قومی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور استعمال بدعنوانی اور کرپشن کی ایک بدترین شکل ہے۔ آئین پاکستان اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کو فروغ دیا جائے گا، معاشرتی انصاف کا فروغ اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کیا جائے گا، قومی زندگی میں خواتین اور کمزور طبقات کی قومی ترقی کے دھارے میں شمولیت و شرکت کو یقینی بنایا جائے گا۔ ان تمام حقوق کے تحفظ کے لئے قومی وسائل بروئے کار آتے ہیں اور عوامی فلاح و بہبود کے جملہ منصوبہ جات کی نشاندہی اور عملدرآمد بذریعہ بجٹ ہوتا ہے، آئین کے آرٹیکل 80 کے تحت حکومت ہر مالی سال کی بابت آمدنی اور اخراجات کا کیفیت نامہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے اور پھر اس کی منظوری حاصل کرنے کی پابند ہے۔ اس ضمن میں حکومتیں جو پیسہ استعمال کرتی ہیں اس کی پائی پائی قوم کی امانت ہے۔ نظام مملکت، حکمرانوں کے ملکی، غیر ملکی دورے، ترقیاتی امور جملہ اخراجات عوام کے خون پسینے کی کمائی کے جمع شدہ ٹیکسوں کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ دیانت اور امانت کا تقاضا ہے کہ قومی دولت کی پائی پائی پھونک پھونک کر خرچ کی جائے اور انہیں ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ مگر افسوس یہاں آئین اور قوانین کو شخصی مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کرنے کی غیر آئینی روش جڑیں پکڑ چکی ہے، قومی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور استعمال بھی ان برائیوں میں سے ایک ہے۔ بظاہر تو اخراجات اور آمدن کے اعداد و شمار کی منظوری اسمبلی سے لی جاتی ہے مگر یہ ایک رسمی کارروائی بن چکی ہے۔ بجٹ کی منظوری کی رسمی کارروائی کے بعد قومی دولت فرد واحد کے صوابدیدی فنڈز میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔
وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتیں اپنے اپنے بجٹ پیش کرچکی ہیں۔ روایت کے مطابق تمام حکومتوں نے سالانہ مالی گوشواروں کو عوام دوست، مزدور دوست، کسان دوست قرار دیا۔ اگر حکومتی دعوئوں، اعلانات اور اعداد و شمار پر یقین کرلیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی، ڈیمز، دریا، نہریں پانی سے بھر جائیں گی۔ کھیت سونا اگلنا شروع کردیں گے، سستی بجلی، روزگار، انصاف عام ہوگا اور پوری دنیا کی لیبر کا رخ پاکستان کی طرف ہوجائے گا۔ یہی امیدیں ہر سال بجٹ پیش کئے جانے کے موقع پر بنتی اور ٹوٹتی ہیں مگر ملک، عوام، اداروں کی حالت بدلی اور نہ ہی اس نظام کے تحت بدلنے کی کوئی آس امید بچی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار اور اعلانات کا احاطہ چند سطور میں اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ آمدن کے حوالے سے ہر سال اعداد و شمار فرضی پیش کئے جاتے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ کے بڑے حصے کا انحصار غیر ملکی قرضوں پر ہوتا ہے اور پھر بھاری سود کی ادائیگی کے لئے ہر ماہ بجلی گیس ٹیلی فون کے بل اور اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں بے دھڑک اور بے تحاشا اضافہ کرکے کم آمدنی والے کروڑوں خاندانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے، اس وقت سود کی ادائیگی کا بجٹ دفاع اور ترقیاتی بجٹ سے بڑھ چکا ہے۔ رواں سال 1367 ارب روپے حکومت پاکستان نے سود کی مد میں ادا کرنے ہیں جبکہ ترقیاتی بجٹ 1 ہزار ارب اور دفاع کا بجٹ 920 ارب ہے، جو غریب ملک ہر سال 1 ہزار ارب سے زیادہ رقم سود کی مد میں ادا کررہا ہو وہاں تعلیم، صحت کے شعبے بالکل اسی حالت میں ہوتے ہیں جیسے ہمارے ہاں ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر تاحال عوام کی حالت زار بہتر بنانے کے نام پر کم و بیش 70بجٹ پیش کئے جاچکے مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ہسپتالوں میں غریب مریض کو دوائی کی جگہ دھکے ملتے ہیں، ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض لٹائے جاتے ہیں، طبی آلات کا فقدان باقاعدہ بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ڈاکٹر، نرسز اور پیرامیڈیکل سٹاف آئے روز سٹرائیک پر ہوتے ہیں۔ رہی سہی کسر کرپشن اور اقرباء پروری نے نکال رکھی ہے۔
تعلیمی شعبہ کے حالات اس سے مختلف نہیں ہیں۔ آج والدین اس بات پر پریشان ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو معیاری عصری تعلیم کے لئے کس سکول میں داخل کروائیں؟ سرکاری سکولوں کی حالت زار اس حد تک ابتر ہے کہ کم آمدنی والے خاندان بھی سرکاری سکولوں کا رخ کرتے گھبراتے ہیں جبکہ پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں ان کی بساط سے باہر ہیں۔ تعلیمی شعبے میں ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اب سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیا جارہا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے اس پر قومی مباحثہ کی ضرورت ہے۔ اگر حکومتیں تعلیم اور صحت کے شعبے ٹھیک کردیتیں تو عام آدمی کے 70 فیصد مسائل حل ہوچکے ہوتے مگر افسوس حکومتوں اور حکمرانوں کے مجرمانہ معاشی انتظامی برتائو کے باعث پاکستان میں تعلیم اور صحت جیسے انسانی بہبود کے شعبے منافع بخش انڈسٹری میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ دونوں انسانی بنیادی ضرورتیں، تعلیم اور صحت نے 21کروڑ عوام کو اذیت ناک حالات سے دوچار رکھا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صورت حال تو انتہائی ناگفتہ بہ ہوچکی ہے۔ 2009ء میں ایک پالیسی طے کی گئی تھی کہ چاروں صوبائی حکومتیں تعلیم کی مد میں سالانہ کم از کم 1350 ارب خرچ کریں گی جس پر 8 سال بعد بھی عمل نہیں ہوا۔ بجٹ کے حوالے سے دوسرا قابل ذکر پہلو زراعت کا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، 70 فیصد آبادی دیہات میں رہائش پذیر ہے اور غالب اکثریت کی گزر بسر زراعت پر ہے مگر اشرافیہ کی حکومت میں کسانوں کا جینا محال ہوچکا ہے۔ مہنگی کھادیں، مہنگے بیج، مہنگے ڈیزل، بجلی کے ساتھ پیدا کیا جانے والا اناج لے کر جب کسان مارکیٹ جاتا ہے تو اس کی پیداواری لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔ امسال بجٹ اعلان سے قبل پارلیمنٹ کے سامنے پرامن احتجاج کرنے والے کسانوں پر تشدد کرکے حکومت نے نازی ازم کا مظاہرہ کیا، کسانوں نے حکمرانوں کے سیاسی پیکج مسترد کردیئے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ زرعی آلات کو جی ایس ٹی سے استثنیٰ دیا جائے۔ حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کے باعث 21 کروڑ عوام کے لئے غلہ پیدا کرنے والے کاشتکاروں کے بچے بھوکے مررہے ہیں، انہیں معیاری تعلیم میسر ہے نہ صحت کی بنیادی سہولتیں۔ قرضے لے کر موٹرویز، اورنج ٹرینیں بنانا ایک انسانیت دشمن رویہ ہے۔ جہاں لوگ صاف پانی، بجلی اور روٹی کے سستے نوالے کو ترس رہے ہوں وہاں ادھار لیکر فینسی منصوبوں پر کھربوں روپے لوٹانا اصراف اور بے حسی ہے۔ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا اقتصادی مسئلہ کشکول ہے، کشکول اٹھانے کی لت نے قومی غیرت گروی رکھ دی۔ اس وقت پاکستان اپنی جی ڈی پی کا 65 فیصد قرضہ لے چکا ہے اور بتدریج اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ جون 2015ء تک پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضہ 65 ارب ڈالر تھا، جون 2016ء تک بڑھ کر 73 ارب ڈالر ہوگیا اور جون 2017ء تک قرضہ کا حجم 79 ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ اسی طرح اندرونی قرضہ بھی بڑھ رہا ہے۔ حکومت 60ہزار ارب سے زائد قرضہ اندرونی بنکوں سے لے چکی ہے۔ اگر قرضے لینے کی یہی رفتار رہی تو 2018ء تک پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضوں کا حجم 90 ارب ڈالر سے تجاوز کرجائے گا۔ قرضے لے کر ملکی وقار گروی رکھ کر سڑکیں اور پُل بنانا احمقانہ سوچ اور اپروچ ہے۔ حکمران اس رویے سے قوم کے مستقبل کو دائو پر لگا رہے ہیں۔ شاعر مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے دوریش کو تاجِ سردارا
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جولائی 2017
تبصرہ