سفر کربلا، مکۃ المکرمہ سے کربلاء تک

تحریر: عین الحق بغدادی

کربلا جیسے موضوع پر اگرچہ تاریخ کی کتابیں واقعات سے لبریز ہیں اور اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اس کا خلاصہ بیان کرنابھی مشکل ہے مگر پھر بھی تاریخ کی اوراق گردانی کرتے ہوئے ان واقعات کو تازہ کرنے کا مقصدصرف اور صرف خانوادئہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا اظہار کرنا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین اسلام ہم تک پہنچانے کے بدلے میں سوائے اہل بیت کی محبت کے اور کچھ نہیں مانگا۔ اس تذکرے کے ذریعہ شہادتوں میں اس عظیم شہادت کو عوام الناس کے ذہنوں میں اجاگر کر کے سنتِ حسینیہ کی ادائیگی کے ذریعے یزیدیت کو روکنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ امام حسین نے 3 ذی الحجہ 60 ہجری کو یزیدیت کے خلاف مکۃ المکرمہ سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس سفر میں بیاسی (82) افراد کا قافلہ آپ کے ہمراہ تھا۔ بنیادی طور پر امام حسین نے کوفہ کا ارادہ اس لیے کیا کیونکہ اہل کوفہ بالخصوص اور اہل عراق بالعموم یزید ملعون کی فسق و فجور پر مشتمل بادشاہت کے انکاری تھے جب انہیں معلوم ہواکہ امام حسین نے بھی نہ صر ف یہ کہ یزید کی بیعت سے انکار کیا ہے بلکہ اُس کی بادشاہت سے اختلاف کرتے ہوئے خروج بھی کر لیا ہے اور مکہ روانہ ہوگئے ہیں اس سے کوفیوں کے حوصلے اور بڑھے، کوفیوں کے خروج کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُس وقت والی کوفہ نعمان بن بشیر بڑے نرم دل انسان تھے، وہ یزیدی حکومت کے دوسرے گورنروں کی طرح زبردستی بیعت نہیں لے رہے تھے۔ اس لیے اہل کوفہ اُن کی نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سلیمان بن صرد الخزاعی کے گھر جمع ہوئے اور امام حسین کو خطوط لکھے کہ آپ کوفہ تشریف لے آئیں ہم یزید کی حکومت کے خلاف آپ کی بیعت کرنے لیے تیار ہیں۔ لہذا امام حسین علیہ السلام مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے تو مکہ سے باہر حاکم مکہ عمرو بن سعید کے لشکر کے سواروں نے آپ کو روکنے کی کوشش کی مگر آپ آگے بڑھ گئے، اسی سفر کوفہ کے دوران آپ کو عرب کا مشہور شاعر فرزدق ملا جو کوفہ سے واپس آرہا تھا، امام عالی مقام نے اُس سے اہل کوفہ کا حال دریافت کیا تو اُس نے کہا امام عالی مقام کوفہ والوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں مگر تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں، قضاء آسمان سے نازل ہوتی ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، آپ نے فرمایا تونے سچ کہا۔ گویا امام عالی مقام کو تقدیر اپنے شاندار انجام کی طرف لے جارہی تھی۔ امام طبری بیان کرتے ہیں کہ فرزدق کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ ہر بات اللہ کے دستِ قدرت میں ہے، اگر اللہ تعالی نے ہماری خواہش کے مطابق کیا تو اُس کے شکر گذار ہوں گے اور اگر قضائے الہی ہمارے مطلب کے خلاف ہوئی تو انسان کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کی نیت میں خلوص اور دل میں پارسائی ہو۔ امام حسین علیہ السلام کے اس قول سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آپکا مقصد بادشاہت، جاہ ومنصب اور مال ودولت کاحصول نہ تھا بلکہ آپ اعلائے کلمۃ الحق کی سربلندی کے لیے نکلے تھے اور اس عمل پر اخلاص اتنا تھا کہ ظاہری کامیابی ملے نہ ملے مگر پھر بھی کامیابی اُنہی کی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ یزید امام حسین کے خلاف جنگ جیت کر بھی ہمیشہ کے لیے ہار گیااور امام علی مقام ظاہری طور پر جنگ ہا ر کر بھی ہمیشہ کے لیے جیت گئے۔ شاعر فرزدق سے مکالمے کے بعد امام حسین آگے بڑھے تو حضرت عبد اللہ بن جعفر کے دوبیٹے عون ومحمد اپنے والد کا خط لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے جس میں واپسی پر اصرار تھا، اس دوران عبد اللہ بن جعفر مکہ کے گورنر عمرو بن سعید سے ملے اور امام حسین علیہ السلام کے لیے تحریری امان کی ضمانت لی اور گورنر کے بھائی یحی بن سعید کو ساتھ لے کر امام صاحب کو واپس مکہ لے جانے کے لیے پہنچ گئے۔ یہاں امام حسین علیہ السلام نے اُن کے جواب میں وہ اصل بات بیان کی جس کی تکمیل کے لیے وہ مکہ میں رکنے کے سب مشوروں کو بالائے طاق رکھ کر کربلاء کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ آپ نے فرمایا: خواب میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا جسے میں ضرور با ضرور پورا کروں گ، خواہ حالات میرے موافق ہوں یا مخالف، عبد اللہ بن جعفر نے پوچھا وہ خواب کیا ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا: میں وہ خواب کسی سے بیان نہ کروں گا یہاں تک کہ اپنے رب سے جاملوں۔ اس بیان سے امام حسین کا مقصد سفر واضح ہوجاتا ہے کہ آپ کسی بھی طرح کے انجام کے ڈر کے بغیر اُس جگہ پہنچا چاہتے تھے جو آپ کا جائے مقتل تھا اور شہادت کا وہ عظیم کارنامہ سرانجام دیتا چاہتے تھے جس سے شہادتیں بھی خیرات مانگتی ہیں۔ امام عالی مقام نے اپنا سفر جاری رکھا۔ بطن رملہ میں آپ کی ملاقات عبد اللہ بن مطیع سے ہوئی انہوںنے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ جانے سے منع کیا اور اُسی خدشے کا اظہار کیا کہ وہاں آپ کو شہید کر دیا جائے گا ۔ آپ نے فرمایا: ہمیں وہی مصیبت پہنچ سکتی ہے جو اللہ تعالی نے ہمارے لیے مقدر کی ہے۔ امام عالی مقام کے ان فرامین سے یوں لگتا ہے کہ آپ اپنے مقصداور مقدر میں بڑے واضح اور پریقین تھے۔ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ پھر مکہ سے کوفہ کے سفر میں ہر کوئی آپ کو روک رہا تھا اور کوفہ نہ جانے کا مشورہ دے رہا تھا۔ کوفہ والوں کی بے وفائی اور آپ کی شہادت کا خدشہ ظاہر کر رہا تھا، مگر سب کے باوجود آپ علیہ السلام پر عزم تھے۔ اس جذبہ و ہمت اور عزم و استقلال کے پیچھے ضرور کوئی بڑی طاقت تھی اور کوئی ایسا حکم تھاجس کی وجہ سے آپ جلدی میں تھے۔ رملہ کے بعد امام عالی مقام کے قافلے کو پڑاو زرود کے مقام پر ہوا، وہاں ایک خیمہ نطر آیا، پوچھنے پر پتہ چلا کہ زہیر بن قین الجبل حج سے فارغ ہو کر کوفہ جا رہے ہیں، آپ نے اسے بلایا مگر اُس نے ملنے سے انکار کر دیا مگر اُس کی بیوی نے طنز کرتے ہوئے اُسے یاد کرایا کہ تمہیں بلانے والے نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور تم انکاری ہو، یہ بات سنتے ہی زہیر کی دنیا کی کایا پلٹی اور فورا امام ھسین کے پاس پہنچا اور کچھ دیر بعد ہشاش بشاش واپس لوٹا اور آتے ہی اپنا خیمہ اکھاڑ کر سارا سامان امام حسین کے قافلے کی طرف روانہ کر دیا اور بیوی کو طلاق دے کر اس کے بھائی کے پاس بھیج دیا اور ساتھیوں سے کہا جو شہادت کا طلبگار ہے وہ میرے ساتھ رکے اور جو جانا چاہتا ہے وہ آخری ملاقات کر کے چلا جائے، سب نے حیران ہو کر پوچھا آخر وجہ کیا ہے۔ اُس کے کہا جنگ بلنجر میں اللہ نے ہمیں کامیابی دی اور مالِ غینمت بھی ہاتھ آیا ہم خوش تھے اُس دن حضرت سلیمان فارسی نے فرمایا تھا : ایک وقت آئے گا تم جوانوں کے سردار امام حسین سے مل کر آن کے دشمنوں سے جنگ کرو گئے، اس جنگ میں تمہیں فتح اورمالِ غنیمت سے زیادہ خوشی ملے گی۔ پڑا سبق اموز واقعہ ہے کہ اہلِ خانہ کی اچھی تربیت ہو تو اچھائی کی طرف لے جاتے ہیں محبتِ رسول میں انسان اپنا سب کچھ بھی قربان کر دیتا ہے جیسے حضرت زہیر نے کیا اور آخری بات یہ کہ سلیمان فارسی بہت پہلے انہیں امام عالی مقام کی معیت میں لڑتے ہوئے شہادت کی خبر دے چکے تھے، حضرت زہیر بن قین بھی ان خوش قسمت لوگوں میں شامل تھے جن کی شہادت کربلاء میں ہوئی۔ اس دوران آپ کو مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ اور عبد اللہ بن قطر کی شہادت کی خبرملی۔ آپ نے زجالہ کے مقام پر پہنچ کر اپنے قافلے کے شرکاء سے خطاب کیا اور مندرجہ بالاتینوں شہداء کا نام لے کر بتایا کہ وہ شہید ہو گئے ہیں۔ اب حالات بدل چکے ہیں، ہماری اطاعت کے دعویداروں نے ہمیں چھوڑ دیا ہے لہذا تم میں سے جو شخص بخوبی واپس جانا چاہئے وہ جاسکتا ہے ۔ آپکی اس تقریر کے بعد راستے سے قافلے میں شامل ہونے والے لوگ واپس چلے گئے مگر مکہ سے چلنے والا(82)افراد پر مشتمل قافلہ قائم رہا۔ اہلِ، کوفہ بھی آپ کی بیعت کے انکاری ہو گئے۔ اہل کوفہ کے اس تیزی سے بدلنے کی ایک بڑی وجہ نعمان بشیر کا گورنری سے معزول ہونا اور اُن کی جگہ ابن زیادہ کا تقرربھی تھا۔ نعمان بن بشیر بنیادی طور پر بادشاہی نظام کو ناپسند کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اہل کوفہ کے ساتھ اُن کا رویہ سخت نہ تھا۔ اس بات کی خبر یزید کو ملی اُس نے بڑی رقم دے کر ایک جاسوس نعمان بن بشیر کے دربار میں بھیجا جس نے اُن سے پوچھا کوفہ میں حکومت کے خلاف بغاوت ہورہی ہے اور آپ خاموش ہیں وجہ کیا ہے؟ اس پر نعمان نے کہا میں گورنری کی قوت استعمال کر کے احکام الہی کے خلاف سرکشی اور خلقِ خدا پر ظلم نہیں ڈھا سکتا، جاسوس نے فوری یزید کو اطلاع کی، یزید نے چند درباریوں کے مشورے پر نعمان بن بشیر کو معزول کر کے کوفہ کو ابن زیادکی گورنری میں دے دیا جو اُس وقت بصرہ کا گورنر تھا۔ ابن زیاد انتہائی سفاک اور شقی القلب شخص تھا۔ اُس نے آتے ہی بڑے بڑے سرداروں کو اپنی حمایت میں لے لیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ چار ہزار کوفیوں کے لشکر نے امام مسلم بن عقیل کی معیت میں گورنر ہائوس پر حملہ کیا۔ مگر کوفی وہاں اپنے سرداروں کو دیکھ کر واپس پلٹ گئے، اور مسلم بن عقیل کے ساتھ چند سو افراد وہ گئے، مسلم بن عقیل کی شہادت کے بعد آخر کار ابن زیاد نے کوفہ کا کنڑول سنبھال لیا۔ اس شقی القلب گورنر نے حر کی سربراہی میں ایک لشکر روانہ کیا جس کی ذمہ داری تھی کہ امام حسین علیہ السلام کے قافلے کو اپنے گھیرے میں لے کر ابن زیاد کے دربار میں پیش کرے۔ مقام ذی حشم میں حر بن یزید کے لشکرنے امام حسین کے قافلے کو گھیر لیا۔ امام عالی مقام نے واپس جانے کی شرط رکھی جسے ردّ کر دیا گیا۔ یہ مقام تھا جہاں سے تقدیر آپ کو راہِ کربلا پر لے گئی، جب لشکر حر کی نگرانی میں آپ کربلا کے مقام پر پہنچے تو آپ کو روک دیا گیا، آپ نے پوچھا اس جگہ کا نام کیا ہے؟ جب پتہ چلا کہ اس کا نام کربلا ہے تو آپ نے فرمایا: یہی کرب وبلایعنی پریشانیوں اور مصیبتوں کا مقام ہے اور یہی ہمارے قتل ہونے کی جگہ ہے۔ قارئین کرام امام عالی مقام کے اس جملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو یقین تھا کہ مقام کربلا پر آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ اسی دوران عمرو بن سعد کا لشکر جو بنیادی طور پر ایران میں کردوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، اُسے حکم دیا گیا کہ پہلے امام حسین کی بغاوت سے نبٹے ۔ لہذا ابن سعد کا یہ لشکر کربلا پہنچ گیا، اس دوران ابن سعد نے ابن زیاد کو امام حسین کا یہ پیغام بھیجا کہ آپ واپس جانا چاہتے ہیں مگر غروروتکبر کی اس علامت نے یہ سمجھا کہ اب امام راہِ فرار چاہتے ہیں۔ حالانکہ وہ بدبخت یہ جانتا نہ تھا کہ آپ کے سفر کے واقعات یہ واضح پیغام دے رہے تھے کہ آپ کو اور آپ کے قافلے والوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ ساتویں محرم کو ابن زیاد بدبخت نے دوسرے حکم نامے کے ذریعہ ابن سعد کو امام عالی مقام کے قافلے کا پانی روکنے کا حکم دیا جس کی تعمیل کے لیے پانچ سو سواروں کو نہر فرات پر تعینات کر دیا گیا، ایک شخص عبد اللہ بن ابی حصین ازدی نے بڑے غرور سے پکار کر کہا: اے حسین! یہ آسمانی رنگ کا پانی ہے مگر آج کے بعد تجھے ایک قطرہ بھی نہ ملے گا۔ نبی کی آل کو اذیت دینے والے نے گویا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دی۔ امام عالی مقام نے فرمایا: اے اللہ اسے پیاس کی حالت میں مار۔ حمید بن مسلم کی روایت امام طبری بیان کرتے ہیں کہ یہ بدبخت بعد میں بیمار ہوا، پانی پیتا تو فوری قے کر دیتا اور پھر پیاس پیاس کرتا مرا۔ قابلِ غور نکتہ ہے کہ اگر امام عالی مقام کی یہ دعا اُس بدبخت کے حق میں قبول ہوگئی تو امام حسین نے اپنے لئے پانی کی دعا کیوں نہ کی ؟ یہی وہ فلسفہ شہادت امام حسین ہے کہ آپ نے ایک ایک لمحے، ایک ایک جگہ اور اپنے ایک ایک عمل سے ایسی تاریخ رقم کی جو قیامت تک یزیدیت کے خلاف لڑنے والوں کے لیے امید و حوصلہ کا ذریعہ ہے۔ آپ نے یہ مثال قائم کر دی کہ دین کو بچانے کے لیے رخصت کی بجائے راۂ عزیمت پر چلنا پڑتا ہے۔ ظاہری اور فوری کامیابی کے بجائے دائمی واخروی کامیابی ہی بہتر ہے۔ اور آج واقعہ کربلا اُن لوگوںکے لیے سب سے بڑا حوصلہ ہے جو یزیدی صفت حکمرانوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھ کر سنتِ حسینی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اسی لئے محرم کے مہینے میں واقعہ کربلا کوتازہ کیا گیا جاتاہے تاکہ لوگوں کے ذہن دنیاوی جاہ وحشمت اور مال و دولت کی گرد میں اس واقعہ کو بھول ہی نہ جائیں، کیونکہ یزیدیت شیطان مردود کی سرپرستی میں ہر وقت مصروف عمل رہتی ہے۔ اگر اُس کے مقابلے کے لیے حسینیت کو زندہ نہ رکھا جائے تو اسلام کا چہر گرد آلو د ہوسکتا ہے۔ اِسی تناظر کو شاعر نے یوں بیان فرمایا:

قتل حسین اَصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

تبصرہ