تحفظِ نسواں ایکٹ 2006ء
کا
شرعی و قانونی تجزیہ
ماہرین :
ڈاکٹر رحیق اَحمد عباسی (ناظم اَعلیٰ، تحریک منہاج القرآن)
علامہ سید خلیل الرحمان چشتی (سربراہ علماء و مشائخ وِنگ، تحریک منہاج القرآن)
ڈاکٹر طاہر حمید تنولی (ڈائریکٹر شعبہ تحقیق)
ڈاکٹر علی اکبر قادری الازہری (رِیسرچ اسکالر)
اَنوار اَختر ایڈووکیٹ (ماہرِ قانون و سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک)
اِشاعت :
فرید ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
تحریکِ منہاجُ القرآن، 365 ۔ ایم، ماڈل ٹاؤن، لاہور
فون : 140-140-111 42 92 +
تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء کے تفصیلی تجزیے سے قبل اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قرآن و سنت میں حدود اﷲ کو واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ ان میں ردّ و بدل کی اِجازت کسی پارلیمنٹ، عدالت، ریاست یا حکمران کے پاس نہیں۔ نیز یہ کہنا بھی مبنی بر جہالت و بدنیتی ہے کہ زنا اور قذف کی سزائیں قرآن و سنت میں مقرر نہیں ہیں۔ اِختصار کے سبب ذیل میں ہم قرآن حکیم کی چند آیات اور ان کے تراجم پر اِکتفا کریں گے :
حدود اﷲ میں ردّ و بدل کی اجازت نہیں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُO وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌO
(القرآن، النساء، 4 : 13، 14)
’’یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرماں برداری کرے اسے وہ بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں، ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہےo اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے اور اُس کی حدود سے تجاوز کرے اسے وہ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس کے لیے ذِلّت انگیز عذاب ہےo‘‘
وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ
(الطلاق، 65 : 1)
’’اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بے شک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے۔‘‘
زنا کی سزا قرآن میں مقرر ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ O
(النور، 24 : 2)
’’بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (سو) کوڑے مارو (جب کہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے) اور تمہیں ان دونوں پر (دین کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہوo‘‘
قذف کی سزا بھی قرآن میں مقرر ہے
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ O
(النور، 24 : 4)
’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ بدکردار ہیںo‘‘
اسلام اور آئین کی خلاف ورزی پر مبنی ایکٹ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا منظور کردہ تحفظ خواتین ایکٹ 2006ء اپنے مندرجات کے اعتبار سے مندرجہ بالا عنوان کے برعکس اور قرآن و سنت اور آئین پاکستان سے براہ راست متصادم ہے۔ اس قانون میں نہ صرف آئین میں دیئے گئے صریح اور واضح رہنما اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ قرآن و سنت کی واضح تعلیمات (جن کا اوپر ذکر ہوا) کی بغاوت پر مبنی مؤقف بھی اختیار کیاگیا ہے۔ کمال ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کچھ
- قرآن و سنت کی اطاعت و تشریح
- آئین پاکستان کی تعمیل ۔ ۔ ۔ اور
- حقوق نسواں کے تحفظ
کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ اس ایکٹ کے ابتدائیہ میں ہی یہ قرار دیا گیا ہے کہ :
’’چونکہ دستور کا آرٹیکل 14 اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ شرف انسانی اور قانون کے تابع، گھر کی خلوت قابل حرمت ہوگی۔‘‘
’’چونکہ دستور کا آرٹیکل 25 اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ محض جنس کی بناء پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ ریاست خواتین کے تحفظ کے لیے تصریحات وضع کرے گی۔‘‘
’’چونکہ دستور کا آرٹیکل 37 سماجی انصاف کو فروغ دینے اور سماجی برائیوں کا خاتمہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔‘‘
’’چونکہ اس بل کا مقصد ایسے قوانین لانا ہے جو زنا اور بالخصوص قذف سے متعلق ہوں بالخصوص دستور کے بیان کردہ مقاصد اور اسلامی احکام سے مطابقت رکھتے ہوں۔‘‘
ان ابتدائی اصولی تصریحات کے بعد سیکشن وائز آئینی ترجیحات کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ پورے ایکٹ میں اسلام اور آئین پاکستان کی روح کو جس بے دردی، چالاکی اور مکاری کے ساتھ پامال کیا گیا ہے اس کی مثال سابقہ ادوار میں کہیں نہیں ملتی۔ خاص طور پر ’’سماجی برائیوں کے خاتمے اور اسلامی احکام سے مطابقت‘‘ جیسے تمام دعوؤں کے برعکس اقدامات کیے گئے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ ایک ایسے معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کرنا ہے جہاں اَخلاقی اَقدار کے پنپنے کے امکانات معدوم اور جرم و گناہ کے فروغ کے تمام راستے کھل جائیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس قانون کے روبہ عمل ہونے کے بعد پاکستانی معاشرے میں زنا کے مجرموں کو تو جرم کے اِرتکاب کا لائسنس مل جائے گا اور اخلاقی اقدار کی علم برداری اور جرم و گناہ کے قلع قمع کے لیے آواز بلند کرنا قانونی خودکشی کے مترادف قرار پائے گا۔ ذیل میں اب ہم اس ایکٹ کا شق وار تجزیہ پیش کرتے ہیں :
سیکشن نمبر 1 : تحفظ و فروغِ بدکاری ایکٹ
مختصر عنوان اور آغاز نفاذ کے تحت اس قانون کا نام ’’تحفظ خواتین ایکٹ 2006‘‘ قرار دیا گیا ہے جب کہ اپنے مندرجات کے لحاظ سے اس قانون کا عنوان ’’تحفظ و فروغ بدکاری ایکٹ‘‘ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اس قانون میں کمال عیاری اور بدنیتی سے قرآن و سنت، آئین پاکستان اور تحفظ خواتین کے نام پر معاشرے میں بدکاری کے مرتکب مجرموں کو کھلی چھٹی دینے کے تمام اقدامات کیے گئے ہیں۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد بدکاری کے مجرموں کو تو کسی قسم کی گرفت کا خوف نہ ہوگا جب کہ بدکاری کے خاتمہ کے لیے عدالت سے رجوع کرنے والے معاشرے کے شریف افراد کے سروں پر نوع بہ نوع سزاؤں کی تلواریں لٹکتی رہیں گی۔ درج ذیل وجوہات کی بناء پر یہ ایکٹ غیر اسلامی اور غیر آئینی ہے۔
٭ اس ایکٹ کے تحت زنا بالجبر موجبِ حد کی سزا کے قانون خصوصًا کوڑوں کی سزا کو ختم کردیا گیا ہے یہ اقدام قرآن و سنت سے متصادم ہے جب کہ زنا بالجبر موجب تعزیر کی دفعات کو حدود آرڈی ننس سے نکال کر تعزیرات پاکستان میں شامل کردیا گیا جو کہ غیر ضروری اقدام ہے۔
٭ اس ایکٹ کے تحت زنا بالرضا موجبِ تعزیر کے قانون کو ختم کردیا گیا ہے جب کہ زنا بالرضا موجب حد کے قانون کو غیر مؤثر کرنے کے لیے ناقابل دست اندازی پولیس اور قابل ضمانت بنا دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے۔
٭ اس ایکٹ کے تحت قذف موجب تعزیر کے قانون کو ختم کر دیا گیا ہے جب کہ قذف موجب حد کے قانون کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اب زنا بالرضا کے مدعی کے استغاثہ کے اخراج یا ملزم کی بریت پر کسی مزید ثبوت یا مقدمہ کی کارروائی کے بغیر قانونِ قذف کے تحت ’’حد‘‘ کی سزا دی جاسکے گی، جس سے سچا مقدمہ درج کروانے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ یہ اقدام بھی قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے۔
سیکشن 2 تا 4
یہ ترمیمات درست ہیں۔ ان کے مطابق ’’عورت کو نکاح وغیرہ پر مجبور کرنے کے لیے اغوا کرنے یا اس کی ترغیب دینے، کسی کو غیر فطری خواہش نفسانی کا نشانہ بنانے کی غرض سے اغوا کرنے، کسی کو عصمت فروشی کی اغراض سے فروخت کرنے اور عصمت دری کی اغراض سے خریدنے‘‘ پر تعزیری سزاؤں کا تعین کیا گیا ہے، جو کسی بھی معزز معاشرے کے لیے ضروری ہے۔ تاہم یہ تعزیری سزائیں حدود آرڈی ننس میں بھی موجود تھیں۔
اس ایکٹ کی دفعات 2 تا 4 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء میں زنا بالجبر موجب تعزیر کی سزاؤں والی دفعات کو حذف کرکے تعزیرات پاکستان میں شامل کرنے کی منطق یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک مظلوم عورت کے لیے زنا بالجبر میں 4 گواہ پیش کرنے کی شرط کڑی تھی۔ حالانکہ حدود قوانین میں تزکیہ شہود کے تحت 4 گواہان کی شرط صرف زنا بالجبر موجبِ حد کے لیے تھی جب کہ زنا بالجبر موجبِ تعزیر کے تحت صرف عورت کی گواہی، میڈیکل رپورٹ اور معمولی تائیدی شہادت پر بھی ملزم کو سزا ہوجاتی تھی۔ لہٰذا یہ پراپیگنڈہ اسلام کے خلاف غلط فہمی اور شر انگیزی پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ مزید برآں ان جرائم کی سزاؤں سے کوڑوں کی سزاؤں کا حذف کیا جانا بھی قرآن و سنت کے منافی اور موجود توبیخی اقدامات ختم کرنے کے مترادف ہے۔
سیکشن نمبر 5 : زنا بالجبر سے متعلق نئی دفعات
اس سیکشن کے تحت زنا بالجبر کو حدود آرڈی ننس سے نکال کر تعزیراتِ پاکستان میں داخل کر دیا گیا ہے۔ موجودہ قانون میں شامل کی جانے والی ترمیمات کے نتیجے میں
(1) زنا بالجبر کی سزا کو حد سے نکال کر مستوجب تعزیر قرار دے دیا گیا ہے۔ حکومت کے بقول قرآن و سنت میں زنا بالجبر کی سزا کا تعین نہیں ہے، یہ یا تو جہالت اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے بے خبری ہے یا سراسر بدنیتی۔
کیوں کہ قرآنِ حکیم میں اس بات کی صراحت کردی گئی ہے کہ جرمِ زنا کی سزا کیا ہوگی۔ (اس کی وضاحت ابتداء میں آیات قرآنی سے ہوچکی ہے۔) لہٰذا زنا بالجبر کے سنگین جرم کو حدود آرڈی ننس سے نکال کر صرف تعزیرات پاکستان کا حصہ بنا دینا اﷲ کے قانون سے بے خبری یا اسے عمدًا پس پشت ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس سیکشن کے تحت اس قانون میں جو قباحتیں در آئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب زنا بالجبر کی سزا بطور حد نافذ نہیں ہو گی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں سزا کے خوف سے جرائم کے قلع قمع کرنے اور مجرموں کو جر م کے ارتکاب سے روکنے کے لیے جس قدر پیش بندی موجود تھی وہ ختم ہو جائے گی۔
(2) مزید برآں اس سیکشن میں ذیلی دفعہ 375 کے تحت زنا بالجبر کی تعریف کرتے ہوئے یہ قرار دیا گیا ہے کہ ’’کوئی بھی شخص زنا بالجبر کا مرتکب قرار دیا جائے گا اگر وہ کسی عورت کے ساتھ اس کی رضامندی سے یا اس کے بغیر بدکاری کرے جب کہ وہ سولہ سال سے کم عمر کی ہو۔‘‘
صاف ظاہر ہے کہ جب یہ شرط عائد کردی گئی ہے تو اس میں 16 سال سے کم عمر خواتین جو بدکاری کا شکار ہوں چاہے ارتکابِ جرمِ زنا بالجبر کے تحت ہو یا زنا بالرضا کے تحت، عورت زنا بالجبر کی اس provision کے تحت بالکل صاف بچ جائے گی کیوں کہ جب بھی سزا کے تعین کا معاملہ درپیش ہوگا 16 سال سے کم عمر کا فائدہ لیتے ہوئے اس جرم کو زنا بالجبر قرار دیا جائے گا جس کے نتیجے میں لڑکی پر چاہے وہ خود ہی جرم کا حصہ کیوں نہ ہو سزا کا اطلاق نہیں ہوگا۔
اس ترمیم سے پیدا ہونے والے خدشات میں سے بڑا خدشہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مغرب کی طرح چھوٹی عمر سے ہی بے راہ روی کے جراثیم تیزی سے پروان چڑھیں گے اور اس ناپختہ عمر کی برائی کے اثرات آگے چل کر بھی گل کھلائیں گے۔
(3) دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر ہم قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیں تو قرآن حکیم نے زنا کی کسی بھی صورت کو سزا سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ ارشادِ ربانی ہے۔
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ ۔
(النور، 24 : 2)
’’بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (سو) کوڑے مارو۔‘‘
اس آیت مبارکہ کے کلمات کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا سے یہ مفہوم بالکل واضح ہے کہ ان میں سے اگر دونوں زنا کے جرم میں شریک ہوں تو زنا بالرضا کے تحت دونوں کو سزا کا مستوجب قرار دیا جائے گا۔ اگر ان میں سے ایک ارتکاب جرم کررہا ہو اور وہ زنا بالجبر ہو تو صرف اسے ہی سزا ملے گی جب کہ دوسرے مظلوم فریق کو سزا نہیں ملے گی یعنی اگر جرم قابل حد نہ ہو تو بطور حد سزا نافذ نہیں ہوگی بلکہ تعزیراً سزا دی جاسکے گی۔
رہا ’’زنا بالجبر اور زنا بالرضا‘‘ تو یہ زنا ہی کے دو ذیلی عنوانات (subtitle) ہیں، اس تقسیم سے جرم کی نوعیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ زنا بالجبر کے مرتکب فریق یعنی مرد کے جرم کی gravity بڑھ جاتی ہے کیوں کہ وہ بیک وقت ’’زنا‘‘ اور ’’جبر‘‘ دو جرائم کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ اس دوگنا جرم کے مرتکب کی سزا کو تو حد سے کم کرکے تعزیر کے تحت لایا گیا ہے جب کہ بالرضا بدکاری کے جرم کو بدستور مستوجبِ حد رہنے دیا گیا ہے۔ حالانکہ جرم کی نوعیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہاں حد یعنی سو کوڑوں کے علاوہ مرد پر مزید سزا کا اضافہ کیا جائے نہ کہ تخفیف۔
اس ترمیم کی واحد حکمت جو ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر لمبے ہاتھ والے سرکاری کارندے، رسہ گیر، وڈیرے اور مؤثر لوگ بالجبر کسی غریب کی بہن، بیٹی کی عزت لوٹ لیں اور وہ مظلوم عورت یا اس کے ورثاء کسی طرح اس کی FIR درج کروا بھی لیں تو حکومت اور عدالت کے پاس تعزیری سزا کے تحت یہ آپشن ہو کہ انہیں برائے نام سزا دے کر بری کر دیا جائے۔ جہاں تک اس ایکٹ میں موجود سزائے عمر قید کی شق کا تعلق ہے تو نہ کوئی یہ سزا دے گا اور نہ پہلے کسی کو دی گئی ہے۔
اس ترمیمی ایکٹ کا براہ راست اثر یہ ہوگا کہ مؤثر بدکار جرائم کے ارتکاب میں دلیر ہوجائیں گے اور غریب، مزدور اور مجبور کی بہن بیٹی کی بے بسی اور نارسائی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
سیکشن نمبر 6 تا 7
سیکشن نمبر 6 تا 7 درست ہیں کیوں کہ یہ تعزیری سزاؤں کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔
سیکشن نمبر 8
سیکشن نمبر 8 بھی کسی حد تک درست ہے کیوں کہ اس میں عورت کی عصمت دری کی تشہیر کی ممانعت کی گئی ہے اور اسے قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت عورت اور اس کے خاندان کی عزت اچھالنے کے امکانات کم کیے جاسکتے ہیں بشرطیکہ قانون کی عمل داری کو ممکن بنایا جاسکے۔
سیکشن نمبر 9
اس سیکشن میں زنا بالرضا کے جرم کا ارتکاب ہونے پر شکایت بذریعہ استغاثہ درج کرنے کے طریقہ کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ اس حوالے سے جو قباحتیں اور قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں ان کا ذکر درج ذیل ہے :
(1) عدالتِ مجاز تک رسائی میں مشکلات
اس سیکشن میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ زنا بالرضا کے جرم میں تھانہ میں FIR کے اندراج کے بجائے صرف سیشن جج کی عدالت میں ہی زنا بالرضا کے جرم کے ارتکاب کی شکایت درج کروائی جاسکے گی کیوں کہ زنا بالرضاکے جرم کو ناقابل دست اندازی پولیس بنا دیا گیا ہے۔ زنا جیسے جرم کے قلع قمع کے لیے قانون تک عام آدمی کی رسائی کو زیادہ سے زیادہ ممکن بنانے کے بجائے قانون تک رسائی کو محال اور مشکل بنا دینے کا یہ عمل کئی طرح کی مشکلات کا باعث بنے گا۔
مثلاً تمام ضلع میں صرف ایک سیشن عدالت تک ہر شخص کی رسائی قطعاً ممکن نہیں ہوتی کیوں کہ پاکستان کے بعض اضلاع اتنے وسیع و عریض اور دور دراز علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں کہ دیہاتوں میں رہنے والے سادہ لوح لوگ قطعاً سیشن جج کی عدالت تک بار بار آنا بوجوہ afford نہیں کر سکتے۔ بفرض محال وہ پہنچ بھی جائیں تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہزاروں مقدموں کی کارروائی میں گھری ہوئی سیشن عدالت ان کی درخواست کو اس دن قبول کرسکے گی۔ اسی طرح کی دیگر قانونی پیچیدگیوں کے باعث مظلوم کے لیے بہ آسانی انصاف تک رسائی مشکل ہوگی۔ اس طرح عملاً زنا کے خلاف شکایت درج کروانا ناممکن ہو جائے گا کیوں کہ ہمارے عدالتی نظام میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایک معمولی سے معاملے کے لیے بھی عدالتوں کے باربار چکر لگانے پڑتے ہیں۔ اب جب کہ ضلع کے کسی دور دراز علاقے میں زنا کے جرم کا ارتکاب ہو اور شکایت کنندگان ایک دو دفعہ سیشن جج کی عدالت تک شکایت کرانے کے لیے آبھی گئے اور جج کسی بھی وجہ سے عدالت میں نہ ملا تو دوبارہ کوئی بھی عدالت میں آ کر شکایت درج کروانے کی جرات نہیں کرے گا۔
(2) مظلوم پر قذف کی تلوار
اس ایکٹ کے تحت جہاں ایک طرف ارتکابِ زنا بالرضا کی شکایت درج کروانے کے لیے سیشن جج کی عدالت کی شرط ہے وہیں دوسری طرف قانون کے اندر یہ بھی درج کر دیا گیا ہے کہ اگر شکایت کنندگان چار گواہ پیش کرکے جرم کو ثابت نہ کر سکیں تو انہیں بغیر کسی ثبوت یا مقدمہ کی کارروائی کے قذف کے قانون کا سامنا کرنا ہو گا گویا قذف کی تلوار بھی مظلوم کے سر پر ہی لٹکا دی گئی ہے۔
جرم ثابت کرنے کے لیے تو تزکیہ شہود سمیت دیگر کئی شرائط اور پابندیاں لگا دی گئی ہیں لیکن قذف کے ثبوت کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ کوئی بدکاری کے جرم کی شکایت لے کر عدالت میں آجائے اور جج اُس کی شکایت سے مطمئن نہ ہو۔ اس سلسلے میں دوسری قابلِ غور بات یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے کی بے حسی کسی سے پوشیدہ نہیں، سامنے گاڑی کے نیچے کوئی شخص کچلا جائے تو لوگ تھانے میں جاکر اس کی رپورٹ درج کروانے یا اس کی گواہی دینے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے چہ جائے کہ 100/50 میل دور سے کوئی اس معاشرتی برائی کی شکایت لے کر سیشن جج کی عدالت میں چکر لگاتا پھرے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں کہ جب شکایت کنندہ کو یہ بھی معلوم ہو کہ جرمانے اور قید سمیت قذف کی حد اُس پر بھی لگ سکتی ہے اور اس میں جج چاہے تو اس کے گواہوں پر سو طرح کے نقائص نکال کر ان کی چھٹی کرا دے اور مدعی کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ کسی ایک بستی، گاؤں اور تحصیل و ضلع میں قذف کا قانون بدنیتی کے ساتھ کسی شخص پر لاگو کردیا جائے تو کون ہے جو اس کے بعد بدکاری کے معاملات پر انگلی بھی اٹھانے کا روادار ہوگا، نتیجہ اجتماعی بے غیرتی اور بے حسی کی صورت میں نکلے گا۔
(3) ضلعی عدالتی نظام پر عدم اِعتماد
یہاں یہ امر بھی حیران کن ہے کہ ضلع کا پورا عدالتی نظام تمام دوسرے اہم ترین معاملات نمٹا رہا ہے۔ ضلعی عدالتی نظام میں عام طور پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے ماتحت بڑے اَضلاع میں 150 تا 200 جج / مجسٹریٹ ہوتے ہیں جب کہ چھوٹے اَضلاع میں بھی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے ماتحت تقریبًا 100 تک جج / مجسٹریٹ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ سنگین جرائم اور لاکھوں کروڑوں کی مالیت کے معاملات نبٹاتے ہیں لیکن ان معاملات میں تو ضلع کے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا جاتا جب کہ زنا کے لیے ضلع کے پورے عدالتی نظام کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے اور یہ شرط عائد کردی گئی ہے کہ صرف سیشن جج کی عدالت میں ہی آ کر جرم کے خلاف شکایت درج کروائی جائے۔ مزید برآں سیشن جج پر ضلع کی عدالت ہونے کے ناطے کئی دیگر امور کا بوجھ بھی ہوگا۔ اندریں حالات یہ معاملات قطعاً اس کی ترجیح میں شامل ہی نہ ہو سکیں گے۔ لہٰذا اس بات کا زیادہ امکان ہوگا کہ بدکاری کے یہ مقدمات غیر ضروری طوالت کا شکار ہوتے رہیں۔
(4) اِستغاثہ کا کڑا معیار
جرم ثابت کرنے کے لیے مقدمہ کی کارروائی کے دوران گواہوں اور تزکیۂ شہود کی شرط لازمی ہوتی ہے نہ کہ شکایت کے اندراج اور استغاثہ کو قابل سماعت بنانے کے لیے۔ جب کہ یہاں تو استغاثہ کو قابل سماعت بنانے کے لیے بھی اس بات کو لازمی قرار دیا گیا ہے کہ جب تک چار گواہوں کی شرط پوری نہیں ہوتی اس وقت تک شکایت کا اندراج بھی نہ کیا جائے اور شکایت کرنے والے کی شکایت کو ردّ کر دیا جائے۔ استغاثہ کا یہ کڑا معیار بجا تھا بشرطیکہ جرم ثابت کرنے کے بقیہ تقاضے بھی عین مطابقِ شریعت ہوں لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہائی جا رہی ہے۔ اس نرالے طریق کار کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔
(5) ملزم کے لیے غیر ضروری رعایت
مزید برآں اس سیکشن کے تحت زنا کے جرم کو قابلِ ضمانت بھی قرار دے دیا گیا ہے۔ جس سے جرم کی شدت کم تر ہوگئی ہے یعنی مجرم تو جرم کا ارتکاب بار بار کرنے کے باوجود صرف ذاتی مچلکے پُر کرکے ضمانت پر رہا ہو جائے گا اور معاشرے میں دندناتا پھرے گا۔ جب کہ شکا یت کنندہ جو مظلوم ہوگا معاشرے میں اس سنگین جرم کے خاتمے کے لیے عدالت سے رجوع کر رہا ہو گا اور عدالت میں پیشیاں بھگت رہا ہوگا اسے قذف کے قانون کا سامنا بھی ہو گا یہ صورتحال یقینًا ملزم کو غیر ضروری رعایت دینے اور مظلوم کے لیے مشکلات میں اضافے کا سبب ہو گا۔ جس کے نتیجے میں جرائم کی بے پناہ حوصلہ افزائی ہوگی۔
سیکشن نمبر 10
اس دفعہ کے تحت شیڈول میں زنا بالجبر قابل تعزیر کی شق نمبر i تا viii ماسوائے زنا بالجبر موجبِ حد کی شق v درست ہیں تاہم مجسٹریٹ اور ضلع کے مقامی عدالتی نظام پر اعتماد کی ضرورت ہے اور عام آدمی کے لیے قانون تک رسائی کے امکانات کو کھلا رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آسانی سے عدلیہ تک رسائی حاصل کرسکے۔ مزید براں زنا جیسے سنگین جرم کے ارتکاب پر کوڑوں کی سزا کو بھی بحال رکھنا چاہیے تاکہ مجرموں کی حوصلہ شکنی کے زیادہ سے زیادہ امکانات موجود رہیں۔
اس ایکٹ کی شق v زنا بالجبر موجبِ حد سے متعلق ہے مگر تعزیر کے تحت سزا کا تقرر بھی حدود ایکٹ کے تحت اسی کے ساتھ الگ کیا جانا چاہیے تھا۔ اسی طرح اس ایکٹ کی دفعہ 10 کی شق ix میں زنا بالرضا موجبِ حد کو ناقابلِ دست اندازئ پولیس اور قابلِ ضمانت قرار دینا قانون کو غیر مؤثر کرنے کے مترادف ہے۔ یہ اقدام قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے۔
سیکشن نمبر 11 اور 13 : زبانی نکاح کا تحفظ
اسی ایکٹ کے سیکشن نمبر 11 اور 13 میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ زنا کا جرم آرڈی ننس 1979ء کی دفعہ 2 اور 4 میں validly married کے الفاظ میں سے لفظ ’’validly‘‘ (جائز طور پر) حذف کر دیا جائے گا۔ یہ ’’حذف‘‘ دراَصل بدکاری کے راستے کو کھولنے کے مترادف ہے۔ لفظ ’’جائز‘‘ کو حذف کرنے کے لیے جو استدلال پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے دیہاتوں میں اکثر و بیشتر نکاح کی رجسٹریشن کا اندراج موجود نہیں ہوتا جس کی وجہ سے عام لوگوں پر زنا کا الزام لگنے کی صورت میں انہیں اپنی حفاظت اور تحفظ کی سہولت موجود نہیں ہوتی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں عام آدمی کو تحفظ دینے کے لیے لفظ ’’جائز‘‘ کو حذف کرنے کی دلیل پیش کی گئی۔ جب کہ اس اقدام میں طاقتور کو تحفظ دینے کے امکانات زیادہ موجود ہیں کیوں کہ وہ علاقے جہاں پر طاقتور لوگ اپنی طاقت کے بل بوتے پر غریب لوگوں کی عزتوں سے کھیلتے ہیں ان کے لیے یہ کام بہت آسان ہوگا۔ جب بھی ان کے خلاف کوئی شکایت درج کروائی جائے گی تو وہ کہیں گے : ہم نے تو نکاح کر رکھا ہے۔ نکاح کے جائز ہونے کے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے شرط موجود نہ ہونے سے زبانی نکاح کو اپنے تحفظ اور ڈھال کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔ ان حالات میں زیادہ ضروری تھا کہ یہاں لفظ ’’جائز‘‘ کو ختم کرنے کی بجائے دیگر اقدامات کیے جاتے کیوں کہ جب بھی دیہاتوں میں شادیاں ہوتیں ہیں، گواہوں اور والدین کی رضامندی کے بغیر کوئی نکاح نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا یہاں ضروری تھا کہ یہ قرار دیا جاتا کہ اگر نکاح کا اندراج موجود نہیں ہے تو علاقے کے معزز افراد اور والدین کی گواہی کے تحت اس امر کا فیصلہ کیا جائے گا کہ نکاح ہوا یا نہیں جب کہ موجودہ صورت میں معاشرے کے طاقتور اور مجرم صفت لوگوں کے لیے اپنے زنا کو زبانی نکاح قرار دے کر بدکاری کے راستوں کو مزید کھول دیا گیا ہے۔ اسی طرح اسلام میں void اور voidable شادیوں کی ممانعت کے قانون کے خلاف قانون بنا کر اسلامی خاندانی نظام پر کڑی چوٹ لگائی گئی ہے۔
سیکشن نمبر 12 : حدود قوانین کی برتری کا خاتمہ
اس ایکٹ کے سیکشن 12 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی دفعہ 3 کو حذف کرکے حدود قوانین کی دیگر تمام متعلقہ قوانین پر برتری کا قانونی اصول ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ اقدام بھی آئین اور قرآن و سنت سے متصادم ہے۔
سیکشن نمبر 14 : زنا بالجبر موجبِ حد کے قانون کا ختم
اس ایکٹ کی دفعہ 14 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی زنا بالجبر موجب حد کی دفعات 6 تا 7 ختم کردی گئی ہیں۔ جو قرآن و سنت سے کھلا تصادم ہے کیوں کہ قرآن و سنت کے مطابق زنا بالجبر کا جرمِ زنا بالرضا کے جرم سے بھی سنگین ہے۔ لہٰذا زنا بالجبر موجبِ حد کے قانون کو تعزیرات میں شامل کرنا اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغاوت اور جنگ کے مترادف ہے۔
سیکشن نمبر 15 تا 16
اس ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی نفاذ حد کے لیے تزکیہ شہود کی بنیاد پر شہادت کے معیار کی دفعہ 8 سے ’’زنا بالجبر‘‘ کے الفاظ حذف کر دیئے گئے ہیں۔ یہ اقدام قرآن و سنت سے اس لیے متصادم ہے کہ اسلام میں جہاں زنا بالجبر موجبِ حد کی سخت سزا کا تعین ہے وہاں اس کے ثبوت کا معیار بھی کڑا رکھا گیا ہے۔
سیکشن نمبر 17
اس سیکشن کے تحت درج ذیل قانونی ترمیمات کی گئی ہیں۔
(1) زنا موجبِ تعزیر کے قانون کا خاتمہ
اس ایکٹ کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی زنا بالرضا موجبِ تعزیر اور زنا بالجبر موجبِ تعزیر کی سزاؤں کی دفعہ 10 حذف کردی گئی ہے حالانکہ قرآن و سنت کے طے کردہ حدود قوانین اٹل ہیں۔ تاہم ریاست کو تعزیری قوانین بنانے کا اختیار حاصل ہے۔ لہٰذا حدود آرڈی ننس کی یہ دفعہ 10 قرآن و سنت کی روح کے مطابق تھی مگر اسے حذف کرکے قرآن و سنت کے منافی اقدام کیا گیا ہے۔
حدود آرڈی ننس کے تحت اگر کسی ملزم کے خلاف نفاذ حد کے معیار کی مکمل شہادت میسر نہ ہوتی مگر جرم کے ثبوت کے لیے قرائنی شہادت میسر آجاتی تو ملزم بری نہ ہوتا تھا بلکہ ملزم کو ’’حد‘‘ کی سزا کے بجائے ’’تعزیر‘‘ کے تحت سزا ہوجاتی تھی۔ اب زنا بالرضا کے الزام میں اگر ملزم کے خلاف تزکیہ الشہود کی بنیاد پر مکمل شہادت میسر نہ آئی تو ملزم کو بالکل بری کر دیا جائے گا اور تعزیری سزا بھی نہ ہوسکے گی۔ یہ اقدام بھی قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے۔ یہ ترمیم بدنیتی پر مبنی ہے جس کا واحد مقصد معاشرے میں جرمِ زنا کے ارتکاب کو فروغ دینا اور جرائم پر قانون کی گرفت ڈھیلی کرنا ہے۔
(2) زنا بالجبر موجبِ تعزیر سے کوڑوں کی سزا ختم
اس سیکشن کے تحت جرمِ زنا (نفاذ حد) آرڈی ننس 1979ء کی دفعات 11 تا 16 حذف کر کے تعزیراتِ پاکستان میں شامل کردی گئی ہیں۔ کیوں کہ ان دفعات میں بیان کردہ جرائم کا تعلق زنا بالجبر موجب تعزیر سے تھا لہٰذا ان ترامیم کی شرعی حیثیت زنا بالجبر موجب حد کی طرح کا مسئلہ نہیں ہے مگر ان جرائم کی سزاؤں سے کوڑوں کی سزاؤں کا ختم کیا جانا قرآن و سنت کی روح کے منافی اقدام ہے۔ کوڑوں کی سزا کا خاتمہ بدنیتی پر مبنی ہے جس کا واحد مقصد معاشرے میں زنا کے ارتکاب کو مزید فروغ دینا اور مجرموں پر قانون کی گرفت ڈھیلی کرنا ہے۔ بصورتِ تعزیر کوڑوں کی تعداد کم ہوتی ہے، تاہم سزائے قید سمیت دیگر سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔
(3) جرمِ زنا کی attempt کی سزا کا خاتمہ
اِس ایکٹ کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی جرمِ زنا کی تیاری (attempt) کی دفعہ 18 کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد اب کسی بھی مقام پر چاہے پارک ہو، شاہراہ ہو یا کوئی اور جگہ بوس و کنار جیسی مخربِ اَخلاق برائی کے خلاف کوئی بھی اسٹیٹ اتھارٹی کارروائی نہیں کرسکتی۔ یہ اقدام بھی آئین و قرآن و سنت کی روح کے منافی ہے اور مجرموں کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔ اس سے فحاشی، عریانی اور بے حیائی کو فروغ ملے گا، اور معاشرے میں بے غیرتی عام ہوجائے گی۔
(4) تعزیراتِ پاکستان کے اِطلاق کا خاتمہ
اِس ایکٹ کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی تعزیرات پاکستان کے بعض قانونی اصولوں کے حدود کیسز پر اطلاق کی دفعہ 19 کو حذف کر دیا گیا ہے مگر وہی اصول حدود آرڈی ننس میں شامل نہیں کیے گئے جو کہ آئین اور قرآن و سنت کے منافی ہے۔
سیکشن نمبر 18 : زنا بالجبر میں سزائے رجم سے متعلق دفعہ کا خاتمہ
اِس سیکشن کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء میں سزائے رجم کے طریقہ کی دفعہ 17 میں زنا بالجبر موجبِ حد کی دفعہ 6 کے الفاظ کو حذف کر دیا گیا ہے۔
سیکشن نمبر 19
دفعہ 19 کے تحت جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی دفعہ 20 میں ترامیم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے عدالت مجرم کو کسی دیگر جرم میں ملوث ہونے پر کارروائی کرکے سزا نہیں دے سکے گی جوکہ مجرموں کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔ جب کہ دیگر قوانین کے تحت جج صاحبان کو سماعتِ مقدمہ کے دوران جرم کی نوعیت کے مطابق فردِ جرم میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔ لہٰذا یہ ترامیم ملکی قوانین میں اِمتیازی اقدام ہے۔
قذف کے قوانین میں ترامیم
سیکشن نمبر 20
دفعہ 20 کے تحت جرمِ قذف (نفاذِ حدود) آرڈی ننس 1979ء کی دفعہ 2 میں سے ’’تعزیر‘‘ اور ’’زنا بالجبر‘‘ کے الفاظ حذف کر دیئے گئے ہیں۔ اس نوعیت کی ترامیم کے متعلق تجزیہ جرم زنا (نفاذ حدود) آرڈی ننس 1979ء کا جائزہ لیتے ہوئے اوپر مفصل بیان ہوچکا ہے۔
سیکشن نمبر 21
دفعہ 21 کے تحت قذف آرڈی ننس کی جرمِ قذف (نفاذِ حد) آرڈی ننس 1979ء موجبِ تعزیر کی دفعہ 4 حذف کر دی گئی ہے جس کی وجہ سے صرف قذف موجبِ حد کا قانون باقی رہ گیا ہے۔ یعنی جرمِ زنا کی رپورٹ درج کروانے والا مطلوبہ ثبوت فراہم نہ کرسکا تو اسے چھوٹی موٹی سزا نہیں بلکہ پورے 80 کوڑے کھانے پڑیں گے لیکن زنا کا جرم قرائنی شہادتوں سے ثابت بھی ہوجائے گا تو مجرموں پر کوئی گرفت نہیں ہو سکے گی۔ یہ قانون چور کی برات آسان کرتا ہے اور جس کی چوری ہوگئی ہے اُسے لٹکا دیتا ہے۔
سیکشن نمبر 22 : شکایت کنندہ کو مجرم بنانے کا پھندا
ایکٹ کے اس سیکشن میں یہ طے کیا گیا ہے کہ اگر زنا بالرضا کی شکایت کرنے والا شخص جرم ثابت نہ کرسکے تو اس پر قذف کا اَز خود اِطلاق ہو جائے گا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ کبھی بھی قانون کے تحت کوئی جرم از خود دوسرے جرم میں نہ ہی تبدیل ہوتا ہے نہ ہی خود FIR میں بدل سکتا ہے اور نہ ہی trial کے بغیر سزا ہوسکتی ہے۔ جب کہ اس سیکشن کے تحت جرمِ زنا بالرضا ثابت نہ ہونے پر اس کو از خود قذف میں بدل دینا یا تو مکاری ہے یا بدکاری کی حمایت کے لیے کی جانے والی واضح حکمتِ عملی۔ تاکہ اس جرم کی شکایت کرنے کے امکانات بھی ممکنہ حد تک مسدود ہو جائیں اور کوئی اس جرم کی شکایت تک کرنے کی جسارت نہ کرسکے۔ اس پر مزید ستم یہ ہے کہ یہ سب کچھ خواتین کی حفاظت کے کے نام پر کیا جا رہا ہے اور خواتین سے دھوکا کیا گیا ہے اور انہیں ان نام نہاد ’’حقوق‘‘ کے تحفظ کے لیے میدان میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
زنا، حد اور شہادت کی نوعیت جدا جدا ہے
اِس ضمن میں کوڑوں کی سزا کو بالکل ختم کرنے کا ذکر بھی ہے حالانکہ تعزیری سزاؤں (یعنی قید اور جرمانہ وغیرہ) کے ساتھ اس کو بھی برقرار رکھنا ضروری ہے۔ تاکہ جرم کے خاتمہ کے لیے زیادہ سے زیادہ امکانات موجود رہیں۔ اسی طرح صفحہ 14 پر دوسرا پیراگراف ہے اس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ اگر چار گواہ ثابت نہ ہوں تو زنا کے کیس کا اندراج نہیں ہوگا۔ یہاں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ زنا کے جرم کو قابل حد ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی ضرورت شریعت نے مقرر کی ہے نہ کہ شکایت کے اندراج کرنے کے لیے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ زنا، حد اور شہادت تین الگ باتیں ہیں۔ زنا ایک مجرمانہ عمل ہے جوہر حالت میں جرم ہی رہتا ہے خواہ اُس کی شکایت تک بھی نہ کی گئی ہو۔ جب کہ سزا کا تعلق نفس جرم سے نہیں بلکہ ثبوتِ جرم سے ہے۔ جو حد بھی ہو سکتی ہے اور تعزیر بھی جب کہ شہادت وہ نظام ہے کہ اگر اس کا نصاب پورا ہو تو حد کا نفاد ہو گا اور اگر دیگر اطمینان بخش شواہد (sufficient grounds to believe) موجود ہوں مگر نصابِ حد پورا نہ ہو تو پھر تعزیراً سزا دی جائے گی۔ یعنی ہر عمل کا ایک مرحلہ ہے لیکن اس نوعیت کو سمجھے بغیر موجودہ ایکٹ میں حدود و تعزیرات کے اسلامی قوانین میں من مانی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں۔
مثلاً اس سیکشن میں ترمیم کی خاطر یہ مؤقف احتیار کیا گیا ہے کہ اگر عورت جرم ثابت نہ کرسکے تو اس پر قذف کی حد لاگو ہو جاتی ہے۔ حالانکہ یہ سراسر غلط ہے اور حقائق اور قانون کی روح کے بھی خلاف ہے۔ قانون سازوں نے اس قانون کا یہ حشر کر دیا ہے کہ اب پوری قوم حتیٰ کہ ماں باپ، بہن بھائی اور معاشرے کے ہر فرد پر قذف کا بہ آسانی اِطلاق ہو رہا ہے۔ حل یہ تھا کہ سزا کو تعزیر کے طور پر موجود رکھا جاتا اور جس مرحلہ پر جو سزا درکار ہوتی وہی سزا عائد کی جاتی۔ گویا نہ صرف یہ کہ قانون کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا بلکہ قانون سازی کرتے ہوئے قانون کی روح تک کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ اس کے لیے جو وضاحتیں پیش کی گئیں ہیں وہ بھی عذر گناہ بد تر از گناہ کے مترادف ہیں۔
سیکشن نمبر 23
اِس سیکشن کے تحت جرم زنا بالرضا کے علاوہ دیگر جرائم میں جھوٹا مقدمہ خارج کرنے پر براہِ راست قذف کی سزا نہ ہوسکے گی، اور اگر کوئی اَز خود کسی کے خلاف قذف کی کارروائی کرنا چاہتا ہے تو وہ تھانے میں FIR درج نہیں کروا سکے گا بلکہ اسے اِس ایکٹ کے سیکشن نمبر 9 کے تحت قذف کا استغاثہ دائر کرنا پڑے گا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں زنا بالرضا اور دیگر جرائم کے لیے قذف کے اطلاق کے لیے دو علیحدہ علیحدہ ضابطے طے کیے گئے ہیں جو کہ دوہرا معیار ہے۔
اِسی سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس کی دفعہ 9 کی ذیلی شق 2 کے تحت جج کو قذف موجبِ تعزیر کے تحت سزا دینے کا اختیار بھی ختم کردیا گیا۔ یہاں بھی دوہرا معیار اپنایا گیا ہے جب کہ دیگر حدود قوانین میں موجبِ حد کے معیار کی شہادت میسر نہ ہو تو موجبِ تعزیر کی سزا دی جاتی ہے مگر یہاں یہ اصول حذف کر دیا گیا ہے حالانکہ قذف موجبِ تعزیر کی سزا بھی برقرار رہنی چاہیے تھی۔
سیکشن نمبر 24 : قرآنی تعلیمات سے چشم پوشی کی واضح مثال
اس سیکشن کے تحت یہ قرار دیا گیا ہے کہ کسی ایسے مقدمے میں جس میں حد کی تعمیل سے قبل مستغیث قذف کا الزام واپس لے لے یا یہ بیان دے کہ ملزم نے جھوٹا اقبال کیا ہے یا یہ کہ گواہوں میں کسی نے جھوٹا بیان دیا ہے تو حد کا اطلاق نہیں ہو گا۔ یہاں تعزیر کا ذکر بالکل ختم کر دیا گیا ہے۔ جب کہ شکایت کرنے والے کے لیے شکایت کے واپس لینے کے دباؤ موجود ہیں اور اس کے لیے جو دلیل دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن حکیم نے زنا بالجبر، زنا بالرضا اور قذف کی تعریف بیان نہیں کی۔ یہ کہنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ موقف اختیار کرے کہ قرآن حکیم صوم، صلوٰۃ، اور زکوۃ کی تعریف بیان نہیں کرتا۔ اگر اسی اصول کو لے کر چلیں تو اسلام کے تمام قوانین اور ارکان اسلام کا نظام تہہ و بالا ہو جائے گا۔ قرآن تعریفات بیان کرنے والی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی اصول دیتی ہے۔ اس نے زنا کا ذکر کرتے ہوئے یہ اصول دے دیا ہے :
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَO
(النور، 24 : 2)
’’بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (سو) کوڑے مارو (جب کہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے) اور تمہیں ان دونوں پر (دین کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہوo‘‘
اِسی طرح قذف پر بھی حتمی اصول اور ضابطہ بیان کیا گیا ہے :
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَO
(النور، 24 : 4)
’’اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ بدکردار ہیںo‘‘
یہ آیات براہِ راست جرم کی نوعیت، ضابطوں کی بنیادی تفصیل اور اس کی سزائیں بیان کرتی ہیں۔ اس طرح اس قانون میں حد اور تعزیر کو بالکل ختم کر دینا قرآن کی ان بنیادی تعلیمات سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔
سیکشن نمبر 25
اِس سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس کی قذف موجبِ تعزیر کی دفعات 10 تا 13 اور جرمِ قذف کی تیاری (attempt) کی دفعہ 15 حذف کر دی گئیں ہیں۔
سیکشن نمبر 26 : لعان سے متعلق قانون میں عورت کے لیے مشکلات کا اِضافہ
اِس سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس لعان کی دفعہ 14 کی شق نمبر 3 حذف کر دی گئی ہے، جس میں مرد کو اپنی بیوی پر بدکاری کی تہمت لگانے کے بعد لعان تک قید و بند میں رکھنے کا پابند بنایا گیا تھا۔ اِس شق کے حذف کرنے سے مرد کو کھلی چھٹی مل گئی ہے کہ وہ اپنی بیوی پر بدکاری کی تہمت بھی لگائے، اور لعان سے بھی بچا رہے۔ اب متہمہ بیوی کو اِس ایکٹ کی دفعہ 30 کے تحت طلاق کے لیے لعان کو تنسیخِ نکاح کے جواز کے طور پر پیش کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اور تنسیخ ’’مسلم نکاح ایکٹ 1939ء‘‘ کی دفعہ 2 کی شق vii-a کا اِضافہ کر دیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب ثبوت کی ذِمّہ داری مرد کی بجائے عورت پر آگئی ہے۔ اس لیے اُسے تنسیخِ نکاح کا مقدمہ اَز سر نو دائر کرنا پڑے گا۔ اِس سے عورت کی مشکلات اور حصولِ اِنصاف میں یقیناً اِضافہ ہوگا۔
اِسی سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس کی لعان سے متعلق دفعہ 14 کی شق نمبر 4 کو بھی حذف کر دیا گیا ہے، جس کے تحت پہلے یہ قانون تھا کہ بیوی اگر اپنے خاوند کا اِلزام تسلیم کر لیتی ہے تو اُسے زنا مستوجبِ حد کا سزاوار ٹھہرایا جاتا تھا۔ لیکن اب اِس ترمیم کے نتیجے میں بدکار بیوی مستوجبِ حد نہیں ہوگی۔ قرآن و سنت کی نگاہ میں مجرم عورت ہو یا مرد دونوں برابر ہیں لیکن یہاں جنس کی بنیاد پر عورت کو اِستثناء دے دی گئی ہے حالاں کہ قرآن و سنت اِس کی اِجازت نہیں دیتے۔
سیکشن نمبر 27 تا 29
اِس سیکشن کے تحت قذف آرڈی ننس پر تعزیراتِ پاکستان کے بعض قوانین کے اِطلاق کی دفعہ 16 حذف کر دی گئی ہے، مگر وہی اُصول قذف آرڈی ننس میں شامل نہیں کیے گئے۔
اِس ایکٹ کے سیکشن 28 کے تحت حدود آرڈی ننس کی دفعہ 17 کی پہلی اِستثناء ختم کر دی گئی ہے۔ اِس کی وجہ سے عدالت ملزم کو کسی دیگر جرم میں ملوث ہونے پر کارروائی کرکے سزا نہیں دے سکے گی۔ یہ مجرموں کو کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے۔
اِس ایکٹ کے سیکشن 29 کے تحت قذف آرڈی ننس کی دفعہ 19 حذف کرکے حدود قوانین کی دیگر تمام قوانین پر برتری کا قانونی اُصول ختم کر دیا گیا ہے، جو قرآن و سنت کی کھلی توہین ہے۔
اِختتامیہ
اس ایکٹ کے آخر میں بہ عنوان Statement of Objects and Reasons بہت سی ایسی باتیں درج کی گئیں ہیں جن میں کئی امور محلِ نظر ہیں مثلاً صفحہ 13 پر بیان کردہ پانچویں پیراگراف
"The offences listed in Sections 11 to 16 of the Offence of Zina (Enforcement of Hudood) Ordinance, 1979 (VII of 1979) hereinafter "Zina Ordinance" are Ta`zir offences. All these are being inserted as Sections 365B, 367A, 371A, 371B, 493A, and 496A of the Pakistan Penal Code, 1860 (Act XLV of 1860). Sections 12 and 13 of the Offence of Qazf (Enforcement of Hadd) Ordinance, 1979 hereinafter "Qazf Ordinance" are being omitted. This is being done as the definition of qazf of Section 3 of that Ordinance is wide enough to cover the qazf committed by printing or engravaing or sale of printed and engraved meterial."
کی بالکل ضرورت نہ تھی بلکہ یہ قانون سازوں کی مکاری اور عیاری کے مترادف ہے۔
صفحہ نمبر 16 پر آخری پیراگراف سے پہلے پیراگراف میں جو ۔ ۔ ۔ The Zina Ordinence ۔ ۔ ۔ سے شروع ہوتا ہے۔ اس میں بھی چار ایسے اقدامات بیان کر دیے گئے ہیں۔ جن کے اثرات کے تحت اس جرم کے خاتمہ کے بجائے اس جرم کے فروغ کے امکانات زیادہ ہوں گے۔
(1) زنا کی شکایت صرف سیشن جج کی عدالت میں درج کروائی جا سکے گی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ زنا کا جرم کرنے والا معاشرے میں آزاد پھرتا رہے گا جب کہ شکایت کرنے والا عدالت کے چکر لگا لگا کر تھک ہار کر گھر بیٹھ جائے گا۔
(2) زنا کو قابل ضمانت جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں زنا سے اَدنی درجے کے کئی ایسے جرائم ناقابل ضمانت ہیں۔ اِسی طرح ضابطہ فوجداری کے شیڈول کے آخری حصہ میں تین سال سے زائد سزاؤں والے تمام جرائم کو ناقابل ضمانت قرار دیا گیا ہے، مگر زنا کا جرم قابل ضمانت بنا دیا گیا ہے۔
(3) زنا کو ناقابل دست درازی پولیس جرم قرار دیا گیا ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اگر پولیس اس قانون کو غلط استعمال کر رہی ہے تو اس کے اس غلط استعمال کو روکا جاتا اور قانون کو مزید موثر بنایا جاتا اور یہ قانون کا حصہ بنایا جاتا کہ پولیس مجسٹریٹ کی اجازت اور اتھارٹی کے تحت چھاپے مارے اور اقدامات کرے۔
(4) اسی پیراگراف میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ جب تک سیشن جج ہدایات یا سمن جاری نہیں کرے گا اس وقت تک مجرم کو طلب نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی پولیس کو مجرم کو گرفتار کرنیکا اختیار ہے۔ سیشن جج اس وقت مجرم کو حاضری کے لیے طلب کرنے کا حکم جاری کرے گا جب اس کو یقین ہو کہ واقعی جرم ہوا ہے۔ تب بھی ملزم کو طلب کرکے آئندہ حاضری کے لیے ذاتی مچلکہ پر ضمانت قبول کرے گا۔ ہمارا عدالتی ریکارڈ اور نظام اس بات کا گواہ ہے کہ سیشن جج پر پہلے ہی کئی دوسرے مقدموں کے بوجھ اتنے زیادہ ہیں کہ وہ اپنی ترجیحات کے تعین میں اس طرح کے معاملات کو آخری درجے میں رکھنے پر مجبور ہوگا۔ استغاثہ کے اندراج کے بعد بھی کیس کے فیصلہ ہونے کے ضروری تقاضے پورے کرنا اورجرم کو ثابت کرکے سزا تک پہنچانا ناممکن حد تک محال بنا دیا گیا ہے۔
دعوتِ فکر و عمل
تحفظ نسواں ایکٹ 2006ء کا مندرجہ بالا تجزیہ اِس اَمر کو واضح کرتا ہے کہ یہ قانون قرآن و سنت اور خواتین کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اب جب کہ ملک کے تمام اہلِ دین اور اہلِ دانش اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں تو مقتدر حلقوں کو چاہیے کہ وہ ایسی قانون سازی سے نہ صرف باز رہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے اپنی اس کوتاہی پر معافی مانگیں اور موجودہ قانون کو بھی نظرِ ثانی کے مرحلہ سے گزاریں۔ عورت کے ’’حقوق کے تحفظ‘‘ کے نام پر عورت کے ناموس کی پامالی اور معاشرے کو ترقی کے نام پر بدکاری کی آماج گاہ بنانے سے باز رہنا ہی اسلام اور پاکستان کے مفادات میں ہے۔
خواتین سمیت معاشرے کے تمام مظلوم طبقات کے حقوق کی حفاظت حکومت کا اَوّلین فرض ہے۔ حکومت اگر پاکستان کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے اور یہاں کے عوام کو خوش حال بنانے میں مخلص ہے تو ملک کے اَطراف و اَکناف میں موجود جہالت، ظلم، نااِنصافی اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے قانون سازی کرے اور پہلے سے موجود قوانین کو دیانت داری کے ساتھ نافذ العمل ہونے کی یقین دہانی کروائے۔ مہنگائی کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکے۔ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی آسان بنائے اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی طرح نظریاتی سرحدوں کی بھی حفاظت کو اہمیت دے۔ بلکہ عورتوں کے وہ تمام شرعی حقوق جو ادا نہیں کیے جاتے۔ مثلاً زمینوں اور جائیدادوں میں وراثت کا مکمل حق، مہر کی مکمل ادائیگی، عورتوں کو مار پیٹ اور اُن پر ظلم و جبر، خاندانی قتلوں کے عوض بچیوں کی مرضی کے خلاف جبری شادیاں وغیرہ۔ ان جیسے اقدامات کے روک تھام کے لیے قوانین بنائے جائیں نہ کہ ’’زنا‘‘ کو حقوقِ نسواں کے عنوان کے تحت بدکاروں کے لیے میدانِ جدوجہد بنا دیا جائے تاکہ اِس راستے میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں اور ڈر چھپ کر اَخلاقی جرائم کرنے کی بجائے مغرب کی طرح آزاد معاشرہ بنا دیا جائے تاکہ آئندہ نسب کا بھی پتہ نہ چلے۔
تبصرہ