قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 25 مئی 1989ء کے دن پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھی اور اس سیاسی پلیٹ فارم سے پاکستان میں حقیقی جمہوریت اور ہر قسم کے ظلم و استحصال سے پاک جدید فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے باضابطہ جدوجہد کا آغاز کیا۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری روایتی سیاستدان ہیں نہ عوامی تحریک روایتی سیاسی جماعت۔ عوامی تحریک کے پیش نظر اول روز سے اقتدار نہیں بلکہ ان اقدار کا احیاء رہا ہے جن کے تحت کوئی ظالم کسی کمزور سے جینے کا حق نہیں چھین سکتا تھا۔ حاکم وقت اس وقت تک خطبہ ادا نہیں کرسکتا تھا جب تک وہ زیب تن کُرتے کے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دے دیتا۔ ایسی اقدار کے احیاء اور نشاۃ ثانیہ کیلئے جدوجہد جس میں حاکم وقت فرات کے کنارے مرنے والی پیاسی بکری کی موت پر بھی خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے پاتا۔ ایسی شفاف گورننس اور انصاف کا نظام جس میںوقت کے سب سے بڑے قاضی اور عادل بھی کہیں کہ اس جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو سزا سے نہ بچ پاتی۔ یہی وہ ریاست مدینہ کا منشور اور گورننس کا ماڈل تھا جو ہر لمحہ قائد انقلاب کے پیش نظر رہا۔ 1990ء کی انتخابی معرکہ آرائی کے بعد قائد انقلاب نے جان لیا کہ موجودہ نظام صرف لُٹیروں،بد قماشوں، رسہ گیروں،قاتلوں ،بھتہ خوروں ،قبضہ گروپوں کا سہولت کار اور معاون ہے اوراس نظام کے تحت متوسط طبقہ کے پڑھے لکھے افراد کوئی سیاسی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ پس عوامی تحریک کی سیاسی جدوجہد ظالم اور استحصالی نظام کی تبدیلی پر مرکوز ہو گئی، ظالمانہ نظام کے بارے میںسب سے بڑے متاثرہ طبقہ یعنی گراس روٹ کے عوام کو ایجوکیٹ کرنے کا بیڑہ اٹھایا گیااور ملک گیر بیداری شعور مہم کا آغاز ہوا، قائد تحریک نے زندگی کے ہر طبقہ کو آگاہ کیا کہ کس طرح قوم اور قومی اداروں کو لوٹا جا رہا ہے اور کس طرح جاگیرداری استحصال اور سرمایہ داری کا جال آکاس بیل کی مانند اسلاف کی قائم کردہ معاشرتی اقدار کے ہرے بھرے درخت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس بیداری شعور مہم اور 28 سالہ سیاسی سفر کے دوران بہت سے نشیب و فراز آئے،قیادت اور کارکنوں کو عملاً آگ اور خون کے دریا سے گزرنا پڑا مگر کسی پیشانی پر پشیمانی کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ آزمائش کی ہر گھڑی میں ان پیشانیوں کی چمک دمک میں اضافہ ہو ا کیونکہ مقصد عظیم اور قائد انمول ہو تو پھرراستے میں آنے والی طائف کی وادیاں اور کر ب و بلا کی گھاٹیاں حوصلوں میں کمی کی بجائے اضافے کا سبب بن جاتی ہیں۔دسمبر جنوری کی خون جما دینے والی سردی بھی عزم و ہمت کی تپش سے حرارت میں بدل جاتی ہے اور 17 جون کی گرمی بزدل قاتلوں کی رگوں میں خون جما دیتی اور انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ پاکستان میں تبدیلی اور انقلاب کی سوچ عوامی تحریک نے دی۔ عوامی تحریک نے بتایا کہ آئین کے پہلے 40 آرٹیکل جو مجبوروں، مظلوموں اور کمزوروں کی داد رسی کیلئے آئین کی کتاب میں شامل ہیں ان پر عمل نہیں ہو رہا۔کرپشن، استحصال کے خاتمے اور حقیقی جمہوریت کے قیام کیلئے ایماندار قیادت کا منتخب ہونا ضروری ہے، اس کے لیے عوامی تحریک نے مطالبہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 62اور 63 پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد اور انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں اورامیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کیلئے وقت بڑھایا جائے۔ عوامی تحریک نے صرف سوچ ہی نہیں دی بلکہ اس سوچ کو عمل کے قالب میں ڈھالنے کیلئے قیادت اور کارکنوں نے وہ قربانیاں دیں جس کا کوئی اور جماعت اور اسکی قیادت تصور بھی نہیں کرسکتی۔ آج بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن اور انقلاب مارچ کے شہداء اور زخمی انصاف سے محروم اور حکومتی مظالم کا شکار ہیں۔ جنوری 2013 میں دھاندلی زدہ انتخابی نظام بدلنے کیلئے تاریخ ساز لانگ مارچ ہو یا’’سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘ کی ملک گیر عوامی جدوجہد ،مئی 2013 کے غیر آئینی الیکشن کمیشن کے منعقدکردہ انتخابات کے خلاف ملک گیر دھرنے ہوں یا 10 نکاتی انقلابی ایجنڈہ کے اعلان کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ظلم و ستم ہویا انقلاب مارچ اور 30، 31 اگست کی رات کا یزیدی جبر،ہر موقع پر عوامی تحریک کی قیادت اور کارکنوں نے جانثاری،سرفروشی ،مشن سے لگن کی قابل فخر داستان رقم کی۔عوامی تحریک کی اس ساری جدوجہد اور قربانیوں کے پیچھے ایک ہی نعرہ تھا کہ’’ ظلم کے یہ ضابطے ہم نہیں مانتے‘‘ اور یہ کہ ’’جوانیاں لٹائیں گے انقلاب لائیں گے‘‘ 2014 کے دھرنے کے بعد عوامی تحریک کی قیادت اور کارکنوں کو یزیدی نظام کے پیروکاروں کی ’’قانونی دہشتگردی ‘‘کا سامنا کرنا پڑا۔پنجاب کے ہر ضلع میں قائد انقلاب ،انقلابی کارکنان کے خلا ف دہشتگردی کی دفعات کے تحت جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے۔ حکومت کی قانونی دہشتگردی کا شکار کارکنان کو جب قائد نے قصاص تحریک کے پہلے رائونڈ کیلئے آواز دی تو پاکستان کا شہر شہر’’ انصاف بشکل قصاص ‘‘کے نعروں سے گونج اٹھااور بتا دیاکہ عوامی تحریک کے کارکن نہ تھکتے ہیں نہ ڈرتے ہیں۔ کارکن بے مثال تو قائد بھی لاجواب۔ قائد انقلاب نے آئین کے ابتدائی 40آرٹیکلز پر عملدرآمد کی بات کی تو فرعونیوں نے انکے خلاف 40مقدمات قائم کر ڈالے۔ عوامی تحریک کے اس 28سالہ سفر کی کامیابی کو مختصراًبیان کیا جائے تو یہ بات فخر سے کی جا سکتی ہے کہ آج ہر شہری ظالم نظام سے نفرت کا اظہار کر رہا ہے اور ہر لیڈر کہہ رہا ہے کہ’’ ڈاکٹر طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے‘‘۔ 28سال قبل قائد انقلاب نے وطن عزیز میں ظلم اور استحصال کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے کی جو سوچ دی تھی اس پر کارکن آج بھی پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہیں اور کارکن اور قیادت کا رشتہ آج پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور توانا ہے اور عوامی تحریک ایک ایسی جماعت بن چکی ہے کہ جس کے عوامی نام اور انقلابی کام سے دنیا واقف ہے۔ عوامی تحریک ہی تبدیلی کا نشان اور دہشتگردی و استحصال کے خاتمے کی علامت ہے۔ 28 ویں یوم تاسیس کے موقع پر اپنی جماعت اور قیادت کے ساتھ عہد وفا نبھانے کا بہترین ذریعہ اسے گراس روٹ پر ری آرگنائز کرنا ہے۔ چیف ایڈیٹر
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جون 2017
تبصرہ