ایک اسلامی جمہوری ریاست کی پہچان نظریاتی اور اخلاقی قدروں پر تعمیر ہونے والے معاشرے اور افراد کے رویوں سے ہوتی ہے۔ اگر عوام الناس ریاست کے انتظامی، قانونی اور مالی امور ایسے لوگوں کے سپرد کر دے جو اس کی قابلیت اور اِستعداد نہ رکھتے ہوں، جن کی زندگی عمومی طور پر قرآن و سنت کی تعلیم سے بہرہ ور نہ ہو، جن کا اسلامی اخلاق و کردار، امانت و دیانت سے دور دور کا بھی واسطہ نہ ہو تو ان حالات میں تباہی اس قوم کا مقدر اور زوال اس سلطنت کی قسمت میں لکھ دیا جاتا ہے۔ جس ریاست نے معاشرے کے تمام افراد اور طبقات کے درمیان یکجہتی، رواداری اور خیر سگالی کی فضا پروان چڑھانی تھی اور تمام باطل، علاقائی، نسلی اور گروہی تعصبات کو مٹانا تھا وہ عوام کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کی بجائے چند اَشرافیہ کے ہاتھوں لونڈی بن جاتی ہے۔ یہ اَشرافیہ اپنے مفادات کے لیے لوگوں کو قانون اور آئین کی من مانی تعبیرات میں الجھا کر معاشرے میں انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
قانون اور عدلیہ ریاست کا اہم ستون ہے جس کے بغیر کسی بھی ریاست کی عمارت کھڑی نہیں ہوسکتی۔ قانون ایسی فطری ضرورت ہے جس کے بغیر پُراَمن معاشرے کا قیام ناممکن ہے۔ حقوق کا تعین و تحفظ، عدل و انصاف کا قیام اور مظالم کی روک تھام قانون کا بنیادی مقصد ہے۔ قانون کی افادیت اس کے نفاذ پر منحصر ہے۔ عمل کے بغیر یہ محض الفاظ کا گورکھ دھندا رہ جاتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا مفہوم بھی کھو دیتا ہے۔
ایک مہذب معاشرے میں قانون ریاست کی سب سے اعلیٰ اور برتر قوت ہے۔ کوئی فرد، ادارہ اور منصب قانون سے بالاتر نہیں حتیٰ کہ سربراہ ریاست کو بھی قانوناً کوئی استثنیٰ یا امتیاز حاصل نہیں۔ قانون پر عمل درآمد کا مطلب اس کی حقیقی روح اور منشاء کو سمجھ کر اس کے مطابق عمل کرنا ہے لیکن جس معاشرے میں قانون ساز ادارے صرف اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کی خاطر بندر بانٹ میں مصروف ہوں اور ہر منصب پر باہمی مک مکا سے پسندیدہ افراد کی تعیناتی کی جا رہی ہو تو ایسی صورت حال میں ان کے خلاف آواز اٹھائے تو کون اٹھائے؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محض انتخابات کروانا ضروری ہے یا پھر آئین اور قانون کے مطابق صاف شفاف انتخابات کروانا؟ دراصل انتخابات کا مقصد اور غرض و غایت صاحب اقتدار جماعت پر عوامی اعتماد اور ان کی جاری پالیسیوں پر جمہور کا اتفاق یا اختلاف جانچنا ہے۔
ملک پاکستان اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ دنیا جہاں ایک بار پھر یورپی اور ایشین بلاک میں تقسیم ہو رہی ہے، مسلمان سوئے ہوئے ہیں اور ان کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ قوم دہشت گردی، لاقانونیت، عدل و انصاف کے فقدان کی وجہ سے مسائل در مسائل میں دھنستی جا رہی ہے۔ قوموں کی ترقی اور اٹھان ان کی اجتماعی سوچ اور حاکمیت اعلیٰ کے تحت قانون اور آئین پر مکمل عمل داری سے وابستہ ہے۔ لیکن اس شعور کی بیداری کے لیے کسی لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے جو معروضی حالات، ذاتی مفادات اور قبضہ گروپ کے ڈر اور خوف سے بالاتر ہوکر حالات سے سمجھوتا کرنے کی بجائے حق کی آواز بلند کرے۔ مسائل کی درست تشخیص کے ساتھ ان کے حل کے لیے پر امن جدوجہد پر کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے۔ اگر اس سارے پس منظر کو ذہن میں رکھ کر پاکستان میں 65 سال سے جاری کھیل تماشے کا بغور جائزہ لیں تو ڈاکٹر طاہر القادری کا کردار ایک لیڈر کے روپ میں ابھرتا دکھائی دیتا ہے، جس نے ایک تسلسل کے ساتھ تبدیلی کا جو نعرہ 1989ء میں مینار پاکستان کے سائے تلے پاکستان عوامی تحریک کے قیام کے ساتھ لگایا تھا، نہ اس سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی منتخب جمہوری حکومت کے خلاف کسی آمرانہ مہم جوئی میں شامل ہوئے۔
اب جب کہ جیسی تیسی سہی ایک منتخب حکومت اپنا 5 سال کا سفر پورا کر چکی اور عوام کو اپنے نئے نمائندے چننے کا موقع مل رہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان پر اعتراض کیوں ہے؟ کیا ان کا اعتراض اور تحفظات درست ہیں؟ اوّل الذکر معاملہ تو اعلیٰ عدلیہ میں پہنچ چکا ہے اور اعلیٰ عدلیہ جائزہ لے رہی ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے خدشات سے آئندہ ہونے والے الیکشن اپنی غیر جانب داری کی ساکھ برقرار رکھ سکیں گے جو ایسے کمیشن کی زیر نگرانی ہونے جا رہے ہیں جس کا اپنا چناؤ غیر آئینی طریقے سے ہوا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی حالیہ دھرنی - جس سے عوام قطعاً لاتعلق رہے - سے ایک بات تو طے ہو چکی ہے کہ وہ بھی اپنے منتخب کردہ کمیشن کی کارکردگی سے خوش نہیں اور ان کے کردار پر ہر جماعت نے ہی انگلیاں اٹھائی ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی پٹیشن کی پیروی کے لئے کسی دوسرے وکیل کی بجائے خود اعلیٰ عدالت میں اس پٹیشن کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی قانون میں مہارت اور جرح کا انداز کئی سالوں بعد عوام کو دیکھنے کا موقع ملے گا۔ اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ وہ شخص جس کی قوتِ استدلال اور علم و کردار کی ایک دنیا گواہ ہے، جسے مشرق سے مغرب اور یورپ و امریکہ تک اہل علم ایک زبردست اسپیکر اور محقق کے طور پر جانتے اور مانتے ہیں، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے معاملے پر اعلیٰ عدلیہ کو کتنا مطمئن کر سکتا ہے! کیا پاکستان کی آزاد اعلیٰ عدلیہ - جس کا وہ 4 سالوں سے ببانگ دہل دعویٰ کرتی رہی ہے - اپنے فیصلے اس کی روشنی میں کرتی ہے یا گھڑے میں دفن نظریہ ضرورت کا سہارا لے کر جمہوری سفر جاری رکھنے کے بہانے مک مکا والا فیصلہ آتا ہے کہ بہرحال یہ عدالت کا بھی امتحان ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی ہمہ جہت شخصیت جدید و قدیم علوم کا حسین امتزاج ہے۔ آپ نے 1974ء میں پنجاب یونی ورسٹی لاء کالج سے فرسٹ ڈویژن میں LLB کا امتحان پاس کیا اور 1976ء میں جھنگ سے شعبہ وکالت سے منسلک ہوگئے۔ 2 سال بحیثیت ایڈووکیٹ وکالت سے وابستہ رہنے کے بعد پنجاب یونی ورسٹی لاء کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ اس وقت یونی ورسٹی میں سب سے کم عمر لیکچرر آپ ہی تھے مگرذہانت اور محنت کے بل بوتے پر 1983ء تا 1988ء کے دوران آپ کو ایل ایل ایم کے شعبہ اسلامی قانون سازی کا انچارج اور پروفیسر مقرر کر دیا گیا۔ اس دوران آپ نے Punishments in Islam, their Classification & Philosophy کے موضوع پر اپنی PhD مکمل کی۔ ڈاکٹر طاہر القادری لاہور بار ایسوسی ایشن کے لائف ممبر ہیں۔ آپ فیڈرل شریعت کورٹ پاکستان میں بطور مشیر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس دوران 1981ء تا 1988ء کے زمانے میں آپ کو کئی اہم کیسز میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا مشیر بھی مقرر کیا گیا۔
1982ء میں رجم کے حد ہونے پر آپ کے دلائل کو تسلیم کیا گیا۔ توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا موت کو مقرر کرنے کے لیے بھی آپ کے دلائل کو تسلیم کرکے قانون سازی کی گئی۔
1996ء میں قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کے مسئلے پر آپ نے دلائل سے یہ بات ثابت کی اور قانون منظور کروایا کہ قادیانی پاکستان میں ایک غیر اسلامی اقلیت ہیں۔ وہ اپنی مذہبی رسومات کو اسلامی عنوان نہیں دے سکتے۔ ان کے دلائل کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت وقت کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔
1996ء میں تحفظ نسواں اور حقوق نسواں کا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا۔
1998ء میں وہ اسلامی جمہوری اتحاد جسے اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ قومی سازش قرار دے چکی ہے، اس کا پیش کردہ شریعت بل آپ نے قوم اور اسلام کے خلاف سازش قرار دے کر شریعت کے لبادے میں منافقت کا چہرہ بے نقاب کر دیا۔
ابھی پچھلے ہی سال آپ نے مقدس ہستیوں اور انبیاء کی شان کے خلاف گستاخی کو عالمی جرم قرار دینے کے لئے پوری دنیا کے سربراہانِ مملکت کو خطوط بھی لکھے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کو مذہب اسلام کے نمائندہ کے طور پر UN کے اجلاس میں بطور مشیر شامل کرنا آپ کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
آپ نے سیکڑوں مرتبہ مختلف بار ایسوسی ایشنز میں خطابات کیے۔ اپنے خطابات کے بعد سامعین کو کسی بھی موضوع پر کھلے عام سوال کرنے کا موقع دینے اور ان کا تسلی بحش جواب دینے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ’اسلام اور مغربی تصورِ قانون کا تقابلی جائزہ‘ اور کئی ایک کتابیں قانون کے موضوع پر لکھیں۔
کئی ایک آئینی معاملات میں آپ اعلیٰ عدلیہ میں پیش ہوچکے ہیں۔ توہین رسالت جرم کی سزا بطور حد سزائے موت بھی آپ ہی کے دلائل سے تسلیم کی گئی۔ قادیانیوں کے لئے شعائر اسلام کے استعمال کو جائز قرار دینے میں اعلیٰ عدلیہ میں اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی کی حدود کے مشہور ترین کیس میں عدالتیں آپ کے دلائل کی تعریف کرکے کیس کو خارج کر چکی ہیں۔
شریعت بل کی خامیوں پر تحقیقی مقالہ 1991ء میں تاریخ کا حصہ بن گیا، احتساب قوانین میں اصلاح کے لئے 1996ء میں آپ نے جو اصلاحات پیش کیں وہ وقفے وقفے سے اسمبلیاں آئین کا حصہ بناتی رہیں۔
آج کا دن پاکستانی قوم کے لئے بہت اہم ہے اس لئے کہ اس اہم قانونی اور آئینی نکتے کی وضاحت اس کے آئندہ ہونے والے الیکشن پر برے اثرات اور ایسی سازش جس پر سب جماعتوں نے مک مکا کرکے پردہ ڈالے رکھا، بے نقاب ہوسکتی ہے۔ بڑے بڑے قانون دانوں کے کردار اور اسمبلی میں بیٹھے قانون کے محافظوں کی منافقت کے پردے چاک ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اصغر خان کیس کی طرح اس کیس میں سازشی کرداروں کا یقین تو ہو جائے مگر مجرم کسی قابل قدر سزا سے پھر بچ جائیں۔ ایک بات طے ہے کہ حکومت جس کو چاہے اپنا وکیل مقرر کر لے ڈاکٹر طاہر القادری کی ذہانت، قانون شناسی اور زور بیان کا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔ اگر ان کی اس کاوش کے نتیجے میں غیر جانب دار اور باصلاحیت ممبران کا چناؤ ہو جاتا ہے تو الیکشن میں آئین کے آرٹیکل 62، 63 اور 218 کے نفاذ کا بھی حکم آسکتا ہے۔ اس صورت میں بڑے بڑے برج الٹ جائیں گے اور اگلی پارلیمنٹ میں نئے چہرے ہوں گے جب کہ موجودہ کئی ممبران کو ہو سکتا ہے کہ جیل کی ہوا کھانی پڑے۔
تبصرہ