(ایم ایس پاکستانی)
منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے ممبر صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے 11 جنوری کو سماء ٹی وی کے براہ راست پروگرام "بجلی کا بحران اور اس کا حل" میں شرکت کی۔ اس پروگرام میں پیپکو کے ڈی جی لوڈ مینجمنٹ اینڈ انرجی کنزومر طاہر بشارت چیمہ بھی مہمان تھے جبکہ حبیب اکرام پروگرام کے میزبان تھے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے کہا کہ آج ملک میں اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے طالب علم، عام آدمی اور صنعت کار سمیت ہر طبقہ پریشان اور ہر آدمی ستایا ہوا ہے۔ لوڈ شیڈنگ سے سب سے زیادہ نقصان ملکی معیشت کو ہوا جس کا پہیہ رک سا گیا ہے۔ بجلی نہ ہونے سے اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہیے۔ ایسے حالات میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا عمل رک گیا ہے۔ اس صورتحال سے اگر غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان کے معروضی حالات دیکھ کر اپنا ہاتھ کھینچ لیا، تو اندازہ کریں کہ قومی معیشت کا کیا بنے گا؟ صاحبزادہ حسین محی الدین نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے لیے حکومت کبھی کہتی ہے کہ توانائی کا بحران 2008ء میں ختم ہو جانا تھا اور کبھی کہتی ہے کہ یہ رواں سال 2009ء میں ختم ہو جائے گا لیکن اس کے لیے ہم نے پالیسی پر توجہ ہی نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی قوم پر بحران آتا ہے تو اس کی ایک وجہ نہیں بلکہ بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ اس تناظر میں ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ملک میں لوڈ شیڈنگ کا بحران حکومت کی کس پالیسی کا نتیجہ ہے؟
ایک سوال کے جواب پر صاحبزادہ حسین محی الدین قادری نے کہا کہ بہت سے ممالک میں توانائی حکومتی سطح پر پیدا کی جاتی ہے یہ ان کی پالیسی ہے۔ لیکن پاکستان میں توانائی بحران کو نجی سیکٹر پر پیدا کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا اس پر بھی عمل درآمد نہیں کرایا جا سکا۔
کالا باغ اور دیگر ڈیمز کے حوالے سے صاحبزادہ حسین محی الدین قادری کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم اور دیگر ڈیموں کو سیاسی مقاصد کے لیے بطور ایشوز استعمال کیا گیا۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی بڑا ڈیم بن جاتا تو آج ملک میں لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے صرف عوام کی وجہ سے کالا باغ ڈیم اور بھاشا ڈیم نہیں بنائے کہ اس پر رائے عامہ متفق نہ تھی تو یہ سب سے بڑا غلط فیصلہ تھا۔ کیونکہ ڈیموں کے علاوہ ملک میں کئی اور دس ہزار مسائل اور ایشوز ہیں جن پر حکومت عوام کو اعتماد میں نہیں لیتی لیکن وہ ملکی مفاد میں ہوتے ہیں تو انہیں خاموشی سے مکمل کیا جاتا ہے۔ اس طرح اگر حکومت ڈیموں کی تعمیر بھی شروع کر دیتی تو یہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے ہی ختم ہو جاتا۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آج ملک میں ہر شے کی طرح بجلی پر بھی ایمرجنسی کا تسلط ہے جس پر ملک نہیں چل سکتا۔ پیپکو کے ڈی جی لوڈ مینجمنٹ اینڈ انرجی کنزومر طاہر بشارت کے اس بیان پر کہ "ملک میں پاور پلانٹس پر 1996ء سے کام ہو رہا ہے" پر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ پاور پلانٹ منصوبہ ہمارے لیے کتنا فائدہ مند رہا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ جب سرمایہ کار پاکستان سے باہر اپنا سرمایہ منتقل کر رہے ہوں تو معاشی اصطلاح میں ہمیں زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ بجلی کے حصول کے لیے رینٹل پاور پلانٹس کے آنے سے ہمارے نقصان میں کمی آئی ہے۔ بجلی بحران کے حل کی نشاندہی کرتے ہوئے صاحبزادہ حسین محی الدین نے بتایا کہ حکومت کو ڈیموں کے حوالے سے طویل مدتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ایک طویل المدتی منصوبہ ہی لوڈ شیڈنگ ختم کر سکتا ہے۔ جس کے لیے اس خطے میں مشترکہ بجلی منڈی کا قیام عمل میں لایا جائے جو کم از کم دس سال کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبہ سے پاکستان بلکہ پورا ایشیائی خطہ بجلی پیدا کرسکتا ہے۔ یہ نمونہ امریکہ اور افریقہ سمیت دیگر ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے۔ اگر سارے ایشیائی ممالک خطے کی بجلی کو ساؤتھ ایشین پاور پول منصوبے کی مدد سے پول کر لیا جائے تو یہ لوڈ شیڈنگ کا بہترین طویل مدتی حل ہے۔
دوسری جانب اگر حکومت شارٹ ٹرم منصوبہ چاہتی ہے تو اس کے لیے تھرمل یونٹس کی بجلی انڈسٹریل سیکٹر کو دے دی جائے۔ اس کے علاوہ قلیل مدتی منصوبہ میں رہائشی سیکٹرز بڑے بڑے پاور جنریٹر سسٹم لگا کر لوڈ شیڈنگ ختم کی جا سکتی ہے۔
طاہر بشارت چیمہ کی طرف سے اس بیان "بجلی نہ ہونے اور لوڈ شیڈنگ کے ذمہ داران قومی ادرارے بھی ہیں جنہوں نے ایک دوسرے کے پیسے دینے ہیں" پر صاحبزادہ حسین محی الدین نے کہا کہ ڈیپارٹمنٹ کے قرضوں کے بعد ساری قوم آئی ایم ایف کی مقروض ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ادارے اس حکومت کے ساتھ بنے تھے۔ ادارے تو گزشتہ ادوار حکومت میں بھی تھے اور اس سے پہلے بھی تھے۔ اب کیا چیمہ صاحب جیسے ذمہ داران لوگوں نے حکومتوں کو اس خطرے سے آگاہ کیا کہ اچانک ایک سال میں شارٹ فال کیوں آیا؟ آخر میں صاحبزادہ حسین محی الدین نے کہا کہ اگر ہم اپنے ملک کو ایک ایسی پالیسی بنا کر دیں جس سے لوڈ شڈنگ ختم ہو جائے تو یہ سب سے بہترین حل ہوگا۔
دوسری جانب طاہر بشارت چیمہ کا کہنا تھا کہ 2004ء میں پہلی بار لوڈ شیڈنگ ہوئی، 2005ء میں لوڈ شیڈنگ بہت کم ہوئی، 2006ء میں بھی لوڈ شیڈنگ ہوئی لیکن ہم بھول گئے، 2007ء میں بہت زیادہ لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی اور 2008ء میں پانی ضرورت سے 35 فیصد کم ہو گیا جو 2007ء میں 22 فیصد کم تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھاشا ڈیم بن جاتا تو آج 4500 میگا واٹ بجلی مل جاتی جبکہ کالا باغ ڈیم سے 3600 میگا واٹ بجلی بنتی ہے۔ 2758 میگا واٹ حکومت کو مل گئے لیکن اس کے باوجود سستی بجلی پیدا کرنے کی حکومتی کوشش نہیں کی گئی جو نااہلی ہے اور یہ 2004ء تک ہوا۔ ہمارے پاس دو ہائیڈرو پروڈکشن پلانٹ پاکستان آ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت ایک لاکھ دس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے اور اس کی ضرورت ایک لاکھ پچاس ہزار میگا واٹ ہے یعنی انہیں چالیس ہزار میگا واٹ کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت طویل مدتی پالیسی ایک دم نافذ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 2007ء اور 2008ء میں بجلی پیدا کرنے کے ہمارے سارے وسائل تیل پر آ گئے اور اس دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمیتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا جو لوڈ شیڈنگ کا باعث بنا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ 2009ء میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے پاس سب سے پرانا پلانٹ 1959ء میں لگا جو آج بھی موجود ہے اور نیا 1994ء کا ہے اس کے بعد کوئی پلانٹ نہیں لگایا گیا۔
تبصرہ