سید آدم علیہ السلام کے زمین پر نزول کے ساتھ ہی اللہ جل مجدہ نے انسانیت کی رہنمائی کے لئے انبیاء علیہ السلام کے سلسلہ کا آغاز فرمایا۔ انبیاء و رسل تشریف لاتے رہے اور آسمانی الوہی ہدایت کے نور سے بنی نوع انسان کو ہدایت و رہنمائی فراہم کرتے رہے۔ اللہ جل مجدہ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث فرمائے۔ سلسلہ نبوت کا اختتام ذات محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ آسمانی ہدایت کے سلسلے کا بھی اختتام آخری کتاب قرآن مجید کی شکل میں ہوا۔ قرآن مجید سابقہ انبیاء و رسل اور ان کی تعلیمات کی تصدیق بھی کرتا ہے اور قیامت تک ہدایت و رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ قرآن مجید میں جا بجا سابقہ امتوں اور انبیاء علیہ السلام کا تذکرہ ملتا ہے۔ قرآن میں سیدنا آصم علیہ السلام، نوع علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، ہود علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، زکریا علیہ السلام، یحیٰی علیہ السلام، ایوب علیہ السلام، ادریس علیہ السلام، شعیب علیہ السلام، یونس علیہ السلام اور دیگر متعدد انبیاء علیہم السلام کا تفصیلی و اجمالی ذکر ملتا ہے۔
انبیاء علیہم السلام کے انہی تذکروں میں ایک خوبصورت تذکرہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے۔ قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام، ان کی والدہ اور نانی اماں عمران کی بیوی کا ذکر بھی کیا ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دیگر انبیاء کی نسبت ایک ممتاز تعلق تھا۔ انبیاء علیہ السلام میں سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام وہ واحد نبی ہیں جن کو زندہ اٹھایاگیا اور جو دوبارہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آخری زمانے میں زمین پر بھیجا جائے گا اور آپ سیدنا امام مہدی علیہ السلام سے مل کر اسلام کو دنیا بھر میں پھیلانے کا فریضہ سرانجام دیں گے۔
اس اعتبار سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت سے گہرا تعلق ہے۔ قرآن مجید میں جابجا نہایت خوبصورت انداز میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر آتا ہے حتی کہ آپ کی والدہ ماجدہ سیدنا مریم یعقوب علیہا السلام کے نام پر پوری سورہ مبارکہ ہے۔
25 دسمبر کے اس عظیم دن نہ صرف عیسائی بلکہ ساری امت مسلمہ مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس دن وہ عظیم ہستی اس دنیا میں تشریف لائی تھیں جنہوں نے گزشتہ زمانے میں نسل انسانی کو ہدایت و رہنمائی اور شفاء تقسیم کی تھی اور آئندہ زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں دوبارہ تشریف لا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی کی حیثیت سے حضور کی امت اور انسانیت کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ اسی لئے قرآن مجید میں ان کی ولادت، یوم وصال اور دوبارہ اٹھنے کے دن پر سلام کا ذکر آیا ہے۔
وَالسَّلاَمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ
(مریم)
اور سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا۔
اگر ہم قرآن مجید میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ دیکھیں تو کئی مقامات پر اللہ جل مجدہ نے آپ کا ذکر فرمایا ہے۔ سورہ آ ل عمران اور سورہ مریم میں تفصیلاً ذکر کرتے ہوئے اللہ جل مجدہ نے مریم علیہا السلام کی والدہ کی اس دعا کا بھی تذکرہ کیا جو حضرت مریم علیہا السلام کی پیدائش سے قبل انہوں نے منت مانتے ہوئے کی تھی۔
إِذْ قَالَتِ امْرَأَةُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا
(آل عمران)
’’اور جب عرض کی عمران کی بیوی نے اللہ کے حضور منت مانتے ہوئے کہ جو کچھ میرے پیٹ میں ہے (بیٹا یا بیٹی) اسے دین کی خدمت کے لئے اپنے حقوق سے آزاد کرتی ہوں۔
اس کے بعد حضرت مریم علیہا السلام کی پیدائش حضرت زکریا علیہ السلام کے ہاں ان کی پروش اور ان پر اللہ کے بے بہا نعمتوں اور انعامات کے نزول کا تفصیلی ذکر فرمایا۔ آپ کے کردار کی پاکیزگی عظمت اور عبادت الٰہی کے لئے اپنے آپ کو دنیا سے الگ کرنے کا تذکرہ قرآن مجید کی آیات کا حصہ بنا کر قیامت تک کے لئے اس کردار کو زندہ و جاوید کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اور پیدائش کے وقت آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہا السلام ہر گزرنے والے جملہ واقعات کا تفصیلی ذکر کیاگیا۔
جیسے قرآن تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بھی اپنی زندگی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا ذکر کرتے رہے۔ آپ فرماتے تھے کہ اے لوگو میں تمہیں خوشخبری سنانے آیا ہوں کہ یاتی من بعد اسمہ احمد میرے بعد ایسا نبی آئے گا جس کا نام احمد ہو گا اور اللہ اسے انبیاء میں سے سب سے بڑھ کر رتبہ عطا کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اللہ کے حضور نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آنے کی دعا کی جیسے اللہ نے قبول فرمایا۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو محبت تھی اسی سبب سے اسلام اور عیسائیت میں ہر دور میں قربت رہی ہے۔ مسلمان سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا ادب واحترام سے تذکرہ کرتے ہیں اور انہیں اللہ کا رسول اور ان کی والدہ کو پاکیزہ کردار کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے دور میں عیسائیوں کے لئے اپنے دروازے کھلے رکھے حتی کہ انہیں مسجد نبوی میں اپنی عبادت کا موقع فراہم کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دعوت دی کہ
تَعَالَوْاْ إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا (القرآن) گویا اسلام اور عیسائیت میں کئی قدریں مشترک ہیں۔
دور حاضر میں بھی اسلام کے پیروکاروں میں اس قدر رواداری موجود ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہوئے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور عیسائیت کا احترام کرتے ہیں آج بھی اگر وہ ہماری مساجد میں آئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ گزشتہ سال کرسمس کے موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی مسجد میں انہیں دعوت دے کر مذہبی رواداری کی اسی تاریخ کو دھرایا ہے۔ اسلام ہرگز دہشت گرد نہیں، علماء حق کا کردار معاشرے میں امن اور رواداری کو فروغ دے رہا ہے۔ اللہ تعالی آنے والے زمانوں میں بھی دونوں امتوں کو اپنے نبیوں کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے پیار، محبت اور امن سکون عطا فرمائے۔
تبصرہ