شہر اعتکاف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایم ایس پاکستانی
فہم دین، تزکیہ نفس، اصلاح احوال، آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں کی بستی تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف کا آغاز گزشتہ شب ہو چکا تھا تاہم دوسرے دن کا آّغاز قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی کے مزار مبارک کے سائے تلے پہرکیف ساعتوں سے ہوا۔ نماز فجر کے بعد کا وقت تھا ابھی صبح کی تازہ روشنی پوری طرح جلوہ فگن نہیں ہوئی تھی کہ قدوۃ الاولیاء کے مزار پر سیاہ رنگ کی چادر اوڑھے ایک نوجوان گڑ گڑا کر کچھ مناجات اور التجائیہ انداز میں کچھ پڑھ رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ قرآن پاک کی سورہ آل عمران سے ایک آیہ کریمہ مسلسل رو رو کر گڑ گڑاتے ہوئے تلاوت کر رہا ہے۔ اس کا انداز کچھ اس طرح کا تھا کہ قریب بیٹھے زائرین اس کی طرف مکمل متوجہ ہو چکے تھے۔ اس نوجوان نے اپنی کالی چادر سے خود کو مکمل ڈھانپا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد یہاں اس نوجوان کی گریہ و زاری ایک صدا کا انداز اختیار کر چکی تھی۔ قریب تھا کہ دربار غوثیہ کے خدام اس نوجوان کو ایسا انداز اپنانے سے منع کرتے کہ جس سے دوسرے زائرین کی حاضری میں خلل پڑتا۔ وہاں موجود ایک بزرگ نے اس نوجوان کو دربار کے اندر ایک جگہ پر الگ کر کے اس سے گفتگو کی تو اس نوجوان نے بزرگ کو بتایا کہ میں ملک کے انتہائی دور دراز علاقے سے اعتکاف کے لیے آیا ہوں۔ لیکن سہر کی طوالت کے باعث میں آج صبح ہی یہاں پہنچا ہوں۔ میں مسنون اعتکاف بیٹھنے کی نیت سے آیا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور ٹریفک کے مسئلہ کی وجہ سے لیٹ ہو جانے پر اب میں نادم ہوں۔ میں نے اعتکاف کی رجسٹریشن بھی کروا لی ہے لیکن میرا دل مطمئن نہیں کیونکہ میں مسنون اعتکاف نہیں کر سکا۔ قریب تھا کہ اس نوجوان کے اس سوال کے جواب میں بزرگ کچھ کہتے وہ نوجوان ایک بار پھر قدوۃ الاولیاء کی قبر سے لپٹ کر رونے لگا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ یہاں مزار پر حاضری کے بعد جلدی سے دربار سے باہر نکلا۔ میں اس نوجوان سے ملاقات کے لیے اس کے پیچھے گیا لیکن اس نے چند قدم کے فاصلے پر مجھ سے پہلے اپنے جوتے پہننے کی بجائے ہاتھ میں لیے اور اتنی تیزی سے دربار غوثیہ کے مرکزی گیٹ سے باہر نکلا کہ اس کے بعد وہ باھر موجود نہ تھا۔ میں اس کے اچانک غائب ہونے پر دنگ رہ گیا حالانکہ اس وقت گیٹ سے باہر کوئی دوسرا فرد بھی نہ تھا۔
اس واقعہ سے شہر اعتکاف کے آج کے دن کا آغاز ہوا۔ معلوم نہیں وہ نوجوان کون تھا اور کدھر گیا؟ لیکن یہ واقعہ حیرت انگیز ضرور ہے۔ دوسری طرف شہر اعتکاف میں مسنون معتکفین جامع المنہاج کی حدود سے ہی ہاتھ پھیلا کر دربار غوثیہ کی طرف منہ کر کے پیر السید طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی کے مزار پر حاضری کی دور سے دعا کر رہے تھے۔ یہ منظر قابل دید تھا۔ سورج کی ہلکی ہلکی روشنی سے جامع المنہاج اور دربار غوثیہ کا منظر ایک خوبصورت سماں پیش کرنے لگا، یہ وقت نماز اشراک کا تھا کہ معتکفین کی ایک بڑی تعداد جامع المنہاج کے صحن اور ہال کے علاوہ اردگرد والی جگہ پر نماز پڑھ رہی تھی۔ اس دوران کچھ لوگ اپنے تازہ وضو بنانے میں مصروف تھے۔ ان کے علاوہ معتکفین کی اکثریت شب بیداری کی وجہ سے سونے کے لیے اپنی قیام گاہوں کو جا چکی تھی۔ یہ صبح سات بجے کا وقت تھا جب تمام معتکفین آرام کر رہے تھے کہ یہاں اعتکاف گاہ کے مختلف حصوں کی صفائی کا کام تیزی سے کیا جا رہا تھا۔ خصوصاً اس جگہ پر جہاں راہداریاں اور گزرنے کے لیے راستے تھے کو خاص طور صاف کیا جا رہا تھا۔
صبح 11 بجے تمام معتکفین تیار ہو کر اپنے اپنے تربیتی حلقہ جات میں جمع ہو چکے تھے۔ یہ اس اعتکاف کا پہلا تربیتی حلقہ تھا جس میں معلمین نے تربیتی کورس شروع کیا۔ اعتکاف کے لیے امسال نظامت دعوت و تربیت نے ایک خصوصی نصابی کتاب "نصاب اعتکاف" تیار کی جس میں اعتکاف کا ممکمل نصاب موجود ہے جو آن لائن بھی ہو چکا ہے۔ (ملاحظہ فرمانے کے لئے کلک کریں) اس کے 180 صفحات ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ معتکفین کی تربیت کے لیے نصاب کو ایک کتاب میں جمع کر دیا گیا۔ اس سے قبل نصاب کے لیے مختلف کتب کو منتخب کیا جاتا تھا۔ تربیتی حلقہ جات کے پہلے روز نگرانی معمولات کمیٹی کے رضا کاران نے سخت نگرانی کرتے ہوئے تمام حلقہ جات کا وزٹ کیا اور کہیں بھی کوتاہی نہ ہونے دی۔
نماز ظہر کے بعد ناظم اعلی ڈاکٹر رحیق احمد عباسی کے لیکچر میں معتکفین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے گہری دلچسپی سے اسے سنا۔ نماز مغرب کے بعد مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی کی فقہی نشست میں شرکاء کی دل چسپی قابل دید ہوتی ہے جو ہر سال مسلسل بڑھ رہی ہے۔
آج کے دن کی اہم بات گوشہ درود کی ماہانہ مجلس ختم الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھی۔ یہ پروگرام اس بار شہر اعتکاف میں ہی ہوا۔ اس کے حوالے سے شیخ الاسلام نے اپنے خطاب کے آغاز سے قبل گفتگو کی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے خطاب کو باقاعدہ طور پر شروع کیا۔ شیخ الاسلام نے درس تصوف میں "طبقات الصوفیۃ" سے درس دیا۔
تبصرہ