معجزہء معراج اور نظریہء اِضافیت

(عبدالستار منہاجین)

اﷲ رب العزت کی پیدا کردہ وسیع و عریض کائنات کچھ خاص اُصول و ضوابط کے تحت اپنے نظام کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہے۔ یہی وہ اُصول ہیں جن کے بل بوتے پر کارگہ ِہستی رواں دواں ہے۔ قرآنِ کریم میں اﷲ تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے کہ اُس کی سنت (یعنی نظام) نا قابلِ تبدیل ہے۔ یہی سبب ہے کہ آج لاکھوں نوری سال کی وسعت میں بکھرے کروڑوں ستاروں کی پیدائش، اُن کی موجودہ حالت، اُن کے مقناطیسی دائرہء کشش اور اُن میں پائے جانے والے بنیادی عناصر کے حوالے سے ماہرینِ فلکیات نے جتنی بھی تحقیقات کی ہیں، کائنات کے ہر ہر گوشے میں اُنھوں نے ایک خاص یگانگت پائی ہی، اور اس تلاش و جستجو سے اﷲ تعالیٰ کے فرمان ”فَلَن´ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اﷲِ تَبدِیلاً“ (پس تم اﷲ کے نظام میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں پاؤ گے) کی تصدیق فراہم ہوئی ہے۔

اﷲ ربّ العزت نے اِس نظامِ ہستی کو جن قرینوں اور ضابطوں کا پابند ٹھہرایا ہے اُنہیں اِصطلاحاً ”اﷲ کی عادت“ کا نام دیا جاتا ہے۔ خداوند قدّوس نے اِنسانیت کی رُشد و ہدایت اور اِصلاحِ اَحوال کے لئے سلسلہء انبیاء قائم کیا اور ہر نبی کو کسی خاص علاقے یا قوم کی طرف کسی خاص مقصد کی اِنجام دہی کے لئے مبعوث فرمایا۔ پھر جب کسی اُمت نے اپنے پیغمبر کی تکذیب کی تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے اُس برگزیدہ نبی علیہ السلام کی تائید میں اُسی نبی علیہ السلام کے ہاتھ سے کچھ نشانیاں ظاہر فرمائیں۔ انبیاء کے دستِ مبارک سے ظہور پذیر ہونے والی اُن نشانیوں کو ”اﷲ کی قدرت“ کا نام دیا جاتا ہے۔ کسی نبی کی نبوت کی دلیل کے طور پر ”اﷲ کی عادت“ کے مربوط نظام یعنی عالمِ اسباب کے طے شدہ اُصول و ضوابط سے ہٹ کر کسی فعل کے صادر ہونے کو ”معجزہ“ کہاجاتا ہے۔

معجزہء معراج کی دیگر معجزات پر فضیلت:

عالمِ انسانیت کی طرف بھیجے گئے انبیائے کرام کی مجموعی تعداد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔ ہمارے نبیء معظم جمیع اِنسانیت کی طرف مبعوث کئے جانے کی فضیلت کے علاوہ رُتبے میں بھی باقی تمام انبیاء سے بڑھ کر ہیں۔ اِسی طرح آپ کے معجزاتِ مبارکہ بھی دِیگر انبیائے کرام کے جملہ معجزات سے فضیلت اور مقام و مرتبہ میں کہیں اعلیٰ ہیں۔ نبیء آخر الزماں کے سارے معجزات میں سب سے اعلیٰ و ارفع شان کا مالک معجزہ ”معجزہء معراج“ ہے۔ سرورِ کائنات کے بے شمار معجزات پر معجزہء معراج کو نمایاں فضیلت حاصل ہے۔

تاریخِ انبیاء علیھم السلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی کو اﷲ تعالیٰ نے اُس کی حسبِ شان معجزات کی دولت سے نوازا۔ عقلِ اِنسانی کسی زمانے میں جس خاص فن میں مشّاق ہوتی، اُس قوم کے نبی کو اُس کے مطابق ایسا معجزہ عطا کیا جاتا کہ اُس کے پورے دورِ نبوّت میں کوئی ایسی چیز اِیجاد نہ ہو جو اُس نبی کے معجزے کو پیچھے چھوڑ دی، تاکہ اُمت اپنے نبی کو خود سے برتر جان کر اُس کی نبوت و رسالت پر بآسانی ایمان لا سکے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی اُمت جادُو میں کمال رکھتی تھی، اِس لئے آپ علیہ السلام کو جادو کا توڑ کرنے والے اور اُس پر حاوِی ہو جانے والے معجزات عطا کئے گئے۔ یہی سبب ہے کہ فرعون کی شہ پر آپ علیہ السلام کے مقابلے میں آنے والے تمام جادوگروں نے موسیٰ علیہ السلام کی صلاحیتِ معجزہ کو اپنے شیطانی جادُو سے برتر مانتے ہوئے اُن کے آگے سرِتسلیم خم کر دیا تھا۔ اِسی طرح سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دَور میں جب فنِ طب اپنے عروج پر تھا، اﷲ ربّ العزّت نے اُنہیں اِحیائے موتیٰ جیسے عظیم معجزے سے سرفراز فرمایا۔ آپ کے دور کے عام اَطباء تو پیچیدہ بیماریوں کے علاج میں ماہر تھے مگر مسیح علیہ السلام کی مسیحائی مُردوں کو بھی زِندگی کی دولت سے نوازتی نظر آتی ہے۔ اِن مثالوں سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ نبی علیہ السلام اپنے دورِنبوت کے ہر کمال سے ہمیشہ آگے ہوتا ہے، اُمت جس کمال پر فائز ہوتی ہے نبی اُس کمال پر حاوِی ہوتا ہے۔

تاجدارِ کائنات کے معجزات ابدی ہیں:

گزشتہ تمام انبیاء علیھم السلام کی نبوتیں زمان و مکان کی پابند تھیں لہٰذا اُنہیں دیئے جانے والے معجزات بھی محدُود نوعیت کے تھے۔ نبیء آخرالزّماں پر چونکہ سلسلہء نبوت کا اِختتام ہونا تھا اور تاجدارِ کون و مکاں کو تمام زمانوں کے لئے نبیء رحمت اور ختم المرسلین قرار دیا جا رہا تھا، اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایسا معجزہ عطا فرمایا جو تمام معجزات کا سردار کہلایا، اور تا قیامِ قیامت تمام زمانوں کی اِنسانیت اور جملہ اَقوامِ عالم مل کر بھی اُس معجزہء جلیلہ کی برابری کرنا تو کُجا اُسے مکمل طور پر سمجھ بھی نہیں سکتیں۔ اﷲ ربّ العزت کو معلوم تھا کہ اُمتِ محمدی پہلی اُمتوں سے ہزارہا گنا زیادہ ترقی کرتے ہوئے چاند پر قدم رکھے گی اور ستاروں پر کمند ڈالے گی لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کو مکان و لامکاں کی وُسعتوں سے نکال کر اپنے قرب کی وہ خاص نعمت عطا فرمائی جس کا گمان بھی عقلِ انسانی نہیں کر سکتی۔ اِن حقائق سے آگہی کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ دِیگر انبیاء علیھم السلام کے ساتھ ساتھ آنحضور کے باقی تمام معجزات میں سے بھی کوئی معجزہ، آپ کے معجزہء معراج کی عظمت و رِفعت کا ہمسر نہیں ہے کیونکہ یہ ایک دائمی معجزہ ہے جو دِیگر معجزات کے برخلاف تا قیامِ قیامت اُمتِ محمدی کے لئے حجتِ تامّہ ہے۔

معراج کمالِ معجزاتِ مصطفٰی ہے اور یہ معجزہ واقعی اِس شان کے لائق ہے کہ دِیگر تمام معجزات کا سردار قرار پائے۔ جب 27 رجب کی سہانی شب کے اِنتہائی مختصر سے لمحات میں اﷲ ربّ العزت تاجدارِ کائنات کو مسجدِحرام کی معطّر فضاؤں سے نہ صرف مسجد اقصیٰ تک بلکہ اَجرامِ سماوِی سے پری، کائنات کی وسیع و عریض وُسعتوں کے اُس پار، عالمِ لامکاں کی حدُود کی بھی دُوسری طرف اپنے عرش تک لے گیا اور اُسی قلیل مدّتی ساعت میں آپ دوبارہ اِس زمین پر جلوہ افروز بھی ہو گئے۔

عقلِ اِنسانی کی بساط بھر تگ و دو:

علمِ انسانی کی موجودہ معراج سے قبل اِنسانی اِستعداد کے پروردہ علوم اِس قدر کافی نہ تھے کہ ہم کسی معجزہ کی کسی معمولی سی جزئی کی بھی اپنی کمالِ بصیرت و دانش کی بناء پر کوئی توجیہہ کر سکتے۔ اِس کے باوُجود جمیع مسلمانانِ عالم ایمان بالغیب اور قدرتِ الٰہیہ کے ظہور پر فقط اپنے بے لوث اِیمان کی بدولت کسی عقلی دلیل کے بغیر ہمیشہ سے معجزہء معراج کے قائل رہے ہیں۔

فی زمانہ علومِ انسانی اِس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ خیرالقرون کے بعض معمولی نوعیت کے خرقِ عادت واقعات کی توجیہات اَب کسی قدر اِنسانی عقل کی سمجھ میں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ عقلِ انسانی اپنی گوناگوں ترقی کے باعث آج اس مقام پر فائز ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی عادت یعنی عالمِ اسباب کی بہت سی پیچیدہ گتھیاں سلجھانے کے علاوہ اُس کی قدرت کے اِظہار کو بھی بعض قرینوں کی مدد سے جزواً سمجھنے اور اﷲ تعالیٰ کی عظمت کی معترف ہونے کے قابل ہو رہی ہے۔ جوں جوں عقل اپنے کمال کی طرف بڑھے گی معجزے کی صحت کے قریب تر ہوتی چلی جائے گی اور وہ دن دُور نہیں جب سراسر مادی عقل کے رسیا محقّقین بھی قدرتِ الٰہیہ کو حق مان کر اُس کی دہلیز پر سربسجود ہو جائیں گے۔

ہوائی سفر کے لوازمات:

آج سے چودہ صدیاں قبل Dark ages میں کہ جب دورِ جاہلیت نہ صرف سرزمینِ عرب بلکہ پوری دنیا میں عروج پر تھا، واقعہء معراج کا تصور بھی ناقابلِ عمل و ناقابلِ یقین محسوس ہوتا تھا۔ اُس زمانہء جاہلیت کی تو بات ہی کیا، آج کے اِس ترقی یافتہ دور کا اِنسان جس کے لئے صبح و مساءفضائے بسیط میں سفر ایک معمول کی چیز بن کر رہ گیا ہے، وہ بھی کرہء ارضی سے باہر ایتھر میں خلائی سفر کے ضروری لوازمات کے بغیرکروڑوں نوری سال کا سفر طے کرنا محال تصور کرتا ہے۔

موجودہ دَور کا اِنسان ہوائی جہاز کی زیادہ بلندی کی صورت میں سلنڈر آکسیجن کے اِستعمال کے ساتھ ساتھ ہوا کا مصنوعی دباؤ بھی بناتا ہے تاکہ اُس کا جسم زمین سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر واقع ہوا کے کم دباؤ کی وجہ سے شکست و ریخت کا شکار ہونے سے بچا رہے۔ اور اگر کبھی Air tight جہاز میں حادثاتی طور پر سوراخ ہو جائے تو جہاز میں موجود ہوا کا مصنوعی دباؤ کم ہو جانے سے مسافروں کے جسم تیزی سے سخت اِضمحلال کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ اَیسے میں اگر فوری طور پر دوبارہ مصنوعی دباؤ بنانا ممکن نہ ہو تو پائلٹس جہاز کی بلندی کو تیزی سے گراتے ہوئے اُس خاص سطح تک لے آتے ہیں جہاں اِنسانی زِندگی کے لئے ضروری ہوا کا دباؤ موجود ہوتا ہے۔

خلائی سفر کے لوازمات:

خلاء کا سفر کرہء ہوائی کے بالائی حصوں میں عام جہازوں کے سفر سے بھی کئی گنا زیادہ دُشوار ہوتا ہے۔ اِس کے باوُجود بیسویں صدی کے وسط سے حضرتِ انسان نے خلاء میں بھی چہل قدمی شروع کر رکھی ہے۔ خلائی جہازوں (Probes) کو کرہء ہوائی سے باہر نکلنے کے لئے 40 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد محیّرالعقول رفتار درکار ہوتی ہے۔ اس کے باوُجود پچھلے چند عشروں میں جدید سائنسی تحقیقات کے لئے خلائی سفر خلانوردوں (Astronauts) کا روزمرّہ کا معمول بنتا چلا جا رہا ہے۔ خلانورد آکسیجن اور ہوا کے مصنوعی دباؤ کے علاوہ ایک خاص قسم کا لباس بھی اِستعمال کرتے ہیں، جو اُنہیں، شفّاف ہوا کے غلاف Ozone سے اُوپر واقع دِیگر بہت سی آلائشوں سمیت Electoro Magnetic Radiation سے بھی محفوظ رکھ سکے۔

چاند کا پہلا سفر اور فرمانِ خداوندی:

اِنسان کا خلاء میں زمین سے بعید ترین سفر چاند کا سفر ہے، جو جولائی 1969ء میں عمل میں آیا۔ امریکی Astronauts ”نیل آرمسٹرانگ“ اور ”ایڈون ایلڈرن“ چاند کی سطح پر اُترے جبکہ اُن کا تیسرا ساتھی ”کولنز“ چاند کے گرد محوِ گردش رہا۔کچھ ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے چند پتھروں کے نمونے لے کر وہ سائنسدان روانگی سے محض دو دن بعد واپس زمین پر آن پہنچے۔اِس مہم کے دوران اِس مشن کی پل پل کی خبر TV اور ریڈیو ٹرانسمشن کے ذریعے پورے خطہء ارضی کے باسیوں تک پہنچتی رہے۔

عالمِ انسانیت کی اِس برق رفتار ترقی اور تسخیرِ ماہتاب کا ذکر اﷲ ربّ العزت نے آج سے چودہ صدیاں قبل قرآنِ مجید میں کر دیا تھا۔ ارشادِ ربانی ہے: ”قسم ہے چاند کی جب وہ پورا ہو جائے، تم ضرور بالضرور اِس طبق سے دُوسرے طبق تک جاؤ گے، پھر (اس کے باوُجود) اُنہیں کیا ہوا کہ اِیمان نہیں لے آتے!“ (الانشقاق، 84 : 18 - 20)

بنی نوعِ انسان کی بالائی کائنات سے متعلقہ یہ ترقی اگرچہ اُس کے خلافتِ ارضی کا مستحق ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے، تاہم اِس تمام تر تگ و دو کے باوُجود اِنسان ہنوز روشنی کی سادہ رفتار کو بھی نہیں پا سکا۔ روشنی کی رفتار 1,86,284 میل (2,99,792 کلومیٹر) فی سیکنڈ ہے، جس تک پہنچنا اِنسان تو کجا کسی بھی مادی جسم کے بس کی بات نہیں۔

سفرِ معراج اور نظریہء اِضافیت:

جرمنی کے شہرہ آفاق یہودی النسل سائنسدان البرٹ آئن سٹائن نے 1905 میں Special Theory of Relativity پیش کی، جس میں اُس نے (اِسلامی تعلیمات کے عین موافق) وقت اور فاصلہ دونوں کو تغیر پذیر قرار دیا۔ اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ زمان و مکان کی گتّھیاں جو ہزاروں سال سے فلسفے کا موضوع ہیں اِس نظریئے کے بغیر نہیں سلجھ سکتیں۔ اُس نے یہ ثابت کیا کہ مادّہ، توانائی، کشش، فاصلہ اور زمان ومکان کی مطلقاً کوئی حیثیت نہیں بلکہ ان میں باہم ایک خاص نسبت ہے۔ اس اِضافی حیثیت کے باعث اُن میں سے کسی ایک کی تبدیلی دُوسرے پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ جب ہم کسی فاصلے یا وقت کی پیمائش کرتے ہیں تو وہ اِضافی حیثیت سے کرتے ہیں۔ گویا دُوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ کائنات میں مختلف مقامات پر وقت اور فاصلہ دونوں کی پیمائش میں کمی و بیشی ممکن ہے۔

اِسی نظریہء اضافیت میں آئن سٹائن نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے۔ اِس کی وضاحت اُس نے کچھ اِس طرح سے دی کہ ایک ہی شے جب دو مختلف رفتاروں سے حرکت کرتی ہے تو اُس کے حجم میں کمی و بیشی آجاتی ہے، یعنی متحرک جسم کی لمبائی اُس کی حرکت کی سمت میں کم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ روشنی کی رفتار سے قریب قریب رفتار کے ساتھ سفر کرنے والے جسم کی کمیّت حد درجہ بڑھ جائے گی، حجم اِنتہائی کم ہو جائے گا اور اِس کے ساتھ ساتھ اُس جسم پر گزرنے والے وقت کی رفتار بھی غیرمعمولی طور پر کم ہو جائے گی۔ مثلاً اگر کوئی خلانورد 1,67,000 میل فی سیکنڈ (روشنی کی رفتار کا 90فیصد) کی رفتار سے خلا میں 10 سال تک سفر کرے تو اُس سفر کے اِختتام تک اُس خلانورد کی عمر میں صرف 5 سال کا اِضافہ ہوا ہوگا جبکہ زمین پر موجود اُس کے جڑواں بھائی پر 10 سال گزر چکے ہوں گے۔

روشنی کی رفتار کا 90فیصد رفتار حاصل کرنے سے جہاں وقت کی رفتار نصف رہ جاتی ہے وہاں محوِ سفر جسم کا حجم بھی سکڑ کر آدھا رہ جاتا ہے۔ جُوں جُوں کوئی جسم اِس سے بھی زیادہ رفتار حاصل کرتا چلا جائے گا تُوں تُوں اُس کا حجم سکڑ کر چھوٹا ہوتا چلا جائے گا اور وقت کی رفتار میں بھی اُسی تناسب سے کمی ہوتی چلی جائے گی۔

اِس نظریہ میں سب سے اہم اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر بفرضِ محال کوئی مادّی جسم روشنی کی رفتار حاصل کر لے تو ....اُس پر وقت تھم جائے گا اور اُس کی کمیّت لامحدُود ہونے کے ساتھ ساتھ حجم سکڑ کر بالکل ختم ہو جائے گا، گویا جسم فنا ہو جائے گا۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس کی بنیاد پر آئن سٹائن اِس نتیجے پر پہنچا کہ ”کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے“۔

شبِ معراج برّاق کا سفر:

عقلِ انسانی کی پروردہ سائنس کی دُنیا کی سب سے مصدّقہ اور جدید ترین نظریہء اِضافیت کے مطابق کسی مادّی جسم کے لئے روشنی کی سادہ رفتار کا حصول .... جس سے وقت کے تھم سکنے کی ایک صورت ممکن تھی .... محال ہے۔ جبکہ دُوسری طرف معجزہ یہ ہے کہ اﷲ کی عادت پر مشتمل نظامِ فطرت اُس کی قدرت کے مظہر کے طور پر ڈھل جائے۔ یعنی وقت تو تھم جائے مگر تاجدارِ کائنات کے جسم کی کمیّت لامحدُود نہ ہونے پائے، اور اِس طرح نہ صرف اُس کا حجم برقرار رہے بلکہ وہ فنا ہونے سے بھی محفوظ رہے۔ اسی طرح خلائی سفر کی لابدّی مقتضیات پوری کئے بغیر برّاق کی رفتار (Multiple speed of light) سے سفر کرے، دورانِ سفر بیت المقدس میں تعدیلِ ارکان کے ساتھ نمازیں بھی ادا کرے، کھائے، پئے، لامکاں کی سیر بھی کرے، اﷲ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاء علیھم السلام کے علاوہ خود اﷲ ربّ العزت کا بھی اُس کی شان کے مطابق ”قَابَ قَو´سَینِ“ اور ”اَواَدنیٰ“، کے مقامات پر جلوہ کرے اور اُسی قلیل مدّتی ساعت میں جب زمین اور سکّانِ زمین کی طرف واپس پلٹے تو تھما ہوا وقت اُس کی واپسی کا منتظر ہو۔

نظریہء اِضافیت میں روشنی کی سادہ رفتار کا حصول بھی ناممکن قرار دیا گیا ہے، جبکہ تاجدارِ انبیاء کے لئے اشرفُ الملائکہ سیدنا جبرائیل علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے اِذن سے برّاق نامی سواری لے کر حاضر ہوئے اور آپ اُس پر سوار ہو کر ہزارہا روشنیوں کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے معراج پر تشریف لے گئے۔ لفظِ برّاق برق کی جمع ہے، جس کا معنی روشنی ہے۔ یوں موجودہ دور کے سائنسی نظریات تو Single speed of light کا حصول بھی کسی مادّی جسم کے لئے ناممکن قرار دے رہے ہیں مگر اﷲ ربّ العزت نے اپنے محبوب نبی کو Multiple speed of light سے سفرِ معراج کا معجزہ عطا فرمایا، جو چودہ صدیاں گزر جانے کے باوُجود آج تک کسی فردِبشر کے فہم و اِدراک میں نہیں سما سکا۔

ایک قابلِ غور وضاحت:

جدید سائنسی تحقیقات کے دریافت کردہ زمان و مکان (Time & Space) کے جدید نظریات کے مطابق وقت کی رفتار میں کمی و بیشی اور فاصلوں کا سکڑنا اور پھیل جانا اِسلامی تعلیمات کے عین موافق ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں طیء زمانی اور طیء مکانی کی جن صورتوں کا ذکر فرمایا ہے، جدید سائنس اُنہی معلومات کو نئی اِصطلاحات کے پیرائے میں بیان کر رہی ہے۔

تبصرہ