اسلام کی آمد سے پہلے عربوں کی اقتصادی سرگرمیاں تجارت سے منسلک اُمور پر مشتمل تھیں، جزیرہ نمائے عرب میں کافی تعداد میں تجارتی مراکز سرگرم عمل تھے۔ حبشہ کی طرف تجارتی شاہراہوں میں یہ قافلے حجاز سے فلسطین، مصر اور پھر حبشہ جاتے تھے۔ سمندری جہاز باب المندب کے راستے جدہ سے روانہ ہوتے اور حبشہ کی بندرگاہوں میں لنگر انداز ہوتے تھے۔ خلیج فارس کی ساحلی پٹیوں پر ظفر اور سوہار ہندوستان کی سمندری تجارت کے قدیم مراکز تھے۔ حضروت (Hadrowat) کے مشرق میں واقع ظفر،عطریات کے لیے مشہور منڈی تھی۔ سوہار اور دبّا بھی قدیم منڈیاں تھیں۔ سندھ، ہندوستان، چین اور دیگر مشرقی اور مغربی ممالک سے تاجر وہاں جمع ہوتے اور ان مقامات پر لگائے گئے میلوں میں شریک ہوتے۔ ظہورِ اسلام سے پہلے ان علاقوں میں تجارتی سامان پر 10فی صد محصول تاجروں سے وصول کیا جاتا تھا۔ ان میں عکاز کا میلہ مشہور تھا جو طائف اور نخلہ کے درمیان ایک نخلستان تھا۔ یہ میلہ ذی قعدہ کی یکم سے بیس تک منعقد کیا جاتا۔ عرب معیشت کی بیرونی تجارت زیادہ تر چین اور حبشہ پر مرکوز تھی۔ مکی تاجر چمڑا، گوند، بخور، اونی کپڑا اور چوغے حبشہ لے جاتے اور غلے سے ان کا تبادلہ کرتے۔ اس طرح قبل از اسلام عربوں کی معیشت کے کافی حد تک بین الاقوامی تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ قرآن مجید میں بھی قریش کے ان تجارتی قافلوں کاحوالہ ملتا ہے، سورۃ القریش میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یاد دہانی کے طور پر قریش کے گرما اور سرما میں سفر کرنے والے قافلوں کو بھوک اور خوف سے امان کا ذکر کیا گیا ہے۔ اسلام کی آمد سے عرب معیشت کو بین الاقوامی تجارت کی نئی ترغیبات اور جہتوں سے متعارف کرایا گیا۔ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر تلقین کی گئی کہ وہ اللہ کا رزق تلاش کریں اور تجارت کو فروغ دیں۔
اسلام نے تجارت کے بعض قواعد و ضوابط اسلامی حدود کے لیے مقرر کیے اور تاجروں کو ان پر عمل کرنے کا پابند بنایا، ان ضابطوں اور قواعد کا مسلم فقہاء نے بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مسلمان تاجروں کا اپنے کاروباری معاملات طے کرتے ہوئے ان پر عمل کرنا واجب ہے، مثلاً فروخت کنندہ کو اپنے مال کی وہ خوبیاں جو اس میں موجود نہیں تشہیر نہیں کرنا چاہیے۔ فروخت کنندہ کو چاہیے کہ اپنے مال کی اچھی اور بری باتیں خریدار کو بتا دے۔ ایک تاجر کو اپنے مال کا وزن اور مقدار نہیں چھپانا چاہیے، مال کی قیمت کو اس طرح صیغہ راز میں نہیں رکھنا چاہیے کہ خریدار کو جب اس کا پتہ چلے تو وہ خریدنے سے انکار کر دے۔ یہ سب کچھ کاروبار کرنے والے تمام مسلمانوں پر لازم ہے خواہ وہ کسی بھی ملک کے باشندے ہوں۔ دنیا کے مشہور و معروف کاروباری تجارتی مراکز اور تجارتی میلوں کے ساتھ لین دین اسلامی دور میں بھی جاری رہا۔ مسلمانوں نے دنیا کے کئی مشہور و معروف ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کئے۔ مسلمان عظیم جہاز ران تھے، ان کے بحری بیڑے ہندوستان، چین، یورپ اور روس کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوتے تھے۔ اونٹوں کے ذریعے قافلوں کا سفر اور سیاحت کرنا ایک معمول کی بات تھی، بالخصوص حج کے ایام میں قافلے مکہ کی جانب روانہ ہوتے تھے۔ اسلام میں محصولات جمع کرانے والے تجارت پیشہ لوگ دو مختلف طبقوں میں منقسم ہیں، یہ تقسیم اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کی ہے۔ اس اعتبار سے ٹیکسوں اور محصولات سے آمدنی دو واضح قسموں سے حاصل ہوتی تھی۔
مسلمانوں پر عائد کئے جانیوالے محصولات کو زکوٰۃ اور عشر کہا جاتا ہے جبکہ غیر مسلموں پر عائد کردہ محصول جزیہ اور خراج کہلاتا ہے۔ وہ محصول جو غیر مسلم تاجروں پر لگایا جاتا ہے اسے در آمدی ڈیوٹی یا عشر سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ظہورِ اسلام سے قبل عرب اور ان کے پڑوس میں بازنطینی اور ساسانی تجارتی قافلے اپنا تجارتی سامان دوسرے ملکوں میں فروخت کرتے تھے اور اس دور کے رسم و رواج کے مطابق منڈی کے ذمہ داران بیرونی ملکوں سے لائے گئے تجارتی سامان پر10 فی صد کی شرح سے محصول عائد کرتے۔ یہ محصول آج کی کسٹم دیوٹی سے ملتا جلتا ہے۔ منڈی ٹول ٹیکس جو چونگیوں پر وصول کیا جاتا اور تجارتی محصول جو درآمد کئے گئے سامان پر عائد کیا جاتا ہے ان کے درمیان کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دیتا۔ اسلامی اصطلاح عشر اور شاید ماکس (Maks) کا اطلاق بھی دونوں پر ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے نظام عشر کے حوالے سے بہت سی احادیث نبوی a ملتی ہیں، جن میں تجارتی سامان سے جمع شدہ رقوم پر دسواں حصہ محصول عائد کرنے کی مذمت سخت ترین الفاظ میں کی گئی ہے، مثلاً ماکس جمع کرنے والا عامل بہشت میں داخل نہ ہوگا۔ ماکس کے عامل سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گابلکہ اسے پکڑ کر سیدھا جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ بعض عرب قبیلوں نے جب فتح مکہ کے بعد ایک ساتھ اسلام قبول کیا تو حضور a نے حکماً ارشاد فرمایا کہ اس وقت کے رواج کے مطابق عشر لاگو نہیں کیا جائے گا۔ لہذا فقہاء نے عام طور پر محصول کے نظام کو ایک فرسودہ رسم قرار دیا ہے جسے حضور a نے منسوخ کر دیا تھا۔ اس لحاظ سے ہم یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے مسلمان ملکوں کے درمیان کسٹم ڈیوٹی کو رد کیا ہے اور یہ کسٹمز فری کلچر کی تشکیل میں ایک پلس پوائنٹ ہے جس کی رو سے انہیں آپس میں تجارتی لین دین کسٹم فری کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ اوائلِ اسلام میں اشیاء کی بین الاقوامی نقل و حمل میں کوئی تجارتی محصول رائج نہ تھا، اس کی شرعی حیثیت کو علامہ ماوردی کے نقطہ نظر میں واضح کیا گیا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تجارتی اشیاء اور سامان کی بین الاقوامی نقل و حمل پر کوئی محصول عائد نہیں کیا جاتا تھا اور مسلم ممالک کے مابین اس قسم کا محصول غیر قانونی تھا۔
جہاں تک عام بیرونی شرح محصول کا تعلق ہے حضرت عمر g کے عہد خلافت میں ایک روایت کے مطابق چند تاجروں نے خلیفۃ المسلمین کو شکایت کی کہ مسلمان تاجروں کو دور جاہلیت کے رسم و رواج کے مطابق ان کی قابل فروخت اجناس کا دسواں حصہ غیر مسلم علاقوں میں محصول کے طور پر ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے جواب میں خلیفہ راشد دوئم حضرت عمر g نے مساوی بنیاد پر حکم صادر فرمایا کہ غیر مسلم ریاست سے آنے والے جو تاجر مسلمان ریاست میں اپنا مال فروخت کریں ان سے اسی شرح سے محصول وصول کیا جائے۔ تاہم انہوں نے یہ فرمان جاری کیا کہ کسی مسلمان یا ذمی پر اگر اس نے زکوٰۃ اور جزیہ معاہدہ کے مطابق ادا کیا ہے، کوئی عشر (کسٹم ڈیوٹی) نہ عائد کیا جائے۔ عشر صرف غیر مسلم ممالک کے تاجروں پر اس وقت لگایا جاتا جب وہ اسلامی مملکت کی حدود میں تجارت کرنے کی اجازت طلب کرتے۔ عشر کا محصول جمع کرنے کے لئے جو عاملین مقرر کئے جاتے وہ دس فی صد کے حساب سے بیرون ملک کے غیر مسلم تاجروں سے محصول وصول کرتے تھے جبکہ ذمی تاجروں سے پانچ فی صد اور مسلمان تاجروں سے اڑھائی فی صد وصول کیا جاتا تھا۔ محصول کی مختلف شرحوں کے پیچھے کار فرما بنیادی استدلال حضرت عمر g کا وہ عمل تھا جس کی رو سے آپ نے تاجروں کو مختلف قسموں میں تقسیم کر دیا تھا۔ چونکہ غیر مسلم ممالک میں مسلمان تاجروں سے محصول لیا جاتا اس لئے غیر مسلم ممالک کے تاجروں سے بھی دس فی صد محصول لے لیا جاتا تاکہ توازن قائم رہے۔
اسلامی ممالک آج قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں، اس کے باوجود عالم اسلام سیاسی اور معاشی برتری سے محروم چلا آ رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی تجارتی اصولوں کی پیروی کرکے ہر مسلم ملک صرف ملکی مفاات کے خول میں بند ہے۔ آج مسلم ممالک کے مابین معاشی اتحاد ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس کے لیے اسلامی تجارت کے اصولوں سے عملی رہنمائی لی جائے، آپس میں تجارت کو فروغ دیا جائے، مسلم ممالک اپنی مشترکہ تجارتی منڈیاں قائم کریں۔ اس سے نہ صرف غریب ملکوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی بلکہ اسلامی ممالک کا معاشی بلاک بننے کی طرف بھی پیش قدمی ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام کے تجارتی ماڈل کو جلد از جدل عملی شکل میں رائج کرکے آگے بڑھا جائے۔
تبصرہ