"ہم گزشتہ 17 سال سے یہاں شہر اعتکاف میں آرہے ہیں۔ اس وقت تو جامع المنہاج کے در و دیوار زیر تعمیر تھے۔ پہلے اعتکاف میں بارش ہو جانے سے معتکفین کے خمیوں میں پانی کھڑا ہو گیا جس کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے نکالا۔ اس وقت شیخ الاسلام کے ساتھ ایک ہزار معتکف اعتکاف بیٹھے تھے۔ ہم نے وہ منظر بھی دیکھے جب سہولیات نہ تھیں بس اس کے بعد آج تک ہم باقاعدگی سے شہر اعتکاف میں شرکت کے لیے آرہے ہیں۔" یہ باتیں شہر اعتکاف میں شریک کراچی کے معتکف حبیب اللہ نے بتائیں۔ وہ گراؤنڈ میں اعتکاف خمیہ بستی کے فاروقی بلاک حلقہ 50 میں معتکف ہیں۔ انہوں نے یہ بات خاص طور پر بتائی کہ میری عمر 67 برس ہے اور میں یہاں اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہلے شہر اعتکاف 1990ء سے آج تک باقاعدگی سے ہر سال اعتکاف کر رہا ہوں۔ جب میں نے پہلے سال اعتکاف کیا تو اس وقت میری عمر 50 سال تھی لیکن اللہ نے مجھے شادی کے کئی سال بعد بھی اولاد کی نعمت سے محروم رکھا۔ میں نے شہر اعتکاف میں آ کر اولاد کی دعا کی تو اللہ نے میری مراد پوری کر دی اور میں 51 برس کی عمر میں صاحب اولاد ہوا۔ بس اس کے بعد میں اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے یہاں ہر سال شیخ الاسلام کی سنگت میں اعتکاف کے لیے آ رہا ہوں۔ اب اللہ نے باقی جو عمر دی ہر سال اعتکاف کی نیت کر لی ہے۔" معتکف حبیب اللہ کی یہ باتیں سننے کے لیے معتکفین بھی گراؤنڈ والی اعتکاف خیمہ بستی میں اکٹھے ہو گئے تھے جو اس کو حیرت اور رشک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔
شہر اعتکاف کے چھٹے دن تربیتی حلقہ جات اور نماز ظہر کے بعد آج بھی حسب معمول حافظ سعید رضا بغدادی نے عرفان القرآن کلاس لی۔ ان کی اس کلاس میں تجوید و قرآت سیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نماز عصر کے بعد مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی نے فقہی نشست میں معتکفین کے سوالات کے جواب دیئے۔ شہر اعتکاف میں آج کے دن کی اہم سرگرمی شیخ الاسلام کا صحافیوں کے ساتھ افطار تھا۔ اس افطار ڈنر میں صحافیوں کی آمد 4 بجے شروع ہو چکی تھی۔ شیخ الاسلام کے افطار سے قبل نظامت میڈیا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد محمود نے معزز صحافیوں کو شہر اعتکاف کے جملہ انتظامات کے حوالے سے بریفنگ دی اور شہر اعتکاف کا دورہ کرایا۔
شیخ الاسلام افطار ڈنر کے لیے ساڑھے 5 بجے تشریف لائے۔ ان کی آمد سے قبل تمام صحافی اپنی اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ اس موقع پر ملک کے تمام موقر اخبارات اور خاص طور پر ڈیڑھ درجن کے قریب پرائیوٹ ٹی وی چینلز کے نمائندگان جمع تھے۔ یہ گزشتہ شہر اعتکاف کے بعد پہلا موقع تھا کہ شیخ الاسلام صحافیوں کے ساتھ اس پرہجوم پریس میٹ میں شریک تھے۔ افطار سے قبل شیخ الاسلام نے تمام صحافیوں کو خوش آمدید کہا اور چند رسمی کلمات ادا کیے۔ نوائے وقت کے سینئر صحافی طارق اسماعیل ساگر اور روزنامہ پاکستان کے معروف کالم نگار خادم حسین چوہدری شیخ الاسلام کی نشست کے ساتھ دائیں اور بائیں بیٹھے تھے۔ شیخ الاسلام نے تمام معزز صحافیوں کے ساتھ افطار کیا۔ نماز مغرب اور افطار ڈنر کے وقفہ کے بعد ساڑھے 6 بجے تمام صحافیوں کو شیخ الاسلام نے شہر اعتکاف کے حوالے سے بریفنگ دی کہ اس سال گزشتہ 24 سالوں کے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور ہماری توقع سے بہت زیادہ معتکفین شہر اعتکاف میں آئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ ہمارے لیے اعتکاف کے آنیوالے سالوں میں انتظامات ایک مسئلہ بن جائے گا۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے یہ بات خاص طور پر بتائی کہ میں نے اپنی زندگی کا پہلا اعتکاف 1962ء میں دس سال کی عمر میں کیا۔ اس کے بعد مسلسل 45 برس سے اعتکاف بیٹھ رہا ہوں۔ اب 17 واں اجتماعی شہر اعتکاف ہے۔ پہلے اجتماعی اعتکاف میں میرے ساتھ بیٹھنے والے معتکفین کی تعداد صرف 65 تھی لیکن جس طرح معتکفین کی تعداد میں ہر سال دوگنا اضافہ ہو رہا ہے تو خدشہ ہے کہ 2009ء تک یہ تعداد 65 ہزار ہو جائے گی۔
اس سال ہم نے جامع المنہاج سے متصلہ گراؤنڈ کا آدھا حصہ صرف شہر اعتکاف کے لیے مختص کیا ہے۔ گزشتہ سالوں سے یہاں ستائیسویں شب کا عالمی روحانی اجتماع منعقد ہوتا تھا اب اس ساری جگہ پر شہر اعتکاف بسا دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ شیخ الاسلام نے یہ بھی بتایا کہ 1980ء میں جب میں نے شادمان لاہور کی کوٹھی نمبر 204 میں درس شروع کیا تو پہلے درس میں 45 یا 50 افراد شریک تھے لیکن اس کے بعد چند سالوں میں یہ تعداد ہزاروں میں اور اب لاکھوں میں پہنچ گئی ہے۔ شیخ الاسلام نے یہ بات بھی خاص طور پر بتائی کہ 1989ء میں سیاسی حکومت نے پی ٹی وی پر نشر ہونے والا میرا پروگرام فہم القرآن بند کر دیا۔ یہ سلسلہ گزشتہ دو سال تک جاری رہا۔ اب گزشتہ دو سال میں کیو ٹی وی نے میرے خطابات نشر کرنا شروع کیے ہیں تو یہ عالم ہو گیا ہے۔ دوسری طرف 1980ء سے 2005ء تک جب ٹی وی پر نہیں آیا تو اس دوران ایک نسل پیدا ہو کر بھی جوان ہو گئی لیکن وہ میرے پیغام اور مشن سے دور تھی اب اس نے مجھے سنا ہے تو وہی جوان لوگ آج اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ اس اعتکاف میں 75 فیصد سے زاید معتکفین نوجوانوں میں سے ہیں۔
دوسری طرف دنیا بھر سے جو معتکف آئے ہیں ان کی تعداد میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔ اس سال انڈیا، بنگلہ دیش، ایران، بلخ، بخارا اور ہرات سے معتکفین شہر اعتکاف میں آئے ہیں۔ لوگوں کی اس محبت کے بر عکس اب میں دنیا بھر میں خود خطابات کرنے نہیں جاتا بلکہ میرے شاگرد اور منہاج یونیورسٹی کے سکالرز فاضل ملک اور بیرون ممالک درس عرفان القرآن دے رہے ہیں جن کو سننے کے لیے ہزاروں اور لاکھوں کا اجتماع اکٹھا ہوتا ہے۔ یہ سب آقا کے مشن کا صدقہ ہے کہ یہ برکت عطا ہوئی ہے۔
شیخ الاسلام نے صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج دین محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر دو جہتوں سے حملے ہو رہے ہیں۔ ایک طرف سے دین کی فکر کو نظریاتی سمت سے کچلا جا رہا ہے اور دوسری طرف سے دیندار طبقے پر نام نہاد دہشت گردی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ دین کے نام پر حکومت قتل و غارت اور ہوجی کھیل کھیل رہی ہے۔ دین کے نام پر امت کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کو ایک کھیل بنا دیا گیا ہے جس کو جب چاہے بیرونی اشارے پر شروع کر دیا جاتا ہے۔ دین کو محض دہشت گردی کے نام پر بدنام کیا جارہا ہے۔ آج ملک میں دہشت گردی کے نام پر جنگ لڑنے والے بیرونی آقاؤں کے مشترکہ خرچے سے یہ سارا تماشا کر رہے ہیں۔ ان کے اس کام کا امت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہماری جدوجہد اور تحریک کی پالیسی ہمیشہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے رہی ہے۔ ہماری یہ جدوجہد سارا سال جاری رہتی ہے۔ ہمارا مقصد ملک میں لادینیت اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہے۔ ہم تنگ نظری کے رجحانات کو ختم کر کے امن کا پیغام پھیلانا چاہتے ہیں کیونکہ اسلام کا سارا دین تو امن ہے۔ ملک کے موجودہ حکمران دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ یہ تو دہشت گردوں کا راستہ ہموار کر رہے ہیں اور ان کو اپنا ہمنوا بنا کر اپنے اقتدار کو طوالت دے رہے ہیں۔
شیخ الاسلام نے پریس بریفنگ کے آخر میں یہ بھی بتایا کہ اب ہم عالمی میلاد کانفرنس کو آئندہ سال سے صوبہ پنجاب میں چار مقامات پر بیک وقت اور سندھ میں کراچی میں الگ منعقد کرنے کا پروگرام بنا رہے ہیں کیونکہ عالمی میلاد کانفرنس کے لیے لاہور میں مینار پاکستان پر بھی جگہ کم پڑ گئی ہے۔ اس لیے عالمی میلاد کانفرنس کو چار مختلف مقامات پر منعقد کرنے کی پلاننگ کر رہے ہیں جو براہ راست ٹی وی پر بھی نشر ہونگی۔ پریس بریفنگ کے بعد شیخ الاسلام سے صحافیوں نے مصافحہ بھی کیا۔
ستائیسویں شب کے عالمی روحانی اجتماع کے لیے آج تمام تیاریاں مکمل کر لی گئیں تاہم سٹیج کی تزئین و آرائش کے لیے رات گئے تک بھی کام جاری رہا۔ اس بار ستائیسویں شب کے اجتماع کے لیے ایل ڈی اے کا سارا گراؤنڈ پنڈال بنا دیا گیا ہے۔
شہرہ اعتکاف 2007ء : چھٹے دن کی جھلکیاں
1۔ شیخ الاسلام خطاب کے لئے 22:52 پر اسٹیج پر تشریف لائے اور انہوں نے 23:28 پر خطاب شروع کیا۔
2۔ خطاب سے قبل شیخ الاسلام نے بتایا کہ بچوں میں حفظ القرآن پر جتنی محنت ایران میں کروائی جاتی ہے دنیا کے کسی اور ملک میں اتنی نہیں کی جاتی لیکن ہمیشہ ان پر الزام رہا کہ یہ شیعہ ہیں اور ان کے دل میں قرآن حفظ نہیں رہ سکتا۔ اس بات کو رد کرنے کے لئے عملی طور پر انہوں نے ایسے حفاظ بچے تیار کر کے دنیا میں بھیجے کہ جس سے یہ جھوٹا الزام رد ہوا۔
3۔ منہاج القرآن ماڈل سکول چک پیرانہ کے 12 سالہ طالب علم حافظ محمد نور نے عرب قراء کے انداز میں تلاوت قرآن کی جس میں انہوں نے پاو اور رکوع نمبر بتانے کے بعد اگلی آیت کی تلاوت کی۔
4۔ شیخ الاسلام نے بھی حافظ محمد نور سے 16 ویں پارے کے 7ویں رکوع سے آگلی آیت کا سوال پوچھا جو انہوں نے درست پڑھا۔ بعد ازاں شیخ الاسلام نے حافظ نور کو درست قرات کرنے پر ایک ہزار روپے نقد انعام دیا۔
5۔ شیخ الاسلام کے خطاب سے قبل منہاج علماء کونسل نے ملک بھر سے معزز علماء کرام اور مشائخ عظام کو سٹیج کے قریب پہلی صف پر بٹھایا۔ ایک سو سے زاید معزز مہمانان گرامی کے لئے ڈائس کے دائیں بائیں جانب کرسیوں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ گوشہء درود کے گوشہ نشین بھی پہلی صف میں بیٹھے تھے۔
6۔ شیخ الاسلام نے معزز علماء و مشائخ کو خوش آمدید کہتے ہوئے انہیں کہا کہ منہاج القرآن آپ کا اپنا گھر ہے اور میں اس میں مہمان ہوں کیونکہ میں تو اب سال میں صرف دو بار آتا ہوں۔ اس لئے اب آپ میزبان ہیں۔ میں نے اب ساری دنیا کے سفر بھی چھوڑ دیئے ہیں جس ملک میں ہوتا ہوں تو وہاں کے ادارے بھی نہیں جاتا۔ جمعہ کی نماز بھی اس ملک میں عربی، سوڈانی، یا ترکی لوگوں کی مسجد میں ایک اجنبی کے طور پر ادا کرتا ہوں۔
7۔ حضرت خواجہ غلام قطب الدین فریدی کا شیخ الاسلام نے خود استقبال کیا۔ ان کے ساتھ حضرت دیوان سعید صاحب کے صاحبزادے بھی پاکپتن سے تشریف لائے۔
8۔ 23:25 پر شیخ الاسلام کا خطاب شروع ہونے سے قبل تکنیکی تاخیر کی وجہ سے حاضرین نے محمد افضل نوشاہی کے ساتھ درود پاک کا ورد شروع کر دیا۔
جھلکیاں خطاب شیخ الاسلام
1۔ شیخ الاسلام نے اپنے خطاب کے لیے امام حسن بصری کی مولا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کا موضوع منتخب کیا۔ آپ نے کہا کہ کم و بیش ایک ہزار سال سے اہل علم کے درمیان ایک اختلاف رہا ہے کہ امام حسن بصری کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں۔ جو درست نہیں ہے۔
2۔ امام حسن بصری سن 20 ھجری میں مدینہ پاک میں پیدا ہوئے۔ آپ کا پورا نام ابو سعید حسن یسار بن بصری ہے۔ آپ علم تصوف کے بانیوں میں سے ہیں۔ بیشتر سلاسل حضرت امام حسن بصری کے ذریعے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ تک ملتے ہیں۔
3۔ سلسلہ قادریہ ابو سعید مخمضی سے شروع ہو کر حبیب عجمی اور امام حسن بصری کے ذریعے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ تک جا ملتا ہے۔ یہ طریقہ قادریہ کی معروف سند اتصال ہے۔
4۔ سلسلہ قادریہ کی دوسری سند کا بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ حضرت معروف کرخی رضی اللہ عنہ جو مجوسی تھے انہوں نے امام علی رضا رضی اللہ عنہ کے دست اقدس پر اسلام قبول کیا۔ آپ کے طریق سے سلسلہ قادریہ امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ، امام زین العابدین رضی اللہ عنہ اور پھر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔
5۔ امام علی بن مدین سے لے کر وہ آئمہ جن میں امام ترمزی، امام نسائی اور امام بخاری جیسے بڑے آئمہ کرام سے سند حدیث لیتے تھے شاہ ولی اللہ تک اور ان کے بعد آج تک جتنے محدثیں ہوئے وہ سب امام حسن بصری کی مولا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کا انکار کرتے ہیں۔ دوسری طرف امام جلال الدین سیوطی وہ واحد فرد تھے جنہوں نے امام حسن بصری کی مولا علی رضی اللہ عنہ کی ملاقات کے لیے کچھ کام کیا لیکن وہ ادھورا تھا۔
6۔ سلسلہ چشتیہ کے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے شیخ کو عام کتب میں خواجہ عثمان یارونی لکھا جاتا ہے لیکن درست حضرت خواجہ عثمان یرونی ہے۔ ان سے خواجہ اجمیر کی بغداد میں ملاقات کا سلسلہ رہا ہے۔
7۔ حضرت فضیل بن عیاض کے شیخ دو واسطوں سے مولا علی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں۔
8۔ سلسلہ سہرورد کے بانی شیخ شہاب الدین عمر سہروردی ہیں۔ آپ حضرت غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی کے شیخ ہیں۔ حضرت شیخ سعدی شیرازی بھی آپ کے شاگرد ہیں۔ حضرت سعد الدین، بہاؤالدین، شاہ رکن عالم اور مشائخ ان سے نیچے ہیں۔
9۔ تصوف سارے دین کا مغز و نچوڑ اور سارے اخلاق حسنہ کے پیکر صوفیاء کرام ہیں۔
10۔ حضرت سفیان ثوری حدیث میں امیر المومنین تھے۔ یہ لقب حدیث میں ایسے ہے جیسے ولایت میں غوث کا ہے۔ وہ صوفی بھی تھے۔ اس طرح عبداللہ بن مبارک امیر المومنین ہی الحدیث تھے۔
11۔ شازلیہ، مرسیہ، المغربیہ، رہاعیہ یہ تمام سلاسل امام حسن بصری کے ذریعے مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تک جا ملتے ہیں۔ صرف سلسلہ نقشبندیہ کا طریق مختلف ہے وہ حضرت امام ابوالحسن خرقانی کا ہے جو بایزید بسطامی کے شیخ ہیں۔
12۔ امام ابوالحسن خرقانی، حضرت بایزید بسطامی سے 150 سال بعد پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنا فیض ان کی قبر سے لیا کیونکہ اولیاء کی قبروں سے بھی فیض جاری رہتے ہیں۔
13۔ حضرت بایزید بسطامی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگرد ہیں۔ طریقہ نقشبندیہ کے معروف طرائق امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہیں۔ یہ سلسلہ آگے امام محمد باقر علیہ السلام کے ذریعے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ گویا تمام سلاسل کے منبع و ماویٰ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہیں۔
14۔ تمام صحابہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاص وصف سے نوازا۔ اس طرح مولا علی رضی اللہ عنہ کو ولایت کا سردار بنا دیا۔
15۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا میں ہر مومن کے لئے اس کی جان سے زیادہ قریب نہیں ہوں؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیوں نہیں، آپ ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا میں مولا اس کا علی مولا اور جو علی کو دشمن سمجھے وہ میرا دشمن ہے۔
16۔ امام حسن بصری کی حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہ ہونے کے الزام کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے جس صحابی سے بھی روایت کیا تو اس کا نام روایت میں شامل کیا۔ ان میں حضرت انس بن مالک، جابر بن عبداللہ انصاری، عمران بن حسین، مغیرہ بن شعبہ، نعمان بن بشیر، عبداللہ بن عمرو بن العاص، امیر معاویہ، اسود بن سیری اور دیگر محدث صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم شامل ہیں۔ لیکن آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لی ہوئی حدیث میں آپ نے ان کا نام روایت میں شامل نہیں کیا۔ اس کی جگہ آپ نے مرسلا کہہ کر براہ راست ان احادیث کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے جوڑ دیا۔ اس وجہ سے محدثین نے کہا کہ حضرت امام حسن بصری کی مولہ علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات شامل نہیں ہے۔
17۔ ایک روایت کے مطابق 70 بدری صحابہ کرام سے حضرت حسن بصری کی ملاقات ثابت ہے۔
18۔ شاہ ولی محدث دہلوی اور خواجہ فخر جہاں کا مناظرہ ہوا تو شاہ ولی اللہ نے امام حسن بصری کی مولا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہ ہونے کا کہا۔ خواجہ فخر جہاں نے اس کے مخالفت میں دلائل دیئے۔ دونوں کا مناظرہ تین دن تک جاری اور بے نتیجہ رہا۔ اس کے بعد خواجہ فخر جہاں نے کتاب "فخرالحسن" لکھی جس میں انہوں نے مولا علی رضی اللہ عنہ سے امام حسن بصری کی ملاقات پر دلائل دیئے۔
19۔ شیخ الاسلام نے بتایا کہ میں نے 35 برس قبل 1972ء میں ایم اے کے فائنل مقالے کے لیے کتاب "فخر الحسن" کے مخطوطہ سے مدد لی۔ یہ میرے والد گرامی نے سیال شریف سے حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی سے ادھار لا کر دیا تھا۔ آج اس کی باقاعدہ کتاب شائع ہو گئی ہے۔
20۔ امام جلال الدین سیوطی جیسے آئمہ حدیث 72 مرتبہ جاگتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حدیث کی تصحیح کے لیے سوال کر چکے ہیں۔ جس پر آقا علیہ السلام جواب دیتے کہ ہاں جلال الدین یہ میرا فرمان ہے۔
21۔ شیخ الاسلام نے بتایا کہ عقیدہ اہل سنت کا دو صدیوں سے عالم عرب سے رابطہ کٹ گیا تھا۔
22۔ حضرت بشر حافی کی اپنی سند آقا علیہ السلام سے صرف 3 واسطوں سے متصل ہے۔
23۔ امام دارقطنی کے مطابق بشر حافی جو حدیث روایت کرتے وہ حدیث صحیح کا درجہ رکھتی ہے اس کے علاوہ بشر حافی کچھ روایت نہیں کرتے تھے۔
24۔ بشر حافی نے کہا کہ ایک دور آنیوالا ہے جب حکمت والی آنکھ کا زمانہ نہیں رہے گا۔ احمق اور ظالم لوگوں کو حکومت سپرد کر دی جائے گی۔
25۔ تصوف میں نفس کی ہر خواہش کو شہوت کہتے ہیں۔ جس چیز نے نفس کو چاہا وہ شہوت ہے۔ شہوت کی لذت کے ساتھ عبادت کی حلاوت نہیں ملتی۔
26۔ بشر حافی کے مطابق گناہوں کو چھوڑ دینا دعا ہے۔
27۔ ولیوں کے مقام پر جا کر توسل کرنا قرآن پاک سے ثابت ہے جس طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ کی ولیہ حضرت مریم رضی اللہ عنھا کی جگہ پر جا کر دعا کی۔
تبصرہ