ماہانہ مجلس ختم الصلٰوۃ علی النبی (ص)

(ایم ایس پاکستانی)

تحریک منہاج القرآن کے گوشہ درود کے قیام کو گزشتہ دنوں دو سال مکمل ہو چکے ہیں۔ دسمبر 2005 میں منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پہلے عشرے سے گوشہ درود کا آغاز ہوا تھا۔ دو سال مکمل ہونے پر مورخہ 7 دسمبر کو گوشہ درود کی ماہانہ مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خصوصی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ پروگرام تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کے سامنے گراؤنڈ میں منعقد ہوا۔ اس کے لیے گرؤانڈ کے ایک بڑے حصے پر خوبصورت شامیانوں سے پنڈال کو سجایا گیا۔ اس کے اندر سرد موسم سے بچاؤ کے لیے ہیٹر لگائے گئے جبکہ روحانی اجتماع کے ماحول کو معطر کرنے کے لیے بخور بھی جلائے گئے۔

پروگرام کا آغاز نماز عشاء کے بعد ساڑھے 7 بجے ہوا۔ تلاوت قرآن مجید کے بعد نعت مبارکہ پڑھی گئی۔ اس موقع پر حاضرین کی ایک بڑی تعداد جمع ہو چکی تھی۔ گوشہ درود کے گوشہ نشینوں کے لیے سٹیج کے دائیں جانب الگ سٹیج لگایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مرکزی سٹیج پر معزز مہمانان گرامی تشریف فرما تھے۔ امیر تحریک صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی نے اس پروگرام کی صدارت کی۔ ناظم اعلی ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، نائب ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض، ناظم امور خارجہ جی ایم ملک، امیر گوشہ درود الحاج محمد سلیم شیخ، امیر پنجاب احمد نواز انجم، ناظم منہاج القرآن علماء کونسل علامہ فرحت حسین شاہ، علامہ امداد اللہ خان، امیر تحریک کراچی ڈویژن قیصر اقبال قادری، گوشہ درود کے خادم حاجی ریاض احمد، توقیر الحسن گیلانی، امیر لاہور پروفیسر ذوالفقار علی اور تحریک کے دیگر مرکزی قائدین بھی معزز مہمانوں میں شامل تھے۔

پروگرام میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شریک تھی جن کے لیے پنڈال میں الگ باپردہ اہتمام تھا۔ سٹیج کے اردگرد ماحول کو بھی خوبصورت خیرمقدمی بینروں سےسجایا گیا تھا۔ پروگرام کی نقابت کے فرائض احمد نواز انجم، علامہ فرحت حسین شاہ اور میاں عبدالرسول سندھو نے مشترکہ طور پر ادا کیے۔ امیر پنجاب احمد نواز انجم نے گوشہ درود میں پڑھے جانے والے درود پاک کی رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ گوشہ درود میں اب تک پڑھے جانیوالے درود پاک کی تعداد پونے تین ارب سے بھی بڑھ گئی ہے۔

بلبل منہاج محمد افضل نوشاہی، منہاج نعت کونسل اور الحاج شہزاد حنیف مدنی کے علاوہ کالج آف شریعہ کے نعت خواں حیدری برادران اور دیگر ثناء خوان نے بھی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں مدح سرائی کا شرف حاصل کیا۔ محمد افضل نوشاہی نے شیخ الاسلام کا خصوصی کلام پڑھا جس سے محفل میں موجود شرکاء نے جھوم جھوم کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ منہاج نعت کونسل اور شہزاد حنیف مدنی نے بھی اپنے مخصوص انداز میں نعت خوانی کی۔

شب ساڑھے دس بجے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا کینیڈا سے خصوصی ٹیلی فونک خطاب شروع ہوا۔ آپ نے زہد و تقویٰ اور علم کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شب زندہ داری اور زہد و ورع اللہ کے قرب والے لوگوں کا شیوہ رہا ہے۔ اس کے ساتھ علم کے بغیر کوئی صوہی کامل معرفت الٰہی حاصل نہیں کر سکتا۔ شب زندہ داری سے ہی انسان اپنے اللہ سے قرب حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی کی قربت کے لیے راتوں کو جاگنا اوائل دور کے صلحاء اور اولیاء اللہ کا معمول رہا ہے۔ اس پر عمل کرنے سے آج بھی قرب الٰہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

علم کے حوالے سے شیخ الاسلام نے کہا کہ ایسا علم حاصل کرو جو آپ کی فکر میں تبدیلی پیدا کر دے۔ جب تک فکر میں تبدیلی نہیں آئے گی تو اس وقت سوچ بھی تبدیل نہیں ہو گی۔ ہم نے اس قوم کی فکر کو تبدیل کر کے ایک مثبت سوچ بنانا ہے۔ اس کے لیے تحریک منہاج القرآن احیاء علم و فکر کی عالمگیر تحریک ہے۔ آپ نے کہا کہ موجودہ زمانے میں اہل علم کی کثرت تو ہے لیکن ان میں علم نافع کی کمی ہے۔ بدقسمتی سے علم کے حوالے سے قدیم زمانے میں استعمال ہونے والی بعض اصطلاحات بھی بدل گئی ہیں۔ لفظ ملاّ قدیم زمانہ میں علامہ اور سکالر کے معنوں میں مستعمل تھا اور بڑے اجل علماء و فضلاء کے ناموں کے ساتھ لفظ ملاّ کا استعمال ہوتا تھا جیسے ملاّ علی قاری۔ آپ اپنے عہد کے ایک بڑے مفکر اور دانشور تھے۔ آج اس لفظ کو ایک غلط تصور سے منسوب کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں اس کی جگہ علامہ کے لفظ نے لے لی ہے۔ اسلام پر اغیار کے حملوں سے ایسے الفاظ بھی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کی معنی و مفہوم میں آگئے ہیں۔ اس لیے ہم کو نئے دور کے جدید تصورات علم کے ساتھ اس قوم کی سوچ و فکر کو تبدیل کرنا ہے۔

شیخ الاسلام نے بتایا کہ حدیث مبارکہ کی رو سے علم کی دو اقسام ہیں۔ پہلی علم فاہع اور دوسری علم حجت۔ اس حدیث پاک کے مفہوم کی رو سے علماء کی بھی دو قسمیں ہیں، ایک احبار اور دوسری ربانین۔ تحریک منہاج القرآن امت کو احبار نہیں بلکہ ربانین بنانا چاہتی ہے۔ وہ ربانین جو دن کو مخلوق کی خدمت کے لیے خود کو وقف کر دیں اور رات مصلے پر شب زندہ داری میں گزریں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے علم کتاب رکھنے والوں سے وعدہ لیا اور انہیں علم کے فروغ اور اس کی اشاعت کا حکم دیا۔

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ

اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ وعدہ لیا جنہیں کتاب عطا کی گئی تھی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے صاف صاف بیان کرو گے اور (جو کچھ اس میں بیان ہوا ہے) اسے نہیں چھپاؤ گے۔

(آل عمْرَان ، 3 : 187)

آپ نے قرآن پاک کی اس آیہ کریمہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک منہاج القرآن علم کے فروغ کے لیے کام کر کے حکم قرآنی پر عمل کر رہی ہے۔ تحریک کی رفاقت بھی اس کا حصہ ہے۔ تعجب ہے ان لوگوں پر جو تحریک منہاج القرآن کے رفیق بھی ہیں لیکن علم و عمل سے خالی ہیں۔ آپ نے کارکنان کو نصحیت کرتے ہوئے کہا کہ تحریک کا ہر رکن اور رفیق قرآن پاک کی روزانہ تلاوت کو معمول بنائے۔ قرآن خوانی اور قرآن فہمی پر محنت کریں۔ آپ نے قرآن خوانی کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد کسی کی رسم قل، ساتویں یا چالیسویں پر قرآن پڑھنا ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب قرآن پاک کی تلاوت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قرآن خوانی کو صرف کسی کی موت سے منسوب کر دیا گیا۔ ہم اپنی زندگی میں قرآن خوانی کو ترک کر چکے ہیں۔

اللہ تعالی نے علم صحیح رکھنے والوں کو شہداء پر بھی فضیلت دی ہے۔ شیخ الاسلام نے حدیث پاک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک عالم ربانی کا جنت میں وہ درجہ ہوگا کہ اس کے درجے اور انبیاء کے درجہ میں ایک منزل کا فرق ہوگا۔ اس موقع پر آپ نے کہا کہ عالم ربانی وہ ہے جو علم حق رکھتا ہو۔ علم حق چار علوم کا مجموعہ ہے۔

1۔ علم حق کے حصول کے لیے محنت فرض ہے۔
2۔ بندے کو علم ہو کہ اللہ کا مجھ پر حق ہے جسے ادا کرنا ہے۔
3۔ سالک حق یہ جانتا ہو کہ موت میری تلاش ہے جسے ڈھونڈنا ہے۔
4۔ یقین کامل ہو کہ اللہ میرے ہر حال کو جانتا ہے۔

اس حوالے سے شیخ حاتم اصم نے فرمایا کہ جس بندے میں یہ چار چیزیں جمع ہو جائیں وہ عالم ربانی ہو جاتا ہے۔

تحریک منہاج القرآن فروغ علم و عمل کے ساتھ امت کو عالم ربانی بنانا چاہتی ہے۔ ہم اس عہد میں ظلمت کے اندھیروں کو ختم کر کے علم و نور کی روشنی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ایک تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی علم و عمل کا امتزاج مانگتی ہے۔

شیخ الاسلام کے خطاب کے بعد پروگرام کا اختتام باقاعدہ دعا سے ہوا۔ صاحبزادہ مسکین فیض الرحمن درانی نے اختتامی دعا کروائی۔ اس کے بعد شرکاء میں لنگر بھی تقسیم کیا گیا۔

تبصرہ