حکیم الامت حضرت اقبالرح نہ تو ظاہر دار تسبیح بدست ملاؤں کی طرح تھے، جن کی زبان ذاکر، دل غافل اور عمل مخالف ہو۔ اور نہ خشک فلسفیوں اور منطقیوں کی طرح شب و روز عقل پیچاکوں میں گم رہتے ہیں کہ عمل اور اخلاق کا گذر ہی جن کے پاس سے نہیں ہوتا۔ نہ ایسے قلم و قرطاس سے وابستہ کہ دفتروں کے دفتر سیاہ کرنے میں صرف کر دیں، نہ ہی شعراء غارین کی طرح ’’فی کل واد یھیمون‘‘ کے مصداق وادی وادی میں داد و تحسین شعری کیلئے مارے مارے پھرتے رہیں۔ حضرت حکیم الامت عمل کے انسان تھے۔ پیکر اخلاق حسنہ تھے۔ سوانحی اقبالیاتی ادب کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقبالرح پیکر اخلاقِ کریمانہ تھے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ تعمیرِ اخلاقِ اقبال میں اولین معمار والدین اقبال ہیں۔ بعد ازاں شمس العلماء میر حسن کی صحبت و تربیت نے اس میں اور نکھار پیدا کیا۔ انہوں نے حضرت اقبال کو صرف لفظ شناسی ہی نہ سکھلائی بلکہ اعلیٰ اخلاقی اقدار سے بہرہ ور بھی کیا۔ صرف طلاقت لسانی، زبان فہمی، زبان دانی ہی نہ سکھائی بلکہ اخلاق عالیہ کی آبیاری بھی قلبِ اقبال میں فرمائی۔ صرف گفتار کا غازی نہ بنایا بلکہ کردار کا غازی بھی بنایا۔ حیات اقبال کا ورق ورق انہی بلند اخلاقی اقدار کا غماز و عکاس ہے۔ حضرت اقبال والیء کونین علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر تھے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جوں جوں مدارج طے کیے توں توں سیرت اقبال میں اخلاق مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک دکھائی دینے لگی۔ وہ مظہرِ اخلاقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئے۔ سیرت و کردار اقبال کا عمیق تجزیاتی مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے کہ وہ سنن ھدیٰ یعنی سنن عادیہ کی بھی پیروی فرماتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے اقبالیین نہ جانے ان کو کہاں تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔ پروفیسر فرمان اپنی کتاب ’’اقبال اور تصوف‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ حضرت علامہ نے خود فرمایا کہ لوگ مجھے یونیورسٹی کی سیڑھیوں میں ڈھونڈتے پھریں گے لیکن میں تو میر حسن کے قدموں میں ہوں۔ حضرت اقبال مغربی جامعات میں اکتسابِ علم کیلئے ضرور گئے لیکن مغربی تہذیب و اخلاق ان پر اثر انداز نہ ہو سکا۔ جن آنکھوں میں مدینہ و نجف کی خاک کا سرمہ ہو ان کو تہذیبی فسوں کاری خیرہ نہیں کر سکتی۔ وہ مصطفوی، مرتضوی تھے۔ وہ دسترخوان علم و اخلاقِ مصطفوی اور مرتضوی کے ریزہ چیں تھے۔ وہ مغرب کے دریوزہ گر نہ تھے، وہ اسی نظام اخلاقیات (Ethical System) کے معلم و پرچارک تھے۔ تصور مرد مومن اور تصور خودی۔ ان دونوں تصورات کا عمیق تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تہوں میں فروغ اخلاق کریمانہ کا تصور مضمر ہے۔ مرد مومن، اوصاف حمیدہ، اخلاق حسنہ، عبادات تسلیمہ، اعمال صالحہ اور احوال عالیہ کا مجموعہ ہے۔ تصور خودی، خود نگری، خود اعتمادی، خودداری، نفس شناسی، معرفت ذات ہی کا دوسرا نام ہے۔ تصور خودی سے حضرت اقبالرح کا مقصود نظر تطہیر فکر اور تعمیر کردار ہے۔ دونوں تصورات کو یکجا کریں تو حضرت اقبالرح مبلغِ اخلاقِ حسنہ نظر آتے ہیں۔ حضرت اقبالرح وہ مبلغ نہ تھے جن کیلئے ’’لِمَا تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ‘‘ کا حکم قرآنی ہے۔ وہ اوروں کو تعلیم و تلقین کر کے خود ’’تَنْسُوْنَ اَنْفُسَکُمْ‘‘ کے مصداق ہرگز نہ تھے۔ وہ مبلغ بالقول بھی تھے اور مبلغ بالعمل بھی تھے۔ ان کی زندگی کے شب و روز میں ہزارہا قرائن و شواہد موجود ہیں۔ ہزارہا مظاہر اخلاقِ حمیدہ موجود ہیں۔ یہ صرف خوش عقیدگی کے دعوے ہی نہیں بلکہ امر واقعہ ہے کہ وہ مظہر اخلاق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔
اہم اخلاقی گوشے
1۔ رفق و رحمت
2۔ معادلت پسندی
3۔ اکرام ابوین
4۔ سادہ روی
5۔ حمیت و تصلب
6۔ حفظ اللسان
ذیل میں ہم حضرت علامہ اقبالرح کے دو گوشوں پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔
1۔ سادہ روی
2۔ حفظ اللسان
سادہ روی
تکلف اور تصنع اور سادہ روی اخلاق حسن ہے۔ سادگی میں اخلاص کا پہلو ہے۔ موتی خواہ تاجِ شہی میں خواہ فرشِ زمیں پہ ہوں وہ موتی ہوتا ہے۔ ’’وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ‘‘ میں ترکِ تکلف کی تعلیم ہے۔ مفہوم مخالف (Voice Service) سادہ روی کا حکم ہے۔ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا لباس مبارک سادہ، خوراک سادہ، طرزِ گفتگو سادہ، طرزِ نشت سادہ تھا۔ خزائن الارض جن کے دست مبارک میں ہوں۔
آپ قاسم خزائن خداوندی ہیں۔ کائنات تحت و فوق میں آپ کے رخ کا صدقہ بٹ رہا ہے۔ سیرت و سوانح حضرت حکیم الامترح کا مطالعہ کریں تو اقبال نقوشِ قدوم مصطفیٰ علیہ الصلوۃ کے متلاشی ہیں۔ وہ کاملاً متبع اخلاقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ ملفوظاتِ اقبال، سوانحی تذکارِ اقبال کا مطالعہ کیجئے طرزِ نشست، طرزِ تکلم، طرزِ طعام، طرزِ مقام سادگی کا آئینہ دار ہے۔ ہر چند آپ عقبریء عصر تھے۔ علوم و فنون کا بحرِ مواج تھے۔ جس موضوع پہ چل نکلتے بحرِ ناپیدا کنار نظر آتے لیکن گفت و تکلم میں سادگی کا عنصر ظاہر ہوتا ایسے ہی علمی رعب کے لئے ثقیل اصلاحات، دقیق الفاظ استعمال نہ کرتے، بات رس بھری کرتے، معانی و مطالب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا۔ نہ کوئی پہلو تشنہ لب رہتا نہ سامعین مجلس کے لئے بعید از فہم ہوتا۔ حضرت اقبال رح کَلِّمُوْا النَّاسَ عَلَی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ کا مظہر اتم تھے۔ ڈاکٹر رشید صدیقی صاحب جو اردو زبان و ادب کا ایک معتبر حوالہ ہیں سنجیدہ مزاح نگاری اور شخصی خاکہ نگاری میں اولیت کا شرف پایا۔ ’’گنجہائے گراں مایہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت علامہ کی شہرت عام اور مطبوعہ کلام کے بعد میں آپ کی زیارت کا مشتاق ہو گیا۔ یہ شوقِ ملاقات مجھے لاہور لے آیا۔ جانے ذہن میں کیا کیا خیالات آئے۔ نہ جانے ذہن میں آپ کے لئے کیا نقوش ابھرے۔ جب حاضرِ خدمت ہوا ان دنوں آپ وکالت کے لئے جایا کرتے تھے۔ جلدی جلدی باہر تشریف لائے میں منتظر زیارت تھا۔ علی بخش جو آپ کے خادم خاص تھے ان سے فرمایا کہ یار علی بخش میرا قَلْمْ اندر رہ گیا ہے اب کیا تھا کہ اس تلفظ کے سنتے ہی مرے تصورات کو ایک ضرب لگی پھر فرمایا کہ یار علی بخش بھائی رشید صدیقی کے لئے وہ ’’پھلودا‘‘ لاؤ۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں اب تو مرا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا۔ میں نے عرض کی حضرت یہ قلم نہیں ہوتا قَلَم ہوتا ہے اور پھلودا نہیں فالودہ ہوتا ہے۔ آپ کی عالی ظرف وسعت قلبی کو سنتے رہے اور پھر فرمایا کہ آپ تو علی گڑھ کے پروفیسر ہیں! ہنستے ہنستے مرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا پس کیا تھا کہ حجابات میری نگاہوں میں اٹھا دیئے گئے۔ ملاء اعلیٰ سے انوارِ علم کا ورود آپ کے وجود پہ ہو رہا تھا۔ میں دست بستہ کھڑا ہوگیا۔ یہ تو آپ کی سادہ مزاجی تھی کہ آپ گھر کے ماحول میں ٹھیٹھ پنجابی بولتے۔ تکلف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ جب لب کھولتے موتی رولاتے۔ ملبوسات اقبال میں سادگی کا کمال درجے کا اظہار ہوتا۔ روزگارِ فقر میں وحیدالدین فقیر نے آپ کے سادہ ملبوسات کا عمدہ نقشہ کھینچا ہے۔ وہ قطعاً تکلفات کے قائل نہ تھے۔ وہ فقیر و درویش تھے۔ وہ گدڑی میں لعل تھے۔ کفالت ضروریات ان کا نقطہ نظر تھا۔ وہ چاہتے تو عالی شان محل تعمیر کراسکتے تھے۔ ٹھاٹ سے زندگی گزارتے، خدام کی ایک قطار ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی۔ فقر اختیاری کا منظر ہماری سیرتِ اقبال میں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ سید نذیر نیازی۔ اقبال کے حضور میں کہتے ہیں کہ آپ جس مکاں میں رہائش پذیر تھے اس کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ 120 روپے کرایہ دیتے۔ بڑا معقول کرایہ تھا۔ آپ کے کسی دوست نے کہا کہ حضرت آپ مکان بدل کیوں نہیں لیتے۔ اتنے کرایہ میں تو عمدہ مکاں مل سکتا ہے لیکن آپ کے دل کی ڈوریاں مکین گنبد حضریٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جڑی ہوتی تھیں۔ یہ فقر و سادگی آپ کی اختیاری تھی۔ یہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کی اتباع کا مظہر تھی۔ اس قدر عالمگیر شہرت جو ان کو زندگی میں ملی۔ ان کے نہاں خانہ دل میں کبھی اس خو نے انگڑائی نہ لی کہ وہ عظیم رہائش گاہ بناتے۔ اب جو جواب مرہمت فرمایا وہ بھی سنیے اور دلوں میں محبت اقبال کو اور راسخ کیجئے۔ فرمایا یہ گھر دو یتیم بچوں کا ہے جن کا کوئی کفیل نہیں ہے۔
وہ محض اخلاقی انداز کے حامل نہ تھے بلکہ کفش بردارئ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو اعزاز سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر منہاج الدین ’’افکار و تصورات اقبال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب مسجد شہید گنج کا مسئلہ درپیش تھا تو کسی رئیس کے ہاں ٹھہرنا ہوا۔ ہند کے تین بڑے وکلاء اور دانشوروں کو اکٹھا کیا گیا تاکہ کوئی راہِ عمل طے کی جائے۔ علامہ خود فرماتے ہیں پرتکلف بستر دیکھتے ہی میرے دل میں خیال آیا ’’اقبال تو جس سخی سے محبت کرتا ہے وہ تو گداز بستر استعمال نہ فرماتے تھے۔ محبت اس سخی سے اور بستر گداز، آنکھیں گوہر بار ہو گئیں دوسرے احباب آرام سے نیند کرتے رہے لیکن میں رات بھر نہ سو سکا۔
یہ حضرت اقبال ہیں یہ ان کے سیرتی محاسن ہیں۔ یہ ان کے سوانحی گوشے ہیں۔ یہ ان کے اخلاقی محاسن ہیں۔ خورد و نوش طعام میں بھی سادگی کا کمال کا عنصر تھا۔ غذاؤں کے معاملہ میں سادگی پسند تھے جو دراصل سادگئ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی تھی۔ مکتوبات اقبال مرتبہ شیخ عطا اﷲ بعنوان اقبال نامہ کے اوراق گواہ ہیں۔ خود فرماتے ہیں کہ اپنے والد گرامی کو اپنی غذاؤں کے متعلق آگاہ کیا فرمایا میں غذاؤں میں سرکارِ ابد قرار علیہ الصلوۃ والسلام کی پیروی کرتا ہوں۔
حفظ اللسان
زبان مظہر شخصیت ہے قولوا للناس حسنًا میں حسنِ استعمالِ زبان کی تعلیم ہے اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہ وَیَدِہ میں لسانہ کو مقدم رکھا گیا۔ اس میں حفظ اللسان کا پہلو ہے۔ فلیقل خیر و لیصمت میں تراغیب قول خیر یا صمت و سکوت یعنی محافظت زبان کا پہلو ہے قَوْلٌ مَعْرُوْفٌ خَیْرٌ مِنْ صدقہ میں عمدہ بات کہنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ انبیاء مرسلین علیہم الصلوۃ والتسلیم حفظ اللسان کی عمدہ ترین عملی تفسیر تھے ہر چند کہ لسانی ایذاء سب سے زیادہ انہیں ہوا ہے لیکن یہ ظرف پیغمبرانہ تھا کہ گالیاں سنتے رہے اور دعائیں دیتے رہے۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحب لواء الحمد کے ہونٹوں پہ ہمیشہ دعا کے مبارک کلمات سجے۔ پتھر برسانے والوں اور لسانی ایذائیں دینے والوں کے لئے فرمایا اَللّٰہُمَّ اِھْدِ قَوْمِیْ فَاَنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ سیرت و سوانح اقبال میں حفظ اللسان کا پہلو ایک بلند ترین اخلاقی قدر کے طور پر موجود ہے۔ اقبالیاتی ادب میں سیرت و سوانح کا جتنا ذخیرہ موجود ہے ورق ورق چھانٹ لیجئے۔ ایک حوالہ بھی نہ ملے گا مستزاد یہ ہے کہ ایک جملہ بھی نہیں ملے گا ہر چند ان کو تاریخ ساز اور عبرت ناک ایذائیں دی گئیں۔ حسد و منافرت نے کیا کیا گل کھلائے۔ کن کن طریقوں سے کردار کشی کی گئی۔ ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کے لئے کتنا زور قلم صرف ہوا اور یہی امر حق ہے جو محبوب تر ہوتا ہے۔ وہ محود تر ہوتا ہے لیکن آپ نہ کبیدہ خاطر ہوتے اور نہ ہی گراں محسوس کرتے۔ نہ ہی ضیق قلبی کا مظاہرہ فرماتے۔ پھل دار درختوں کو دنیا پتھر ہی تو مارا کرتی ہے۔ پیغمبرانہ اتباع میں جو دعوت حق دی جائے گی لا محالہ ایذاؤں کا سامنا کرنا ہو گا۔ حضرت علامہ اقبال تنقید کے پیالے کو مسکراتے ہوئے پی گئے۔ تحریر اور تقریر میں ایک جملہ بھی جوابی نہیں فرمایا۔ کم گوئی، صمت اور سکوت کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ اقبال کے حضور، روزگار فقیر حیاتِ اقبال، سیرتِ اقبال کا مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ آپ کا طبعی خاصہ تھا۔ آپ اکثر خاموش رہتے۔ پہروں کے پہر زبان پہ سکوت کا پہرہ رہتا۔ سوچوں کے گہرے سمندروں میں ڈوبے رہتے۔ بسیار گوئی شخصیت کو مجروح کر دیتی ہے۔ کم گفتن اہل تصوف کا مشرب ہے۔ جب بولتے مختصر، جامع، مطابق واقعہ بولتے۔ رکیک اور متبدل گفتگو کا گزر بھی آپ کے پاس سے نہ ہوا۔ گفتگوئے اقبال کے ادبی فکری، علمی، لسانی محاسن کے ساتھ ساتھ اخلاقی محاسن کا گوشہ از خود توجہ کا طالب ہے۔ یہ ان کی پاکیزہ شخصیت کا عکس ہے۔ کم گوئی اور خوب گوئی کا حسین امتزاج ہے حکیم الامت کی مجلس میں بیٹھنے والے گویا سمندر کنارے بیٹھتے تھے جس کے ہر مد و جزر میں جواہر کا انبار ہوتا تھا۔ حسبِ استعداد ہر ایک اپنا دامن گوہروں سے بھرتا۔ حضرت اقبال خوش گو بھی تھے۔ مصنوعی رعب و جلال علمی ان کے پاس سے نہ گزرا تھا۔ ان کی شگفتہ کلامی میں دل آزاری کا پہلو نہ تھا۔ ہمیشہ زیر لب تبسم فرماتے۔ مرغی کے بچوں کے لئے فرماتے: بھائی فوج کو میرے کمرے سے نکال دو۔ گفتار اقبال میں افضل حق کہتے ہیں کہ ایک علمی مذاکرہ میں اقوام متحدہ کے کردار پہ روشنی ڈال رہے تھے۔ فرمایا: اقوام متحدہ نہیں بلکہ اقوام مُفسِدہ ہے۔ فرماتے ہیں: ایک روز ابلیس آرام دہ کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس کے چیلوں نے پوچھا: آپ آرام فرما رہے ہیں کیا کام مکمل ہو گیا۔ ابلیس نے کہا: جب سے اقوام متحدہ بنی ہے ہمیں تکلیف کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ خشک طبیعت کے مالک نہ تھے۔
تبصرہ