زندگی کا حقیقی شعور کس شے میں ہے۔۔۔ آدمی کو شرف و امتیاز کسی چیز سے ملتا ہے۔۔۔ کون سا احساس اس کے لئے عزت و سرفرازی لے کر آتا ہے۔۔۔ میں نے اس سوال پر جتنا بھی غور کیا ہمیشہ ایک ہی جواب ملا۔۔۔ یہ کہ آدمی دوسروں کی عزت افزائی کرے۔۔۔ وہ اپنے جذبوں کی ہر پہنائی میں دوسروں کو ساتھ لیکر اترے۔۔۔ اور احساس کے ہر افق پر محبت کی چاندی بکھیرتا نظر آئے۔۔۔ جیون کی کھیتی میں وہ جب بھی کوئی فصل اگائے۔۔۔ پیار ہی اگائے۔۔۔ اور پیار ہی لٹائے۔۔۔ وہ زندگی کے راستوں میں جب چلے۔۔۔ مل کر چلے۔۔۔ دوسروں سے الگ نہ ہو۔۔۔ اسے تنہا کوئی خوشی نہ بھائے۔۔۔ جو خوشی دیکھے سب میں بانٹے۔۔۔ وہ نفع پہنچا کر راحت پائے۔۔۔ اور عزت دے کر، عزت لائے۔۔۔ یہی معیار عزت ہے خدا کے ہاں۔۔۔ اور یہی ہے سیرت میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ عام لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہے۔۔۔ جو چاہتا، جب چاہتا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل سکتا تھا۔۔۔ (امام احمد، کتاب الزہد ابن عساکر سبل الھدی 7 / 34)۔۔۔ دستر خوان پر کبھی اکیلے کھانا نہ کھاتے۔۔۔ ہر ایک کو شریک طعام کرتے۔ ۔۔مجلس میں کبھی نمایاں جگہ نہ لیتے۔۔۔ حلقہ عام میں گھل مل کربیٹھتے۔۔۔ چلتے ہوئے ہمرائیوں سے الگ نہ ہوتے۔۔۔ ساتھ ساتھ چلتے۔۔۔ سواری پر کسی ہمسفر کو ساتھ بٹھاتے۔۔۔ مریضوں کی عیادت کرتے اور جنازوں میں شامل ہوتے۔۔۔ کان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعود المریض ویشھد الجنازۃ۔۔۔ (6) (ترمذی 3 / 337)
غریبوں کی دلجوئی کرتے۔۔۔ ان کی دعوت قبول فرماتے اور ان کے گھر جاتے۔۔۔ لوگوں کے کام کرتے اور ان کی ضرورتیں برلاتے۔۔۔ ان کانت الامۃ لتاخذ بید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتنطلق بہافی حاجتہا (صحیح بخاری 10 / 489)
سفر حضر میں ہر اجتماعی موقع پر چھوٹے بڑے کام میں صحابہ کے ساتھ شریک محنت ہوئے۔۔۔ مسجد کی تعمیر، خندق کی کھدائی، جہاد کی تیاری، کاروان سفر، اور پڑاؤ ڈالنے کے مواقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر قسم کے کاموں میں عملاً بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔۔۔ یہ سماجی شعور کی وہ برتر سطح ہے جو میرے آقا و مولا نے اپنے کمال فکر، ندرت احساس اور عظمت کردارکے ذریعہ اجاگر فرمائی۔۔۔ نوع بشر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتماعیت، رفاقت، باہمی تعاون، دوستی اور خدمت کے جن اعلی اصولوں اور پاکیزہ روایات سے عملاً روشناس کرایا اس کی مثال تاریخ عالم میں کہیں اور نہیں ملتی۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرز حیات میں جو فطری بے ساختگی نظر آتی ہے وہ کائنات میں سب سے یکتا اور انمول ہے۔۔۔ حسن کردار کا ایسا خزانہ جو دنیا والوں کے لئے ہمیشہ آئیڈیل رہے گا۔۔۔ ندرت احساس کا اجلا منظر جسے دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔۔۔ اور شعور زندگی کی وہ سب سے اونچی سطح جس تک پہنچنا رہتی دنیا کسی اور کے بس میں نہیں۔۔۔
ایسے لوگ تو دنیا میں بہت ہوں گے جو سائل کو خوش ہو کر دیتے ہوں۔۔۔ لیکن ایسا کوئی نہ ہوگا جس سے مانگتے ہوئے، سائل انتہائی بداخلاقی اور بدتمیزی سے پیش آئے۔۔۔ مگر وہ پھر بھی اپنے دامن عفو و کرم سے اس کی خطائیں ڈھانپ لے۔۔۔ اور اپنی بے بہا نوازشوں سے اس کو نہال کر دے۔۔۔
یہ شان تو بس محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے۔۔۔ وہ رحمۃ للعلمین بن کر آئے ہیں۔۔۔ پس جو کوئی عالمین میں شامل ہے۔۔۔ وہ ان کی رحمت سے ہر حال میں فیضیاب ہے۔۔۔ کوئی مومن ہو یا کافر۔۔۔ برا ہو یا اچھا۔۔۔ امیر ہو یا غریب۔۔۔ حقدار ہو یا سائل۔۔۔ خوش اخلاق ہو یا بدتمیز۔۔۔ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ہر ایک کو رحمت ہی سے ڈھانپا۔۔۔ اور محبت ہی سے نوازا ہے۔۔۔ ہمارے سامنے کوئی سائل آئے اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرے۔۔۔ تو ہمیں اس پر غصہ آئے گا۔۔۔ پھر ہم اسے نوازنے کی بجائے ڈانٹنے لگیں گے۔۔۔ یہ ہمارے احساس کا رخ اور برتاؤ کا معیار ہے۔۔۔ عالم بشریت کا طرز احساس یہی ہے۔۔۔ اور یہی ہوسکتا ہے۔۔۔ مگر وہ کہ رحمت للعلمین ہیں۔۔۔ احساس کی سب سے اونچی سطح اور سب سے اعلیٰ منزل انہی کے شایان ہے۔۔۔ اکیلے اس جہاں میں وہی تو ہیں جو ندرت احساس کا یکتا پیکر ہیں۔۔۔ لو دیکھو ایک سائل ان کی بارگاہ میں آیا ہے۔۔۔ وہ بدو ہے۔۔۔ نرا گنوار۔۔۔ اس کے مانگنے کا انداز دیکھو۔۔۔ اور میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان عطا پہ ناز کرو۔۔۔ صحیح بخاری ومسلم کی متفق علیہ حدیث ہے :
عن انس رضی اللہ عنہ قال : کنت امشی مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعلیہ برد نجرانی غلیظ الحاشیۃ فادرکہ اعرابی فجبذہ برداثہ جبذۃ شدیدۃ قال انس رضی اللہ عنہ حتی نظرت الی صفحۃ عنق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اثرات بھا حاشیۃ الثوب من شدۃ جبذتہ فقال یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرلی من مال اللہ الذی عندک فالتفت الیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضحک وامرلہ یعطا۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ جارہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس کے کنارے بہت زیادہ کھردرے تھے۔ ایک بدو آیا اس نے وہ چادر زور سے کھینچی حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک پر چادر کے کھینچنے کی وجہ سے پڑنے والے نشانات دیکھے۔ پھر اس بدو نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے مال میں سے مجھے بھی دے جو آپ کے پاس ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے مسکرائے اور اسے مال دینے کا حکم فرمایا‘‘۔
اس طرح کے بہت سے واقعات احادیث طیبہ میں موجود ہیں۔۔۔ عرب کے وہ بدو جن کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے : الاعراب اشد کفرا ونفاقا واجدر الا یعلموا حدود ما انزل اللہ علی رسولہ۔۔۔ یعنی یہ بدو کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور اسی قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو تعلیمات اتاری ہیں ان کی حدود سے جاہل رہیں۔۔۔ یہ بدو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتے اور انتہائی ناپسندیدہ رویہ اپناتے۔۔۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت ہمیشہ انہیں اپنی عطا و بخشش سے ڈھانپ لیتی۔۔۔ بدوؤں کا آنا جانا لگا رہتا۔۔۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کسی سے گریز نہ فرماتے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کرم تک رسائی ہر آن سب کو میسر تھی۔۔۔ راہ چلتے کوئی بڑھیا اپنے کسی کام کے لئے روک لیتی۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمال توجہ سے اس کی بات سنتے اور انتہائی مہربانی سے اس کے کام کے لئے اس کے ساتھ چل پڑتے۔۔۔ مدینہ کی کنیزیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے معاملات حل کرنے کے لئے عرض کرتیں۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہمراہ چل پڑتے اور جب تک ان کا کام ہو نہ جاتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس نہ لوٹتے۔۔۔ چنانچہ مسند امام احمد، صحیح بخاری اور ابن ماجہ کی روایت ہے : ۔۔۔ ان کانت الامۃ من المدینۃ لتاخذ بید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتنطلق بہ فی حاجتھا فلم ینزع یدہ من یدھا حتی تذھب بہ حیث شاء ت۔۔۔مجلس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جہاں کبار صحابہ موجود ہوتے۔۔۔ وہیں عام بے سلیقہ لوگ، دیہاتی اور بچے بھی اسی طرح گھل مل کر بیٹھے ہوتے۔۔۔ اور اپنی اپنی حاجتوں کی تکمیل کے لئے سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمتوں اور عنایتوں سے فیضیاب ہوتے۔۔۔
امام بخاری نے الادب المفرد، میں عدی بن حاتم کی روایت بیان کی ہے کہ۔۔۔ میں بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ بچے، خواتین اور دیہاتی لوگ جمع ہیں اور سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال قرب اور عنایت توجہ سے فیضیاب ہورہے ہیں۔۔۔ تو مجھے یقین ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیصر و کسریٰ کی طرح بادشاہ نہیں ہیں بلکہ خدا کے سچے رسول ہیں۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل میں کسی آنے والے کے لئے رکاوٹ نہ تھی۔۔۔ کوئی بات کرنے والا جو کچھ چاہتا بے تکلف کہہ دیتا۔۔۔ کوئی راہ گیر جہاں چاہتا راستے میں اپنے کسی کام کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روک لیتا۔۔۔ لوگ اپنے ناپسندیدہ طرز عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا پہنچاتے۔۔۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہ فرماتے۔۔۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت و عنایت کا دریا مسلسل بہتا۔۔۔ اور ہر اچھے، برے، ہر اپنے، پرائے کو یکساں سیراب کرتا رہا۔۔۔ ابن ابی شیبہ، دارمی اور دیگر محدثین نے ایک روایت بیان کی ہے کہ :
قال العباس رضي الله عنه يارسول الله صلي الله عليه وآله وسلم اني اراهم قد آذوک وآذاک غبارهم، فلواتخذت عريشا تکلمهم فيه فقال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم لاازال بين اظهرهم يطؤن عقبي وينازعون ثوبي ويؤذيني غبارهم حتي يکون الله هوالذي يرحمني منهم.
(ابن ابي شيبه، 13 / 257، دارمي 1 / 36)
’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایک بار (سفر کے دوران) عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ اپنے طرز عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور ان کا غبار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اذیت کا باعث ہے۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک خیمہ میں تشریف رکھیں جہاں یہ لوگ حاضر ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بات سنیں اس پر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ میں ہمیشہ ان لوگوں کے درمیان اسی طرح رہوں گا کہ یہ مجھے گھیرے رہیں، میری چادر کھینچتے رہیں اور ان کا غبار مجھے تکلیف پہنچاتا رہے تاآنکہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی آغوش رحمت میں ڈھانپ لے‘‘۔
سبحان اللہ! کتنی عظیم ہے ذات مدینے والے کی۔۔۔ دیکھئے دریائے رحمت میں کتنا عظیم بہاؤ ہے۔۔۔ کیسے کیسے موتی امنڈ رہے ہیں اس کی موجوں سے۔۔۔ ندرت احساس کے موتی۔۔۔ مروت و مدارات کے موتی۔۔۔ حلم و بردباری کے موتی۔۔۔ عفو وکرم کے موتی۔۔۔ عجز و تواضع کے موتی۔۔۔ اور جودو سخا کے موتی۔۔۔ موج موج اس دریا کی۔۔۔ البیلے موتیوں کا ہار۔۔۔ اور ایک ایک موتی اس کا دوجہاں سے بڑھ کر۔۔۔ اے خدا کچھ تو ہی بتا۔۔۔ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا دریا کتنا گہرا، کتنا بھرا اور کتنا پھیلا ہے۔۔۔ اپنی مخلوق میں تو ایسا کوئی تو نے بنایا ہی نہیں جو تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دریائے کرم کو ناپ سکے۔۔۔ تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کرم کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو خود ان سے بڑھ کر ہو۔۔۔ اور ان سے بڑھ کر کوئی تو نے بنایا ہی نہیں۔۔۔ پھر اے میرے خدا بس تو ہی تو ہے۔۔۔ اکیلا تو۔۔۔ جو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا گھیرا (گہرائی و گیرائی) جانتا ہے۔۔۔ تو ہی اس دریائے کرم کا منبع ہے۔۔۔ اور تو ہی اس کا انت۔۔۔ ساری موجیں اس کی تو نے ہی بنائی ہیں۔۔۔ اور تو ہی ان کا شمار جانے۔۔۔ اس کے موتی، مونگے سب تیرے کرم کی پرچھائیاں۔۔۔ تو ہی جانے کیا کیا تو نے اس دریا میں سمویا ہے۔۔۔ ندرتیں اس کی تیرے جلوے۔۔۔ تو ہی اس کے رنگ پہچانے۔۔۔ سب وسعتیں اس کو تو نے بخشیں۔۔۔ اور تو ہی اسے کونین کی ہر سرحد سے پرے چھلکائے۔۔۔ کائنات کی حد بندی تو نے ہی تو کی ہے۔۔۔ اور اپنے محبوب کی رحمت کو بے حدو بے کنار بھی تو نے ہی اٹھایا ہے۔۔۔ پھر میں تو بس اتنا ہی سمجھ پایا ہوں میرے خدا۔۔۔ کہ تو نے اپنی کائنات کو محدود اس لئے بنایا ہے۔۔۔ صرف اس لئے۔۔۔ تاکہ تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیکرانی چھلک سکے۔۔۔ تری قدرت کے جلوے دو ہیں۔۔۔ اک ترا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو بیکراں ہے۔۔۔ بے حد وبے کنار۔۔۔ اور دوسرے۔۔۔ پوری کائنات جو محدود ہے۔۔۔ زمان معین، مکان مقید۔۔۔ آغاز معلوم۔۔۔ انجام معلوم۔۔۔ ہر شے حدود و قیود میں بند۔۔۔ ایسا کیوں ہے۔۔۔ یہ کائنات میں تو نے حدیں کیوں رکھی ہیں۔۔۔ اس لئے میرے مولا تاکہ۔۔۔ ہر کوئی جان لے۔۔۔ تیرا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری کائنات سے بڑھ کر ہے۔۔۔ وجود میں بھی۔۔۔ اخلاق میں بھی۔۔۔ شعور میں بھی۔۔۔ احساس میں بھی۔۔۔ کرم میں بھی۔۔۔ عطا میں بھی۔۔۔ یہ کائنات اگر محدود نہ ہوتی۔۔۔ تو کیسے کھلتا کہ۔۔۔ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات لامحدود ہے۔۔۔ یہ سمٹی ہوئی کائنات بتاتی ہے کہ ۔۔۔ رحمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دریا بیکراں ہے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت للعلمین ہیں۔۔۔ تمام جہانوں کے لئے رحمت۔۔۔ تو بالیقین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت تمام جہانوں سے بڑھ کر ہے۔۔۔ ہر شے اس رحمت کی آغوش میں سمٹی ہوئی ہے۔۔۔ کائنات کے سب کنارے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے فیضیاب ہیں اور یہ تبھی ہوسکتا ہے۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا دریا ان کناروں سے باہر امنڈ رہا ہو۔۔۔ اور یقیناً ایسا ہی ہے۔۔۔ رحمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دریا کونین کے سب کناروں سے پرے بہہ رہا ہے۔۔۔
تبصرہ