بسم اللہ الرحمن الرحیم
11 مئی کو ملک گیر دھرنا اس کرپٹ نظام انتخاب کے خلاف کیوں ہو گا؟ اس کے اسباب
یہ تحریک کبھی بھی اپنی تاریخ میں اصولی طور پہ انتخابات کی اور ووٹ دینے کی مخالف نہیں رہی ہے نہ ہو گی۔ اس ملک کی کئی سیاسی اور مذہبی جماعتیں ایسی ہیں جنہیں جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پرورش ملی، جنرل ضیاء 80 کے دور میں OneMan OneVote کے سسٹم کو ختم کرنے کا ارادہ تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے راہ ہموار کرنے کے کے لیے کانفرنسز کا آغاز کیا اور 1984ء آواری ہوٹل میں الطاف حسن قریشی صاحب (چیف ایڈیٹر اردو ڈائجسٹ) نے سہ روزہ کانفرنس کروائی اور آخری سیشن میں میرا خطاب تھا، اس میں سینئرز بھی کچھ تھی اور صدارت ضیاء الحق خود کر رہے تھے۔ اے کے بروہی صاحب کا خطاب تھا، ایس ایم ظفر صاحب کا بھی تھا اور خالد ایم اسحق (کراچی کے نامور وکیل) تھے ان کا بھی خطاب تھا۔
میں نے اس وقت ضیاء الحق صاحب کی موجودگی میں اس Concept کو قرآن و حدیث کے دلائل کے ساتھ مسترد کیا کہ لوگوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنا نہ صرف جمہوریت کی نفی ہے بلکہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی نفی ہے۔ سو ہمارے خلاف یہ پروپیگنڈا بے بنیاد ہے کہ ہم انتخابات کے خلاف ہیں۔ ہم اس نظام انتخابات کے خلاف ہیں جس کی بنیاد کرپشن پر ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ نے بھی تو دو بار (90 اور 2002ء) الیکشن میں حصہ لیا، وہ ہمارا تجربہ تھا اور مشاہدہ اس مقام پر لایا کہ اس نظام کے تحت کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ میں نے ساڑھے چار سو کے قریب ٹکٹ دئیے تھے۔ 99% اچھے لوگ کھڑے کئے تھے، متوسط، پڑھے لکھے ایک بھی نہیں جیت سکا۔
{القرآن}
سورۃ المائدہ میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ.
(المائدة، 5 : 8)
اے ایمان والو! اﷲ کے لیے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ۔
کراچی کے اکابر علماء دیوبند میں سے ایک تھے مفتی محمد شفیع اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں : آج کے دور میں جو ووٹ دینا ہے اس کی تین اقسام ہیں۔
- ووٹ۔۔۔۔۔۔۔۔ شہادت
- ووٹ۔۔۔۔۔۔ شفاعت، سفارش
- ووٹ۔۔۔۔۔۔۔وکالت
- ووٹ۔۔۔۔۔۔امانت (میرے نزدیک)
کہتے ہیں کہ ووٹ اگر آپ دیں گے اور اہلیت نا اہلیت کا خیال نہیں رکھیں گے، اب ووٹ پوری پارلیمنٹ اور حکومت اور ملک کے نظام کو بنتا ہے۔ جب آپ ووٹ دیتے ہیں تو پورے نظام کو درحقیقت ووٹ دیتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں اہلیت نا اہلیت کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے بندہ نہیں کر سکتا، وہ قرآن کی سورۃ النساء کی اس آیت
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا.
(النساء، 4 : 58)
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔
کا کیا مطلب لو گے؟ اللہ نے تو اختیار بندے کو دیا کہ غور کرو جو اہل ہے، اسی کو سکروٹنی کہتے ہیں، آرٹیکل 63 کو ہاتھ ہی نہیں لگایا گیا جس سے اہلیت نا اہلیت کا پتہ چلنا تھا، وجہ مک مکا تھا، غیر آئینی الیکشن کمیشن نے ایسا کیا۔ اہلیت نا اہلیت کی ذمہ داری ہماری لگائی۔ اگر آپ نے کسی کو اچھا سمجھ کر ووٹ دے دیا اب اس نے جا کے ووٹ اپنی پارٹی کو دیا، سو جس کی حکومت بنی اس نے اگر کرپشن کی تو آپ برابر کے شریک ہوں گے۔ گواہی تب عبادت بنتی ہے جب سچائی کی ہے۔
مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں :
1 : گواہی :
(جھوٹی گواہی دے کر بندہ مستحق لعنت اور مستحق عذاب بھی بنتا ہے کیونکہ اس نے گواہی دی ہے کہ یہ آدمی مستحق ہے۔
2 : شفاعت (سفارش) :
قرآن میں ہے (مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَّکُنْ لَّهُ نَصِيْبٌ مِّنْهَاج وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَّکُنْ لَّهُ کِفْلٌ مِّنْهَا) جو شخص کوئی نیک سفارش کرے تو اس کے لیے اس (کے ثواب) سے حصہ (مقرر) ہے، اور جو کوئی بری سفارش کرے تو اس کے لیے اس (کے گناہ) سے حصہ (مقرر) ہے۔
مفتی محمد شفیع صاحب مزید لکھتے ہیں : اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر وہ امیدوار اپنی کارکردگی کے پانچ سالہ دور میں جو بھی غلط اور ناجائز کام کرے گا تو ان سب کا وبال ووٹ دینے والے کو بھی پہنچے گا۔
3 : وکالت :
اگر نااہل کو اپنی نمائندگی کے لیے ووٹ دیا (نااہل سے مراد ایک فرد نہیں بلکہ وہ سارا نظام، پارلیمنٹ جو قوم کے مسائل حل کرنے میں اہل نہیں) ان کو نمائندہ بنایا تو پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کا گناہ بھی اس ووٹ ڈالنے والے کی گردن پر ہو گا۔ یہ جھوٹی شہادت اور یہ بری شفاعت (سفارش) اور ناجائز وکالت اس کے تباہ کن ثمرات بھی ووٹ ڈالنے والوں کے نامہء اعمال میں لکھے جائیں گے۔ (صفحہ 72 پر لکھتے ہیں) سو ایسی غفلت اور بے پرواہی سے بلاوجہ ان عظیم گناہوں کا ووٹ ڈالنے والا مرتکب ہوتا۔
(مفتی محمد شفیع، معارف القرآن، صفحہ 71-72)
تو کیا اس نظام میں ووٹ دینا اللہ کے لیے قیام کرنا ہے؟ اتنا جھوٹا اطلاق کرنا اس نظام پر اللہ کے کلام اور قرآن کی آیت کا؟ قرآن کہتا ہے : كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ. اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور عدل و انصاف کے لیے گواہی دو۔ تو کیا یہ نظام ملک میں عدل و انصاف قائم کرنے کی ضمانت رکھتا ہے؟ جب اس نظام کے تحت امیداروں کی سکروٹنی عدل و انصاف پر نہیں ہوئی تو آگے کیا عدل ہو گا۔ کسی ٹیکس چور، قرض خور، جعلی ڈگری والے کو نہیں پکڑا گیا کیا اس نظام کو ووٹ دیں؟ قرآن کہتا ہے جو عدل و انصاف کرے۔
ایک اور مقام پر قرآن میں آیا (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ ِﷲِ) اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لیے گواہی دینے والے ہو جاؤ۔ اللہ کے لیے گواہی دو، کیا ان لوگوں کو ووٹ دینا اللہ کے لیے گواہی دینا ہے؟ وہ لکھتے ہیں کہ شرط یہ ہے کہ وہ امیدوار نیک سیرت، صالح اور متدین ہو۔ اگر انہی کے پیمانے کو یہ جو مفتی محمد شفیع صاحب اور دیگر علماء یہ لکھتے ہیں کہ اگر متدین ہو، دیندار ہو، متقی ہو، نیک اور صالح سیرت آدمی ہو اس کی گواہی دینا نیک گواہی ہے ورنہ لعنت اور عذاب کا مستحق ٹھہرنا ہے۔ ان حالات میں آپ کا ووٹ ایک فرد کو نہیں بلکہ نظام کو جا رہا ہے۔
آگے قرآن کہتا ہے :
(إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُواْ بِالْعَدْلِ)
(النساء، 4 : 58)
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔
قرآن کی یہ آیت واضح کرتی ہے کہ یہ امانتیں ایک نظام کو قائم کرنے کے لیے دی جاتی ہیں صرف ایک فرد کو منتخب کرنے کے لیے نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں اپنی گواہی دینا چاہئے، ووٹ نہ دینا یہ بھی نظام کے خلاف گواہی ہے۔ ہم اسے پورے نظام کو کرپٹ سمجھتے ہیں اس کے خلاف ووٹ (گواہی) دھرنے کی صورت میں دے رہے ہیں۔ گواہی کو محدود کیوں کیا جاتا ہے؟ گواہی کے لیے کہاں شرط ہے کہ کسی نہ کسی کے حق میں ہی دی جائے، گواہی کسی کے خلاف بھی ہو سکتی ہے، گواہی کا میدان کھلا ہے۔ 11 مئی کا دن ایک بہت بڑا چیلنج ڈے ہے ہمارے لیے۔
{الحدیث}
اب چند احادیث مبارکہ کی رشنی میں اس Concept کو دیکھتے ہیں۔ آپ سن کر دھنگ رہ جائیں گے کہ کس طرح آقا علیہ السلام نے موجودہ دور کی عکاسی کی جیسے کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کے حالات کو بغور مشاہدہ فرما رہے ہوں۔
حدیث نمبر ا :
پہلی حدیث سنن ابی داؤد کی، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں، قَالَ : بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذْ ذَکَرَ الْفِتْنَةَ فَقَالَ : إِذَا رَأَيْتُمْ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ، جب لوگ دیکھیں گے کہ ان کے ساتھ جو لوگ وعدے کر کے گئے، وہ وعدے انہوں نے اٹھا کے پھینک دئیے اور وعدے پورے نہیں کئے۔ وعدہ خلافی ہو گی۔ پہلی بات فرمائی آقا علیہ السلام نے۔ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ اور کرپشن عام ہو جائے گی، لوگوں کی امانتوں کو کھانا بڑا آسان کام بن جائے گا وَکَانُوا هَکَذَا وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ پھر آقا علیہ السلام نے فرمایا : وہ سارے کرپٹ لوگ امانتیں کھانے والے اور وعدے توڑنے والے، وہ سارے لوگ آپس میں اس طرح ہوں گے (آقا علیہ السلام نے دونوں ہاتھوں کے انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈال کر دکھایا، کہ اس طرح آپس میں جڑ جائیں گے) پھر آقا علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ ان حالات میں کیا کیا جائے؟ طویل نصیحتیں آقا علیہ السلام نے کیں۔۔۔آخری نقطہ جو بیان فرمایا وہ بیان کر رہا ہوں، آقا علیہ السلام نے فرمایا : خُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْکِرُ جب ایسا وقت آ جائے مت پرواہ کرو کہ لوگ کیا کہتے ہیں، جو نیکی کا کام ہے اس کو پکڑ لو، جس میں برائی نظر آئے اس کو پھینک دو، خود فیصلہ کرو۔ وَعَلَيْکَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِکَ اور آپ پر اپنی جان کی ذمہ داری ہے کہ چونکہ آپ کا عمل بدی کا حصہ نہ بن جائے، آپ بدی میں شریک نہ ہو جائیں، آپ کرپشن میں شریک نہ ہو جائیں وَدَعْ عَنْکَ أَمْرَ الْعَامَّةِ، (ابوداؤد، السنن، حديث نمبر، 4343) اور عامۃ الناس کی پرواہ نہ کریں کہ لوگ کس طرف جا رہے ہیں۔
حدیث نمبر 2 :
إذَا صَلَحَ سُلْطَانُکُمْ صَلَحَ زَمَانُکُمْ، اگر تمہاری حکومت نیک ہو گی تو پورا زمانہ اور سوسائٹی بھی نیک ہو جائے گی۔ وَإذا فَسَدَ سُلْطَانُکُمْ فَسَدَ زَمَانُکُمْ، (البيهقي، السنن، 8 : 162، الرقم : 16429) اگر تمہاری حکومت (حکمران) وہ کرپٹ ہوں گے، فاسد ہوں گے تو پوری سوسائٹی کرپٹ ہو جائے گی۔حدیث نمبر 3 :
حضرت جابر بن عبداللہ راوی ہیں اس حدیث کے : إذَا نَقَضُ العَهَدَ سَلَّطَ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ عَدُوُّهُمْ. (بيهقی، السنن، 3 : 346، الرقم : 6191) جب لوگ قوم سے کئے ہوئے عہد، اللہ سے کئے ہوئے عہد توڑنے لگ جائیں، اللہ ان کے دشمن کو ان پر مسلط کر دیتا ہے۔ یہ جو ڈرون حملے، بم بلاسٹ، دہشتگردی ہو رہی ہے، سیاسی دباؤ ہے، آپ کے دشمن آپ پر مسلط ہیں یہ اس لیے کہ ہم نے قوم کے ساتھ عہد شکنی کی۔ ثُمَّ يَدْعُوْا خِيَارُهُمْ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ، (ابن شيبه، المصنف، 460 : 7، الرقم : 37221) اور جب قوم کی غفلت سے (کیونکہ قوم کبھی نہیں اٹھی ان کے خلاف) فرمایا : اگر یہ کام چھوڑ دو گے تو ایسا ظلم ہو گا کہ پھر جو نیک، اولیاء، صالحین وہ بھی جب اس قوم کی حق میں دعا کریں گے تو وہ دعا اس قوم کے حق میں قبول نہیں ہو گی۔ اللہ کہے گا کہ میرے محبوب بندو میں تمہاری دعا کو رد نہیں کرتا مگر یہ قوم اس قابل نہیں کہ تمہاری دعا اس قوم کے حق میں قبول کی جائے کیونکہ یہ قوم ظلم کے خلاف نہیں اٹھی۔
حدیث نمبر 4 :
حضرت ہشیم روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام نے فرمایا : مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِيْ، اگر کسی قوم میں بدی، کرپشن اور برائی کا راج آ جائے۔ ثُمَّ يَقْدِرُوْنَ عَلَی أَنْ يَغَيِّرُوْا اور اس قوم کے پاس یہ طاقت بھی ہو، وسائل ہوں، شعور ہو کہ وہ اس بدی کے خلاف اٹھیں، اس بدی کو بدلیں، کرپشن کے نظام کو بدلیں ثُمَّ لَا يُغَیِّرُوْا پھر بھی نہ اٹھیں، إلَّا يُوْشِکُ أنْ يَّعُمَهُمُ اللّٰهُ مِنْهُ بِعِقَابْ. (ابوداؤد، السنن، 4 : 122، الرقم : 4338) قریب ہے پھر اللہ تعالیٰ اس ساری قوم کو عذاب میں مبتلاء کر دے گا۔
حدیث نمبر 5 :
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا :
إنَ النَّاسَ إذَا رَأوُا المُنْکَرْ، فَلَمْ يُنْکِرُوْهُ أوْشَکَ أنْ يَّعُمَهُمُ اللّٰهُ بِعِقَابِه.
(احمد بن حنبل، المسند، 1 : 9، الرقم : 53)
آقا علیہ السلام نے فرمایا اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اعلان فرما رہے ہیں کہ لوگ جب آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ایک نظام بدی پر قائم ہے، کرپشن پر قائم ہے، ظلم و ناانصافی پر قائم ہے اور پھر بھی وہ اس کے خلاف نہ بولیں، اس کے خلاف نہ اٹھیں، احتجاج نہ کریں، اس کو رد نہ کریں تو اللہ تعالیٰ اس ساری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا، عذاب کی گرفت میں لے لے گا۔
حدیث نمبر 6 :
آقا علیہ السلام نے خوشخبری دی، فرمایا : طُوْبیٰ لِلْغُرَبَاء، مبارک ہو ان اجنبیوں کو، یعنی ان لوگوں کو جن کا کام اتنا نرالا ہو کہ دوسرے لوگ کہیں کہ عجیب لوگ ہیں، عجیب کام کر رہے ہیں۔ فرمایا : مبارک ہو ان لوگوں کو، پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ لوگ کون ہوں گے؟ فرمایا :
الَّذِيْنَ يُصْلِحُوْنَ عِنْدَ فَسَادِ النَّاس.
(طبرانی، المعجم الکبير، 164 : 6، الرقم : 5867)
یہ وہ لوگ ہوں گے کہ جب لوگ فساد کی طرف جا رہے ہوں گے تو یہ اصلاح کی طرف جا رہے ہوں گے۔
حدیث نمبر 7 :
اور یہ بھی آقا علیہ السلام نے خوشخبری دی آقا علیہ السلام فرماتے ہیں : لَا تَزَالُ طَائِفَةُ مِّنْ أمَّتِيْ ظَاهِرِيْنَ عَلَی الحَقْ، کہ قیامت تک میری امت کا ایک طبقہ ایسا ہو گا جو ہمیشہ حق کے آواز بلند کرتا رہے گا، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، (مسلم، الصحيح، 1523 : 3، الرقم : 1920) لوگ انہیں تنقید کریں گے، برا بھلا کہیں گے مگر وہ لوگوں کی تنقید اور لوگوں کے طعن و تشنیع اور برا بھلا کہنے کی پرواہ نہیں کریں گے۔ لوگ کہیں گے یہ عجیب اور نرالا کام کر رہے ہیں، کسی نے آج تک نہیں کیا یہ کیوں کر رہے ہیں، وہ لوگوں کے طعنوں کو رد کر دیں گے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : یہ حق پر قائم رہنے والا طبقہ قیامت تک ہو گا، آپ ظَاهِرِيْنَ عَلَی الحَقْ میں شامل ہوں۔ اس نظامِ شر کو رد کر کے ظَاهِرِيْنَ عَلَی الحَقْ میں شامل ہوں۔
حدیث نمبر 8 :
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، آقا علیہ السلام نے تنہا ایک شخص جو اکیلا کھڑا حق کی آواز بلند کر رہا ہے اور باقی سارے لوگ (مذہبی، سیاسی) مخالفت میں کھڑے ہیں آقا علیہ السلام نے اس کا اشارہ دیا : لَنْ تَزَالُوْا بِخَيْرٍ مَا لَمْ تَعْرِفُوْا مَا کُنْتُمْ تُنْکِرُوْن، امت اور تم لوگ اس وقت تک بھلائی پہ رہو گے جب تم اس شے کو جانتے رہو گے کہ یہ برائی ہے اور اس برائی سے بچتے رہو گے اور وہ بدی وہ شر، وہ بدعنوانی، وہ کرپشن جس کو آقا علیہ السلام نے فرمایا : پہچانتے رہو گے اور اس سے بچو گے۔ اس کا ذکر سنئے فرمایا :
وَماَ دَامَ العَالِمُ يَتَکَلَّمُ فِيْکُمْ بِعِلْمِهِ فَلَا يَخَافُ أحَدًا.
(عثمان بن سعید المقرئی الدانی، السنن الواردۃ في الفتن، 3 : 744، الرقم : 365)
اور اس وقت تک قوم خیر پر رہے گی اور اس کے لیے خیر کا دروازہ بند نہیں ہو گا جب تک میری امت کا ایک عالم دین وہ اپنے اللہ کے دئیے ہوئے علم کے ذریعے قوم کو حق بتاتا رہے گا، خواہ وہ ایک ہی کیوں نہ ہو۔
اور وہ کسی سے نہیں ڈرے گا۔ بے خوف ہو کر، اگر میری امت میں اپنے زمانے میں ایک ہی صاحب علم ہو، میرے دین کا عالم اگر وہ حق بتاتا رہے اور ساری دنیا مخالفت میں کھڑی ہو اور وہ ان سے نہ ڈرے تب بھی اللہ خیر کا دروازہ بند نہیں کرے گا۔ 13 سے 17 جنوری تک یہ نظارہ اسلام آباد میں آپ کی تحریک کی صورت میں رب نے دکھایا۔ پوری قوم ایک طرف اور ایک طبقہ ایک طرف ہو۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے اوپر اللہ کی رحمت کا دروازہ بند نہ ہو۔
تین صوبوں میں الیکشن نہیں ہو رہا۔۔۔کراچی، کوئٹہ، پشاور دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے، یہ کیسا الیکشن ہونے جا رہا ہے، الیکشن صرف پنجاب میں ہو رہے ہیں باقی صوبے بند ہیں۔ کیا اس کو الیکشن کہتے ہیں؟ پوری دنیا اسے الیکشن نہیں مانے گی۔ الیکشن کروانے والے اندھے، گونگھے، بہرے ہیں۔ ہر روز تین صوبوں میں جانیں جا رہی ہیں ان کو توفیق نہیں کہ وہ بیان دیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ جہاں اعلانیہ کئی جماعتوں کو نام لے کر روک دیا جائے کہ ان پر بم گریں گے اور بعض جماعتوں کو آزادی دے دی جائے، کیا اس کو شفاف الیکشن کہتے ہیں؟ میں ذمہ داران کو کہتا ہوں دیکھیں ان حالات کو۔ خاص ایجنڈے کو منظر عام پہ لایا جا رہا ہے۔ ہم اپنی ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں۔ ہماری جدوجہد طویل ہے۔
ایک کروڑ انقلابی کارکن تیار کرنے ہیں جو غیر مسلح، پر امن کارکن، افرادی قوت کے بل بوتے، جمہوری طریق سے، پر امن طریقے سے اس بدعنوانی اور کرپشن پہ مبنی نظام کو نیست و نابود کر دیں۔ پر امن انقلاب لائیں، سبز انقلاب لائیں، سوفٹ انقلاب لائیں، بغیر خون خرابے کے اور کرپشن پہ مبنی نظام کا خاتمہ کر دیں۔ یہ منظر ایک کروڑ انقلابی کارکنوں کے بغیر حاصل ہونا مشکل ہے، ممکن نہیں۔ لہٰذا اس جدوجہد کا آغاز 11 مئی کے دھرنوں سے آپ کر رہے ہیں تا کہ پتہ چلے کہ کون اس عظیم انقلاب کے لیے آپ کے ساتھ کھڑا ہے اور جو لوگ 11 مئی کو اس بدعنوانی اور کرپشن کے نظام پر اعتماد کر کے ووٹ ڈال بیٹھیں گے ان شاء اللہ ایک دو مہینے کے بعد وہ بھی آپ کی طرف آنے لگ جائیں گے۔
تبصرہ