سالانہ روحانی اجتماع شب برات

مورخہ 17 اگست 2008ء کو شب برات کا عظیم الشان سالانہ روحانی اجتماع مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا۔ جس کی صدارت مرکزی امیر تحریک صاحبزادہ فیض الرحمٰن درانی نے کی۔ جبکہ مہمانان گرامی میں قائمقام ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض، ڈائریکٹر امورخارجہ جی ایم ملک، ناظم دعوت رانا محمد ادریس قادری، امیر تحریک پنجاب احمد نواز انجم، ناظم اجتماعات و مہمات ساجد محمود بھٹی، ناظم تعلیمات شاہد لطیف قادری اور منہاج القرآن ویمن لیگ کی عہدیداران شامل تھیں۔ اس کے علاوہ لاہور بھر سے ہزاروں مرد و خواتین نے بھرپور شرکت کی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جس کی سعادت اویس الرحمان نے حاصل کی جبکہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت حسان منہاج محمد افضل نوشاہی، شکیل احمد طاہر، امجد علی بلالی برادران، شہزاد برادران، حیدری برادران اور حمزہ نوشاہی نے حاصل کی۔ پروگرام کی نقابت کے فرائض کالج آف شریعہ کے فائنل ایئر کے طالب علم وقاص علی قادری نے سرانجام دیئے۔ جبکہ ناظم دعوت رانا محمد ادریس نے "بندگی اور صحبت" کے موضوع پر خطاب کیا۔ اس بابرکت محفل کو سٹی 42 ٹی وی چینل کے ذریعے براہ راست دکھایا گیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ٹیلی فونک خطاب کیا جو پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ حیدرآباد دکن، انڈیا میں بھی سنایا گیا۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ آپ تمام حضرات خوش نصیب ہیں جو آج کی شب اپنے مولا کو منانے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ آپ نے شب برات کی فضیلت کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ (سورۃ الدخان: 44 ، 3)

’’بے شک ہم نے اسے مبارک رات میں نازل فرمایا‘‘۔

مذکورہ آیت مبارکہ میں لیلۃ المبارکۃ سے اکثر اصحاب لیلۃ القدر مراد لیتے ہیں مگر حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ و دیگر کئی اصحاب اس آیت میں مبارک رات سے مراد نصف شعبان کی شبِ برات لیتے ہیں۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ نصف شعبان کی اس شب کی اہمیت و فضیلت احادیث صحیحہ سے ثابت نہیں، لاعلمی اور بے خبری کی وجہ سے غلط ہے۔ اس بحث میں جانے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کسی شب کا قدر و منزلت اور برکت والا ہونا کیا حقیقت رکھتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ سال کی تمام راتوں میں ایک رات مبارک ہے، جبکہ رات ہونے میں سب راتیں برابر ہیں اور دن ہونے میں سب دن برابر ہیں؟

موسموں میں فرق

اللہ تعالیٰ نے موسم جدا جدا رکھے ہیں سردی، گرمی، بہار اور خزاں۔ ہر موسم کی تاثیر اور خصوصیات جدا جدا ہیں۔ ایک موسم کی خصوصیات اور اثرات آپ کسی دوسرے موسم میں نہیں لاسکتے۔ حالانکہ زمیں وہی ہوتی ہے، اس میں ڈالی جانے والی کھاد وہی ہوتی ہے، مالی وہی ہوتا ہے، پانی وہی ہوتا ہے، بیج بھی ایک ہے۔ مگر جس شان و شوکت سے پھول موسم بہار میں کھلتے ہیں، وہ کسی اور موسم میں نہیں کھلتے۔ موسمِ بہار میں ہریالی آتی ہے، سبزا اگتا ہے، رنگا رنگ پھول اگتے ہیں، پھر جب خزاں آتی ہے تو پت جھڑ ہو جاتا ہے۔ لہذا ظاہری علامات، اسباب اور وسائل ایک جیسے ہیں مگر موسم بدلنے سے اتنا فرق پڑ جاتا ہے کہ جو اثرات موسم بہار میں مرتب ہوتے ہیں دیگر موسموں میں نہیں ہوتے۔ اسی طرح اللہ نے روحانی موسم بھی بنائے ہیں۔ بعض دنوں، راتوں اور مہینوں میں اللہ کا فضل اپنے جوبن پر ہوتا ہے حالانکہ مالک وہی ہے، سجدہ کرنے والے وہی ہوتے ہیں، ہاتھ اٹھانے والے بھی وہی ہوتے ہیں، گڑگڑانے والے بھی وہی ہوتے ہیں، مانگنے والے وہی ہوتے ہیں مگر کسی خاص وقت اور موسم میں اس کی اجابت اور قبولیت کی شان نرالی ہوتی ہے، قبولیت اور اجابت کی ہوا چلتی ہے اور اس میں نیکی، اطاعت، عبادت، تقویٰ، معرفت، قبولیت اور قرب کے پھول اگنے لگتے ہیں، دل کی کھیتی میں ہریالی آ جاتی ہے، روح کی ویران فصلیں سرسبز و شاداب ہونے لگتی ہیں جبکہ باقی موسموں میں یہ اثرات نہیں ہوتے۔ ایسے بابرکت موسم کبھی راتوں میں آتے ہیں اور کبھی مہینوں میں آتے ہیں۔ یہ اللہ کا نظام قدرت ہے اس کا انکار کرنا اللہ کے نظام قدرت کا انکار ہے۔ یہ کسی عقیدہ ومسلک کی بات نہیں ہے، یہ تو نظام قدرت کی بات ہے۔

زمینوں میں فرق

اسی طرح اللہ نے زمینوں میں فرق رکھا ہے۔ بہت سے پھل ہیں جو ایک خطہ زمین میں اگتے ہیں جبکہ دوسری زمین میں نہیں اگتے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں زمینوں کی تاثیر مختلف ہے، پانی کی تاثیر مختلف ہے، آب و ہوا مختلف ہے، یہاں کے لوگو ں کے رنگ سیاہ ہیں یا سیاہی مائل ہیں مگر مغرب کے ٹھنڈے علاقوں کے رہنے والے لوگ سب سفید ہیں۔ یہ فرق کیوں ہے؟ ویسے تو سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہے مگر زمین، آب و ہوا اور خوراک کے فرق کی وجہ سے ا سکے تاثرات بھی مختلف ہیں۔ اسی طرح سال کے بارہ مہینے اللہ کے بنائے ہوئے ہیں مگر ان میں سے کچھ مہینے ایسے ہیں جن میں اللہ کے کرم کی ہوا چلتی ہے قبولیت کا موسم آتا ہے، اس موسم میں اگر سجدے کا ایک بیج بو دیں تو من کی کھیتیوں میں فصل بہار آ جاتی ہے۔ اس روحانیت کے موسم میں کسی کی آنکھیں اگر گریہ کناں ہو کر ایک آنسو گرا دیں تو اس کی کیفیت کچھ اور ہوجاتی ہے۔ اس میں اگر کسی کے ہاتھ اٹھ جائیں تو قبولیت کی آواز کسی اور شان سے گلے لگا لیتی ہے۔ باقی موسموں میں نظام عدل ہوتا ہے اور خاص خاص موسموں میں نظام فضل ہوتا ہے۔ بات عدل کی ہو تو سوال ہوسکتا ہے کہ عدل پر ہمارا حق ہے مگر بات اللہ کے فضل کی ہو تو کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کہ کسی پر اللہ کا فضل اتنا زیادہ کیوں ہے؟ وہ جس پر راضی ہو جائے فضل کر دے اور جتنا مرضی کر دے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ذَلِكَ فَضْلُ اللّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌO (سورۃ المائدہ، 5 : 54)

’’یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے‘‘۔

ماہ و سال کی فضیلتیں

مہینوں میں اللہ نے ہر ماہ الگ الگ بنایا۔ پھر کچھ فضیلتیں اس نے محرم الحرام کو دے دیں، کچھ فضیلتیں رجب کو دیں، کچھ فضیلتیں شعبان معظم کو دے دیں اور جب ماہ رمضان آیا تو یہ فضیلتیں اپنے کمال کو پہنچ گئیں۔ رمضان کے پہلے عشرے کی فضیلت کا حال الگ ہے، دوسرے عشرے کی فضیلت کا مقام الگ ہے پھر تیسرے عشرے کی فضیلت کا مقام و مرتبہ پہلے دونوں عشروں سے الگ ہے۔ سارے سال کی فضیلتیں رمضان میں جمع ہوگئیں اور پھر ماہ رمضان کی ساری فضیلتیں بہار کے مہینے ربیع الاول کی اس ایک شب پر قربان ہوگئیں جس میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور وہ شب میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

لہذا موسم بدلنے سے موسموں کی تاثیر بدلتی ہے۔ اس لئے اگر کوئی خاص رات منائی جائے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ روحانیت کی رات ہے۔ اس شب میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل اور برکت عام کر دی ہے۔

قرآن مجید میں برکت کا تصور

قرآن مجید میں اللہ نے برکت کا یہ تصور شہروں میں بھی رکھا۔ انسانوں میں رکھا، نسلوں میں بھی رکھا، درختوں میں بھی رکھا۔ یہ تصور ہر جگہ کارفرما ہے۔

رات میں برکت:

جب رات کی بات کی تواللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ (سورۃ الدخان: 44 ، 3)

بے شک ہم نے اسے مبارک رات میں نازل فرمایا۔

جس رات کو اللہ نے برکت دی ہو، وہ رات باقی راتوں جیسی کیسے ہوسکتی ہے؟ اس رات کے سجدے بھی مبارک ہیں اس رات کی گریہ و زاری بھی مبارک ہے، رات کی تمام عبادتیں مبارک ہیں۔ یہ راتیں روحانیت کے لئے چشمہ حیات بن جاتی ہیں۔ جو کام بسا اوقات برسوں میں نہیں ہوتا تو وہ ایسی رات کی ایک گھڑی میں ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِO وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِO لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍO (سورۃ القدر 97 : 1، 2، 3)

’’بے شک ہم نے اِس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔ اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اجروثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘

لیلۃ القدر میں برکت

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا معلوم ہے لیلۃ القدر کی فضیلت کیا ہے؟ ہزار مہینوں سے یہ ایک رات بہتر ہے۔ ہزار مہینوں میں 30 ہزار دن اور 30 ہزار راتیں ہوتی ہیں۔ مگر یہ ایک رات ہزار مہینوں پر بھاری اور افضل ہے۔ جب اللہ کی عطا کردہ برکت کے باعث ایک رات ہزار مہینوں پر بھاری ہو تو جب یہی برکت اللہ کے کسی بندے کو عطا ہو جائے تو وہ بندہ لاکھوں کروڑوں انسانوں پر فضیلت کیوں نہ پائے گا۔ ۔ ۔ !

اسی طرح یہ برکت اللہ نے پانی میں بھی رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا (سورۃ ق، 50 : 9)
’’ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اتارا‘‘۔

پانی کے بارے میں فرمایا کہ یہ مبارک ہے کیوں مبارک ہے؟ اس کا جواب قرآن مجید میں دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا :

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَO (سورۃ الانبیاء، 21 : 30)

’’اور ہم نے (زمین پر) ہر زندہ چیز (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی تو کیا وہ (ان حقائق سے آگاہ ہو کر اب بھی) ایمان نہیں لاتے‘‘

ہر زندہ چیز پانی سے شروع ہوئی ہے۔ لھذا جو زندگی بخش شے ہو، موت کو زندگی میں بدل دے، وہ مبارک ہوتی ہے۔ پانی اس لئے مبارک ہے کہ اس نے زندگی بخشی ہے تو جو اللہ کے بندے مبارک ہو جائیں وہ اس عطا کردہ برکت کی وجہ سے مردہ دلوں کو زندگی بخشتے ہیں۔

اب درخت کی مثال لیں اللہ نے یہ برکت ایک درخت میں بھی رکھ دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُّورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ (سورۃ النور 24 : 35)

’’اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ شکل میں روشن ہوا) اس طاق (نما سینہء اقدس) جیسی ہے۔ جس میں چراغ (نبوت روشن) ہے۔ (وہ) چراغ فانوس (قلبِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رکھاہے۔ یہ فانوس (نورِ الہی کے پرتو سے اسقدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارا ہے (یہ چراغِ نبوت) جو زیتون کے مبارک درخت سے روشن ہوا ہے۔ نہ (فقط) شرقی ہے اور نہ غربی (بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالمگیر ہے) (اس چراغ نبوت کی مثال یوں ہے جیسے) اسکا تیل چمک رہا ہو اگرچہ ابھی اسے (وحی ربانی اور معجزات آسمانی کی) آگ نے چھوا بھی نہ ہو (تووہ) نور کے اوپر نور ہے، اللہ جسے چاہتا ہے اپنے نور (کی معرفت) تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘

مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ نے زیتون کو مبارک کہا۔

کیا اس زیتون کی اللہ سے کوئی ذاتی نسبت ہے؟ یہ زیتون کا درخت مبارک کیسے بن گیا؟ جیسے تمام پھلوں کو اللہ نے پیدا کیا۔ اسی طرح زیتون کا درخت بھی اللہ نے پیدا کیا۔ مگر جو فضیلت اور برکت زیتون کو حاصل ہے وہ دوسرے تمام پھلوں کو میسر نہیں اور زیتون کے مبارک ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے نبیوں نے اسے پسند کیا تھا۔ یہ انبیاء کی خوراک ہے۔ اب انبیاء جس پھل کو کھانا پسند کریں تو اللہ کائنات کے سب درختوں میں اس درخت کو یکتا اور مبارک درخت بنا دیتا ہے۔ جب انبیاء کی پسند اور چاہت درختوں کو مبارک کر دے تو ان کی اپنی برکتوں کا عالم کیا ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ ؟

حتی کہ زیتون کے درخت کو برکت دیتے ہوئے فرمایا لا شرقیۃ ولاغربیۃ کہ جس کو برکت مل جائے وہ مشرق و مغرب میں محدود نہیں رہتا۔ وہ مغرب میں ہو تو مشرق کو فیض دیتا ہے اور مشرق میں رہے تو مغرب کو فیض دیتا ہے۔ برکت زمان ومکان کی حدود سے آگے نکل جاتی ہے۔ اس آیہ کریمہ میں اس سوال کا جواب ہے کہ بغداد سے برکت یہاں کیسے پہنچ جاتی ہے اور سر زمین مدینہ کی برکت یہاں کیسے پہنچ گئی۔ اگر شہر کوئی غیر مبارک ہو، بندہ کوئی غیر مبارک ہو پھر یہاں اور وہاں کا فرق ہے۔ اگر بات ہو غیر مبارک کی پھر پہنچنانا پہنچنا قابلِ غور ہے۔ جہاں بات برکت، انتخاب، فضل اور اس کے خصوصی کرم کی آجائے، اللہ کے انتخاب اور اجتبیٰ کی آجائے وہاں کائنات کے سارے زمینی ضابطے منسوخ ہوجاتے ہیں۔ وہاں پھر نیا ضابطہء فضل اور ضابطہ برکت جاری ہوتا ہے۔ یہ ضابطہ کسی رات کے لئے جاری ہو یا کسی مہینے اور شہر کے لئے جاری ہو یا کسی کے قدموں کے لئے جاری ہو۔ وہاں برکت جاری ہو جاتی ہے۔

آبِ زم زم کیلئے قیام کا حکم

یہ آب زم زم کیا ہے؟ اور اس کو کس چیز نے مبارک کر دیا؟ کیا یہ چشمہ جنت یا آسمان سے آیا تھا؟ پانی ہی تو تھا مگر حالت اضطراب میں بچپن میں پیغمبر علیہ السلام نے ایڑیاں رگڑیں اور اس پیاس کی کیفیت میں ان کی ایڑیوں سے چشمہ پھوٹ پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے اس چشمہ سے نکلنے والے پانی کو حیات بخش کر دیا جسے آب زم زم کہتے ہیں۔ اس کے لئے حکم ہے کہ سارے پانی بیٹھ کر پیواور چونکہ یہ پانی میرے پیغمبر کے قدموں کے لگنے سے نکلا ہے اس لئے اسے کھڑے ہو کر پیو۔ ہماری نادانی کا عالم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام پڑھنا ہو تو پوچھتے ہیں کہ کھڑے ہو کر پڑھیں یا بیٹھ کر، کھڑے ہو کر پڑھنا کہاں سے ثابت ہے؟ انبیاء کے امام پر سلام کھڑے ہو کر پڑھیں یا بیٹھ کر! گروہ انبیاء میں سے ایک نبی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بچپن میں پاؤں رگڑنے سے جو چشمہ پھوٹا اس کے بارے میں حکم ہوا کہ یہ پانی بھی کھڑے ہو کر پئیں۔ کیونکہ نبی علیہ السلام کے قدموں کے فیض سے نکلا ہے۔ مگر جس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے قدموں کے فیض سے تمام نبیوں کو نبوت ملی جو سب نبیوں کے امام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ان پر سلام پڑھنے کی بات آئے تو سوال ہو کہ کھڑے ہو کر پڑھنا کہاں سے ثابت ہے؟ کتنی نادانی کی بات ہے لہذا جو ساقی زم زم ہیں اُن کے پانی کے لئے قیام ہے اور جو ساقی کوثر ہیں ان کے سلام کے لئے قیام ہے۔

مقبول بندی کے عمل کی حوصلہ افزائی

ادھر حضرت حاجرہ علیہ السلام کا اضطراب تھا ادھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اضطراب! غور طلب بات ہے کہ دونوں طرف پہاڑ ہیں، ہر کوئی دوڑتا ہے۔ نشیبی علاقے بھی ہوتے ہیں، وہاں بھی عام پہاڑوں جیسے دو پہاڑ تھے۔ صفا اور مروہ۔ عام پہاڑ تھے۔ ان کا کیمیائی تجزیہ کریں، یہ باقی پہاڑوں سے مختلف نہیں ہیں۔ مگر رب کائنات نے فرمایا: اے میری مقبول بندی حاجرہ جس جگہ تو دوڑی ہے تیرے اس عمل کو عمل مبارک کرتا ہوں، قیامت تک جو حج کرنے جائے گا نشیب ہو یا نہ ہو تیری ادا کو دہراتے ہوئے دوڑتا جائے گا تو حج قبول ہوگا۔ ارشاد فرمایا:

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ
فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ
O

(سورۃ البقرہ، 2 آیت 158)

’’بیشک صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں، چنانچہ جو شخص بیت اﷲ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے (درمیان) چکر لگائے، اور جو شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یقیناً اﷲ (بڑا) قدر شناس (بڑا) خبردار ہے۔‘‘

انبیاء کا وجود سراپا برکت

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے کہلوایا

جَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ (سورۃ مریم، 19 : 31)

’’میں جہاں کہیں بھی رہوں اس نے مجھے سراپا برکت بنایا ہے‘‘

ارشاد باری تعالیٰ ہے حضرت عیسٰی کو حکم ہوا کی آپ لوگوں کو بتائیں کہ میں جہاں بھی ہوں گا برکت ہوگی۔ یہ قرآن کی نص ہے ایک نبی کے قدم سے برکت دی ہے۔

کعبہ کی بدولت مکہ کی عظمت

پھر قرآنِ حکیم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَO (سورۃ ال عمران 3 ، 96)

’’بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کیلئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے (مرکز) ہدایت ہے‘‘

توجس شہر مکہ میں اپنا پہلا گھر بنایا اس کو اس گھر کی نسبت کے باعث مبارک کر دیا مکہ شہر کو مبارک کہا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے شہر مکہ کی قسم

یہ بات توجہ طلب ہے اللہ تعالیٰ اپنی زبان سے فرما رہا ہے کہ میں نے اس شہر کو اپنے گھر کی وجہ سے مبارک کر دیا اور پھر ایک وقت آیا تو اس نے اسی مکہ شہر کی قسم کھائی اور فرمایا۔

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO (سورۃ البلد، 90 : 1، 2)

’’میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں (اے حبیب مکرم) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں‘‘

لا اقسم کی پہلی تفسیر

’’لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ‘‘۔ میں لا زائدہ ہے جو فائدہ دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قسم کھانے سے اپنی بے نیازی کا اظہار فرما رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ مستغنی عن القسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کو شہر مکہ کی قسم کھانے کی کو ئی ضرورت نہیں اگرچہ یہ شہر مبارک ہے۔ اس کے باوجود اللہ قسم کھاتا ہے کہ اس قسم کی اہمیت مزید واضح اور اجاگر ہو۔ اس لئے ’’لا‘‘ کا فائدہ تاکید قسم کا بھی ہے۔ ’’لا‘‘ زائدہ سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ جب باری تعالیٰ قسم نہیں کھاتا اور وہ قسم کھانے سے بے نیاز اور مستغنی ہے پھر بھی وہ اس شہر مکہ کی قسم کھا رہا ہے تو لامحالہ کوئی بہت بڑی بات ہے۔ فرمایا کہ قسم اس وجہ سے نہیں کھاتا کہ میرا شہر مبارک ہے، میرا گھر کعبہ اس شہر میں ہے۔ صفا مروہ ہے یا لوگ یہاں حج کرنے آتے ہیں، طواف کے لئے آتے ہیں۔ بے شک شہر مکہ کی عظمت و بزرگی میں کعبہ معظمہ، انبیاء اکرام کے مقدس مقابر، مقام ابراہیم، مطاف، حجر اسود، صفا ومروہ اور آب زم زم سب کو دخل ہے۔ لیکن ان سب نسبتوں کے باوجود میں قسم نہیں کھاتا۔ میں بے نیاز ہوں ان نسبتوں کی وجہ سے قسم نہیں کھاتا لیکن میں پھر بھی اس شہر کی قسم اس لئے کھاتا ہوں کیونکہ

’’وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ‘‘

اے محبوب تیرا گھر اس شہر میں ہے،

خدا کے گھر نے شہر مکہ کو مبارک تو کیا مگر لائق قسم نہیں کیا۔ جب قسم کی باری آئی تو فرمایا کہ محبوب اس شہر کی قسم اس لئے نہیں کھاؤں گا کہ یہاں میرا گھر ہے بلکہ اس لئے کھاؤں گا کہ یہاں تیرا گھر ہے۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سکونت اختیار کرنے سے اس شہر کو وہ عظمت و تقدس اور محبوبیت نصیب ہوئی کہ وہ اللہ کے ہاں مستغنی عن القسم ہونے کے باوجود لائق قسم ہوگیا توحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر نے اس شہر میں برکتوں کی انتہاء کر دی۔ اس کا ایک معنی اور ہے جس میں واؤ حال کے لئے ہے۔

دوسری تفسیر:

اگر واؤ حالیہ ہو اور ’’حل‘‘ کا معنی ہو خطوں یعنی گھومنا پھرنا تو معانی یوں ہوں گے کہ اللہ فرماتا ہے میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں، باری تعالیٰ کس وقت! فرمایا: حبیب اُس وقت اِس شہر کی قسم کھاتا ہوں جب تواپنے گھرسے نکل کر اِس شہر کی گلیوں میں خرام ناز کرتا ہے، جب اس شہر کی ہوائیں تیرے رخسار چومتی ہیں، جب اس شہر کی فضاؤں میں تیری سانسیں گھُل جاتی ہیں، جب اس شہر کی گلیوں میں توخرام ناز کرتا ہے تو مجھے اپنی عزت کی قسم تب یہ شہر میری قسم کے قابل بن جاتا ہے۔

تیسری تفسیر:

تیسری تفسیر کے مطابق لا استفہام انکاری کے لئے ہے۔ اس معنی کے تحت ’’لَا أُقْسِمُ بِهَذَا‘‘ کا مطلب تعجب کے ساتھ یعنی سوال اور تعجب کے ساتھ ہے یعنی میں اس شہر مکہ کی قسم نہ کھاؤں، بھلا کیوں نہ کھاؤں؟ اب میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ کیسے ہوسکتا ہے تو بھی یہاں رہے اور پھر بھی میں قسم نہ کھاؤں۔

چوتھی تفسیر:

اس تفسیرکے مطابق’’ لا‘‘ نافیہ ہے یعنی میں اس شہر مکہ کی قسم نہیں کھاؤں گا کب؟ باری تعالیٰ ابھی تو کھا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ !! جب محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شہر کو چھوڑ جائے گا تو ہم بھی اس شہر کی قسم کھانا چھوڑ دینگے ’’حلٌ‘‘ بمعنی خروج ہے اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے امام مکی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے اس کو نقل کیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس شہر کی قسم نہیں کھاؤں گا؟ کب؟ جب تو اس شہر کو چھوڑ دے گا۔ یہ قسم تو محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے لئے ہے۔ منبع برکات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک ہے۔ بلکہ کعبہ کی برکتوں میں اضافہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ہے۔ اس طرح شہر کو بابرکت بنا دیا۔

مسجداقصی کا اردگرد بابرکت کیوں؟

پھرجب مسجد اقصیٰ کی بات کی تو باری تعالی نے ارشاد فرمایا۔

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO (سورۃ الاسراء 17 : 1)

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا اردگرد مبارک کر دیا؟ یہ نہیں فرمایا کہ مسجد اقصیٰ مبارک ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ مبارک ہے مگر یہاں نہیں فرمایا۔ خدا کا گھر تو مسجد ہے مگر اردگرد بابرکت اس لئے کر دیا کہ وہاں پیغمبروں کے گھر اور مسکن تھے اور بعد میں مدفن بن گئے۔ اس مقام پر اللہ تعالی مسجد اقصیٰ کا تعارف سبھی نبیوں کے مسکن و مدفن کے حوالے سے کروا رہا ہے کہ ان کے قدموں سے اردگرد کی زمین بھی برکت والی ہوگئی۔

برکت اور حصولِ برکت

ان مثالوں سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ برکت کا انکار نہیں کرنا چاہئے۔ برکت اللہ نے رکھی ہی اس لئے ہے کہ لوگ اس کو حاصل کریں اور برکت حاصل کرنے کو ہی تبرک کہتے ہیں۔ اللہ نے دوائی اس لئے بنائی ہے کہ لوگ شفا پائیں۔ یہ برکت رکھنے والا اس کا خالق ہے وہ اس کی حاجت نہیں رکھتا اس نے یہ برکت اپنے لئے نہیں رکھی یہ برکت اس نے اپنے بندوں کے لئے رکھی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ بندوں کے لئے برکت رکھے اور ساتھ یہ حکم بھی دے کہ برکت حاصل نہ کرنا یعنی برکت تو جائز ہے تبرک جائز نہیں۔ یہ تو مذاق بن جائے گا کہ برکت تو ہو مگر تبرک نہ حاصل کیا جائے۔

اور قرآن مجید سے یہ بھی ثابت ہوا کہ برکت کا تصور محدود نہیں۔ اس کے حصول کے بہت سارے طریقے ہیں اور ہر برکت کی شئے سے تبرک مقصودِ قرآن اور منشاء الٰہی ہے۔

انہیں منبع برکات میں سے ایک شب برات بھی ہے۔

شبِ قدر اور اس کے فضائل

اللہ تعالیٰ نے شبِ قدرکو فضلیت دی اور اس وجہ سے سارے مہینے کو فضلیت دی اور اس مہینے کا ذکر جس سورۃ دخان میں آیا اس سورۃ کو قرآن میں فضلیت دی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قرا سورۃ الدخان فی لیلۃ اصبح یستغفرو لہ سبعون الف مرۃ۔ (سنن ترمذی، باب فضائل القرآن)

جو شخص سورۃ دخان کی تلاوت کرے وہ صبح اس حال میں کرے گا کہ ستر ہزار فرشتے اس کی بخشش کے لئے دعا کرینگے۔

فضیلتِ شعبان احادیث کی روشنی میں

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا:

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رمضان کے علاوہ اتنے زیادہ روزے شعبان میں رکھتے ہیں کہ کسی اور مہینے میں اتنے روزے نہیں رکھتے اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے کہ اس میں اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزے کے ساتھ ہوں، عبادت کے ساتھ ہوں۔

امام ابو یعلی حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پورے سال میں جس شخص پر جو کچھ بیتنے والا ہے، موت، رزق کی برکت یا کمی، حج، بیماری یا شادی جو کچھ ہے اس رات اللہ مقدر میں لکھتا ہے اور میں پسند کرتا ہوں کہ میری اجل اس حال میں آئے کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہو۔

پھر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ 15 شعبان کی رات اللہ اپنی مخلوق کے قریب آ جاتا ہے، آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور آواز دیتا ہے اور مشرک اور مقاطعہ کرنے والے کے علاوہ ہر شخص کے لئے مغفرت کو عام کر دیتا ہے۔ آواز دیتا ہے کہ ہے کوئی شخص جو پندرہ شعبان کی رات مجھ سے مغفرت مانگے، میں اس کو معاف کر دوں۔ آج کی رات ہے کوئی جو مجھ سے رزق مانگے اور میں اسے رزق دے دوں۔‘‘ اللہ کریم ایک ایک حاجت کا نام لے کر خود نداء دیتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ بقیہ راتوں میں ہم سوال کرتے ہیں کہ مولا عطا فرما، اس رات خدا خود بندوں سے سوال کرتا ہے۔ ہے کوئی مانگنے والا؟ ہے کوئی ہاتھ اٹھانے والا؟ ہے کوئی دامن پھیلانے والا؟ تو رب کائنات غروب آفتاب سے طلوع آفتاب تک اپنے بندوں کو پکار پکار کر اپنی عطاؤں کی بارش فرماتا رہتا ہے۔ اور امام بہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور عرض کی یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے اور آج کی رات اللہ لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے۔ پھر عدد بیان فرمائے کہ اللہ مشرکوں اور کافروں اور مقاطعہ کرنے والوں کو چھوڑ کر بنو قلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر اپنے بندوں کو معاف فرماتا ہے‘‘

ایک اورحدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ’’پندرہ شعبان کی رات میں نے دیکھا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر پر نہیں ہیں۔ میں پریشان ہوگئی جا کر دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں حالت سجدہ میں ہیں اور سر جھکا کر اللہ کے حضور مناجات کر رہے ہیں۔ ‘‘

لفظِ شعبان کی وضاحت

حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ شیخ عبدالقادر جیلانی نے ارشاد فرمایا کہ لفظِ شعبان کے پانچ حرف ہیں ایک ش، دوسرا ع، تیسرا ب، چوتھا الف اور پانچواں نون۔ یہ پانچ حروف شعبان میں اللہ کی دی ہوئی پانچ فضیلتوں کی طرف اشارہ ہے۔

’’ش‘‘ سے مراد شرف ہے

’’عین‘‘ کا اشارہ ’’علو‘‘ بزرگی اور بلندی کی طرف ہے۔

’’با‘‘ کا اشارہ بِر کی طرف ہے۔ نیکی، تقویٰ، قبولیت اس مہینے میں اللہ نے نیکیوں کی قبولیت کا اعلان فرمایا۔

’’الف‘‘ کا اشارہ الفت کی طرف ہے کہ اس رات اور مہینے میں اللہ الفت و محبت عطا کرتا ہے اور

’’نون‘‘ سے مراد نور ہے کہ اس مہینے اور شب کو نور عطا فرمایا۔

یہ پانچ عطا ئیں اس شب اور اس مہینے کے صدقے عطا فرمائیں اورارشاد فرمایا کہ اس میں خیرات اور برکات نازل ہوئی ہیں۔ خطیات و بلیات مٹاتی جاتی ہیں، گناہ معاف کئے جاتے ہیں اور کثرت کے ساتھ اس رات میں بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں درود بھیجا جاتا ہے۔

شبِ برات تین سو دروازوں کا کھلنا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل امین آئے اور فرمایا: یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اپنا سرِ انور اور چشمانِ مقدس آسمان کی طرف اٹھائیں، میں نے آسمان پر انوار و تجلیات الٰہی کا منظر دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: یہ رات کیا ہے؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ 15 شعبان کی رات ہے جس میں اللہ نے اپنی رحمت کے تین سو دروازے اپنی مخلوق کے لئے کھول دیئے ہیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے وہ دروازے دیکھے اور ہر دروازے پر ایک فرشتہ تھا اور ہر فرشتہ دروازے پر مخلوقِ خدا کو منادی دے رہا تھا۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب پہلا دروازہ دیکھا تو فرشتہ کہہ رہا تھا ’’مبارک ہو جس نے آج کی رات رکوع کیا‘‘ دوسرے دروازے پر ایک فرشتہ کہہ رہا تھا ’’مبارک ہو جو آج رات اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوگیا‘‘ تیسرے دروازے پر فرشتہ کہہ رہا تھا ’’مبارک ہو جس نے آج کی رات ہاتھ اٹھا کر اللہ سے کچھ مانگ لیا‘‘ چوتھے دروازے پر آواز آرہی تھی ’’مبارک ہو جنہوں نے آج کی رات اللہ کا ذکر کیا‘‘ پھر اگلے دروازے پر کھڑا فرشتہ کہہ رہا تھا ’’مبارک ہو جس نے آج کی رات گریہ زاری کی‘‘۔ پھراگلے دروازے پر فرشتہ کہہ رہا تھا ’’مبارک ہو جس نے آج کی رات اللہ کی بارگاہ میں سوال کیا اور اس کو عطا ہوگیا‘‘۔ پھراگلے دروازے پر فرشتہ کہہ رہا تھا ’’مبارک ہو جس نے آج کی رات توبہ و استغفار کی اور اس کی توبہ قبول ہوگئی‘‘ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ طلوع فجر تک اللہ آسمان دنیا سے ندائیں فرماتا رہتا ہے اور ملائکہ 300 ابواب رحمت پر بیٹھ کر مبارکیں دیتے ہیں۔

فرشتوں کی عیدیں

اللہ نے ہمیں دو عیدیں دیں، عید الفطر اور عیدالاضحی! ہماری عیدیں دن میں رکھیں اور ملائکہ کی دو عیدیں رات میں رکھیں۔ ایک عید شب قدر اور دوسری شب ِشعبان ہے اور ان عیدوں کو عطا کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اللہ کے حضور مغفرت طلب کی جائے۔ چونکہ یہ شبِ توبہ، شبِ مغفرت، شبِ سوال اور شبِ عطا ہے۔

تبصرہ