داعش: ابتداء اور نظریاتی بنیادیں

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

شام اور عراق میں داعش ایک عسکریت پسندنام نہاد جہادی گروپ ہے جو خلافت کو دوبارہ بحال کرنے کا دعوی کرتاہے اور فی الحال عراق اور شام کی سرزمین پرظالمانہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔داعش کی ابتداکے بارے میں اردنی عسکریت پسند ابومصعب الزرقاوی کی طرز زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے پتہ لگایا جا سکتاہے۔زرقاوی مجرمانہ سوچ کا حامل شخص تھا، شراب بنانے،مخرب الاخلاق حرکات کے ارتکاب ،جنسی حملے کرنے کے حوالے سے جانا جاتاتھا اور وہ انہی جرائم پر گرفتا ر بھی ہوا۔ 1999ء میں جیل سے رہا ہونے کے بعد عسکریت پسند بن گیا اور افغانستان چلا آیا، جہاں اس کی ملاقات القاعدہ کے رہنماؤں سے ہوئی۔

افغانستان پرامریکی حملے کے بعد زرقاوی فرار ہو کر عراق آگیا اور اس نے عراق میں مسلح کارروائیاں شروع کر دیں، بے رحمی کے ساتھ لوگوں کو مارا،وہاں وہ ایک بے رحم شخص کے طور پر پہچانا جانے لگا۔اس کے گروپ نے عراق میں کئی خودکش حملے کئے۔ یہ گروپ غیرملکی فوج کی بجائے امدادی کارکنوں اور عراقی شہریوںکو نشانہ بنا نے کے حوالے سے بدنام تھا ۔زرقاوی گروپ نے اہل تشیع اور ان کی امام بارگاہوں کو بھی نشانہ بنایا ۔ان کے مقاصد میں امریکہ کی سربراہی میں برسر پیکار اتحادی فوج کو عراق سے نکالنا اور پھر عراق میں فرقہ وارانہ جنگ کا آغاز کرنااور افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود ساختہ اسلامک سٹیٹ کا قیام تھا۔

ستمبر 2004ء میں زرقاوی طویل مذاکرت کے بعد اسامہ بن لادن کی بیعت کر کے القاعدہ نیٹ ورک کا حصہ بن گیا۔ اسکے گروپ نے نام تبدیل کر کے’’ القاعدہ اِن عراق‘‘ رکھ لیا۔ تاہم دونوں گروپوں کے درمیان تعلق کشیدہ رہا کیونکہ القاعدہ بھی زرقاوی کو بہت زیادہ متشدد اور انتہاپسند سمجھتی تھی۔القاعدہ عرا ق میں اس گروپ کی طرف سے اہل تشیع کو بڑے پیمانے پربلاامتیا زنشانہ بنانے پر خوش نہ تھی جسے زرقاوی گروپ نے اپنے نام نہاد جہادی منصوبے کے لیے نقصان دہ جانا۔ اس حوالے سے 2005ء میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے زرقاوی کے نام خط لکھا اور خط میںناراضگی کا اظہار کیا۔

جون 2006ء میں زرقاوی مارا گیا، اس کے بعد مصری بم ساز ابو ایوب المصری ’’القاعدہ اِن عراق‘‘ کا نیاامیر بنا۔ 2006ء میں ہی المصری نے گروپ کو عراقی ظاہر کرنے کے لیے اس کا نام تبدیل کر کے ’’ اسلامک سٹیٹ اِن عراق‘‘ رکھ دیا اور عراق کے باسی ابو عمر البغدادی کو اس کا امیر مقرر کیا۔

’’اسلامک سٹیٹ ان عراق ‘‘نے تیزی سے خود کو وسعت دی۔ تاوان اور تیل کی سمگلنگ سے سالانہ لاکھوں ڈالر اکٹھے کئے۔دولت کی ریل پیل اور روزگار فراہم کرنے کے باوجود بھی یہ گروپ عراقی عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا کیونکہ غیر ملکی جنگجؤوں کی شرکت اور پر تشدد نظریات کے باعث عراقی عوام اس گروپ سے دور رہے۔

اس پر تشدد ماحول نے عراقی سنیوں کو بیدار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا اور صوبہ انبار میںسنیوں کی ’’تحریک سہاوا‘‘نے بھی پر پرزے نکالے۔ چونکہ ’’اسلامک سٹیٹ‘‘ تشدد سے کام لے رہی تھی جس کے باعث ’’تحریک سہاوا‘‘ مغربی اتحادی افواج کے ساتھ مل کر ’’ اسلامک سٹیٹ ان عراق‘‘ کے خلاف لڑی۔اسلامک سٹیٹ ظالمانہ اور پرتشدد حربوں کے باعث تنہاء ہوگئی اور اسے مختلف گروپوں کی طرف سے شدید مزاحمت اور ردّ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران تنظیم کے بہت سارے غیر ملکی جنگجو بھی مارے گئے اوراس کا اثرماند پڑ گیا ،جس کے نتیجے میں2007ء سے 2009ء کے عرصے میں عراق میں فرقہ وارانہ تشدد کافی حد تک کم ہوگیا۔ دونوں المصری اور البغدادی 2010ء میں مارے گئے۔

2009 ء میں امریکی انخلا کے آغاز سے سہاوا تحریک کمزورہوئی اور اسلامک سٹیٹ کے نام نہاد جہادی ’’موصل‘‘ منتقل ہوگئے۔ جہاں گروپ کو از سر نو منظم کیا گیا۔2010ء کے وسط میں ’’اسلامک سٹیٹ ‘‘عراقی حکومت سے زیادہ تنخواہیں دینے کی پوزیشن میں تھی اور اس نے’’تحریک سہاوا‘‘ کے ارکان کوبھی بھرتی کرنا شروع کر دیا۔ اسی دوران گروپ نے اسلامک سٹیٹ منصوبے کو جائز ثابت کرنے کیلئے ایک بھرپور پراپیگنڈا مہم کا بھی آغاز کیا ۔

2010ء میںابو عمر البغدادی کے مرنے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس کی جگہ لے لی۔ 2011-12ء کے دوران اسلامک سٹیٹ نے خود کو اہل تشیع والے جنوبی عراق اور کرد علاقوں تک وسعت دی ۔انہوں نے مختلف جیلوں میں قید باغیوں کو رہا کیا اور اپنی حاکمیت سنی اکثریت والے عراق میں بھی بڑھا لی ۔شام کی خانہ جنگی نے اسلامک سٹیٹ کو شام تک وسعت دینے میں مدد فراہم کی۔ 2011ء کے وسط میں اسلامک سٹیٹ کی شام میں مقیم لیڈر شپ نے ’’جبہات النصریٰ‘‘ کی تشکیل کیلئے مقامی عسکریت پسند گروپوں سے تعاون کرنا شروع کردیا۔ النصریٰ نے 2012ء میں عوامی پہچان بنائی اور اپنی کارروائیاں2012ء کی پہلی ششماہی تک جاری رکھیں۔ اگرچہ اس نے اپنی توجہ سرکاری اہداف کو نشانہ بنانے پر مرکوز رکھی تاہم ان حملوں کے دوران بڑے پیمانے پر عام شہری بھی نشانہ بنے۔اپریل2013ء میں ابو بکر البغدادی نے ایک دفعہ پھر نام تبدیل کرتے ہوئے اسے’’ اسلامک سٹیٹ ان عراق و شام‘‘(دولت اسلامی عراق و شام) بنادیا۔ البغدادی اپنے منصوبے کے تحت آگے بڑھا۔ بالآخر جون2014ء میں ایک آڈیو ریکارڈنگ جاری کی گئی جس میںابو بکر البغدادی کی امارت میں خلافت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔

اس اعلان کے بعد مغرب سے4ہزار کے قریب افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر اسلامک سٹیٹ پہنچے جو مغرب میں بسنے والے47ملین سے زائدمسلمانوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی تعداد ہے۔ماہر کریمنالوجی ’’Simon Cottee ‘‘کے مطابق اسلامک سٹیٹ کی طرف جانیوالے مغربی لوگوں کی نفسیات سے واضح ہوتا ہے کہ’’امنگوں سے بھرپور سوچ کی طاقت اور خواہش کیسے عقل پر غالب آ سکتی ہے‘‘۔انسداد دہشتگردی کے ماہر ’’Matthew Levitt‘‘ اتفاق کرتے ہیں کہ ’’کئی لوگوں کیلئے جو شناخت اور مقصد کے مضبوط احساس کی کمی سے دوچار ہوتے ہیں، کوعالمی انقلابی پرتشدد بیانیہ، جوابات اور حل مہیا کرتا ہے: یہ ان لوگوں کیلئے بہت طاقتور پیغام ہوسکتا ہے جوجوابات تلاش کررہے ہوں‘‘۔

اکثر افراد جن کی شناخت داعش کیلئے لڑنے والوں کے طور پر ہوئی ان کی ابتدائی زندگی تکالیف اور مسائل سے بھری ہوئی تھی۔کئی ایسے تھے جن کے والدین نہیں تھے یا وہ گھر میں بد سلوکی کا شکار تھے۔ نوجوان ہمیشہ کسی رول ماڈل کی تلاش میں ہوتے ہیں، ابو بکر بغدادی کی شکل میں انہیں ایک طاقتور پیشوا نظر آیا جس کا ذکر دنیا بھر میں ہو رہا تھا اور وہ توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اسی طرح بہت سارے نوجوان ایڈوینچرازم کا شکار ہو کر مختلف جرائم پیشہ گروہوں کا حصہ بن جاتے ہیں اور پر تشدد جرائم کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔

اس گروپ میں سابق آمر صدام حسین کی آرمی کے کئی فوجی اور پولیس بشمول اس کی خفیہ پولیس کے اہلکار بھی سنی اور شیعہ ملیشیا میں شامل ہوگئے تھے۔یہ شمولیت امریکہ کی طرف سے 2003ء میں عراق پر حملے کے بعد ہوئی اور یہ شیعہ ، سنی عسکری گروپس بھی اس حملے کے بعد وجود میں آئے۔ کچھ اندازوں کے مطابق 30 فیصد سینئر داعش ملٹری کمانڈرز عراقی آرمی اور پولیس کے آفیسرز ہیں۔ ابو عمر زرقاوی بھی عراقی آرمی کا سابق آفیسر تھا ،جس نے سابق باتھسٹس حکومت کے اہلکاروں کو ملیشیا میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ اسلامک سٹیٹ گروپ کا کمانڈ اینڈ کنڑول سسٹم اور تکنیک بالکل وہی نظر آتی ہے جو صدام حکومت کی خفیہ پولیس والوں کی تھی۔

داعش کے نظریہ کو جابرانہ نقطہ نظر کے طور پر بیان کیا جاتاہے۔ داعش نے تسلیم شدہ سکالرز کی تحقیق سے مستفید ہونے کی بجائے اپنے عالمانہ حکام بنائے،جن کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ داعش کا نظریہ تین جدید دستاویزات سے معلوم کیا جا سکتاہے:

  1. ان تینوں میں سے زیادہ معروف ابوبکر النجی کی 2000ء کے اوائل میں لکھی گئی کتاب ’’بربریت کا انتظام‘‘ ہے۔ یہ دستاویز اسلامک سٹیٹ کی تشکیل کیلئے سٹریٹجک روڈمیپ کی حیثیت رکھتی ہے جو ماضی کی عسکریت پسند تنظیموں کی کوششوں سے الگ و منفرد ہے۔حضورa اور ان کے صحابہؓ کی مثالوں پر انحصار کرنے کی بجائے النجی اپنے تشدد کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے نظریے کو جواز فراہم کرنے کیلئے کثرت سے غیر مسلم تاریخ دانوں اورنظریہ دانوں کا حوالہ دیتانظر آتا ہے۔
  2. داعش کے نظریات اردنی عسکریت پسند ابو مصعب زرقاوی کے نظریات سے اخذ کئے گئے ہیں۔خاص طور پراس کی تکفیری سوچ سے داعش بہت متاثرہوئی۔داعش کا دعوی ہے کہ جو ان کی خلافت کو مسترد کرینگے وہ خود بخود مرتد ہو جائینگے (اور داعش کے لوگوں کے لیے مرتدین کو مارنے میں کوئی امر مانع نہیں۔
  3. داعش کے نظریے کا ایک اور اہم حصہ تمام مسلمانوں کو جہاد میں شمولیت کیلئے بلانا ہے۔ یہ نقطہ نظر جہادکے فرض ہونے کی مخصوص اور غلط تشریح سے ابھرتاہے۔ داعش جنگجوؤں کی غیر مسلموں کو بندوق کے زور پر زبردستی مسلمان بنانے کی بہت سی رپورٹس ہیں۔ داعش نے قرون وسطیٰ کی غلامی کو دوبارہ متعارف کروانے کی کوشش کی۔ انہوں نے عراق کے یزیدی اور مسیحی اقلیت کے مردوں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا(جسے اب وہ موصل میں عراقی و اتحادی افواج کی گولہ باری سے بچنے کے لیے بطور ڈھال استعمال کر رہے ہیں) داعش عراق میں باتھسٹ حکومت کے ظلم وجبر اور خوف وہراس پھیلانے کے ماڈل کی وارث ہے۔ داعش ناقص سکالرز اور اسلامی قانون کے جعلی حوالے استعمال کر کے دھوکا دیتی ہے ۔ اسلامی قوانین کی تشریح میں تنوع کے حوالے سے جو تسلیم شدہ روایات ہیں داعش اس کا ناجائز استعمال کر رہی ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جولائی 2017

تبصرہ