تاریخ سیرت میں ’’سیرۃ الرسول‘‘ کا امتیازی مقام

تحریر : محمد ممتاز اعوان

تاریخ، واقعات ماسبق کا بیان ہے جس کے قابل اعتماد ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ واقعہ کے مطابق ہو اور Axiological نقطہ نگاہ سے سازگار ہو۔ تاریخ قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کی توجیہ کا نام ہے۔ (منہاج القرآن از ڈاکٹر فاروقی)

مگر تاریخ بکھرے ہوئے چند واقعات کا مجموعہ بھی نہیں اور نہ ہی چند بڑے آدمیوں کی سوانح حیات ہے بلکہ تاریخ وسیع معنوں میں انسانوں کی مادی کشمکش کا مرقع ہے۔ تاریخ مجموعی طور پر کہیں عوام و خواص کی جنگ کی شکل میں۔۔۔ کہیں سرمایہ دار و مزدور، حاکم ومحکوم کے حقوق کے تعین کی صورت میں۔۔۔ اور کہیں چند ایسے ہمہ صفت و ہمہ جہت انسانوں کے اعلیٰ کردار، معاملہ فہمی، فرض شناسی کو نمایاں کرتی نظر آتی ہے جن کے عزم وحوصلہ اور بروقت قوت فیصلہ کی وجہ سے حق کامیاب اور باطل شکست سے دوچار ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم و تحقیق کے میدان میں انسانی تہذیب کے ابتدائی آثار سے لیکر آج کے ترقیاتی مسائل فلسفہ تک دنیائے انسانیت تحقیق کے سہارے ہی آگے بڑھی ہے۔ مذہب کا مطالعہ اور عقیدوں کا تضاد بھی تحقیق طلب ہے اور خصوصاً فی زمانہ اس کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ ہے لیکن شرط یہ ہے کہ مفروضات اور اشتہابات سے پہلو تہی کرکے تدبر اور تفکر سے غیر جانبدارانہ محاکمہ کیا جائے۔

تاریخ اور مطالعہ مذہب کے باب میں دنیائے انسانیت مسلمانوں کے اس کارہائے نمایاں کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے جس میں کسی مذہب کے پیروکاروں نے اپنی مقدس شخصیات یا ہمہ صفت اکابرین کے مشاغل روزو شب کی حفاظت اس طرح کی ہو جس طرح مسلمانوں نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بلکہ ان سے معمولی تعلق رکھنے والی شخصیات کے مشاغل روزو شب کو بھی محفوظ رکھا وہ تمام لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال و اقوال، ضروریات زندگی کی اشیاء، تحریر و تدوین کے فرائض سرانجام دیتے تھے ان تمام کے اسماء اور افعال تک اسلام کی تاریخ کے اندر محفوظ ہیں حتی کہ راویان حدیث، ان تمام لوگوں کے نام، تاریخ، زندگی، اخلاق، عادات، تعلیم و تعلم، تلامذہ و اساتذہ کے ذکر کو بھی کمال دیانتداری کے ساتھ احاطہ تحریر میں لائے جن کی تعداد لاکھوں تک جاپہنچتی ہے۔ ان سب کے مجموعہ احوال کو ’’اسماء الرجال‘‘ کہتے ہیں۔

جرمن ڈاکٹر اسپر نگر مسلمانوں کے اس عظیم الشان کارنامے کا اعتراف کرتے ہوئے رقمطراز ہے کہ ’’کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری، نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصیات کا حال معلوم ہوسکتا ہے‘‘۔

غلط فہمیاں اور افواہیں پھیلا کر دین حق کی شمع بجھا دینے کی فکر خام رکھنے والوں نے عموماً یہ مشہور کررکھا ہے کہ اسلام میں لکھنے لکھانے کا کام تابعین نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے 100سال بعد شروع کیا۔ اس پراپیگنڈہ کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ درج ذیل سطور میں ہم قارئین کو مختصراً بتانے کی کوشش کریں گے کہ اس کام کا آغاز عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذریعے ہوچکا تھا۔ بعد ازاں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہی کی زندگیوں میں تابعین نے دور دراز کے مشکل ترین سفر کرکے تحقیق و تدوین کی غرض سے ان واقعات، حالات اور روایات کو ایک ایک کے دروازے پر جاکر متعلقہ لوگوں سے اس بارے تصدیق کروانے کے بعد ہمیں فراہم کردیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے سوا مجھ سے زیادہ کسی کو یاد نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو کچھ سنتے لکھتے جاتے تھے اور میں لکھتا نہ تھا‘‘ (بخاری باب کتابۃ العلم) سنن ابوداؤد اور مسند ابن حنبل میں ہے کہ بعض لوگوں نے عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی غصہ کی حالت میں ہوتے تو کبھی خوش اور تم سب کچھ لکھ لیتے ہو۔ عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ نے اس بنا پر لکھنا چھوڑ دیا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دہن مبارکہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تم لکھ لیا کرو اس سے جو نکلتا ہے حق نکلتا ہے (ابوداؤد) عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس مجموعے کا نام صادقہ رکھا تھا (ابن سعد جلد دوئم) اور کہا کرتے تھے کہ میرے اندر زندگی کی آرزو صرف دو چیزوں نے پیدا کردی ہے جن میں سے ایک صادقہ ہے اور صادقہ وہ صحیفہ جو میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر لکھا ہے (دارمی)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک صحیفہ تھا جو ان کی تلوار کی نیام میں پڑا رہتا تھا اس میں متعدد حدیثیں لکھی ہوئی تھیں انہوں نے لوگوں کی درخواست پر دکھایا (بخاری دوئم)

ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگو ں سے پوچھا کہ کسی کو معلوم ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شوہر کی دیت میں سے بیوی کو کیا دلایا ضحاک ابن ابوسفیان نے کھڑے ہوکر کہا مجھے معلوم ہے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں لکھوا کر بھیجا تھا (دار قطنی نمبر2)

مروان نے خطبہ میں بیان کیا مکہ حرم ہے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پکارا اور مدینہ بھی حرم ہے اور یہ حکم میرے پاس لکھا ہوا موجود ہے اگر تم چاہو تو میں اس کو پڑھ کر سناؤں۔ (ابن حنبل ج 4)

اسی طرح سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ضمن میں خلفائے اسلام، اسلاف محدیثین نے قناعت نہیں کی بلکہ مساجد میں اس فن کے بڑے بڑے اماموں کے لئے علیحدہ حلقے قائم کئے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سبھی گوشوں پر کام صحابہ و تابعین نے شروع کئے۔ یہ سب ایسے کارہائے نمایاں ہیں جن کا اپنوں اور غیروں سب نے برملا اعتراف کیا۔ ایورنڈ با سوروتھ اسمتھ نے 1874ء میں لیکچر دیئے جو بعد میں کتابی شکل میں چھپے اس نے کہا ’’ہم مسیح کی ماں، مسیح کی خانگی زندگی، ان کے ابتدائی احباب، ان کے ساتھ تعلقات، ان کے مشن کے طلوع یا بیک وقت ظہور کے متعلق کیا جانتے ہیں؟ ان کی نسبت کتنے سوالات ہیں جو ہمیشہ سوالات ہی رہیں گے لیکن اسلام میں ہر چیز ممتاز ہے، یہاں دھندلا پن اور راز نہیں۔ ہم تاریخ رکھتے ہیں، ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اس قدر جانتے ہیں جتنا لیوتھر اور ملٹن کے متعلق (Muhammad & Muhammdanism lecture in Royel Institutiion of great Britian )

پروفیسر D.S Margoliuth نے 1905ء میں Heros of the Nations سیرت پر ایک زہریلی کتاب لکھی جس کے مقدمہ میں اس حقیقت کو وہ بھی نہ چھپا سکا۔

The biographers of the Prophet Muhammad form a long series it is imposible to end but which would be honourable to find place.

سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مسلمان اسکالرز نے لاکھوں کتابیں لکھیں اور لکھ رہے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں غلامان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سلسلہ کو جاری رکھا۔ سر سید احمد خان کے خطبات احمدیہ۔۔۔ مولانا حالی کے ’’مولود نامے‘‘ کے علاوہ ’’معراج نامے‘‘، ’’شمائل نامے‘‘، ’’نورنامے‘‘ تحریر ہوئے۔۔۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں جب علمائے اسلام کو کالے پانی کی سزائیں دی جا رہی تھیں عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اظہار کا سلسلہ تب بھی نہ تھم سکا۔۔۔ مفتی محمد عنایت کاکوری نے ایام اسیری میں سیرت پر بہترین کتاب ’’تواریخ حبیب الہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ لکھی۔۔۔ برصغیر کے غیر مسلم بھی سیرت نگاری میں پیچھے نہ رہے۔ لکشمن پرشاد کی کتاب ’’عرب کا چاند‘‘۔۔۔ پنڈت سندر لال کی کتاب ’’حضرت محمد اور اسلام‘‘۔۔۔ شردھے پرکاش کی کتاب ’’حضرت محمد صاحب‘‘۔۔۔ جے ایس دارا کی تصنیف ’’رسول عربی‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔۔۔ اسی دوران مسلم مفکرین کی تصانیف سیرت سامنے آئیں جنہیں عوامی سطح پر زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔۔۔ شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کی پانچ جلدوں پر مشتمل مشترکہ کتاب ’’سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ عوام و خواص میں مقبول ہوئی۔۔۔ مولانا اشرف علی تھانوی کی ’’نشتر الطیب‘‘۔۔۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری کی ’’مقدس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘۔۔۔ مولانا ادریس کاندھلوی کی ’’سیرت المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘۔۔۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی‘‘۔۔۔ مفتی محمد شفیع کی ’’آداب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘۔۔۔ پیر کرم شاہ الازہری کی ’’ضیاء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘۔۔۔ حکیم سعید کی ’’دانائے سبل‘‘۔۔۔ صفی الرحمن مبارکپوری کی ’’رحیق المختوم‘‘ نے سیرت نگاری کی تاریخ و روایت کو عالمانہ شان کے ساتھ آگے بڑھایا۔

20 ویں صدی کی آخری دہائیوں اور اکیسویں صدی کا آغاز عظیم الشان تجربات سے ہوا۔ جہاں Informations کا ہر سطح پر Explosion ہو رہا ہو۔۔۔ سرحدوں کے خاتمے کی باتیں ہو رہی ہوں۔۔۔ دل والے گلے مل رہے ہوں۔۔۔ جنگ کے شعلے دبا کر امن کی راہیں ہموار ہو رہی ہوں۔۔۔ نئی جستجو نے آسمان پر کمند ڈالی ہو۔۔۔ خلاؤں میں مستور سورج تلاش کئے جارہے ہوں۔۔۔ دور جدید کا تعلیم یافتہ طبقہ روشن خیال بن چکا ہو۔۔۔ عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض مذہبی جنوں سے تعبیر کیا جارہا ہو۔۔۔ نام نہاد روشن خیال، مغربی مفکرین کی دریوزہ گری تو گوارہ کرلی جائے مگر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطور نمونہ، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت پرانی باتیں، اندھی تقلید قرار پائے۔۔۔ نام نہاد دینی قوتیں مفادات کے حصول کے لئے شعوری یا لاشعوری طور پر ’’مخالف کیمپ‘‘ کا حصہ بن چکی ہوں۔۔۔ اس دور زوال اور ذہنی پستی کے ماحول میں اپنی انفرادیت قائم رکھتے ہوئے عالمگیر سطح پر عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نغمے الاپنا، فکر قرآن اور تعلیمات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ڈنکے بجانا ہر ایک کی بس کی بات نہیں ہے۔ قدرت نے یہ توفیق شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو عطا کی ہے۔ مذکورہ ذہنی انتشار اور مادہ پرستی کے دور جدید میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے احیائے اسلام اور ملت کی نشاۃ ثانیہ کا بیڑہ اٹھایا۔

آج سے 25 سال قبل تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی جس نے اس قلیل ترین مدت میں شرق تا غرب اسلام کی آفاقی تعلیمات کو از سر نو روشناس کرایا، جس کا اعتراف اپنوں نے ہی نہیں بیگانوں نے بھی کیا۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہر شعبہ زندگی کے متعلق لیکچر دیئے ایک ہزار سے زائد تصنیفات لکھیں۔ ان کی بے شمار تصنیفات میں 14 جلدوں پر مشتمل سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرکۃ الارا کتاب ارباب علم و دانش کی نظر میں بیسویں صدی کا عظیم اجتہادی کارنامہ ہے۔ بیان کردہ پس منظر میں سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اشاعت کا آغاز ہوا۔

سیرت کا اسلوب؟

سیرت کا اسلوب کیا ہونا چاہئے؟ کیا فقط حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے فکری وعملی اور تعلیماتی ونظریاتی گوشوں کو اجاگر کرنے سے بیان سیرت کا حق ادا ہوجائے گا؟

اس کے جواب میں آپ رقمطراز ہیں ’’میرے خیال میں اس بیان سیرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مقصود کا نصف آخر پورا ہوتا ہے نصف اول ترک ہوجاتا ہے۔ یہ سب کچھ کرلینے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے عشق و محبت کا والہانہ پن اور قلبی و روحی تعلق کی وارفتگی جس سے آنکھیں نمناک اور دل غمناک ہوں پیدا نہیں ہوسکتا (مقدمہ سیرت الرسول باب دوم ص 68)

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیگر کتبِ سیر سے انفرادیت

سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری کتب سیرت سے ایک انفرادیت یہ ہے کہ سابقہ ارباب سیر نے آغاز ہی سیرت سے کیا ہے اس بات پر روشنی نہیں ڈالی کہ سیرت کیا ہے اور کیسے بنتی ہے؟ شیخ الاسلام کی سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتیازی مقام ہے کہ اس سلسلہ کی پہلی کتاب مقدمہ کے عوان سے ہے جس میں ایسے موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ آپ نے ’’ابتدائیہ‘‘ میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو قرآن و حدیث اور سیرت کی روشنی میں اجاگر کرنا ضروری قرار دیا ہے۔ سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے آپ نے ایک ایسا ہمہ جہت تصور متعارف کرایا ہے جو کہ بیک وقت نظروں اور عقلوں کو بھی مطمئن کرسکے اور دلوں اور روحوں کی بستی کو بھی سیراب کرسکے۔ آپ نے بعض سیرت نگاروں کی طرف سے سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی اور معجزانہ پہلوؤں سے انکار کو سیرت نگاروں کا المیہ کہہ کر اس کی مضبوط علمی گرفت کی ہے (مقدمہ جلد اول)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے قلبی محبت و وجدانی اتصال اور روحانی عشق کی نسبت پیدا کرنے کو تکمیل ایمان و عرفان اور ادائیگی تقاضائے دین کے لئے ضروری قرار دیا (ایضاً)

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیک وقت مسلم و غیر مسلم اسکالرز کی علمی گرفت

سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاں آپ نے مغربی مفکرین کے پراپیگنڈہ کا مورخانہ بصیرت سے جائزہ لیا وہیں بعض واقعات میں مسلم اسکالرز کے نقطہ نظر کا شرح و بسط سے ذکر کیا۔ واقعہ غرانیق کو فسانہ غرانیق قرار دیا۔ مصری اسکالر محمد حسین ہیکل کے نقطہ نظر کا تذکرہ کرتے ہوئے اس من گھڑت واقعہ کو بے بنیاد آرا کے اغلاط نامے سے تعبیر کیا ہے۔ فسانہ غرانیق کو ذہنی الجھاؤ کی کرشمہ سازی قرار دیا اور لکھا کہ یہ سازش ایک بھیانک فتنے کا حرف آغاز ہے، اس لئے فسانہ غرانیق کو بیک جنبش قلمزد کردینا نہ صرف ایمان کا بنیادی تقاضا ہے بلکہ فتنہ و شر کے جڑ سے اکھاڑ دینے کے بھی مترادف ہے (جلد پنجم)

اس طرح آپ نے حقائق و شواہد سے ثابت کیا ہے کہ ہجرت فرار نہیں قرار کا نام ہے لکھتے ہیں کہ ہتھیار ڈال کے بھاگنے والے دنیا کی امامت کی نہیں کیا کرتے اور نہ ہی ایک عظیم الشان تمدن کی بنیاد رکھا کرتے ہیں۔ (ایضاً)

سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ہر سطر ادبی شان لئے ہوئے ہے آپ کی یہ تصنیف آپ کے دلکش اسلوب، طرز استدلال اور علمی وجاہت کا مظہر ہے۔۔۔ الفاظ کا چناؤ آپ کی عالمانہ شان کا گواہ ہے۔۔۔ اہل محبت کی اضطراری کیفیات کو اپنے دل کی دھڑکنوں میں سموکر قرطاس و قلم کے سپرد کیا گیا ہے۔۔۔ سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس جلدیں زیور طبع سے آراستہ ہوکر ارباب علم و دانش، عوام و خواص، اہل محبت و عقیدت کی علمی پیاس بجھانے کا سامان مہیا کررہی ہیں۔ شیخ الاسلام سے زیادہ اس راز کو کون جانتا ہے کہ اس خزاں رسیدہ چمن میں بہاریں تب ہی جوبن پر آسکتی ہیں جب آج کے پریشان حال نوجوان اپنے سینے سے عشق و محبت کے وہی تیر پھر پار کریں جن سے ابوبکر رضی اللہ عنھم وعمر رضی اللہ عنھم ، بلال رضی اللہ عنھم و ابوذر رضی اللہ عنھم نے اپنے دل چھلنی کئے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنھم کی طرح یہ سوزش عشق نہ ہوگی تو معرکہ ہائے بدرو حنین بھی برپا نہ ہوسکیں گے اور نہ راتوں میں شب زندہ دار اپنے نالہ نیم شبی سے قدسیان فلک کو محور رشک کرسکیں گے۔

تبصرہ