صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کی شاعری کا پہلا مجموعہ نقش اول شائع ہو گیا

رپورٹ: ایم ایس پاکستانی

صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کا شاعری پر مشتمل پہلا مجموعہ “نقش اول” کے نام سے شائع ہو گیا ہے۔ شاعری کی اس کتاب میں صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے 100 سے زائد کلام جمع کیے ہیں۔ ان میں حمد، نعت، منقبت، تحسین، نظمیں، قطعات، فردیات، غزلیات اور آزاد شاعری کے ساتھ شاعری کی ہر صنف شامل ہے۔ اس کتاب میں ملک کے نامور شاعر سید الطاف حسین گیلانی اور ریاض حسین چوھدری کی تقاریز شامل ہیں۔ شاعر کا جامع تعارف ڈائریکٹر شعبہ ادبیات فرید ملت (رح) ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ضیاء نیر نے لکھا ہے۔

شاعر صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے اس شعری مجموعے کا انتساب اپنے والد گرامی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نام کیا ہے۔ شاعر کے تعارف میں ضیاء نیر نے لکھا ہے کہ “حسین محی الدین قادری کی شاعری کا اجمالی جائزہ لیں تو اس میں دینی، فکری، روحانی اور انقلابی خیالات کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ اپنے والد گرامی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے افکار عالیہ سے حد درجہ متاثر ہیں اور ان کے اشعار میں اس کا پرتو واضح طور پر جھلکتا ہے۔ “

“حسین محی الدین قادری نے شعر کہنے کا ملکہ اپنے بزرگوں سے ورثہ سے پایا ہے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت یہ مجموعہ کلام ہے جو حمد و نعت، مناقب، نظمیں، غزلیات، قطعات اور فردیات پر مشتمل ہے۔ اس شعری مجموعے کی ایک منفرد اور امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ موصوف نے اپنے شاعری کے سفر کا آغاز 13 سال کی عمر میں دوران رمضان المبارک حالت اعتکاف میں ان قطعہ بند اشعار سے کیا:

دانا کبھی دریا کو سمندر نہیں کہتے
بھٹکے ہوئے انساں کو قلندر نہیں کہتے
بت خانہ جہاں یاد خدا آئے کسی کو
بھولے سے بھی یارو اسے مندر نہیں کہتے

اس حوالے سے یہ شعری مجموعہ صاحبِ کلام کے 13 سال سے 19 سال تک صرف نوعمری کی چھ سالہ کلمی نگارشات کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ اس کے بعد بھی ان کا شعری سفر جاری و ساری ہے لیکن ابتدائی چھ سالوں کی کاوشوں کا ثمر “نقش اول” کی صورت میں قارئین ادب کی ضیافت طبع کے لئے حاضر ہے۔

جناب حسین محی الدین قادری کا تعلیمی پس منظر مختصراً یہ ہے کہ انہوں نے انٹر تک تعلیم پاکستان میں حاصل کی اس کے بعد وہ کینیڈا چلے گئے جہاں انہوں نے گریجویشن مینیجمنٹ اور پولیٹیکل سائنس کے موضوع پر York یونیورسٹی ٹورانٹو سے کی۔ بعد ازاں فرانس کی مشہور ترین یونیورسٹی Sciences-Po پیرس سے عالمی معیشت میں ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ آج کل عالمی معیشت اور سیاست (Global Political Economy) کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان ماڈرن علوم کے ساتھ ساتھ شروع سے ہی مختلف اساتذہ سے شریعت اور علومِ اسلامیہ کی بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اس کتاب کے حرف اول میں نامور شاعر ریاض حسین چوھدری لکھتے ہیں کہ “حسین محی الدین قادری کو یہ بال و پر تصوف نے عطا کیے ہیں۔ ان کے تمام تر اساسی رویے تصوف کی گود میں پروان چڑھے ہیں۔ تصوف کا نور انہیں وراثت میں ملا ہے۔ آپ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے صاحبزادے ہیں، میں ڈاکٹر صاحب کو اپنے عہد کی دانش سے تعبیر کرتا ہوں۔ دانش عصر کی جملہ تخلیقی توانائیاں انہیں ورثہ میں ملی ہیں۔ شاعر کے شعری وژن کی حنا بندی انہی تخلیقی توانائیوں سے ہوئی ہے۔ “

لاہور کی مٹی سے کیا کیا ہے سحر پھوٹی
اس مٹی کی خوشبو بھی سانسوں میں اتر آئی

صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کے مجموعہ کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات قاری کو ذہن نشین رہنی چاہیے کہ شاعر ایک واضح پیغام لیکر اُفق ادب پر طلوع ہوا ہے۔ ان کی شاعری جذبوں کے تیز بہاؤ کا نام ہے۔

ملک کے نامور شاعر سید الطاف حسین گیلانی کا شاعر کے بارے کہنا ہے کہ “بلاشبہ صاحبزادہ صاحب کا یہ مجموعہ کلام حب الہی، عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور محبت آل اطہار و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے معمور ہے۔ ان کے کلام میں منفرد بات واضح طور پر جلوہ گر رہی کہ وہ ملک میں رائج غیر اسلامی نظام حکومت کے باعث معاشرتی ناانصافیوں اور عوام کے حقوق کی پامالی کا درد ہے۔ شاعر کی چشم بینا گردونواح میں سسکتی، تڑپتی، دکھی انسانیت کے کربناک مشاہدہ میں ہمہ وقت مصروف اور حساس دل مبتلائے آزار ہے۔ مگر وہ کہیں بھی اس پر محض آنسو بہاتے نظر نہیں آّتے بلکہ بھر پور عزم، طاقت، جوش اور ولولے کے ساتھ اس دیو استبداد کا خونی پنجہ مروڑ دینا چاہتے ہیں۔ اور اپنے محبوب قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ولولہ انگیز قیادت میں ایک ایسا بھر پور اسلامی انقلاب دیکھنے کے خواہاں ہیں جس میں اللہ کی سرزمین پر خالصتاً اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نظام نافذ ہو۔ “

اس کتاب میں صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے شاعری کو ہر پہلو میں پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے یہ ایک منفرد شاہکار ہے۔ تحریک منہاج القرّآن کے مرکزی سیل سنٹر کے علاوہ ملک بھر میں تحریک کے مقرر کر دہ سیل پوائنٹس پر ابتدائی طور پر یہ کتاب دستیاب ہے۔

تبصرہ