تحریک منہاج القرآن کے 22 ویں سالانہ شہراعتکاف میں 17 اگست 2012ء بمطابق 28 رمضان المبارک کو جمعتہ الوداع کے موقع پر صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے خصوصی خطاب کیا۔ آپ کا یہ خطاب کیو ٹی وی اور منہاج ٹی وی کے ذریعے براہ راست نشر کیاگیا۔
جمعتہ الوداع میں ہزاروں معتکفین کے علاوہ ملک بھر سے ہزاروں فررندان اسلام نے بھی شرکت کی، جس کے لیے جامع المنہاج کے دورازے کھول دئیے گئے۔ جمعتہ الوداع کے لیے 12 بجے جامع المنہاج میں کوئی جگہ خالی نہ تھی۔ انتظامیہ نے جامع المنہاج کے اردگرد سٹرکوں پر بھی نمازیوں کے لیے انتظام کیا تھا۔ جن کے لیے پروجیکٹر اور ڈیجٹیل سکرین کا بھی انتظام کیا گیا۔
صاحبزادہ حسن محی الدین قادری کے خطاب کے بعد مسکین فیض الرحمن درانی نے خطبہ مسنونہ پڑھایا۔ آخر میں محمد افضل نوشاہی اور منہاج نعت کونسل نے مشترکہ طور پر درودوسلام پیش کیا، جبکہ صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے رقت آمیز اختتامی دعا کرائی، جس میں ملک وقوم کی سلامتی و ترقی کے لیے خصوصی دعائیں بھی شامل تھیں۔ اس کے علاوہ کامرہ میں شہید ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت بھی کی گئی۔
خطاب صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری
صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے سلوک و تصوف کے سلسلہ میں موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ کو بطور موضوع منتخب کیا۔ آپ نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام اور یوشع بن نون کا سفر طریقت سلوک و تصوف کا ایک باب ہے، جس میں سالک کے لیے پوری تعلیمات موجود ہیں۔ جس مقام پر کوئی مردہ شے زندہ ہو جائے تو سمجھ لو کہ وہاں خضری صحبت زندہ ہو گئی ہے۔ کیونکہ جب کوئی شے مردہ ہو جائے تو اسے زندہ کرنے کے لیے زندوں کی صحبت میں جانا پڑتا ہے۔ یہاں اشارہ قلب انسانی کی طرف ہے۔ اللہ رب العزت ان معلمین، ان سالکین، ان سفر حق کرنے والوں کو متوجہ فرما رہا ہے کہ اگر کسی کا دل مردہ ہو جائے، دنیا داری میں مبتلا ہو کر، دنیا کی دلدل میں دھنس گیا ہو، طلب دنیا میں مائل ہو کہ اس دل کو نہ اللہ یاد، نہ اخلاص یاد ہو، نہ تقویٰ شعار ہو تو ایسا دل مردہ دل ہوجاتا ہے۔ ایسے دل کو قلب میت کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں سلوک و تصوف کی تربیت مل رہی ہو، جہاں علم و عرفان اور معرفت سکھائی جارہی ہو تو سمجھ لو کہ وہاں یہ مردہ دل زندہ ہورہے ہیں۔ جب سلوک الی اللہ کی طرف تیاری کر لیں تو اس سے پہلے کسی اللہ والے کی سنگت اختیار کرنا پڑتی ہے۔ کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کرنا پڑتی ہے، جیسے قرآن مجید میں یوشع بن نون کو موسیٰ علیہ السلام کی صحبت دی گئی، روایت میں آتا ہے کہ وہ چالیس دن کا سفر تھا، وہاں تیس دن تک خدا کی کوئی وحی بھی نہیں آئی، نہ وہاں پانی تھا، نہ اللہ کی نعمتیں تھیں، بلکہ ایک کٹھن سفر تھا۔ موسیٰ علیہ السلام اپنی اور یوشع بن نون اپنی منزل کی طرف جا رہے تھے۔ موسیٰ کی منزل خضر علیہ السلام کو پانا تھا جبکہ یوشع بن نون کی منزل اپنے شیخ کو تلاش کرنا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کو تلاش حق تھی۔ دونوں کا سفر اور سمت ایک تھی۔
انہوں نے کہا کہ اب تیس دن تک وہ سفر جاری رہا۔ بعض مورخین نے اس سفرکو چالیس دن بھی روایت کیا ہے۔ یوشع بن نون اپنے شیخ کے لیے وہ بھنی ہوئی مچھلی ساتھ لے جا رہے ہیں۔ لیکن تیس دن تک دونوں بغیر کھائے پیے سفر کرتے رہے۔ پھر قرآن میں ہے کہ جب دو سمندروں کے ملنے کا مقام آیا۔ جب منزل گزری تو اس سے پہلے تک نہ تھکاوٹ کے اثار تھے، نہ سفر کے اثار تھے، دونوں تروتازہ چل رہے تھے۔ اچانک کیا ہوا کہ جب یوشع بن نون آرام کر رہے تھے تو وہ مچھلی اچانک زندہ ہو کر سمندر میں کود گئی۔
اب موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اے یوشع وہ جو مچھلی ساتھ لائے تھے، وہ مچھلی لاؤ، ہم کھاتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تیس دن تک نہ کوئی تھکاوٹ، نہ بھوک، نہ پیاس لگی، لیکن اچانک کیا ہوا کہ جب یہ بھوک لگ گئی۔ پہلے حق سامنے تھا، جستجو سامنے تھی۔ جب مجمع البحرین کا راستہ بھول گئے تو پھر بھوک بھی لگ گئی، تھکاوٹ بھی ہوگئی۔ پتہ چلا کہ جب شیخ سامنے ہوتا ہے تو سالک کو شیخ کے علاوہ کوئی شے نظر نہیں آتی۔ نہ اپنی فکر ہوتی ہے، نہ کسی کی فکر ہوتی ہے۔ یہی سلوک و تصوف کی راہ ہے۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کہا کہ اس سے پتہ چلا کہ جس جگہ پر صالحین بستے ہوں، صحبت خضری ہو تو وہ فیض نہ تھکنے دیتا ہے اور نہ بھوک پیاس لگنے دیتا ہے۔ شہراعتکاف میں بھی ہم اللہ کی بارگاہ میں سالک بن کر آئے ہیں۔ یہاں بھی ہم کو خضری صحبت اور تربیت مل رہی ہے۔ اس طرح جب کسی عاشق کا سفر شروع ہوتا ہے تو ایک رغبت پیدا ہوتی ہے۔ پھر وہ مائل ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس کو شغف کہتے ہیں۔ پھر جب اسکا یہ شغف بڑھتا ہے تو پھر وہ بے تاب سا رہتا ہے۔ جب یہ کیفیت پیدا ہو جائے تو محبت کا نور پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر محب اپنے محبوب میں فناء ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر آگے محبوب کے لیے انہماک کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ پھر محبوب کے لیے استغراق کا سفر شروع ہوتا ہے۔ جس سفر میں زنان مصر کے ہاتھوں پر چھریاں چل گئیں، انگلیاں کٹ گئیں، لیکن کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا، یہ مقام استغلاق ہوتا ہے۔
آپ نے کہا کہ امام ابوعبدالرحمن السلمی بیان کرتے ہیں کہ علم الدنی خاص ہوتا ہے، جو خاص بندوں کو عطاء کیا جا تا ہے۔ اللہ رب العزت نے اس کائنات میں جب اپنے علم کا دسترخوان بچھا دیا، تو اس کے الگ الگ رستے رکھ دیئے۔ کسی کو معرفت کا رستہ دے دیا، کسی کو سلوک کارستہ دے دیا، کسی کو فقہ کا رستہ دے دیا، کسی کو تصوف کا رستہ د ے دیا۔ اب جو ان راستوں پر چل کر منزل کی طرف آتے ہیںتو ان کے بھولنے کے امکان موجود رہتے ہیں۔ کیونکہ شیطان نے بھی اعلان کیا کہ میں انہیں راستوں پر کھڑا ہوں گا۔ میں انہیں راستوں پر بیٹھ جاوں گا۔ جو اللہ کی طرف سفر کرنے کا دعویٰ کرتے ہوں گے، میں ان کو بہکاوے میں لاوں گا۔ اگر ان کا دعوے کچے ہوئے تو میرے ساتھ آ جائیں گے اور اگر ان کے دعوے پکے ہوئے تو وہ ان راستوں سے گزر جائیں گے۔ لیکن جن کو اللہ خود علم عطاء کرتا ہے۔ تو وہ بھٹکتے نہیں۔
آپ نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو عاشق صحابہ غزوہ کے دوران روم میں قیدی بن گئے۔ جب ان میں سے ایک بھائی کوبادشاہ وقت کے سامنے لایاگیا تو بادشاہ نے کہا کہ کیا تم اپنے دین کو چھوڑ کر میرے دین کے پابند ہوتے ہو، مجھے مانتے ہو۔ تو اس نے انکار کر دیا کہ جن کا ایک دفعہ میری زبان نے کلمہ پڑھ لیا تو اب ان کے علاوہ کسی اور کا کلمہ نہیں پڑھ سکتا۔ تو اس بادشاہ نے حکم دیا اور ایک بھائی کو تیل کے جلتے کڑاہے میں ڈال کر جلا دیا۔
جب دوسرے بھائی کی باری آئی توبادشاہ کا ایک وزیرسامنے آگیا تو اس نے کہا کہ بادشاہ مجھے تھوڑی سی مہلت چاہیے، بادشاہ نے مہلت دے دی۔ وزیرگھر چلا گیا اور اس کی بیٹی بڑی حسین و جمیل تھی۔ وہ وزیربیٹی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میں ایک نوجوان کو لے کر آیا ہوں، اس کو راہ راست پر لانا ہے۔ وہ بیٹی کہنے لگی کہ بابا جان یہ تو کوئی بات ہی نہیں۔ میں نے بادشاہ سے ایک ماہ کی مہلت لے لی ہے۔ یہ کام تمام کرنا ہے۔ وہ نوجوان نے ایک شرط رکھ دی کہ بادشاہ کا محل کھول دیا جائے اور اس میں وہ لڑکی ہو یا میں ہوں۔
پھر ایک دن گزرا تو وہ نوجوان محل میں تھا۔ دنیا کی تمام رعنائیاں اور زیب و زینت موجود ہیں۔ لیکن وہ نوجوان ایک کمرے میں اپنی عبادت میں مصروف ہے۔ وہ لڑکی روزانہ زیب و زینت کے ساتھ آتی اور اس نوجوان کے سامنے سے گزر جاتی۔ روزانہ یہ عمل جاری رہا، لیکن اس نوجوان نے کبھی ایک نظر بھی اس لڑکی کو نہ دیکھا۔ اس ماجرے میں دس، پندرہ دن گزر گئے تو اس نوجوان کی کیفیت نہ بدلی۔ ایک ماہ ختم ہونے کو آ گیا تو وہ خوبصورت لڑکی اپنے زیب و زینت والے کپڑے بدل کر سادہ کپڑوں میں آ گئی اور پوچھا تو نے کون سا حسن دیکھا ہے کہ جس کے بعد تو نے میرے حسن کو بھی بھول گئے۔ وہ کون سا حسن ہے، جو تو نے دیکھا ہے۔ وہ لڑکا کہنے لگا کہ میں تجھے بتاتا ہوں کہ میں نے اس حسن سراپا کو دیکھا ہے کہ جس کے بعد دنیا کا کوئی دوسرا حسن دیکھنے کو دل نہیں کرتا۔ میری آنکھوں نے دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہے۔ ان جیسا حسن ساری کائنات میں نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ وہ کہنے لگی کہ نوجوان میری ایک بات مان لو، جس حسین کو تو نے دیکھا ہے، مجھے بھی وہ حسین دکھا دو، اس نوجوان نےاس شہزادی کو ساتھ لیا اور کہا آؤ میں تمہیں وہ سراپا حسن دکھاتا ہوں۔
اس شہزادی نے اپنے باپ کو پیغام دیا کہ میرا کام ہو گیا، اب مجھے آپ دو گھوڑے دے دو، ہم کسی جنگل میں جانا چاہتے ہیں۔ دونوں سفر کرنے لگے، سامنے سے ایک فوج آ گئی، وہ پریشان ہو گئی کہ کہیں یہ بادشاہ کی فوج تو نہیں آ گئی۔ جب دیکھا تو ایک نوجوان سفید لباس میں ملبوس تھا، وہ فوج کی قیادت کررہا تھا۔ وہ کہنے لگا میں تمہارا وہ بھائی ہوں، جوشہید ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے بھائی کو کہا کہ خدا کی قسم، اے بھائی، جب میں شہید ہوگیا تھا تو نے اس لڑکی کے ساتھ جو ماجرا کیا، تو اللہ نے مجھے نیچے بھیج دیا کہ اس لڑکی کےساتھ تیرا نکاح پڑھا دوں۔
اہل اللہ فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک بندہ مسجد میں بیٹھا ہے کہ اچانک دیکھتا ہے کہ سیدنا خضر علیہ السلام اس کے پاس آگئے۔ وہ بندہ ہکا بکا رہ گیا۔ جب وہ اٹھ کر چلا گیا۔ تو اس کو کسی نے کہا کہ تمہارے پاس خضر علیہ السلام نصف گھنٹہ تک بیٹھے رہے لیکن تو ان کو تکا ہی نہیں۔ تو اس نے کہا بابا، بات یہ ہے کہ جس نے چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن کو تکا ہو تو باقی حسن اس کے سامنے ماند پڑ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے کہا کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ خدا کو منانے کا عشرہ ہے، خدا کو اللہ مان لینے کا عشرہ ہے۔ اس لجپال سے مانگنے کا عشرہ ہے۔ وہ روزانہ آسمان دنیا پر آ کر سائل کا منتظر رہتا ہے۔ رمضان المبارک میں توبہ کی راتیں تھیں، ہم یہاں شہر اعتکاف میں توبہ کرنے آئے۔ اپنی ندامت کی زندگی کو خیرآباد کہنے آئے۔
تبصرہ