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے فرمایا کہ یہ دونوں الفاظ بالکل مترادف ہیں۔ کچھ حضرات نے ان دونوں میں فرق بیان کرنے کی کوشش کی جن سے چند اقوال یہ ہیں :

  1. تفسیر ایک ایک لفظ کی انفرادی تشریح کا نام ہے، اور تاویل جملے کی مجموعی تشریح کو کہا جاتا ہے۔
  2. تفسیر الفاظ کے ظاہری معنی بیان کرنے کو کہتے ہیں اور تاویل اصل مراد کی توضیح کو کہتے ہیں۔
  3. تفسیر اس آیت کی ہوتی ہے جس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال نہ ہو، اور تاویل کا مطلب یہ ہے کہ آیت کی جو مختلف تشریحات ممکن ہیں ان میں سے کسی ایک کو دلیل کے ساتھ اختیار کرلیا جائے۔
  4. تفسیر یقین کے ساتھ تشریح کرنے کو کہا جاتا ہے اور تاویل تردد کے ساتھ تشریح کرنے کو کہا جاتا ہے۔
  5. تفسیر الفاظ کا مفہوم بیان کردینے کا نام ہے اور تاویل اس مفہوم سے نکلنے والے حاصل اور نتائج کی توضیح ہے۔

قرآنی فکراور ہمارے عملی رویّوں کی مطابقت بارے جملہ تفاسیر کا سکوت

تاہم یہ امر قابل غور ہے کہ ہماری تمام تفسیری کاوشیں ان سوالات کاجواب نہیں دے پاتیں جو اس تحریر کے آغاز میں اٹھائے گئے ہیں۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں :

’’علم تفسیر ہو یا علم حدیث‘ علم فقہ ہو یا علم کلام‘ یہ تمام علوم و فنون کتاب و سنت کی تعبیرات سے عبارت ہیں۔ ہمارے دینی مدارس میں نصوص قرآنی کی ہی تعبیرات ہمیشہ شامل نصاب رہی ہیں۔ نص بذات خود حصہ نصاب نہیں رہی۔ گویا تفسیر قرآن کا بدل تصور ہونے لگی ہے۔ تفسیر یا تعبیر کی احتیاج چونکہ عصری ضرورتوں کے تحت پیدا ہوتی ہے اس لیے زیادہ وقت گزر جانے کے بعد سابقہ تعبیرات و تفسیرات نئے ادوار کی علمی و عملی تمام ضرورتوں کو پورا نہیں کر پاتیں۔ چنانچہ مفسر کو ازسر نو عصری تقاضوں کے مطابق تعبیر کی حاجت محسوس ہوتی ہے۔ ہر دور میں ہمارے علماء مخصوص علمی ضرورتوں کے تحت فن تعبیر کے اصولوں کو فروغ دیتے رہتے ہیں۔ لیکن سوء اتفاق سے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے جو سرے سے تفسیر و تعبیر کا موضوع ہی نہ تھے، آج تک براہ راست نص سے حتمی و قطعی ہدایت اخذ کرنے کا منہاج وضع نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر میں متداول تعبیراتی علوم اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ملت اسلامیہ کی اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی پر محیط زوال و انحطاط کو ختم کرنے اور اسے با عظمت انقلاب سے ہمکنار کرنے میں بے اثر اور عقیم ثابت ہوئے ہیں۔ ان علوم کی عملی زندگی پر اثر انگیزی اور نتیجہ خیزی کا فقدان دراصل ان کی کمزوری یا نقص نہیں کیونکہ یہ مسئلہ شروع سے ہی ان کے ہیظ اثر میں نہ تھا۔ غلطی اور کمزوری فی الحقیقت اس ذہن کی تھی جس نے ان کو نص قرآنی کا بدل بنا دیا تھا اور اس نے ان تعبیراتی علوم کے ذریعے اس عملی نتیجہ کے پیدا ہونے کی آرزو کی تھی جو صرف نص کی ہدایت سے حاصل ہوسکتا تھا۔ ‘‘

علمِ تفسیر و دیگر علوم کا احیاء۔ ۔ ۔ شیخ الاسلام کی نظر میں

دیگر علوم کی طرح آپ نے علم تفسیر کے باب میں بھی اس منھج کا آغاز فرمایا جو عصری چیلنجوں کا جواب ہے۔ علم تفسیر اور اس سے متعلق دیگر علوم کا کس طرح احیا کیا جائے، حضرت شیخ الاسلام تحریر فرماتے ہیں :

1۔ علم التفسیر : اس سلسلے کا پہلا علم ہے۔ اس کا موضوع قرآن ہے جو یقیناً تفسیر سے متمیز ہے۔ کیونکہ قرآن وہ حقیقت ہے جس کے علم کا نام تفسیر ہے۔ یعنی قرآن نص ہے اور تفسیر اس کی تعبیر، جس کا مسئلہ یہ ہے کہ قرآن کیا ہے؟

2۔ علم حدیث : اس کا موضوع سنتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جس کا مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول وعمل کیا تھا؟

3۔ علم فقہ : اس کا موضوع انسانی زندگی سے متعلق اوامر ونواہی ہیں۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے؟ کتبِ حدیث اور بالخصوص کتبِ سنن کے اسلوبِ تبویب کو دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر علم حدیث کی تدوین کا اصل محرک بھی فقہ ہی تھا۔ گویا انسانی زندگی کو منظم کرنے والا ضابطہ اور اس کی اصل سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرنے کے لئے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمع اور مرتب کیاگیا۔

4۔ علم کلام : اس کا موضوع عقائد ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ عقائد کی عقلی اساس کیا ہے؟ اس کا وظیفہ (Function) عقائدِ صحیحہ کی تائید اور عقائدِ باطلہ کی تردید میں استدلال فراہم کرنا ہے۔

5۔ علم تصوف : اس کا موضوع طریقت ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ احکام فقہ کی بجا آوری میں اخلاص کیسے پیدا ہوگا؟

6۔ علم تاریخ : اس طرح تاریخِ اسلام کا موضوع دو ادوار کے بیان پر مشتمل ہے۔ دورِ رسالت اور دورِ مابعد رسالت، بحیثیتِ علم کے، تاریخ کا مسئلہ امت کے عروج وزوال کے اسباب کی جستجو ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ انسانی استعداد کے یہ زائیدہ مذہبی علوم زندگی میں نتائج پیدا کرنے میں موثر نہیں رہے۔ یہاں تک کہ اسلام کے عقیدہ وعمل کا کوئی اثر ہماری حیاتِ اجتماعی پر باقی نہیں رہا۔ عقائد اوہام میں اور عبادت رسوم وظواہر میں بدل کر رہ گئی ہیں۔ ان کا علاقہ عملی زندگی سے یکسر منقطع ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی مذہبی اور غیرمذہبی (Religious and Secular)دوشعبوں میں تقسیم ہو گئی ہے اور اس کی ثنویت وغیریت کو کسی سطح پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب کے سب علوم اس سوال کا جواب ہیں کہ یہ کیا ہے؟

علم کا ایک تقاضا ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ اس تقاضے کے غالب آنے کی وجہ سے علم بالوحی انسانی استعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل گیا اور علم کا ایک ویسا ہی شدید مطالبہ ہم آہنگی کے تقاضے کے تحت نظر انداز کر دیا گیا جو یہ تھا کہ مماثل فضائل کے درمیان امتیازات کو ملحوظ رکھاجائے۔ اس تقاضے کے نظر انداز ہو جانے سے علم بالوحی کے اس مسئلے کی نوعیت سے صرفِ نظر ہوگیا کہ زندگی پسندیدہ نمونے پر ڈھلے کیسے؟ اس سوال سے صورتِ حال کا اثر یہ ہوا کہ :۔

1۔ علمِ تفسیر اس جستجو سے دستبردار ہو گیا کہ قرآن جس نمونے پر انسانی زندگی کو ڈھالنا چاہتا ہے، وہ کیسے ڈھلے گی؟ یعنی قرآن جس طرح کا انسان چاہتا ہے، وہ کس طرح میسر آئے گا؟

2۔ علمِ حدیث انسانی استعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل گیا تو یہ جستجو پیش نظر نہ رہ سکی کہ جن عملی نتائج تک علم بالوحی پہنچانا چاہتا ہے، اس تک پہنچنے میں حدیث سے کیا رہنمائی ملتی ہے۔ اسے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدود سے آج پھر کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔

3۔ علمِ فقہ کے انسانی استعداد کے زائیدہ علم کے نمونے پر ڈھل جانے سے قرآنی احکام کے بارے میں اس مقصد سے صرفِ نظر ہوگیا کہ اوامر ونواہی کے مطابق اور جائز وناجائز کے امتیاز پر زندگی عملاً کیسے استوار ہو گی؟

اگر تفسیر، حدیث اور فقہ کے مروجہ علوم کے دائرہ کار پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ یہ تمام مذہبی علوم صرف حلال وحرام، جائز وناجائز، مستحب ومکروہ اور پسندیدہ و ناپسندیدہ یعنی انسانی اعمال کے لئے صحت اور عدم صحت کے حدود کے بیان تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ انسانی احوال کو بدلنے کی تدبیر ان کے موضوع سے خارج ہے۔ لیکن اس وقت تک عالمِ اسلام کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں ان امور کو جان لینے کے باوجود تمرد اور انحراف کے راستے پر گامزن ہیں۔

مسلمانوں کی اجتماعی زندگی انتشار، اضمحلال اور انحطاط کا شکار ہے۔ جس سے نکلنے کی آرزو کے باوجود وہ اس سے نکل نہیں پاتے اور اصلاح کی تمام فکری اور عملی کوششیں بے نتیجہ ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ متداولہ علوم غلط اور صحیح کی نشاندہی اور امتیاز کر دینے کے باوجود اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ صحیح راستے پر کس طرح گامزن ہوا جائے؟ مطلوبہ نمونہ کمال کے مطابق زندگی کس طرح بسر ہو۔ ۔ ۔ ؟ اور احوال زندگی کا جو معاملہ بگڑ چکا ہے، اسے پھر سے کس طرح سنوارا جائے۔ ۔ ۔ ؟ گویا اسلام جس تباہی سے بچانا چاہتا ہے، ملتِ اسلامیہ اس تباہی وہلاکت سے بچے کیسے۔ ۔ ۔ ؟ محض مقصد اور نصب العین کا بیان کر دینا ہی کافی نہیں۔ جب تک اس مقصد کے حاصل کرنے کی تدبیر اور حتمی طریقِ کار بیان نہ کیا جائے، کسی علم کی تاثیر وافادیت مسلم نہیں ہو سکتی۔

4۔ علم الکلام کا وظیفہ زیادہ سے زیادہ ان شکوک کو باطل کرنا ہے جو عقائدِ صحیحہ کی نسبت ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن یقینِ کامل اور رسوخ فی الایمان علمِ کلام کے حوالے سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یقین ہمیشہ نتائج کی تجربی توثیق اور شہادت سے میسر آتا ہے۔ جبکہ ایمان بالغیب کی حیثیت ایمانِ وہبی کی ہے۔ جس کی بنیاد صاحبِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان ہے۔ اس کی وضاحت اس میں ہے کہ غایتِ تخلیق، غایتِ بعثت اور غایتِ نزولِ قرآن ایک ہی ہے۔ عملی نتائج ان کائناتی قوانین سے متعین ہوتے ہیں جو نظامِ تکوین میں متعین کر دیئے گئے ہیں اور ایمان بالغیب وہ ایمان ہے جو عملی جدوجہد سے پہلے درکار ہے۔ اس کے بغیر مقصد کے لئے جان کی بازی نہیں لگائی جا سکتی۔

5۔ تصوف کا موضوع عملی زندگی میں اخلاص اور للہیت پیدا کرنا ہے۔ جس کا مسئلہ یہ ہے کہ اتباعِ شریعت میں حسن نیت اور خلوص کیسے پیدا ہو گا؟ مگر جب سے تصوف عمل کی بجائے ماورائی حقیقت کا علم بنا ہے، اس کے نتائج عملی زندگی پر مرتب ہونا بند ہوگئے ہیں۔ اب علمِ تصوف کی تاثیر اور نتیجہ خیزی اسی وقت برآمد ہو سکتی ہے۔ جب انسانی زندگی پہلے شریعت کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اس کے بعد اس میں تشرع اور ریاکاری کے خاتمہ کے لئے تصوف اپنا انقلاب انگیز کردار ادا کر سکتا ہے۔

6۔ تاریخِ اسلام بھی عروج وزوال کی توجیہہ کا علم بن کر رہ گئی ہے۔ جس میں جبر کا شائبہ غالب ہے۔ اس کی جستجو بطور واقعہ عروج وزوال کو موضوع بنا کر ہو سکتی ہے لیکن اس توجیہہ میں، مسلط ہوجانے والے زوال کے رُخ کو عروج کی سمت پھیرنا داخل نہیں ہے۔ جب کہ اس وقت عالم اسلام کا مسئلہ یہ ہے کہ زوال کو عروج میں کیسے بدلا جائے؟ یہ مسئلہ اس وقت حل ہو گا جب تاریخ کو تجدیدِ ملل اور تخلیقِ امم کا عمل قرار دیا جائے جو قرآن کا نقطہ نظر ہے۔ سورہ ہود کے آخر میں مذکور ہے :

وَكُـلاًّ نَّقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ. (ھود، 11 : 120)

’’اور یہ سارے کے سارے واقعات جو ہم احوال رسل میں سے آپ کو سناتے ہیں، یہ صرف اس لئے سناتے ہیں کہ ان سے آپ کے دل کو تقویت پہنچے۔‘‘

اللہ تعالی حضور علیہ السلام پر انبیاء سابقین کے واقعات اس لئے بیان کرتا ہے کہ ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب کو تسکین اور تقویت ہو۔ مگر انبیاء سابقین کے قصوں سے دل کو تقویت اور تسکین جبھی میسر آ سکتی ہے جب ہر قصے سے یہ نتیجہ برآمد ہو کہ غلبہ اصحابِ حق ہی کو حاصل ہوتا رہا اور یہ نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے، جب اصحابِ حق کا غلبہ اور اصحابِ باطل کی شکست کسی ایسے قانون سے متعین ہو جو ناقابلِ تغیر اور ناقابلِ شکست ہو اور اس کی خلاف ورزی ممکن نہ ہو جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے : وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ. (فرقان، 25 : 31 )

’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے مجرموں میں سے ایک دشمن پیدا کر دیا۔‘‘

جو پیغمبرانہ دعوت میں مزاحمت کرتا ہے اور اس کی مزاحمت سے دعوت کے خاطرخواہ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا اعلان قرآن یوں کرتا ہے :۔

لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي (مجادلہ، 58 : 21)

’’بے شک میں اور میرے رسول غالب آ کر رہیں گے۔‘‘

لہٰذا تاریخ کی اصلاح یوں ہو گی کہ زوال کا رخ عروج کی طرف پھیرنے کے لئے قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کی جائے جو مذکورہ بالا قانون کے حوالے کے بغیر میسر نہیں آ سکتی۔ چنانچہ مذہبی علوم کی جو نشوونما اب تک ہو چکی ہے، اس کی صحیح سمت مقرر کرنے کے لئے علم بالوحی سے رہنمائی طلب کی جائے تاکہ زوال و انحطاط میں مبتلا ملت کے غلبہ و عروج کی طرف بڑھنے کے لیے مذہبی علوم کا جائزہ لے کر ان کی نشونما کی تکمیل کا رخ متعین کیا جاسکے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ علم بالوحی عمل کا علم ہے۔ گویا یہ نصب العین اور اس کے حاصل کرنے کے نتیجہ خیز طریقہ کار کا علم ہے۔ جب اس طریقہ کار سے نتائج پیدا ہو جائیں جو انسانی استعداد کے زائدہ علوم کے موضوعات ہیں تو ان کی توجیہ کی ضرورت پیش آئے گی اگر مطلوبہ نتائج پیدا ہی نہیں ہوتے تو ان کی توجیہ عملا کیسے اثر پیدا کر سکتی ہے۔ توجیہہ کے ڈھب پر مرتب ہونے والے تمام علوم موجودہ اقدارِحیات کی حفاظت تو کرسکتے ہیں مگر مٹی ہوئی اقدار کو زندہ نہیں کر سکتے۔

شیخ الاسلام اور تفسیری علوم کے عصری تقاضے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تفسیری علوم کو عصری تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کو لازمی قرار دیا :

1۔ کلیت (Inclusiveness) : علم کے کلی ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے تمام متعلقات اور متفرعات میں ایک ہی اصول کارفرما ہو اور علم کمے تمام نتائج میں ہم آہنگی، یکسانیت اور وحدت پائی جائے۔ اس طرح علم اپنے دائرہ اطلاق (Scope of Application) کے لحاظ سے کلی یعنی جامع اور مانع ہو تاکہ کثرتِ نتائج سے پاک رہے اور تمام متعلقہ مسائل (Relevant Issues) اصل واحد سے متفرع کیے جاسکیں۔

2۔ اثباتیت (Positiveness) : علم کے م۔ ثبت ہونے سے مراد یہ ہے کہ علم ایسے منفی تصورات سے پاک ہو جو زندگی کو یاس و نااُمیدی کا شکار کردیتے ہیں بلکہ علم اپنی اثباتیت کے اعتبار سے زندگی کو ہر مرحلے پر سہارا عطا کرسکے۔

3۔ عملیت (Practicability) : علم کے عملی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ محض منطقی اور فلسفیانہ تصورات کی طرح عملی حیثیت سے خالی نہ ہو بلکہ عملاً قابل قبول ہو تاکہ اس کے لیے جدوجہد کی ترغیب پیدا ہوسکے۔

4۔ ولولہ انگیزی (Provocation) : علم کے ولولہ انگیز ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس سے انسانی دلوں میں اسی قدر شدت کے ساتھ ولولہ اور جوش پیدا ہوسکے جس قدر اسے واقعہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ یعنی وہ علم نہ صرف خود زندہ ہو بلکہ دوسروں کو بھی زندہ رکھ سکے۔

5۔ نتیجہ خیزی (Decisiveness) : علم کے نتیجہ خیز ہونے کا مقصد یہ ہے کہ اس کے مطلوبہ نتائج حتمی و قطعی طور پر پیدا ہوکر رہیں۔ یہی امر اس کی حقانیت کی اصل دلیل قرار پائے اور اسے اپنے جواز یا صحت کے ثبوت کے لیے غیر عملی منطقی دلائل پر انحصار نہ کرنا پڑے۔

تفسیرِ منہاج القرآن اور عصری تقاضے

تفسیر منھاج القرآن جو ابھی تکمیل کے مراحل میں ہے، انہی بنیادی خصوصیات کی حامل ہے۔ چونکہ یہ مضمون تفصیلی مثالوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، یہاں صرف چند آیات نمونہ کے طور دی جا رہی ہیں، جن کا ترجمہ اور مطالب ان خصوصیات کے عکاس ہیں۔

آیات کے مفاہیم کی توضیح جس سے آیات کا ما فیہ کھل کر سامنے آ جائے جا بجا ملاحظہ کی جا سکتی ہے :

٭ وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُواْ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ قَالَ يَا قَوْمِ هَـؤُلاَءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَلاَ تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌO

(11 : 78)

(سو وہی ہوا جس کا انہیں اندیشہ تھا) اور لوط (علیہ السلام) کی قوم (مہمانوں کی خبر سنتے ہی) ان کے پاس دوڑتی ہوئی آ گئی، اور وہ پہلے ہی برے کام کیا کرتے تھے۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا : اے میری (نافرمان) قوم! یہ میری (قوم کی) بیٹیاں ہیں یہ تمہارے لیے (بطریقِ نکاح) پاکیزہ و حلال ہیں سو تم اﷲ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں (اپنی بے حیائی کے باعث) مجھے رسوا نہ کرو! کیا تم میں سے کوئی بھی نیک سیرت آدمی نہیں ہے؟o

٭ وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّاO

(19 : 5)

اور میں اپنے (رخصت ہوجانے کے) بعد (بے دین) رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں (کہ وہ دین کی نعمت ضائع نہ کر بیٹھیں) اور میری بیوی (بھی) بانجھ ہے سو تو مجھے اپنی (خاص) بارگاہ سے ایک وارث (فرزند) عطا فرماo

قوموں کے عروج و زوال اور اہل حق کی جدوجہد کے باب میں قرآنی بیان کی توضیح یوں کی گئی :

٭ حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّواْ أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُواْ جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ وَلاَ يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَO

(12 : 110)

یہاں تک کہ جب پیغمبر (اپنی نافرمان قوموں سے) مایوس ہو گئے اور ان منکر قوموں نے گمان کر لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے (یعنی ان پر کوئی عذاب نہیں آئے گا) تو ان رسولوں کو ہماری مدد آ پہنچی پھر ہم نے جسے چاہا (اسے) نجات بخش دی، اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پھیرا نہیں جاتاo

٭ لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّأُوْلِي الْأَلْبَابِ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَـكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَO

(12 : 111)

بے شک ان کے قصوں میں سمجھداروں کے لیے عبرت ہے، یہ (قرآن) ایسا کلام نہیں جو گھڑ لیا جائے بلکہ (یہ تو) ان (آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ہدایت ہے اور رحمت ہے، اس قوم کے لیے جو ایمان لے آئےo

اہل حق کا اپنے مخالفین اور معاشرے کی باطل قوتوں سے رابطہ کار کس نوعیت کا ہو۔ ارشاد ربانی ہے :

٭ قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىَ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلاَّ الْإِصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلاَّ بِاللّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُO

(11 : 88)

شعیب (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم! ذرا بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنی بارگاہ سے عمدہ رزق (بھی) عطا فرمایا (تو پھر حق کی تبلیغ کیوں نہ کروں؟)، اور میں یہ (بھی) نہیں چاہتا کہ تمہارے پیچھے لگ کر (حق کے خلاف) خود وہی کچھ کرنے لگوں جس سے میں تمہیں منع کر رہا ہوں، میں تو جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے (تمہاری) اصلاح ہی چاہتا ہوں، اور میری توفیق اﷲ ہی (کی مدد) سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوںo

انفرادی سطح پر کردار کی تبدیلی کے کیا لوازمات ہیں۔ ارشاد ربانی ہے :

٭ فَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىO

(20 : 130)

پس آپ ان کی (دل آزار) باتوں پر صبر فرمایا کریں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کریں طلوعِ آفتاب سے پہلے (نمازِ فجر میں) اور اس کے غروب سے قبل (نمازِ عصر میں)، اور رات کی ابتدائی ساعتوں میں (یعنی مغرب اور عشاء میں) بھی تسبیح کیا کریں اور دن کے کناروں پر بھی (نمازِ ظہر میں جب دن کا نصفِ اوّل ختم اور نصفِ ثانی شروع ہوتا ہے، (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ اس لئے ہے) تاکہ آپ راضی ہو جائیںo

٭ وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىO

(20 : 131)

اور آپ دنیوی زندگی میں زیب و آرائش کی ان چیزوں کی طرف حیرت و تعجب کی نگاہ نہ فرمائیں جو ہم نے (کافر دنیاداروں کے) بعض طبقات کو (عارضی) لطف اندوزی کے لئے دے رکھی ہیں تاکہ ہم ان (ہی چیزوں) میں ان کے لئے فتنہ پیدا کر دیں، اور آپ کے رب کی (اخروی) عطا بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہےo

دورِ حاضر میں قرآن کی تعبیر و تشریح شیخ الاسلام کی نظر میں

دور حاضرمیں قرآن حکیم کی تعبیر و تشریح کے تقاضے وہی شخصیت پورے کر سکتی ہے جسے اس امر کا شعور ہو کہ اسلام کے غلبے کے زمانے اور دور زوال میں فہم دین کے باب میں کیا امتیاز اور فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں:

’’معمول بہ دین دراصل شریعت، طریقت اور مسالک کا نام ہے۔ شریعت احکام سے بحث کرتی ہے۔ طریقت اخلاص و ریاضت سے اور مسالک عقائد سے۔ ان کی بنیاد پر فقہ‘ تصوف اور علم کلام کی تدوین ہوئی۔ یہ سب تعبیر نص کے مختلف دائرے تھے اور ان کا کام اپنے اپنے دائرہ کار میں صرف ان اقدار و فضائل کو محفوظ کرنا اور فروغ دینا تھا جو معیاری دین کی جدوجہد سے بذریعہ انقلاب پہلے وجود میں آچکے تھے چنانچہ یہ تعبیری علوم اور معمول بہ دین کے مختلف شعبے معاشرے میں بالفصل موجود فضائل کو محفوظ تو کرسکتے تھے لیکن مٹ کر ختم شدہ اقدار کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتے تھے اس لیے کہ ان کا کام ہی یہ نہ تھا۔ مٹی ہوئی معاشرتی اقدار اور ختم شدہ انسانی فضائل کو تعبیری علوم کے حوالے سے نہیں براہ راست نصوص کتاب و سنت کی ہدایت سے زندہ کیا جاسکتا تھا۔ لہذا جب تک تاریخ اسلام میں اسلام کا سیاسی غلبہ بحال رہا اور اقدار و فضائل حیات کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہے۔ اس وقت تک شریعت‘ طریقت اور مسالک کے علوم و فنون بھی اپنا اپنا فریضہ موثر طور پر انجام دیتے رہے۔ وہ معاشرہ میں ظاہری و باطنی طور پر نظم و ضبط انقیاد پیدا کرتے رہے۔ لیکن جب سیاسی غلبہ اسلام کے ہاتھ سے چھن گیا اور محکومی و غلامی کے باعث مسلم سوسائٹی اسلامی فضائل و اقدار سے محروم ہوگئی تو ان شعبوں کا عمل بھی مختل اور غیر موثر ہوگیا۔ اور ان کا کوئی اثر (Impact) معاشرے کی عملی زندگی پر باقی نہ رہا۔ ‘‘

یہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہمہ گیر اپروچ، اجتھادی بصیرت اور احیائی انداز نظر ہے کہ دور حاضر میں جبکہ مسلم دنیا میں علوم کے لگے بندھے راستوں پر چلنا ہی کمال قرار دیا جا رہا ہے، آپ نے قرآن حکیم کی تفسیر کے باب میں وہ زاویہ نگاہ دیا جو آج ہمیں قرآن حکیم سے اخذ ہدایت کا وہ منھج عطا کرتا ہے جس میں دور حاضر کی جملہ چیلنجوں کا جواب مضمر ہے، اور یہ زاویہ نگاہ صرف آپ کا ہی طرہ امتیاز ہے۔ آپ فرماتے ہیں :

’’تعبیر نص پر مبنی علوم و فنون جس قدر بھی ترقی کرجائیں اور ان میں جتنا بھی اجتہاد ہو، اب مسلمانوں کو زوال و انحطاط کی موجودہ کیفیت سے باہر نہیں نکال سکتے۔ اس لیے اب پھر سے ختم شدہ اقدار و فضائل کو زندہ کرنے کے لیے ایک ہمہ گیر انقلاب کی ضرورت ہے جو صرف کتاب و سنت کی نص پر مبنی ہدایت ہی سے بپا کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد تعبیری علوم اپنا کردار اور اعتماد بحال کرا سکیں گے۔‘‘

تبصرہ