رپورٹ: نوراللہ صدیقی
17 جون 2018 کے دن شہدائے ماڈل ٹاؤن کی چوتھی برسی پر منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ میں قرآن خوانی کی گئی اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کی بے مثال قربانیوں پر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا اور حصولِ انصاف کیلئے قانونی جدوجہد پر اطمینان کا اظہار کیا گیا اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثائ، سانحہ کے چشم دید گواہان اور زخمیوں کی طرف سے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جرأت مندی کے ساتھ گواہیاں دینے پر انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری،سینئر رہنما و کارکنان شہدائے ماڈل ٹاؤن کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے بڑی تعداد میں جمع ہوئے،قرآن خوانی کے بعدپاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہدا کی یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھائی ،دعا کی اور بعد ازاں میڈیا سے خصوصی بات چیت کی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک اہم بات کی کہ قانون کو قاتل اور مقتول کے درمیان فرق کرنا ہو گا ۔انسداد دہشتگردی کی عدالت کی طرف سے124ملزمان طلب کئے گئے جن میں افسران بھی شامل ہیں۔ یہ افسران جو 17 جون 2014ء کے دن ماڈل ٹاؤن میں موقع پر موجود تھے اور اپنے ماتحتوں کو احکامات جاری کر رہے تھے اور احکامات دینے کی ویڈیوز بھی موجود ہیں جو انسداد دہشتگردی کی عدالت اور شریف برادران اور حواریوں کی طلبی کیلئے لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ کے روبرو بھی پیش کی جا چکی ہے۔ سانحہ میں ملوث ان افسران کو انکے عہدوں سے ہٹایا جائے کیونکہ یہ افسران اپنی سرکاری پوزیشنز کی وجہ سے کیس پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔قتل عام میں ملوث یہ افسران سرکاری لینڈ کروزرزمیں عدالت کے احاطے میں داخل ہوتے ہیں، خصوصی سکواڈ اور پروٹوکول عملہ انکے دائیں بائیں ہوتا ہے، جب یہ افسران انسداد دہشتگردی کی عدالت کے مرکزی دروازے پر پہنچتے ہیں تو سرکاری عملہ اس انداز سے دروازہ کھولتا ہے جیسے مغل خاندان کے شہزادے اپنی راجدھانی کی سیر کو نکلے ہیں اور دربان انکے سامنے بچھتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی طرح سیلیوٹ اور پروٹوکول کے ساتھ قتل عام میںنامزد یہ افسران انسداددہشتگردی کی عدالت میں داخل ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عدالتوں میں قتل عام کے ہر ملزم کو اسی طرح پروٹوکول ملتا ہے جو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ملزمان کو مل رہا ہے؟ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا یہ مطالبہ مبنی برحقیقت ہے کہ انہیں عہدوں سے ہٹایا جائے اور آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔وہ برطرفی کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں انکا مطالبہ فقط اتنا ہے کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک انہیں اہم انتظامی پوزیشنز سے الگ کر دیا جائے۔
مستغیث جواد حامد انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ہراساں اور نامعلوم افراد کی طرف سے تعاقب کئے جانے کی درخواست بھی دے چکے ہیں۔ اسی طرح سانحہ کا ایک چشم دید زخمی گواہ بھی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں درخواست دے چکا ہے کہ سانحہ میں ملوث ایک پولیس افسر انکے گھر بندے بھجوا رہا ہے ،انہیں ہراساں کیا جارہا ہے، اور انہیں مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ گواہی دینے سے باز رہیں۔ ملوث پولیس افسران کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ وہ کمرہ عدالت میں کہتے ہیں کہ ہم صرف بندے بھیجتے نہیں کچھ اور بھی کرتے ہیں۔ ان سب دھمکیوں کا تعلق ملزمان کی سرکاری پوزیشنز کی وجہ سے ہے جسے وہ انصاف کا خون کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی 17 جون کی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ ہمارے کانوں میں محترم چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کا یہ بیان بھی گونج رہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس سے متعلق لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت درخواستوں کا فیصلہ 15دن کے اندر کیا جائے۔ اس ضمن میں لاہور ہائیکورٹ میں شریف برادران اور حواریوں کی طلبی کے ساتھ سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی رٹ پٹیشن کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ مشتاق سکھیرا کو انسداد دہشتگردی کی عدالت نے بطور ملزم طلب کیا اور وہ اس طلبی کیخلاف لاہور ہائیکورٹ چلے گئے اور مسلسل ایک سال سے سٹے آرڈر پر ہیں۔ ان درخواستوں پر فیصلے مزید تاخیر کے بغیر ہو جانے چاہئیں۔ ان فیصلوں کے التواء کے باعث انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جاری ٹرائل بھی کسی نہ کسی شکل میں متاثر ہورہا ہے۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں دونوں طرف کے وکلاء اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد ہو سکتا ہے کہ اے ٹی سی میں ٹرائل کا ازسرنو آغاز کرنا پڑے۔
سابق حکمران جو اس وقت کوچہ اقتدار سے رخصت ہو چکے ہیں اورانکے نزدیک نہ کوئی انسانی خون کی حرمت ہے اور نہ ہی انسانی خون کی حرمت کو یقینی بنانے کیلئے کام کرنیوالے انصاف کے اداروں کی کوئی حرمت ہے۔جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دینے والے سنگل بنچ کے فیصلے پر تاحال 100فی صد عمل نہیں کیا گیا ۔محض رپورٹ تو پبلک کر دی گئی مگر رپورٹ سے لف درجنوں دستاویزات اور بیان حلفی کی کاپیاں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثا کو فراہم نہیں کی گئیں۔ یعنی قاتل حکمران تو چلے گئے مگر ان کی تعینات کردہ بیوروکریسی انکے جانے کے بعد کسی نہ کسی شکل میں ان کے برے اعمال اور اقدامات کو تحفظ دے رہی ہے۔
مذکورہ پریس کانفرنس کے دوران سربراہ عوامی تحریک نے یہ بھی کہا کہ محض شفاف الیکشن کروانا ہی نگران حکمرانوں کی واحد ذمہ داری نہیں ہے، آئین و قانون کے مطابق شہریوں کو انصاف فراہم کرنا بھی انکی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔نگران وزیر اعلیٰ کوہوم سیکرٹری پنجاب کو یہ حکم دینا چاہیے کہ جسٹس باقر نجفی کمشن کی رپورٹ سے منسلک جملہ دستاویزات شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو فراہم کی جائیں۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن محض حادثہ نہیں بلکہ پیشگی منصوبہ بندی کے مطابق وقوع پذیر ہوا۔شریف برادران نے اسکی منصوبہ بندی کی اور انہیں لمحہ بہ لمحہ صورت حال سے آگاہ رکھا گیا۔ 12گھنٹے تک لاہور کا پوش علاقہ میدان جنگ بنا رہا اور آنسو گیس کی شیلنگ اور دھوؤں کے بادل میں گھرا رہا یہ محض حادثہ نہیں ہوسکتا۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ماسٹر مائنڈ شریف برادران ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کو انصاف کے ٹریک پر لانے کیلئے شریف برادران اور انکے حواریوں کی طلبی انصاف کا ناگزیرتقاضا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن سے قبل سانحہ کے دن اور سانحہ کے بعدکے واقعات اور شریف برادران کا رویہ ثابت کرتا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کو نہ صرف تحفظ دیا گیا بلکہ انہیں ترقیوں اور پر کشش پوسٹنگز سے نوازا گیا۔ وہ معمولی پولیس افسر اور اہلکار جنہیں پنجاب پولیس کی اپنی جے آئی ٹی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا قصور وار ٹھہرایا تھا، انہیں بھی جیلوں سے نکلوا کر ان کی مرضی کے تھانوں میں تعینات کیا گیا۔ ہمارے مصدقہ ذرائع کے مطابق جب تک یہ اہلکار جیل میں رہے، ان کے گھروں میں خرچہ بھجوایا گیا اور ان کا مقدمہ کی فیسیں بھی شریف برادران کی طرف سے ادا کی گئیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں جیل میں بند ایک کانسٹیبل برملا کہتا رہا کہ سب جانتے ہیں یہ سارا کچھ کس نے کروایا اور ہمیں قربانی کا بکرا بنادیا گیا۔ اسی طرح ڈاکٹر توقیر شاہ جو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری اور کار خاص تھے انہیں سانحہ کے فوری بعد سفیر بنا کر جنیوا بھیج دیا گیا۔ ان کی تقرری کے حوالے سے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے نوٹس بھی لے رکھا ہے کہ وہ کس میرٹ پرسفیر کے منصب پر بٹھائے گئے؟ اور کیس کے فیصلے تک ڈاکٹر توقیر شاہ کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا یہ سوال بڑا صائب ہے کہ ساری عمر وزیر اعلیٰ کی نوکری کرنیوالے کو کس میرٹ کے تحت سفیر لگایا گیا؟ چیف جسٹس نے ایک موقع پر اہم ریمارکس بھی دئیے کہ ڈاکٹر توقیر شاہ کا نام بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں آ رہا ہے۔
بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی لمحہ بہ لمحہ کہانی کا ایک کردار ڈاکٹر توقیر شاہ ہے۔ ماڈل ٹاؤن میں بیرئیرز ہٹانے کے حوالے سے جتنی بھی میٹنگز ہوئیں، ان میٹنگز میں شہباز شریف کی نمائندگی ڈاکٹر توقیر شاہ نے کی اور جتنا بھی راز و نیاز ہوا وہ ڈاکٹر توقیر شاہ کے ذریعے ہوا۔ ڈاکٹر توقیر شاہ نے جسٹس باقر نجفی کمشن کے روبرو اپنے بیان حلفی میں بھی اقرار کیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے 17 جون 2014ء کی صبح ان سے فون پر رابطہ کیا اور پولیس کو ہٹنے کا حکم دیا جو متعلقہ ذمہ داران تک پہنچا دیا گیا، حالانکہ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جتنی شہادتیں بھی ہوئیں وہ اس ٹیلی فونک پیغام کے بعد ہوئیں۔
یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ اگر وزیراعلیٰ پنجاب نے پولیس کو صبح ساڑھے 9 بجے پیچھے ہٹنے کا حکم دیا اور وہ حکم متعلقہ حکام تک پہنچ گیا تو پھر پولیس نے پیچھے ہٹنے کی بجائے فائرنگ کر کے 100 لوگوں کو لہو لہان کیوں کیا؟ اور کیا وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے بعدازاں اس بات کی انکوائری کروائی کہ میرے حکم پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟ اس اہم سوال کا جواب جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ میں موجود ہے۔ کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ ایسا کوئی حکم وزیراعلیٰ کی طرف سے جاری ہونا سرے سے ثابت نہیں ہوا۔
ان شااللہ تعالیٰ انصاف ہوگا۔ یہ بے گناہوں کا خون ہے، سر چڑھ کر بولے گا اور قاتل جتنے بھی عیار اور مکار سہی بالآخر پھندہ انکی گردنوں تک ضرور پہنچے گا ۔یہاں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے عزم و استقامت پر بھی خراج تحسین پیش کرنا ہو گا کہ جن کی ثابت قدمی کی وجہ سے یہ کیس آج بھی زندہ ہے۔ اسے داخل دفتر کرنے کیلئے قاتل ٹولے نے جتنی بھی کوششیں کیں، وہ سب ناکام ہوئیں۔ اس کیس کی ثابت قدمی کے ساتھ قانونی جدوجہد کی سرپرستی کرنے پر پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ اور تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قاتل ٹولے کی طرف سے کردار کشی کی گئی،تہمتیں لگائی گئیں،ڈیل کی بہتان طرازی کی گئی مگر اللہ کا شکر ہے کہ یہ سب پروپیگنڈا جھوٹ ثابت ہوا ،الزام لگانے والوں کا منہ کالا ہوا اور کیس کی پیروی سے روکنے کے حوالے سے جتنے بھی ہتھکنڈے اختیار کیے گئے وہ سب بے کار ثابت ہوئے۔
آج شہید کارکنان کے حصولِ قصاص کا مطالبہ پوری طاقت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور انصاف کی منزل ہر گزرتے دن کے ساتھ قریب تر ہو رہی ہے۔ یہاں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی لائق صد مبارکباد ہیں کہ جنہوں نے اپنے شہید کارکنوں کے حصول قصاص کی جدوجہد دن رات جاری رکھی اور کسی بھی مرحلہ میں قانونی جنگ کو کمزور نہیں پڑنے دیا۔شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا ہر طرح سے خیال رکھا اوروسائل کی کمی کسی بھی مرحلے پر آڑے نہیں آنے دی گئی اور بہترین وکلاء کی ٹیموں کے ذریعے مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھایا۔ ان شا اللہ تعالیٰ بہت جلد مظلوموں کو انصاف ملے گا۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جوالائی 2018ء
تبصرہ