شہر اعتکاف 2012 (آٹھواں دن)

خطاب شیخ الاسلام

22 ویں سالانہ شہر اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 17 اگست 2012ء (28 رمضان المبارک) کو نماز فجر کے بعد تربیتی نشست میں خطاب کیا۔ شہر اعتکاف 2012ء میں سلسلہ تصوف میں آپ کا یہ خطاب نیت کے موضوع "صدق نیت" پر تھا۔ جو منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے لندن سنٹر سے ہوا اور منہاج ٹی وی کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا، جبکہ انڈیا، بنگلہ دیش، جاپان کے علاوہ یورپ میں مختلف ٹی وی چینلز سے دنیا بھر اسے براہ راست نشر کیا گیا۔

شیخ الاسلام نےاپنے خطاب سے قبل عالمی روحانی اجتماع 2012ء کو انتظامی اعتبار سے انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے اسے "توبہ کانفرنس" قرار دیا، جبکہ کامیاب انعقاد پر بالخصوص ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سینئر نائب ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض سمیت ان کی تمام انتظامی ٹیم کو مبارکباد پیش کی۔

شیخ الاسلام نے بتایا کہ گوشہ درود کا اب تک پڑھے جانے والے درود پاک کی تعداد 41 ارب، 26 کروڑ 33 لاکھ 81 ہزار اور 436 ہوگئی ہے، جبکہ 2 لاکھ 43 ہزار 868 وزٹرز اب تک گوشہ درود میں آ کر بیٹھ چکے ہیں۔ آپ نے بتایا کہ روضہ اقدس کے بعد اب تک روئے زمین پر قائم کیا جانے والا تحریک منہاج القرآن کاگوشہ درود واحد جگہ ہے، جہاں بغیر کسی وقفہ کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک پڑھا جا رہا ہے۔ الحمدللہ۔

آپ نے کہا کہ لاکھوں ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر وقت درود پاک بھیجتے ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کا ہر لمحہ گزشتہ لمحے سے بہتر ہوگا۔ کائنات میں جب اللہ تعالیٰ نے روح مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک لمحے کے لیے جسد اطہر سے نکالا تو روح نے عرض کی کہ مولا تو نے وعدہ کیا ہے کہ ہر لمحہ، گزشتہ لمحے سے بہتر ہوگا تو اب میں تیرے پاس ہوں، اگر جسد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی بہتر اور ارفع جگہ ہے تو مجھے وہاں رکھ، لیکن اگر نہیں تو پھر مجھے جسم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں واپس لوٹا دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے روح مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پھر واپس لوٹا دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی حیات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف حیات ظاہری سے پردہ فرمایا ہے۔ بس جس کی نظر ابوبکر و صدیق (رضی اللہ عنہما) جیسی ہو تو آج بھی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہیں، جن کی نظر ابوجہل جیسی ہے تو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر نہیں آتے۔ اپنوں کو نظر آتے ہیں اور غیروں سے اوجھل ہیں۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کی بات ہو تو نابینا لوگوں کی باتوں میں نہ آیا کریں، کیونکہ اس نے تو وہ سورج دیکھا ہی نہیں۔ بہرے کو آواز ہی نہیں سنائی دے گی تو وہ کیا سنے گا۔ جس کی حس ذائقہ نہیں، تو وہ کیا لذت اور حلاوت محسوس کرے گا۔ بس یہ لوگ بھی انوار و تجلیات سے محروم ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کا یہ عالم تھا کہ جب زنان مصر نے ان کا حسن دیکھا تو کہنے لگیں کہ خدا کی قسم، یہ تو بشر ہی نہیں، نور کا پیکر ہے۔ انہوں نے حقیقت کا ہی انکار کردیا۔ اللہ نے ان کے اس بیان کو قرآن میں نقل کر دیا، لیکن ساتھ اللہ نے ان کے دوسرے تصور اور وجد کو رد نہیں کیا کہ وہ بشر ہی نہیں۔ یہ حسن یوسف کا حال تو امام الانبیاء کے حسن کا کیا عالم ہوگا۔

صدق اور نیت سے باطن کی آنکھ کھلتی ہے، نیت عمل کا باطن ہے۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی ہجرت کی نیت کرتے ہوئے گھر سے نکل پڑا۔ اب اگر کوئی گھر سے پڑھنے نکلا ہے تو وہ اپنی نیت میں شامل کرلے کہ میں پڑھنے اس لیے جارہا ہوں کہ اس سے دین کی خدمت کرسکوں تو وہ چاہے دنیا میں جہاں بھی جائے، جتنا عرصہ گزارے تو اس کا یہ سارے کا سارا عمل عبادت بن گیا۔ بشرط کہ اس دوران وہ حرام سے بچا رہے۔

اس طرح جاب پر جارہے ہیں تو نیت کر لیں کہ حلال رزق کمانے کی توفیق ہو تو آپ جو بھی بزنس کریں تو اس میں یہ برکت آگئی اور سارا عمل عبادت بن گیا۔ اس طرح آپ دنیا کا کوئی حلال عمل کریں، بس اس عمل کی نیت نیک کر لیں، اس نیت کا رخ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مدینہ کی طرف کرلیں تو وہ عمل بابرکت ہوجائے گا۔

اب اگر کسی نے ہجرت الی اللہ کی نیت کی لیکن وہ منزل تک نہیں پہنچ سکا اور راستے میں اس کو موت آ گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس کو اس عمل کا پورا درجہ دوں گا، جس کی اس بندے نے نیت کی تھی۔ اس طرح نیت بہت بڑی طاقت ہے، نیت سے عمل خالص ہوجاتا ہے۔ عمل کا ظاہر حسین کرنے سے بہتر ہے کہ نیت اچھی کرکے اس عمل کا باطن حسین کرلو، جس سے تمہیں زیادہ اجر ملے گا۔ اگر نیت کا رخ خالص اللہ کی طرف ہے تو وہ تقوی بن جاتا ہے۔ لیکن اگر نیت خالص نہ ہو تو اس وقت قول اور عمل بھی قبول نہیں ہوتا۔ اس لیے اولیاء نے فرمایا کہ بندے پر لازم ہے کہ بندہ ہر قول اور عمل کی ایک نیت کر لے۔

خطاب کے بعد آپ نے کامرہ ائیربیس پر شہید ہونے والے جوانوں کے لیے فاتحہ خوانی کی۔

تبصرہ