منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے منصوبہ جات

موجودہ دور میں انسانیت گھمبیر مسائل سے دوچار ہے۔ انسان غربت، مہنگائی، بے روزگاری بنیادی سہولتوں کی کمی اور سب سے بڑھ کر جہالت کے ہاتھوں جس طرح پس رہا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں آباد 4.4 ارب انسانوں میں سے تقریباً اڑھائی ارب سے بھی زیادہ صحت اور صفائی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ صرف افریقہ میں 2020ء تک ساڑھے سات کروڑ سے لے کر 25 کروڑ تک آبادی پانی کے قحط سے دوچار ہو سکتی ہے۔

انسانی ترقی کے لحاظ سے پاکستان کو دیکھا جائے تو شہریوں کی اوسط عمر تعلیمی صلاحیت اور آمدنی مدنظر رکھی جائے تو یہ خوفناک انکشاف سامنے آتا ہے کہ پاکستان اس پیمانے پر 138ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کی 16 کروڑ عوام میں سے 6 کروڑ سے زائد افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ 10 کروڑ سے زائد افراد ناخواندہ ہیں۔ لاکھوں بچے ہر سال صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں، لاکھوں افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔

غربت کے باعث لاکھوں طلبہ اگلی جماعتوں میں داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ قوم کی بیٹیاں جہیز کی لعنت کے باعث شادی کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہیں۔ بیوہ اور نادار خواتین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مناسب تربیت نہ ملنے کے باعث یتیم بچے معاشرے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقہ مہنگے علاج اور دوائیوں کے باعث صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ عوام کی بڑی تعداد کو بھوک، افلاس، غربت، جہالت اور بے روزگاری کا سامنا ہے۔ ان حالات میں ضرورت تھی کہ دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے عملی میدان میں کوششوں کا آغاز کیا جائے۔

قیام کے مقاصد

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 17 اکتوبر 1988ء کو فلاحی اور سماجی بہبود کے لیے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ جس کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ تمام انسانوں کے اندر جذبہ ہمدردی کو فروغ دیا جائے۔ باہمی محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو اور تمام طبقات کو ساتھ لے کر ایک حقیقی اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لیے عملی جدوجہد کی جائے۔ اس مقصد کے لیے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن بلا امتیاز رنگ و نسل اور جنس و مذہب خدمت انسانیت کے لیے مصروف عمل ہے۔

بنیادی اہداف :

  1. بامقصد، معیاری اور سستی تعلیم کا فروغ
  2. غریب اور مستحق طلبہ کے لیے تعلیمی وظائف کا بندوبست
  3. صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم افراد کے لیے معیاری اور سستی طبی امداد کی فراہمی
  4. خواتین کے حقوق اور بہبود کے منصوبہ جات کا قیام
  5. بچوں کے بنیادی حقوق اور بہبود کے منصوبہ جات کا قیام
  6. یتیم اور بے سہارا بچوں کی تعلیم و تربیت اور رہائش کا بہترین بندوبست کرکے ان کو معاشرے کا مفید شہری بنانا
  7. قدرتی آفات میں متاثرین کی امداد اور بحالی
  8. پسماندہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی
  9. بیت المال کے ذریعے مجبور اور حقدار لوگوں کی مالی امداد
  10. غریب اور نادار گھرانوں کی بچیوں کی شادیوں کے لیے جہیز فنڈ کا قیام

ہمارا عزم، ہمارا کام۔ ۔ ۔ ۔ تعلیم، صحت، فلاح عام

1۔ تعلیم

ایجوکیشن پراجیکٹ

کسی بھی ملک کی سربلندی اورترقی کا انحصار اس کی عوام کے تعلیمی اور شعوری تناسب پر ہوتا ہے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ایک متوازن شخصیت کی تشکیل اور نظام تعلیم کا بنیادی مقصد ایک متوازن معاشرے کی تعمیر ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے آج ہمارا ملک شرح خواندگی کے اعتبار سے 178 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں ایشیاء کے بے شمار دیگر ممالک کی پرائمری تعلیم کا تناسب ہم سے کہیں بہتر ہے مثلاً جاپان، سری لنکا اور جنوبی کوریا میں 100 فیصد، انڈونیشاء میں 90 فیصد، تھائی لینڈ 96 فیصد، ایران 95 فیصد، انڈیا 78 فیصد، بنگلہ دیش 62 فیصد شرح خواندگی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی شرح خواندگی سرکاری طور پر 39 فیصد اور غیر سرکاری اعتبار سے 26 فیصد جبکہ یونیسکو کی بین الاقوامی تعریف کے مطابق ہم صرف 17 فیصد شرح خواندگی رکھتے ہیں۔

پاکستان شرح خواندگی کے اعتبار سے بیشتر افریقی ممالک سے بھی بہت پیچھے ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی ملک نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک اس ملک میں شرح خواندگی کم سے کم 40 فیصد تک نہیں پہنچ گئی۔ انگلستان میں صنعتی انقلاب اس وقت شروع ہوا۔ جب وہاں پڑھے لکھے افراد کی تعداد 40 فیصد تک ہو گئی۔ فرانس میں انیسویں صدی کے وسط میں شرح خواندگی انگلستان کے مقابے میں زیادہ تھی اور یہ ہی فرانس کی ترقی کا زمانہ تھا۔ امریکہ کے قومی ا ثاثوں میں 21 فیصد اضافہ تعلیم کی وجہ سے ہوا۔ جاپان کی قومی دولت میں تعلیم کی وجہ سے ہر سال 25 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

درج بالا حقائق اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی سماجی اور معاشی ترقی کے حصول کے لیے تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا پڑے گا معاشرتی ترقی کا تصور تعلیمی ترقی کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ نے تقریباً بارہ سو سال تک طویل عرصہ دنیا پر حکمرانی کی جس کا واحد سبب اس کا علمی تفوق تھا سیاسی زوال کے بعد مغربی استعمار نے مسلمانوں کے نظام تعلیم کو خاص طور پر اپنا ہدف بنایا۔ ہمارے نظام تعلیم کو دینی مدارس اور جدید تعلیمی اداروں کے دو دائروں میں تقسیم کر دیا گیا اور مزید کسر لارڈ میکالے نے پوری کر دی جب جدید تعلیمی اداروں کے ذریعے ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی بجائے غلام قوم تیار کرنے کے لیے نو آبادیاتی نظام تعلیم رائج کر دیا گیا۔ استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے بعد اکثر مسلم ممالک میں احیاء اسلام کی کاوشیں شروع ہوئیں۔ تو علمی محاذ پر بھی مختلف شخصیات نے قابل قدر خدمات سرانجام دیں۔ اس سلسلے میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں امت مسلمہ کی راہنمائی کے تعلیم کا شعبہ بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نظریہ کے مطابق اس قوم کے تمام مسائل (بے روزگاری، نشہ، انتہا پسندی، دہشت گردی، فساد، گھریلو ناچاقی، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، چوری ڈکیتی) کا اصل سبب ایک ہے۔ وہ صرف جہالت ہے۔ ان تمام مسائل کا حل صرف فروغ تعلیم سے ممکن ہے۔ اس لیے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا اعلان ہے" سرسید احمد خان نے قوم کو ایک علی گڑھ دیا تھا میں ان شاء اللہ اس قوم کو 100 علی گڑھ دوں گا"

اسی لیے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے فروغ تعلیم کے لیے ایک ایسے منصوبہ کا آغاز کیا ہے جس سے لوگوں کے اندر شعور بیدار کیا جاسکے، ان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر علم کے نور سے منور کیا جاسکے۔ غریب مگر ہونہار طلبہ کی تعلیم کے لیے سکالر شپ کا انتظام کیا جاسکے اور نادار بچوں کو مفت کتابیں فراہم کی جاسکیں۔

1۔ فروغ تعلیم کے اداروں کا قیام :

اس کے لیے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت ملک بھر میں تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھا دیا گیا ہے تقریباً 9 سال کی کم مدت میں ملک بھر میں 572 سکولز اور 41 کالجز قائم کر دیئے گئے ہیں۔ جن کی اجمالی تفصیلات درج ذیل ہیں۔

تعلیمی منصوبہ

سطح تعداد سکولز قیام فی سکول (اوسط) قیام پر کل خرچ توسیع پر اخراجات طلبہ کی فیس رعایت کل خرچ
منہاج پبلک سکولز 319 75,000 2,39,25,000 3,95,56,000 1,60,00,000 8,94,81,000
منہاج ماڈل سکولز 253 1,50,000 3,79,50,000 5,06,00,000 2,13,00,000 10,98,50,000
منہاج آئی ٹی کالجز 17 3,00,000 1,23,00,000 2,05,00,000 86,00,000 4,14,80,000
کل 589 7,41,75,000 11,06,56,000 5,59,00,000 24,07,31,000

خصوصیات :

  1. ان تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے تمام تر وسائل منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن اور اس کے معاونین اور تنظیمات فراہم کرتی ہیں۔
  2. ان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم کم ازکم 25 فیصد غریب مگر ہونہار طلبہ کے اخراجات منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن برداشت کرتی ہے۔
  3. مستحق اور نادار طلبہ کو سکول کی کتابیں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
  4. تعلیمی میعار برقرار رکھنے کے لیے تمام کلاسز کے سالانہ امتحانات منہاج ایجوکیشن بورڈکے تحت لیے جاتے ہیں اور اس بورڈ کے تحت نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے۔
  5. ان تعلیمی اداروں کا مقصد تعلیم برائے تعلیم نہیں ہے صرف ڈگریوں اور اسناد کا جاری کرنا نہیں بلکہ اس کا بنیادی مقصد طالب علم کو ایک مثبت سوچ کا حامل مسلمان اور ایک اچھا شہری بنانا ہے۔
  6. ان اداروں میں طلبہ کی روحانی اور اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

سٹوڈنٹ ویلفیئر بورڈ

پاکستان میں تعلیم کو کبھی بھی پالیسی سازوں نے اولین ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ بالادست طبقات کو اس امر سے کوئی دلچسپی ہی نہیں جس کا ثبوت ہمارا قومی بجٹ ہے۔ جس میں بہت تھوڑی رقم تعلیم کے لیے مختص کی جاتی ہے۔ 1972ء میں پہلی مرتبہ حکومت نے تعلیمی پالیسی دی اور پرائمری تعلیم کو مفت قرار دیا لیکن یہ پالیسی بیورو کریسی کی نظر ہو گئی۔ پرائیویٹ سکولوں کی اجازت کے بعد تعلیم بہت زیادہ مہنگی ہو گئی۔ 1991ء میں شعبہ تعلیم میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کی گئی اور "اقراء سرچارج" کی رقم 10 ملین تک پہنچ گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ رقم تعلیمی شعبے کی بہتری کے لیے استعمال کی جاتی مگر ملک کے پالیسی سازوں نے اس رقم کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

ان حالات میں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے ایسے نادار طلبہ کے لیے جو پڑھائی میں انتہائی بہترین ہیں لیکن مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لیے تعلیم کا حصول مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے طلبہ کے لیے سکالر شپ کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس مقصدکے لیے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیراہتمام سٹوڈنٹ ویلفیئر بورڈ (SWB) بنایا گیا ہے۔ اس کے تحت ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے طلبہ کو وظائف دیئے جاتے ہیں اس وقت تک اس بورڈ کے تحت سکالر شپ لینے اور لینے کے بعد تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ کی تعداد درج ذیل ہے۔


1 حفظ قرآن 726
2 میٹرک 510
3 بی۔ اے 552
4 ماسٹر 199
5 پروفیشنل کورسز 08
6 پی ایچ ڈی 02
ٹوٹل 1997

اس پر اب تک کل لاگت 2 کروڑ 22 لاکھ 69 ہزار روپے آئی ہے۔ اس سے 1997ء طلبہ و طالبات مستفید ہوئے۔ اس وقت 187 طلبہ کو فیس معافی کی سہولت حاصل ہے۔ منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے تحت سکولوں میں دیئے جانے والے سکالر شپ اس میں شامل نہیں ہیں۔ اور نہ ہی کالجز کی طرف سے دی جانے والی رعایت شامل ہے۔ جو کہ لاکھوں روپے بنتی ہے۔

طریقہ کار :

اس پراجیکٹ کے تحت طلبہ سے باضابطہ مخصوص فارم پر درخواست وصول کی جاتی ہے اور طالب علم کی تعلیمی کارکردگی، معاشی حالت غیر نصابی سرگرمیوں میں شرکت کی بنیاد پر میرٹ بنایا جاتا ہے اور صرف میرٹ پر آنے والے طلبہ کو ہی سکالر شپ دیا جاتا ہے ہر بچہ کسی ایک ڈونر کے ساتھ منسوب ہو جاتا ہے اکثر ڈونر از خود بچے کے اخراجات برداشت کرتے ہیں اور اس ڈونر کو بچے کی تعلیمی کارکردگی سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ سکالر شپ سالانہ بنیادوں پر دیا جاتا ہے اور صرف ان طلبہ کو اگلے سال میں سکالرشپ دیا جاتا ہے جو تعلیمی معیار پر پورا اتریں۔ ڈونر کی سہولت کے لیے سٹوڈنٹس سکالرشپ کے درج ذیل پیکج بنائے گئے ہیں۔ اگر کوئی بھی فرد کسی بچے کو سپانسر کرنا چاہے تو کسی پیکج کو چن کر ڈونیشن (عطیہ) منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے اکاؤنٹ میں جمع کروا کر باضابطہ ڈونر بن سکتا ہے۔ اس ڈونر کو حسب ضابطہ طالب علم کے کوائف اور کارکردگی سے آگاہ رکھا جائے گا۔

سٹوڈنٹ سپانسر پیکج :

تعلیمی درجہ تفصیل ماہانہ خرچ بمعہ قیام وطعام سالانہ خرچ بمعہ قیام وطعام کوس کا کل خرچ کیفیت
حفظ قرآن پرائمری کے بعد (1 + 3 سال) 2000 24,000 96,000 دوران کورس طلبہ وطالبات کو قرآن حفظ کے ساتھ مڈل بھی کروایا جاتا ہے
سکینڈری سکول چھٹی تا میٹرک (5 سال) 2000 24,000 120,000 کلاس 6 تا 10 تک تعلیمی بورڈ کی رسمی تعلیم دی جاتی ہے۔
ڈگری کالج ایف اے تا بی اے ( 4 سال) 2500 30,000 120,000 میڑک پاس طلبہ و طالبات کو BA تک تعلیم دی جاتی ہے۔
ڈبل MA (شہادۃ العالمیہ) ایف اے تا ایم اے (7 سالہ کورس) 3000 36,000 2,25,000 میڑک پاس طلبہ و طالبات کو MA اور شہادۃ العامیہ کروایا جاتا ہے یہ ڈگری HEC سے باقاعدہ منظور شدہ ہے۔
I.com دوسالہ کورس 3000 36,000 72,000 میڑک کے بعد دوسالہ کورس
Fsc دوسالہ کورس 3000 36,000 72,000 میٹرک کے بعد دوسالہ کورس
B.com دوسالہ کورس 5000 60,000 1,20,000 I.com کے بعد دوسالہ کورس

نوٹ : مندرجہ بالا کورسز منہاج القرآن کے مرکزی تعلیمی اداروں واقع ٹاون شپ لاہور میں کروائے جاتے ہیں۔ جہاں پر طلبہ وطالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ تحفیظ القرآن انسٹیٹیوٹ، ماڈل سکول اور کالجز موجود ہیں۔ جن میں اخلاقی اور روحانی تربیت کا خاص اہتمام ہے۔ اس کے علاوہ انجینئرنگ یونیورسٹی اور میڈیکل کالجزاور دیگر تعلیمی ادارہ جات کے مستحق طلبہ وطالبات کو case to case ڈیل کیا جاتا ہے۔ اور حسب ضابطہ ان کی مدد کی جاتی ہے۔

2۔ صحت

منہاج فری ڈسپنسریز

پاکستان میں نصف سے زیادہ آبادی کو صحت کی عام سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ صحت اور سلامتی کو درپیش خطرات اب ماضی کے مقابلے میں بڑی تیزی سے بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں پاکستان کی صورت حال ابتر ہے۔ پاکستان میں اب بھی ملک بھر کے ہسپتالوں میں بستروں کی سہولیات ڈاکٹرز اور نرسوں کی تعداد کل آبادی کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ پاکستان میں ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کولیسٹرول کم کرنے والی جو معروف دوا بھارت میں 8 روپے کی ملتی ہے وہ پاکستان میں 60 روپے میں دستیاب ہے۔ بلڈ پریشر کم کرنے کی ایک دوا بھارت میں 10 روپے فی گولی اور پاکستان میں 100 روپے فی گولی کے حساب سے ملتی ہے۔ کینسر کی ایک مشہور دوا بھارت میں 35 روپے فی گولی اور پاکستان میں 450 روپے فی گولی کے حساب سے ملتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اسی طرح تمام کمپنیوں کی قیمتوں میں کئی کئی گنا فرق موجود ہے۔

باوجود اس کے کہ گولی کی تیاری میں ایک ہی طرح کا سالٹ (بنیادی جزو) استعمال ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال Ceftriaxone انجیکشن کی ہے۔ یہ انجیکشن 63 کمپنیاں تیار کر رہی ہیں جن میں ایک کمپنی 99 روپے اور ایک دوسری کمپنی 543 روپے میں فروخت کر رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے گذشتہ کئی برسوں سے یہ وعدہ کیا جا رہا ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے ایک "ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی" قائم کی جائے گی۔ تاہم ابھی تک یہ وعدہ پایا تکمیل کو نہ پہنچ سکا ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے عوام کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے فری ڈسپنسریز کا آغاز کیا۔ ان ڈسپنسریز میں طبی معائنے کے ساتھ مریض کو تمام ادویات منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی طرف سے مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

اس وقت پورے ملک میں منہاج فری کلینکس اور بلڈ بنکس کی تعداد مجموعی طور پر 102 ہے۔ اس نیٹ ورک پر اس وقت تک چھہتر لاکھ باسٹھ ہزار دو صد چھیالیس /76,62,546 روپے لاگت آئی ہے۔ اور اس سے ہزار ہا افراد روزانہ مستفید ہو رہے ہیں۔

منہاج بلڈ بنک تھیلیسیمیا اینڈ ھیمو فیلیا سنٹر

تھیلیسیمیا ایک نہایت موذی مرض ہے۔ جس میں مبتلا زیادہ تر مریضوں میں پیدائشی طور پر خون کے سرخ خلیات (RBC) نہیں بنتے اور مریض کی تلی اور جگر بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ تھیلیسیمیا میں مبتلا مریض کو ہر 15 سے 21 دن میں ایک خون کی بوتل کی اشد ضرورت ہوتی ہے خون نہ لگنے کی صورت میں مریض نہایت تشویش ناک حالت تک پہنچ جاتا ہے۔

منہاج بلڈ بنکس میں ھیمو فیلیا کے مرض میں مبتلا مریضوں کو بلڈ سے مثلاً FFP (سفید خون) اور علاج کی مفت سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اگر ایک بار کہیں سے خون رسنا یا نکلنا شروع ہو جائے تو خون نکلنا بند نہیں ہوتا۔ انہیں ہر 15 سے 21 دن بعد 2 یا 5 بوتل سفید خون یعنی FFP لگانے خون کی ایک بوتل سے FFP تیار ہوتا ہے۔ بروقت FFP نہ لگنے کی صورت میں مریض کی زیادہ خون ضائع ہو جانے سے موت واقع ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ھیمو ڈائلیسز کے مریضوں کو مفت خون اور اجزائے خون کی فراہمی کو بھی ان شاء اللہ ممکن بنانا ہے۔

ڈائلیسز یعنی گردوں کی صفائی ایک ایسا عمل ہے جس میں مریض کے متاثرہ یا ناکارہ گردوں کی مشینوں کے ذریعے ہر تین سے سات دن بعد صفائی کی جاتی ہے اس بیماری میں مریض میں خون کی تیزی سے کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اور ہر بار ڈائلیسز کے موقع پر مریض کو ایک یا ایک سے زائد خون اور اجزائے خون مثلاً (FFP/Platlets) کی ضرورت ہوتی ہے۔ خون کی فراہمی کے بغیر ڈائلیسز ممکن نہیں اور ڈائلیسز نہ ہونے کی صورت میں مریض کی حالت انتہائی تشویشناک ہو جاتی ہے۔

منہاج بلڈ بنکس کینسر کے مریضوں کو مفت خون اور اجزائے خون کی فراہمی کو ممکن بناتاہے۔ چونکہ بلڈکینسر کے مرض میں مبتلا مریض کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے۔ اور اس میں خون اور اجزائے خون کی بہت تیزی کے ساتھ کمی واقع ہو جاتی ہے اور اس سے زندہ رہنے کے لیے خون اور اجزائے خون مثلاً Platlets وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ خون کی ایک بوتل میں ایک Platlets کی بوتل تیار کی جاتی ہے۔ خون اور اجزائے خون کی فراہمی کے بغیر ان مریضوں کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ خون کی بیماریوں میں مبتلا دوسرے مریضوں میں خصوصاً بچوں کو خون اور اجزاء خون کی فراہمی کو ممکن بناتا ہے۔

منہاج بلڈ بنک تھیلیسیما اینڈ ھیمو فیلیا سنٹر ملتان میں احسن انداز میں اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں تمام بڑے شہروں میں موجود ہسپتالوں کے نزدیک ایریاز میں منہاج فری بلڈ بنکس اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اب تک اس منصوبہ کے تحت ہزارہا لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ اس نیٹ ورک پر اس وقت تک 76 لاکھ 62 ہزار 2 سو 46 روپے لاگت آئی ہے جبکہ اس سے ہزار ہا افراد روزانہ مستفید ہو رہے ہیں۔

فری آئی سرجری کیمپس

آنکھیں اللہ تعالیٰ کا انمول عطیہ ہیں۔ اس وقت دنیا میں 60 لاکھ کے قریب لوگ نابینا ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ لوگ ریٹینائٹس پیگما ٹوسر کی وجہ سے نظر سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے عوام کی سہولت کے لیے پاکستان کے دور دراز کے پسماندہ اضلاع میں فری آئی سرجری کیمپس کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا۔

پاکستان میں مروجہ فری آئی کیمپ سے مراد کسی ایک دن ایک ڈاکٹر سے چیک اپ کروانا اور اس سے دوائی کا نسخہ کا حاصل کرنا لیا جاتا ہے جبکہ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیرانتظام گذشتہ آٹھ سال سے سالانہ فری آئی سرجری کیمپ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس سے ہر سال سینکڑوں مریض مستفید ہوتے ہیں۔

آئی کیمپس کی چند اہم خصوصیات

  1. لاہور کے بڑے ہسپتالوں سے تجربہ کار ڈاکٹرز کی نگرانی میں کیمپ منعقد ہوتے ہیں۔
  2. ان کیمپس میں بین الاقوامی معیار کی ادویات اور سامان استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ اعلیٰ معیار کے جدید ترین طبی آلات استعمال کیے جاتے ہیں۔
  3. یہ کیمپس ان اضلاع میں لگائے جاتے ہیں جو پسماندہ اضلاع ہیں۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن OPD کیمپس لگانے کے لیے ان پسماندہ اضلاع کے دور دراز علاقوں کوخصوصی طور پر فوکس کرتی ہے۔ جہاں سے لوگوں کا غربت اور جہالت کی وجہ سے علاج کے لیے شہر میں آنا مشکل ہوتا ہے۔ اس طرح MWF کے ذریعے انکو گھر جا کر صحت کی یہ سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
  4. ہمارے ڈاکٹرز کی ٹیمیں سرجری کیمپ سے دو ماہ قبل دیہاتی سطح کے دورہ جات کر کے OPD کیمپ لگاتی ہیں۔ جہاں یہ ابتدائی طبی امداد کے مستحق افراد کو موقع پر ہی دوائی فراہم کر دی جاتی ہے۔ جبکہ آپریشن کے قابل مریضوں کوسرجری کیمپ کی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ اس طرح سالانہ تقریباً 3000 مریضوں کی آنکھیں چیک کی جاتی ہیں۔
  5. OPD ابتدائی کیمپوں سے بھیجے گئے مریضوں کے تین دن تک آپریشن ہوتے ہیں جس کی نگرانی پروفیسر سطح کے ماہر ڈاکٹر کر رہے ہوتے ہیں۔
  6. آپریشن کے بعد ایک دن تک مریض کو ڈاکٹرز کی نگرانی میں وہیں رکھا جاتا ہے۔ رہائش اور کھانا منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ذمہ ہوتا ہے۔
  7. ایسے مستحق مریض جن کو آپریشن کے ساتھ ساتھ لینز کی ضرورت ہوتی ہے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ان کو مفت لینز فراہم کرتی ہے اور پوسٹ آپریشن آئی ڈراپس اور ادویات بھی دی جاتی ہیں۔
  8. سالانہ بنیادوں پر تقریباً 500 مریضوں کے آپریشن کیے جاتے ہیں۔
  9. متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے مریض بھی اس کیمپ سے مستفید ہوتے ہیں۔
  10. مستحق مریضوں کے مفت آپریشن اور لینز ڈالے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ جو مستحق مریضوں کی جانچ پڑتال کرتی ہے۔ اس کمیٹی کے کلیئر کردہ مریضوں کے بالکل مفت آپریشن کیے جاتے ہیں۔
  11. منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ان کیمپس سے آپریشن کروانے والے مریضوں کو لاوارث نہیں چھوڑ دیا جاتا بلکہ تین ماہ تک مسلسل فالو اپ (چیک اپ) رکھا جاتا ہے۔ جس میں ہمارے ماہر ڈاکٹر ہر پندرہ روز بعد ان مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں اور حسب ضرورت دوائی اور احتیاطی تدابیر مہیا کی جاتی ہیں۔
  12. ضلعی حکومتیں ان فری آئی کیمپ کو منظم اور بڑے فلاحی کیمپ قرار دے چکی ہیں۔ حکومتی انتظامیہ علاقے کے غریب عوام کو ان کیمپس کے ذریعے زبردست ریلیف فراہم کرنے پر منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کا کئی مرتبہ باضابطہ شکریہ اد ا کرچکی ہے۔

اب تک کی مکمل رپورٹ :

  • 1998ء سے فری آئی سرجری کیمپس کی تعداد : 10
  • چیک اپ کرانے والے مریض : 26,251 عدد
  • آپریشنز کی کل تعداد : 2,032 عدد
  • آپریشن جنرل آئی چیک اپ کی کل تعداد : 28,283 عدد
  • اب تک کا کل خرچ 55,29,954روپے
  • ایک مریض پر آنے والا اوسط خرچ 2000 (لینز کے اخراجات 10,000 روپے)

مستحق مریضوں کی عملی معاونت :

ایسے مریض جن کو ہسپتالوں میں داخلہ، دیکھ بھال اور دوائیوں کی فراہمی میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کے لیے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن عملی طور پر خود ڈاکٹروں سے مل کر مریضوں کی مشکلات حل کرواتی ہے۔ اور اگر ضرورت پڑے تو خود مالی تعاون کر کے مریض کے علاج کو یقینی بناتی ہے۔ اس وقت تک 732مریضوں کی عملی معاونت کی جاچکی ہے۔

3۔ فلاحِ عام

آغوش : (Orphan Care H ome)

ایسے غریب اور بے سہارا بچے جن کے والدین اس دنیا میں نہیں رہے ان کی بہترین پرورش اور تعلیم وتربیت اس معاشرے کی ذمہ داری ہوتی ہے اگر ایسے کسی ایک بچے کی مناسب تربیت نہ ہو سکے تو وہ بگڑ کر معاشرے میں فساد کا باعث بنتا ہے اورا س کا نقصان پورے معاشرے کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں یتیموں کے ساتھ رحم اور شفقت کرنے کے احکامات جگہ جگہ ملتے ہیں۔ ان ہی تعلیمات کی روشنی میں یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت، تعلیم وتربیت کاایک جامع منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ آغوش 500 یتیم بچوں کی پرورش کا ادارہ ہو گا۔ جس کے پہلے فیزکا اغاز ہو چکا ہے۔ اس میں 50بچوں کی تعلیم وتربیت اور رہائش کا اعلیٰ انتظام موجود ہے۔

چند خصوصیات :

  • آغوش میں صرف یتیم اور لاوارث بچوں کو ہی لیا جاتا ہے۔
  • بچے کی بہترین تعلیم وتربیت کا بندوبست کیا گیا ہے۔
  • بچے کومکمل رہائش فری فراہم کی گئی ہے۔
  • بچے کو میعاری اور ضروری خوراک مثلاً (دودھ اور پھل وغیرہ) بھی فراہم کی جاتی ہے۔
  • بچوں کی نگرانی کے لیے ایک آیا (ماں) کا تقرر کیا گیا ہے۔
  • بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے کے لیے باقاعدہ قاری کی تقرری کی گئی ہے۔
  • شام کے اوقات میں تعلیم دینے کے لیے باقاعدہ اساتذہ کا تقررعمل میں لایا گیا ہے۔
  • بچوں کو ایک گھر کا ماحول دیا گیا ہے تاکہ ان کے اندر احساس محرومی پیدا نہ ہوسکے۔
  • داخلے کے بعد بچے کی تمام تعلیم وتربیت، جوان ہونے پر کاروبار اور شادی کی ذمہ داری بھی ادارہ پر ہوگی۔
  • بچوں کی کفالت کرنے والے کفیل (Doner) کو باقاعدہ ایک بچہ آلاٹ کیا جاتا ہے اور ہر لمحہ اس کی کارکردگی سے اس کو آگاہ رکھا جاتا ہے۔

بیت المال

خط افلاس کی لکیر 457 روپے ماہانہ فی کس سے شروع ہوتی ہے۔ اور پاکستان کی 40 فیصد عوام کی اوسط آمدنی اس سے بھی کم ہے۔ ملک میں اس وقت 6 کروڑافراد غربت کی دلدل میں غرق ہیں۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم بلکہ ظالمانہ تقسیم کا یہ نتیجہ ہے۔ وسائل وذرائع آمدن پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ مہنگائی سے عوام کی اکثریت غربت و تنگ حالی وتنگ دستی افلاس اور بھوک میں مبتلا ہے۔

بے روزگاری کی وجہ سے زیر کفالت افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت 65 افراد کے حصہ میں 100 افراد زیر کفالت آتے ہیں۔ جبکہ تیزی سے بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کے پیش نظر 2018 میں 40 افراد کے حصہ میں 100 زیر کفالت افراد آئیں گے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق ہماری ہاں بے روزگاری کی شرح 19.7 فیصد تھی۔ جس میں مردوں کی شرح 20.2 فیصد اور عورتوں کی شرح 5.1 فیصد تھی۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی پاکستان کی صورتحال ابتر ہے۔ ڈاکٹروں سے علاج کرانا اتنا گراں ہو گیا ہے کہ عام ناخواندہ اور غریب لوگوں کا زندہ رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

حقیقت یہ کہ 74 فیصد آبادی کی یومیہ آمدن 120یعنی 2ڈالر سے بھی کم ہے۔ جبکہ سرکاری طور پر ماہانہ اجر کی شرح 4 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ گذشتہ 5 سال کے درمیان غریب اور درمیانے درجے کے لوگوں پر اقتصادی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ 5 سال میں چاول کی قیمت 200 فیصد، گھی 110 فیصد، چینی 50 فیصد، آٹا 40 فیصد، بڑا گوشت 150 فیصد اور بکرے کے گوشت کی قیمت میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں۔ ایسے گھرانے بکثرت موجود ہیں جہاں بچے پھل کی شکل بھی نہیں دیکھ پاتے۔

اس تمام صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے تعلیم، صحت اور فلاح عام کے میدان میں غریب مجبور اور پسے ہوئے طبقات کی مدد کے لیے ماہانہ بنیادوں پر بیت المال فنڈ کا اجراء کیا۔ اسلامی معاشرے میں بیت المال کی نہایت اہمیت ہے۔ یہ غریب اور نادار لوگوں کی امداد اور بحالی کا ادارہ ہوتا ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے شریعت محمدی کی روشنی میں "بیت المال" قائم کیا ہے۔ تاکہ مستحقین کی بروقت امداد کی جاسکے۔ اس سے ایسے افراد کی مالی مدد کی جاتی ہے۔ جو کہ ایک دفعہ کی فوری امداد سے اس پریشانی کی کیفیت سے نکل سکیں۔ مثلاً

  1. چھوٹے کاروبار کے لیے امداد
  2. علاج کے لیے دوائیوں کی فراہمی
  3. بچیوں کی شادی کے لیے معاونت
  4. راشن وغیرہ کی فراہمی
  5. روزگارکی فراہمی

طریقہ کار :

باضابطہ درخواست فارم پر تحریری درخواست وصول کی جاتی ہے۔ سائل کو درخواست کے ساتھ متعلقہ دستاویزات کی نقول لف کرنا ہوتی ہیں۔ ہمارا نمائندہ خود تصدیق کرتا ہے۔ ویلفیئر بورڈ حتمی منظوری دیتا ہے۔

قیام سے اب تک اس سلسلہ میں درج ذیل رقم خرچ کی گئی ہے۔

  • طبی امداد کے لیے دی گئی رقم 41,61,500 روپے
  • جہیز فنڈ کے لیے دی جانے والی رقم 36,38,852 روپے
  • مالی طور پر مجبور لوگوں کو دی گئی رقم 39,78,367 روپے
    ٹوٹل 1,17,78,719 روپے

اجتماعی شادیاں

اسلام نے انسانی معاشرے کی اصلاح کا آغاز ہی تکریم نسواں سے کیا لہٰذا جب اسلام نے حرمت نسواں کی بات کی تو اس کے ظاہر وباطن کی حفاظت کا سامان بھی فراہم کیا تاکہ وہ کسی طرح بھی شرف انسانی کے مقام سے نیچے نہ گر سکے۔ اسلام نے ایک عورت کی معاشرتی وسماجی تقدیس کو برقرار رکھنے کے لیے ارتکاء نسل انسانی کی غرض سے شادی جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کا حکم دیا۔

ہمارے معاشرے کی ستم ظریفی ہے۔ کہ اس میں بیٹی کی شادی جیسا مقدس فریضہ بھی والدین پر بوجھ بن چکا ہے لڑکے والے منہ مانگے جہیز کے منتظر ہیں جس کی وجہ سے والدین بیٹی کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کے جہیز کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ باپ اور بھائی پندرہ سے بیس سال محنت کر کے ایک بچی کے جہیز کے سامان کی بمشکل صورت بنا سکتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ والدین کی کل زندگی بچیوں کی رخصتی کی نظر ہوجاتی ہے۔ لیکن پھر بھی سب والدین کے لیے ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ والدین اور بھائی انتہائی کوشش کے باوجود لڑکے والوں کی ضرورت کے مطابق جہیز تیار نہیں کر سکتے۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ مایوس ہو کر والدین یابھائی خود کشی کرلیتے ہیں اور بعض دفعہ تو لڑکی خود کوخاندان پر بوجھ سمجھ کر خود کشی کر لیتی ہے اور معاشرہ بے حسی کا پیکر بنا ہوا اس برائی کے ہاتھوں پس رہا ہے۔

ایسے ملکی حالات میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس معاشرتی مرض کی بروقت تشخیص کرتے ہوئے اس کے علاج کے لیے عملی قدم اٹھایا اورمنہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ذریعے ایسے غریب اور نادار گھرانوں کو ان کے اس فریضہ کی ادائیگی میں مکمل عملی ومالی تعاون فرما کر ہزاروں غریب مستحقین کے چہروں پر خوشیاں لوٹا دیں۔

پچھلے چند سالوں میں اجتماعی شادیاں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کا طرہ امتیاز بن چکا ہے صرف لاہور میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے دیگر کئی شہروں میں بھی اجتماعی شادیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی تنظیمات نے مقامی وسائل سے ایسی غریب اور نادار بچیاں جن کے والدین ان کی رخصتی کے لیے جہیز کا سامان نہیں کرسکتے کے لیے اجتماعی شادیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ ان اجتماعی شادیوں کی چند بنیادی معلومات اور تفصیلات درج ذیل ہیں۔

  1. دلہن کو گھر کی ضرورت کا مکمل جہیز فراہم کیا جاتا ہے۔
  2. دلہا اور دلہن دونوں طرف کے 50/50 مہمانوں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
  3. دلہا اور دلہن دونوں کے مہمانوں کی بھر پور آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ اور ان کے بیٹھنے کے لیے عالی شان انتظام کیا جاتا ہے۔
  4. اس بات کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتاہے کہ کسی بھی سطح پر دلہا، دلہن یا ان کے رشتہ داروں کو احساس محرومی نہ ہو اور وہ عزت کے ساتھ اس پروگرام میں شریک ہوں۔
  5. اس موقع پر درج ذیل اشیاء پر مشتمل برائیڈل گفٹ بھی نوبیاہتے جوڑے کو دیا جاتا ہے۔

برائیڈل گفٹ :

  1. جائے نماز
  2. قرآن پاک
  3. سلائی مشین
  4. ٹی سیٹ + کیٹلری سیٹ
  5. ڈنر سیٹ
  6. ڈبل بیڈ + بیڈ شیٹ
  7. رضائیاں
  8. گیس والا چولہا
  9. سوٹ کیس/ بریف کیس
  10. دلہا دلہن کے لیے سوٹ
  11. بڑی پیٹی لوہے والی
  12. چار کرسیاں + ایک ٹیبل
  13. کلر ٹیلی ویژن
  14. DVD پلیر
  15. سونے کا سیٹ
  16. واشنگ مشین
  17. پیڈسٹل فین
  18. 50 افراد کے کھانے کا اہتمام

مجموعی طور پر اس وقت تک 270 بچیوں کی شادیاں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیرانتظام ہو چکی ہیں۔ جبکہ ایک بچی کی شادی پر تقریباً ایک لاکھ روپے خرچ آیا ہے اور ٹوٹل خرچ 2,70,00,000 روپے ہے۔ مقامی سطح پر ان شادیوں کے لیے مخیر حضرات کا تعاون منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن پر اعتماد کی علامت ہے۔

ویمن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ

پاکستان میں 55 فیصد آبادی خواتین کی ہے جس کا ملکی معیشت میں اہم کردار ہے خواتین کو ہنر مند بنا کر معاشرے اور گھر میں مؤثر مقام دینا معاشرے کی اولین ترجیح ہے اس سلسلے میں خواتین کے لیے دستکاری سکول کمپیوٹر سنٹرز اور فنی تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں خواتین کی فنی تعلیم کا اعلیٰ انتظام موجود ہے علاوہ ازیں بیوہ خواتین کی فلاح و بہبود کے منصوبہ جات میں سلائی اور دستکاری مشینوں کی مفت فراہمی کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔ تاکہ وہ خواتین گھر میں بیٹھ کر باعزت طریقے سے زندگی گذار سکیں۔ بیوہ خواتین کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے محفوظ رکھنے کے لیے سلائی مشینوں کی فراہمی کا منصوبہ شروع گیا ہے۔ تاکہ وہ بیوہ محنت مزدوری کر کے پیٹ پال سکے اور عزت کی زندگی گزارے۔ اس منصوبے کے تحت اس وقت تک 113 مشینیں فراہم کی جا چکی ہیں۔ جن پر 3,95,500 روپے لاگت آئی۔

عید گفٹ اور راشن سکیم

انسانی بقا کے لیے خوراک سب سے ضروری چیز ہے خوراک اور آبادی کے درمیان موجود رشتہ ایک شک پیدا کرتا ہے کہ آیا خوراک کی موجودہ پیداوار دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ 2007ء میں پاکستان کے اندازاً 16 کروڑ سے زائد عوام کی ضروریات پورا کرنے کے لیے خوراک کی پیدا وار میں بہت زیادہ اضافے کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ بیماریوں سے محفوظ رکھنے والی غذائیں ہمارے ہاں بہت کم ہے جو کہ عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ غذائی ضروریات کے نصف سے بھی کم ہے۔ خوراک کی فی کس پیدا وار میں اضافے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں خوارک کی کمی کی وجہ سے لوگوں میں بیماریوں کی شرح زیادہ ہے۔ اس وقت 10 فیصد سے زائد پاکستانی بچے ناقص غذا سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں غذائی اجناس کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لوگوں کے لئے غذائیت والی خوراک کی فراہمی کو ممکن بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

یہ ایک حقیت ہے کہ خوراک کی کمی سے متاثرہ افراد کا تعلق غریب اور نچلے طبقے سے ہے اکثر غریب لوگوں کی فاقوں کی وجہ سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ اور غربت کے مارے لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم ہیں۔ عام حالات تو درکنار عیدین کے موقع پر بھی غریب کا بچہ نئے کپڑوں سے محروم رہتا ہے۔ عید والے دن کئی گھروں میں سویاں تک پکنے کی چھوٹی سی خوشی اور رسم بھی نہیں ہو سکتی۔ ایسی صورتحال میں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت ایسے ہی غریب اور مجبور افراد میں خوشیاں تقسیم کرنے کے لیے عید گفٹ اورخوراک (راشن) سکیم کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس سکیم کے تحت غریب اور نادار گھرانوں میں عید کے موقع پر راشن سویاں اور مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے۔ جبکہ بچوں کے لیے کپڑے اور مہندی بھی مہیا کی جاتی ہے۔ اسی سکیم کے تحت متاثرین قحط سالی (بلوچستان) کے لیے 25,10,000 کی خوراک بھیجی گئی۔ جبکہ مستقل بنیادوں پر بھی راشن کی فراہمی کے منصوبوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کے تحت اب تک 18,32,123 روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔

واٹر پمپ انسٹالیشن

پانی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک گراں قدر نعمت ہے۔ پانی انسانی زندگی کے لیے ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں۔ پانی قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ کرہ ارض پر زندگی کے وجود میں معاون عوامل میں پانی کا ایک نمایاں مقام ہے۔ ہماری زمین کا 3/4حصہ پانی پر مشتمل ہے پانی کی اہمیت کودنیا کا ہر ملک تسلیم کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر انسان کے لیے روزانہ چار گیلن پانی درکار ہوتا ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق شہری آبادی کو 50 کیوبک میٹر فی کس سالانہ یا 30 گیلن فی کس پانی کی ضرورت ہے جس کی فراہمی شہروں میں تو ممکن ہو سکتی ہے لیکن پسماندہ علاقوں میں فی کس ایک گیلن صاف پانی کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کوہستانی اور صحرائی علاقوں میں پانی کے حصول کے لیے بالخصوص خواتین طویل فاصلے طے کرتی ہیں۔ جوہڑوں اور چشموں پر ٹوٹ پڑنے والے انسانوں اور جانوروں کی وجہ سے ان کا آلودہ پانی کئی امراض کا سبب بن جاتا ہے۔ ان میں پیٹ اور گردوں کے علاوہ جلدی امراض بھی شامل ہوتے ہیں۔ پانی کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ اکثر چیزوں کو اپنے اندر حل کر لیتا ہے۔ اس لیے بہت جلد آلودہ ہو جاتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے اندرونی علاقوں میں زیر زمین پانی میں سنکھیا کی شمولیت کی خبریں بھی تشویش ناک ہیں۔ پانی میں سنکھیا کے شامل ہونے سے مختلف قسم کے سرطان لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایک لیٹر پانی میں 10 مائیکرو گرام سنکھیا کی مقدار سرطان کا سبب بن جاتی ہے۔ پانی اور صفائی کے مسائل سے پیدا ہونے والی بیماریاں پاکستان میں بچوں کی 60 فیصد اموات کا سبب ہیں پانی کی کمی سے Dehydration پانی اور نمکیات کی کمی کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 80 فیصد بیماریاں ناقص پانی کے استعمال سے جنم لیتی ہیں۔

جنوب مشرقی ایشیاء میں سرطان زیر زمین پانی میں معدنی اجزاء کے گھلاؤ اور چٹانوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے شامل ہوتا ہے لیکن صنعتی فضلات کے زمین میں جذب ہونے کی وجہ سے زہر آلودگی کی یہ شرح بڑھ رہی ہے۔ پانی میں صنعتی فضلات اور کیڑے مار دواؤں اور کیمیائی کھاد کی شمولیت نے پانی کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ ایشیاء میں "سونامی" اور امریکہ میں سمندری طوفان " کترینا" کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی کی اہمیت اور افادیت واضح اور ضروری ہو گئی ہے۔ اس کے لیے بروقت اور پیشگی تیاری لازمی اور اہم ہے۔

ماضی میں موسمی تغیرات کے نتیجے میں جہاں پانی کی قلت ہوئی وہاں انسانی آبادیاں نقل مکانی کے سبب ویران ہوتی رہیں موجودہ دور میں سائنسی ترقی کے بل بوتے پر زمین کی گہرائیوں سے مشینی آلات کے ذریعے آبی وسائل کو استعمال میں لانا ممکن ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ زیر زمین پانی کے ذخائر بھی محدود ہیں اور توازن کے ایک نظام کے تحت قائم ہیں۔ گذشتہ آٹھ سالوں میں پاکستان کی شہری آبادی میں 10 سے 12 گنا اضافہ ہوا۔ شہری علاقوں میں پانی کی ضروریات میں اضافے کی شرح اس سے بھی زیادہ ہے۔ بین الاقوامی میعار کے مطابق شہری آبادی کو 50 کیوبک میٹر فی کس سالانہ یا 30 گیلن فی کس یومیہ پانی کی ضرورت ہے۔ کوہستانی اور صحرائی علاقوں میں پانی کے حصول کے لیے بالخصوص خواتین طویل فاصلے طے کرتی ہیں۔ جوہڑوں اور چشموں پر ٹوٹ پڑنے والے انسانوں اور جانوروں کی وجہ سے ان کا آلودہ پانی کئی امراض کا سبب بن جاتا ہے۔

پاکستان کے اندر اس وقت تقریباً نصف سے زیادہ آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے اکثر جگہ پر گندہ پانی ہی پینے کو دستیاب ہے۔ جس کی وجہ سے خطرناک بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے بعض جگہوں پر خواتین کئی کئی میل کا فاصلہ طے کر کے پینے کے لیے ایک وقت کا پانی لے کر آتی ہیں۔ اس ضرورت کے پیش نظر ملک بھر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کے تحت مجموعی طور پر تقریباً 1500 واٹرپمپ لگوانے کا منصوبہ زیر تکمیل ہے اس وقت تک مجموعی طور پر تقریباً 750 پمپ لگا دیئے گئے ہیں جس پر اٹھنے والے کل اخراجات 34.,68,600 روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ جبکہ ابھی پمپس کی تنصیب جاری ہے اس منصوبہ کے تحت درج ذیل اضلاع میں واٹر پمپس لگائے گئے ہیں۔

  1. لاہور
  2. شیخوپورہ
  3. راولپنڈی
  4. اسلام آباد
  5. پلندری (آزاد کشمیر)
  6. میر پور ( آزاد کشمیر)
  7. تراڑکھل (آزاد کشمیر)
  8. جھنگ
  9. لیہ
  10. ڈیرہ غازی خان
  11. بہاولپور
  12. مظفر گڑھ
  13. ملتان
  14. سرگودھا
  15. گوجرنوالہ
  16. جہلم
  17. گجرات
  18. فیصل آباد
  19. راجن پور
  20. مانسہرہ (سرحد)
  21. کوہاٹ (سرحد)
  22. میانوالی
  23. جعفر آباد (بلوچستان)
  24. نصیر آباد (بلوچستان)

قدرتی آفات کے متاثرین کی بحالی

ملک پاکستان یا پاکستان سے باہر جس سطح پر بھی خدانخواستہ کوئی قدرتی آفت آتی ہے تو منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن اس قدرتی آفت کے متاثرین کی بحالی اور امداد کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ اس کی کارکردگی درج ذیل ہے۔

نوٹ : یہ کوائف مقامی تنظیمات سے حاصل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کیے گئے ہیں جو کہ انہوں نے خود ارسال کیا۔

1 افغان اور کشمیری مہاجرین کی امداد 47,00,318
2 متاثرین سیلاب (اندرون سندھ) 20,10,000
3 متاثرین قحط سالی (بلوچستان) 25,10,000
4 متاثرین بارش (گلگت) 2,00,000
5 متاثرین سیلاب (نالہ لئی راولپنڈی) 9,00,000
6 متاثرین زلزلہ (بام ایران) 55,00,000
7 متاثرین سونامی (انڈونیشیاء) 1,00,00,000
8 متاثرین برف باری (مری، ایبٹ آباد، مانسہرہ) 10,00,000
9 متاثرین بارش نصیر آباد۔ پسنی وغیرہ 5,00,000

قیام سے اب تک ان تمام آفات میں مجوعی طور پر 2,73,20,318 (دو کروڑ تہتر لاکھ بیس ہزار تین صد اٹھارہ) روپے خرچ کیے گئے۔

سمندری طوفان (سونامی)

مورخہ 26 دسمبر 2004ء کو ساؤتھ ایشیاء میں آنے والے زلزلے اور سونامی نے انڈونیشیاء، سری لنکا اور تھائی لینڈ سمیت دنیا کے 12 اہم ممالک کو اپنی تباہ کاریوں کی لپیٹ میں لے لیا جس کے نتیجے میں ہزاروں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ان گنت شہر تباہ ہوئے۔ بڑی بڑی مضبوط عمارات منہدم ہو گئیں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے کئی ملین افراد بے گھر اور بے آسرا ہو گئے۔ ان مصیبت زدہ اور تباہ حال لوگوں کے علاج معالجے، خوراک، رہائش اور نئے سرے سے بحالی میں مدد کے لیے پوری دنیا میں سرکاری وغیر سرکاری اور انفرادی واجتماعی سطح پر مختلف تنظیموں نے بھرپور طریقے سے فنڈز جمع کرنے کے لیے مہمات چلائیں وہاں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن بھی اس کاوش میں کسی دوسری ویلفیئر تنظیم سے پیچھے نہیں رہی۔

منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے سونامی سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے انڈونیشیاء کے صوبہ بند اچے میں اپنی خدمات سرانجام دیں۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے آچے کے متاثرہ علاقوں میں امدادی پیکج کے لیے فیز - 1 کے طور پر ایمرجنسی ریلیف ایڈ اور مسجد "رحمت اللہ" کی مرمت کے علاوہ جو خدمات سرانجام دیں وہ درج ذیل ہیں۔

  1. مکانات کی تعمیر
  2. فشنگ بوٹس کی فراہمی
  3. 120 خاندانوں کو روزگار کی فراہمی
  4. واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی فراہمی
  5. آچے کے یتیم بچوں کے لیے منہاج یونیورسٹی لاہور (پاکستان) میں سکالرشپ
  6. اس منصوبے پر ایک لاکھ امریکن ڈالر خرچ ہوئے۔

متاثرین زلزلہ (کشمیر)

مورخہ 8 اکتوبر کی صبح کشمیر، شمالی علاقہ جات، سرحد کے بعض اضلاع اور اسلام آباد میں اچانک شدید قسم کا زلزلہ آنے سے قیامت صغریٰ برپا ہوئی۔ جس سے ہنستے بستے شہر، بازار، کاروباری مراکز، تعلیمی ادارے، مواصلاتی نظام، ہسپتال، دیہات، اور پہاڑوں پر پھیلی ہوئی چھوٹی چھوٹی آبادیاں اور گھر تباہ وبرباد ہوئے خوبصورت رہائشی مکانات اور مضبوط عمارات آناً فاناً ملبے کا ڈھیر بن گئیں، لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے، ہزاروں لوگ ملبے کے نیچے دب گئے، بے شمار لوگ زخمی ہو گئے، ہزاروں بچے، مرد اور عورتیں زندگی بھر کے لیے معذور اور اپاہج ہو گئے، لاتعداد بچے والدین کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے، ان گنت بوڑھے والدین بے سہارا اور بے آسرا اور ہزاروں خواتین بیوہ ہو گئیں۔

غیر معمولی تباہی دیکھ کر بڑی تعداد میں لوگ ہوش وحواس گم کر بیٹھے، لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ کروڑوں کے کاروبار اور سازو سامان مٹی کے ڈھیر میں بدل گئے۔ یک لخت مکانوں کی چھتیں اور دیواریں گرنے سے اہل خانہ پر جو قیامت صغریٰ ٹوٹی اور آہ و بقاء کے دل گداز مناظر دیکھنے میں اور سننے میں آئے اور پھر جس طرح پختہ راستے، سڑکیں، حتیٰ کے پہاڑ بھی پھٹ گئے۔ اور عینی شاہدین کے مطابق صرف کئی منزلہ عمارات ہی نہیں بلکہ متعدد دیہات بھی زمین کے اندر دھنس گئے اور یوں ہنستی بستی پررونق انسانی آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔

اس اندوہناک سانحہ میں خوش قسمتی سے جو چھوٹے بڑے لوگ اور مردو خواتین زندہ بچ گئے ہیں اموال واملاک کاروبار اور گھر خویش و اقارب، دوست احباب اور اہل واعیال کی ہلاکت کے بعد ان کی زندگی کتنی دوبھر ہوگئی ہے۔ مصائب وآلام کے کتنے پہاڑ ان کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں کتنی مشکلات درپیش ہیں جان جوکھوں اور پیٹ کاٹ کر بڑی چاہتوں اور خواہشوں بلکہ بڑی قربانیوں سے تیار کیے گئے گھروں کے آنکھوں کے سامنے ملبے کا ڈھیر بننے کے بعد اس مہنگائی کے دور میں دوبارہ حسب منشاء وتمنا گھروں کی تعمیر کتنی مشکل ہے۔ یتیم اور بے سہارا بچوں کا وارث کون بنے گا؟ معذور اور اپاہج لوگوں کو کون سنبھالے گا؟ بیوہ عورتوں کی کفالت کون کرے گا؟ اس ہمہ جہتی تباہی و بربادی کے تمام اہل وطن پر معاشی ومعاشرتی اعتبار سے کتنے بڑے اثرات پڑے ہیں؟

امتحان و آزمائش کی اس گھڑی میں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے زلزلہ سے متاثرہ لوگوں کی بحالی، مکانات کی تعمیر نو ملبے کے نیچے سے دبے لوگوں کو نکالنے زخمیوں کے علاج معالجے، خوراک، کپڑے، کمبل، خیمے وغیرہ متاثرین تک پہنچانے خیمہ بستیوں اور خیمہ سکولز کا قیام تمام متاثرہ علاقوں کی تعمیری منصوبہ بندی اور لاکھوں متاثرین کی فوری مدد کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز کی فراہمی اور متاثرین کی مستقل بحالی کے لیے متعدد اقدامات کئے ہیں اور منصوبے بنائے ہیں اور مسلسل مساعی کر رہی ہے۔

مورخہ 8 اکتوبر کے تباہ کن زلزلہ میں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن نے متاثرہ علاقوں میں 15خیمہ بستیاں قائم کی ہیں۔ جس میں مظفرآباد، بالاکوٹ، باغ، بٹگرام، وادی نیلم، چکوٹھی، وغیرہ شامل ہیں۔ ان بستیوں میں موجود کم و بیش 1500 خاندان 6 ماہ تک منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر کفالت رہے۔ جہاں عارضی رہائش، خوراک، لباس، جستی چادریں، ادویات، فری میڈیکل سروس اور فری ایمبولینس سروس، تاحال مہیا کی جا تی رہی۔ اس کے علاوہ نقدی کی صورت میں کروڑوں روپے ریلیف دیا جا چکا ہے۔ اس وقت مجموعی طور پر 25 کروڑ روپے سے زائد خرچ کئے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 600 شیلٹرز ہوم بنائے گئے علاوہ ازیں زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں سکولز اور مساجد کے قیام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس منصوبہ پر 1,25,00,000 روپے کا تخمینہ ہے۔

وسائل کے ذرائع

اجتماعی قربانی

امت مسلمہ ہر سال سنت ابراہیمی کی پیروی میں قربانی کا اہتمام کرتی ہے۔ قربانی ابراہیم علیہ السلام کی وہ سنت ہے۔ جس کی یاد تازہ کرنے لیے ملت بیضاء کو پابند کیا گیا اس میں قربان ہونے والے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی نامہ اعمال میں درج کی جاتی ہے۔ گویا اس کے ثواب کا حساب ہے اور نہ کوئی حد اس پر امت مسلمہ پر اللہ کا احسان ہے کہ قربانی کے گوشت کو حلال قرار دیا گیا۔ قربانیاں سامان معیشت بن گئی۔ قربانی کے جانور معاش کی منڈیوں میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔

قربانی جہاں بارگاہ خداوندی سے قرب اور اجر وثواب کا باعث ہے وہاں معاشرے کے محروم اور مجبور طبقات کو خوشیاں فراہم کرنے کا نادر موقع بھی ہے۔ قربانی صرف عبادت اور ثواب ہی نہیں بلکہ یہ ہماری معیشت اور معاش کا سامان بھی ہے۔ قربانی کا گوشت مساکین وغرباء تک پہنچانے کے علاوہ قربانی کی کھالیں فلاعی منصوبہ جات کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ قربانی کے گوشت کے علاوہ جانوروں کی کھالیں اون اور ریشم استعمال میں لائی جاتی ہے۔ قرآن مجید قربانی کو نا صرف معاش کے لیے مصرف میں لانے کا حکم دیتا ہے بلکہ رب العزت نے ایسا عادلانہ طریق تقسیم بھی تفویض فرما دیا جس کے تحت معاشرے کا ہر فرد خوشی ومسرت سے بہرہ ور ہو سکتا ہے۔ اگر اسی طرح کا افادہ قربانی کے جانوروں سے حاصل کیا جائے تو اس سے ملکی وملی ترقی میں اضافہ ہو۔ عادلانہ تقسیم سے گھرانے کے افراد دیگر معزز افراد فقیر اور مساکین سب تک قربانی کا گوشت پہنچ جاتا ہے یوں معاشرے کا ہر فرد، ہر طبقہ اس سے بہرہ ور ہو جاتا ہے۔ آج پوری دنیا میں منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن آپ کے تعاون سے غریب مفلس اور محروم طبقات کو خوشیوں میں شامل کر رہی ہے۔

منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تحت مرکز پر کی جانے والی اجتماعی قربانی کے ذریعے مالی وسائل حاصل ہوتے ہیں۔ MWF ہر سال عید قربان کے موقع پر کم وبیش 2400 جانور ذبح کرتی ہے۔ اس اجتماعی قربانی میں اندرون اور بیرون ملک دونوں جگہ سے لوگ حصص جمع کرواتے ہیں۔ ان کی ہدایات کے مطابق جانور ( گائے، بکرا، چھترا)خرید کر ذبح کیے جاتے ہیں۔ اور حسب ہدایات گوشت ان کو فراہم کردیا جاتا ہے۔ یا پھر لاہور کے گرد و نواح میں کچی آبادیوں کے غریب لوگوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ اس مہم کے ذریعے غریب لوگوں میں تقریباً 400 من گوشت تقسیم کیا جاتا ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے تقریباً 300 کارکنان 15 دن تک مسلسل محنت کرکے قربانی کے اس عمل کو مکمل کرنے میں مدد دیتے ہیں جبکہ اس قربانی کے ذریعے حاصل ہونے والی کھالیںمنہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی آمدن کا ذریعہ ہیں۔ الحمدللہ عوام کی بھر پور تائید اور اعتماد کی وجہ سے ہر سال اجتماعی قربانی میں حصہ جمع کروانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

زکوٰۃ مہم

اسلام کا نظام زکوٰۃ تاریخ انسانیت میں جدید اور منفرد نظام ہے اور ایسا نظام ہے جس تک انسانی فکر کی کبھی رسائی نہیں ہوئی اور نہ کسی آسمانی شریعت نے اس قدر مفصل نظام وضح کیا بلا شبہ اسلام کا نظام زکوٰۃ اجتماعی، سیاسی، اخلاقی اور دینی پہلوؤں کا حامل ہے۔ بے مثال مالی اور اقتصادی نظام ہے۔ زکوٰۃ بیت المال کا ایک مستقل اور دائمی مصدر ہے۔ جو ناداروں کی اقتصادی ضروریات کی تکمیل کے لیے صرف ہوتی ہے اور دولت کے ارتکاز کے خلاف ایک مؤثر جنگ کی حیثیت رکھتی ہے۔

زکوٰۃ ایک اجتماعی نظام ہے وہ اس لیے کہ درحقیقت معاشرے کے تمام افراد کے لیے یہ ایک ایسا نظام ہے جس سے ہر فرد معاشرہ کو مصائب وآفات سے تحفظ ملتا ہے انسانی آخوت و یکجہتی وجود میں آتی ہے۔ حاصلین (Haves) اور غیر حاصلین (Havesnot) کے فاصلے کم ہوتے ہیں۔ معاشی ناہمواریاں دور ہوتی ہیں۔ غریب اور امیر کے درمیان نفرت اور حسد کی دیواریں منہدم ہوتی ہیں۔ اس طرح معاشرے کے متعدد اعلیٰ مقاصد اور اہداف کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ اور انسانی سماج کے بے شمار مسائل کا حل نکل آتا ہے۔

زکوٰۃ ایک دینی نظام ہے چونکہ زکوٰۃ قلوب کی تطہیر کرتی ہے اور امراء کے نفوس کو بخل سے پاک کرتی ہے۔ اور حسد کومٹا کر محبت اور اخوت پیدا کرتی ہے اس لیے یہ ایک اخلاقی نظام بھی ہے۔ زکوٰۃ مسلمانوں کی کوآپریٹو سوسائٹی ہے یہ ان کی انشورنس کمپنی ہے یہ ان کا پراویڈنٹ فنڈ ہے، یہ ان کے بے کاروں کا سرمایہ اعانت ہے، یہ ان کے معذوروں، اپاہجوں، بیماروں، یتیموں اور بیواؤں کا ذریعہ پرورش ہے۔ لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ لوگ زکوٰۃ نہیں دیتے جو دیتے ہیں وہ پوری ادا نہیں کرتے اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کے لیے کوششیں شروع کیں اور 1980ء میں زکوٰۃ اور عشر آرڈیننس کی صورت میں اس کا نفاذ عمل میں آیا۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جو حکومت تک پہنچتا ہے وہ غریبوں تک نہیں پہنچتا۔ یا زکوٰۃ سے جو مقصد ہے وہ حاصل نہیں ہوتا ایک ماہر معاشیات کے تجزیہ کے مطابق پاکستان میں ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں کروڑ پتی لوگ موجود ہیں۔

ایک شخص جس کے پاس دس کروڑ روپے ہوں اس کی سالانہ زکوٰۃ 25 لاکھ روپے بنتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی سالانہ زکوٰۃ 5 ارب روپے بنتی ہے۔ صرف ایک سال کی زکوٰۃ سے اگر مستحقین کے لیے اوسط درجے کے مکان تعمیر کیے جائیں۔ تو ڈیڑھ لاکھ مکان تعمیر ہو سکتے ہیں۔ اتنی ہی رقم میں اگر یتیم اور بے سہارا بچوں کی پرورش اور تعلیم وتربیت کا انتظام کرنا مقصود ہو تو سارے ملک میں ایک سال کی زکوٰۃ سے 300 ایسے مراکز تعمیر کیے جا سکتے ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔

اگر ملک میں صحیح طریقے سے نظام زکوٰۃ نافذ ہو جائے تو چند ہی سالوں کے اندر اندر پورے ملک میں معاشی انقلاب بپا کیا جا سکتا ہے۔ 5 ارب روپے کی اس سرگرمی سے جس کا کثیر حصہ کاریگروں، مستریوں، مزدوروں اور دکانداروں کے ہاتھوں میں آ جائے گا جو براہ راست عام آدمی کی خوشحالی کا باعث بنے گا۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ہر سال زکوٰۃ کے موقع پر زکوٰۃ مہم چلاتی ہے۔ اس سے مالی وسائل حاصل ہوتے ہیں اور یہ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی دکھی انسانیت کے لیے کی جانے والی عملی کاوشوں کے لیے آمدن کا ذریعہ ہے۔

اپیل

ذرا سوچئے ہمارے اردگرد لاکھوں دکھی بے سہارا یتیم اور قدرتی آفات سے تباہ حال افراد دامن پھیلائے دست سوال دراز کئے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عوام الناس پر بالعموم اوراہل ثروت پر بالخصوص یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ معاشرے کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے خیر کی قوتوں کے ساتھ باہم مل کر کام کریں۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن ان سسکتے اور مقہور افراد کی بحالی اور امداد کے لیے آپ کے تعاون سے مصروف عمل ہے۔ اس کا ساتھ دیجئے اور کروڑہا آنکھوں کے بہتے ہوئے آنسوؤں کو مسکراہٹ میں بدلنے کا عزم کیجئے۔ ان شاء اللہ دکھی انسانیت کی خدمت کا یہ جذبہ ہمارے لیے ضرور توشہء آخرت بنے گا۔ کچھ خبر نہیں کہ کب یہ سانسوں کی مالا ٹوٹ جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے خواب چکنا چور ہو جائیں۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہماری جمع کی ہوئی دولت ہمارے کس کام کی۔ ۔ ۔ ۔ اصل فائدہ مند دولت وہی ہے جو ہم اللہ کی راہ میں خرچ کر کے آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ اور قدرت کا ہم سے وعدہ بھی ہے کہ

کرو مہربانی تم اہل زمین پر
خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر

آگے بڑھیئے اور اپنے صدقات، زکوٰۃ، اور عطیات کے ذریعے اپنے غریب بھائیوں اور بہنوں کی مدد اور یتیم اور بے سہارا بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے دل کھول کر منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کا ساتھ دیجئے اور دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کا سامان کریں۔ اس سے پہلے کہ ہم سے یہ مدت چھین لی جائے۔

اکاؤنٹ نمبر : 1352-93 حبیب بینک لمیٹڈ منہاج القرآن برانچ (برانچ کوڈ 0197)
منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن
366۔ ایم ماڈل ٹاؤن لاہور
Ph : 042-5168365, UAN : 042-111-140-140 Fax : 5168184
www.welfare.org.pk E-mail : info@welfare.org.pk

تبصرہ