تحریر: عین الحق بغدادی
قدرت کی کرشمہ سازی ہے کہ بعض اوقات بادشاہوں کی اولادیں مال و دولت اور اسباب ہونے کے باوجود جہالت کی زندگی گزارتے ہیں، لیکن جن کے پاس مال و دولت نہیں مگر دستیاب رزقِ حلال کے ساتھ اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی وجہ سے اُن کی اولاد یں دولت علم سے آراستہ ہوکر بادشاہی کرتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی واقعہ خراسان کے ضلع طوس میں رہنے والے اَحمد کے ساتھ ہوا۔ سوت کاتنے کے ذریعے جو رزقِ حلال نصیب ہوتا اُس سے اپنی بیٹوں کی پرورش کرتے۔ اُن کا رزقِ حلال اللہ کے فضل و کرم کی صورت میں ایسا رنگ لایا کہ اُن کا بیٹا محمد علم و فن میں اُس عروج کو پہنچا کہ حجۃ الاسلام کے لقب سے مشہور ہوا۔ آپ کے نام کے ساتھ آپ کے والد کا سوت کاتنے کا پیشہ بھی کچھ یوں مشہور ہوا کہ لوگ آپ کا نام بھول گئے اور آپ امام غزالی کے نام سے پہچانے گئے۔ آج علم کی باریکیوں کو سمجھنے سمجھانے والے کو اسی خطاب سے یاد کرتے ہوئے غزالیٔ زما ں کہا جاتا ہے۔
آپ نے زمانہ طالب علمی میں اساتذہ کرام کی علمی تشریحات پر مشتمل جو نوٹس تیار کیے تھے وہ چوری ہونے کے بعد اپنے آپ کو نوٹس کی محتاجی سے نکالنے کے لیے کتابوں کی کتابیں دل و دماغ میں محفوظ کر لیں۔ آپ کی زندگی کا جو سب سے اہم حصہ ہے وہ تصنیف وتالیف کا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی شخص کو زندہ رکھنے کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ہے۔ پوری دنیا میں بہت ذہین و فطین اور نابغہء عصر شخصیات آئیں اوراپنی علمی دھاگ بٹھائی مگر اپنے زمانے کے علاوہ اُن کا جاننے والا کوئی نہیں۔ امام غزالی نے اپنی ابتدائی عمر میں ہی تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کر دیا تھااور اس کی سب سے بڑی دلیل بھی یہی واقعہ ہے جس میں آپ نے نوٹس چوری ہوجانے پر پریشانی کا اظہار کیا، کیونکہ آپ اپنی علمی یادداشت کو ہر صورت محفوظ دیکھنا چاہتے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی اپنی الغزالی میں امام نووی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے امام غزالی کی تصنیفات کا اُن کی عمر کے مطابق حساب لگایا تو پتہ چلا کہ آپ ہر روز آٹھ صفحات تصنیف کرتے تھے۔ جس طرح اُن کی سوانح عمری سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام غزالی بادشاہوں کے بہت قریب رہے، درس و تدریس کا کام بھی تھا اور بعد میں مدرسہ نظامیہ جو اس وقت اسلامی دنیا کی بڑی یونیورسٹی تھی کے شیخ الجامعہ بھی تھے۔ ان تمام مصروفیات کے باوجودہر روز اتنا لکھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ اُس وقت کے حالات وواقعات اور فتووں سے بے نیاز ہو کر آنے والی نسلوں کی رہنمائی کے لئے اپنی یادداشتیں محفوظ کرتے چلے جا رہے تھے۔ آپ نے تفسیر، حدیث، علم الکلام، فقہ، اُصول فقہ، تصوف واَخلاق، منطق اور فلسفہ کے موضوعات پر تقریباً (78) اٹھہترسے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔ آپ کی تصانیف میں سب سے زیادہ شہرت پانے والی کتاب ’احیاء علوم الدین‘ہے جو تصوف و اخلاق پر لکھی گئی کتب میں بنیادی مصدر کا درجہ رکھتی ہے۔ اگرچہ نصائح ومواعظت پر اس سے قبل بھی بہت کتب لکھی جا چکی تھیں مگر انہیں مقبولیت اس لیے نہ ملی کہ یا تو وہ صرف فلسفیانہ انداز میں لکھی گئیں تھیں جو عام آدمی کی سمجھ سے باہر تھیں یا مذہبی طرز پر لکھی گئی کتب میں فلسفہ اور عقلیات کی چاشنی بالکل نہ تھی۔ امام صاحب نے فلسفہ ومذہب دونوں کو ترتیب دے کر احیاء علوم الدین تصنیف کی جس نے سابقہ تمام نقص پورے کرکے ہر مزاج کے قاری کی دلچسپی کا سامان مہیا کردیا۔ اس کتاب نے ایسی مقبولیت حاصل کی کہ محدث زین عراقی فرماتے ہیں: احیاء علوم الدین اسلام کی اعلیٰ ترین تصنیفات میں سے ہے۔ عبد الغافر فارسی لکھتے ہیں: احیاء علوم الدین جیسی کوئی کتاب اس سے قبل نہیں لکھی گئی تھی۔ امام نووی لکھتے ہیں :احیاء علوم الدین قرآن پاک کے لگ بھگ ہے۔ امام نووی کے اس قول کو شبلی نعمانی نے اپنی کتاب الغزالی میں بھی نقل کیا ہے۔ شیخ ابو محمد زرونی کہتے ہیں: اگر دنیا سے تمام علوم مٹا دیئے جائیں تو میں انہیں احیاء علوم الدین سے زندہ کر دونگا۔ مشہور صوفی بزرگ قطب شاہ ولی ایک دن احیاء علوم الدین ہاتھ میں لئے ہوئے نکلے اور لوگوں سے پوچھا کہ کیا اس کتاب کی اہمیت جانتے ہو؟ پھر اپنے جسم پر کوڑوں کے نشانات دکھائے اور بتایا کہ میں اس کتاب کا منکر تھا، آج مجھے امام غزالی نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا اور اس جرم کی سزا میں مجھے کوڑے لگائے گئے۔ شیخ اکبر محی الدین احیاء علوم الدین کو کعبۃ اللہ کے سامنے بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ احیاء علوم الدین نے فلسفے کی چاشنی کی وجہ سے مغربی دنیا میں بھی وہ شہرتِ کمال حاصل کی کہ ہنری لوئیس تاریخ فلسفہ میں لکھتا ہے: اگر یورپ میں فلسفۂ اخلاق کے بانی ڈیکارٹ کے دور میں احیاء علوم الدین کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں ہو چکا ہوتا تو لوگ خیال کرتے کہ ڈیکارٹ نے احیاء علوم الدین کو چرا لیا ہے۔ اس کتاب کو ایسی مقبولیت ملی کی ارباب ذوق اسے سفر وحضر میں اپنے ساتھ رکھتے۔ اس وجہ سے اس کتاب کے کئی خلاصے بھی لکھے گئے۔ اس کتاب کی شہرت کی ایک وجہ اس کا وقتِ تالیف بھی تھا۔ امام صاحب ظاہری علوم میں عروج وکمال حاصل کرنے کے بعد جب علم سے شکوک و شبہات ختم کرنے کے لیے تلاشِ حق میں نکلے تو معرفت نصیب ہوئی، معرفت کے اس نشے میں مخمور جب عوام پر نظر پڑی تو دیکھا کہ لوگوں کے اَخلاق تو تباہ ہو چکے ہیں، وہ علماء جنہوں نے اَخلاق سنوارنے کا کام کرنا تھا خود طلبِ جاہ میں مصروف ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ میں نے دیکھا اُخروی راہیں بند ہوگئی ہیں۔ لوگوں کو ذاتی اغراض نے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ یہ دیکھ کر امام صاحب کی مہر سکوت ٹوٹ گئی اور ایسی کتاب لکھی اور ایسے عنوانات قائم کیے کہ پڑھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ امام صاحب نے میری مرض کا علاج پیش کر دیا ہے۔ یہ کتاب پڑھنے والے کے دل پر اثر اندا ز ہوتی ہے۔ آپ کی تعلیمات نہ صرف اثر بلکہ تاثیر رکھتی ہیں۔ احیاء علوم الدین کی یہ خاص کرامت ہے کہ جس مضمون کو بھی ادا کیا سہل پسندی، عام فہمی اور دلآویزی کے باوجود فلسفہ وحکمت کے معیار سے اُترنے نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام رازی سے لے کر آج کے سطحی الذہن واعظین تک سبھی اس کتاب کے مطالعہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ان ارشادات اور ایسی عظیم کتاب سے امام غزالی کی علمی خدمات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ تعارف لکھنے کا مقصد صرف اخبار کے صفحات بھرنا نہیں بلکہ عوام الناس کی توجہ اس طرف دلوانا مقصود ہے کہ دنیاوآخرت میں کامیابی وکامرانی کے لیے علم دوستی ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں ہم عصر علمائے حق کی علمی کاوشوں سے بھی استفادہ کرنا چاہئے۔ ہمیں علم و علماء کا قدردان ہونا چاہئے نہ کہ تعصب کی بناء پر اُن کی علمی شخصیت کو مسخ کرنے اور اُن کی کتابوں کا جلانے والا۔ امام غزالی کی مذکورہ کتاب کو جلانے والے اور کفر کے فتوے لگانے والے علماء کا نام شاید ہی کوئی جانتا ہومگر غزالی کی تعلیمات نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ہماری مردہ رگوں میں زندگی رواں کرنے کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ آپ نے ہر موضوع پر بڑے آسان پیرائے میں اس طرح لکھا کہ پڑھنے والے کے دل پر اثر انداز ہوتا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ امام غزالی نے ان تمام علوم کو صفائے قلب اور نور الٰہی کے ساتھ جلاء بخشی تھی۔ اس لیے آپ کی بات میں تاثیر پیدا ہو گئی تھی۔ آپ اپنی تصنیفات کی بابت خود لکھتے ہیں کہ میری کتابیں قدیم کتب کے رجال کی تفصیل ہیں، پراگندہ مضامین کا اختصار ، مکرّر مضامین کا حذف اور دقیق وغامض مسائل کا حل ہیں۔ اس لیے آپ کی کتب سے مسلم و غیر مسلم سبھی نے فائدہ اٹھایا۔ آپ کی کئی کتب کا مغرب کی مختلف زبانوں میں ترجمہ و شروحات لکھی گئیں۔ آپ نے قدیم وجدید کا امتزاج یوں پیش کیا کہ قاری داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔ آپ ہر مسئلے کی ابتداء میں روایات شرعیہ سے استنباط کرتے مگر اس بات کا بھی خیال رکھتے کہ فرد کے کون سے افعال شریعت سے اور کون سے معاشرت و عادت سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں آپ زمین پردسترخواں بچھا کرکھانے کی فضیلت بیان کرتے ہیں وہاں ڈائینگ ٹیبل پر کھانے کو ناجائز نہیں کہتے۔ اخلاق کے قابلِ اصلاح ہونے کے باب میں لکھتے ہیں کہ غصّے کی صفت کا ختم کرنا تہذیب الاخلاق میں سے نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ سچی حمیّت اور خود داری پیدا ہو، غصّہ آئے مگر عقل پر غالب نہ ہو اور منہ سے کوئی غلیظ بات نہ نکلے۔ حسنِ اخلاق کو تین بنیادی ارکان میں محصور کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علم، شہوت اور غضب میں اعتدال کا نام حسنِ خلق ہے، جس شخص میں یہ تینوں قوتیں معتدل ہوں گی وہ پورا خوش اخلاق ہو گا۔ علم کی قوت کے اعتدال کا نام حکمت، شہوت میں اعتدال کو عفت ، غصے میں اعتدال کو شجاعت اور عقل میں اعتدال کو حسنِ تدبیر سے تعبیر کرتے ہیں، گویا حکمت، عفت، شجاعت اور حسنِ تدبیر اعلیٰ اخلاق ہیں۔ بدعت کی تعریف میں لکھتے ہیں:ہر ایجاد بدعت نہیں بلکہ وہ ایجاد بدعت ہو گی جو سنت کے مخالف ہو یا شریعت کا کوئی حکم باطل ہو جائے۔ توکل کے باب میں لکھتے ہیں کہ توکل کی اصل کیفیت میں یہ جائز نہیں کہ متوکل ظاہری اسباب اور واسطے سے دستبردار ہو جائے، ایسا کرنا ہاتھ پاوں توڑ کر گداگری کرنے کے مترادف ہے۔ فقہ میں شہرت پانے والی آپ کی تصانیف البسیط، الوسیط، الوجیز وغیرہ ہیں۔ کتاب الوجیز پر امام فخر الدین رازی سمیت تمام علماء نے ستر کے قریب شروحات لکھیں، امام ابن الملقن نے الوجیزمیں بیان کی گئی احادیث کی تخریج پر سات جلدوں پر مشتمل کتاب البدر المنیر لکھی۔ آپ کی فقہ پر دوسری کتاب الوسیط ہے جسے بعض کتابوں میں رسائل کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن امام محی الدین جو کہ شافعی ہیں نے سولہ جلدوں پر مشتمل شرح لکھی، شیخ نجم الدین احمد بن علی نے اس کتاب کی ساٹھ جلدوں میں شرح لکھی جس کا نام المطلب رکھا۔ ابو العباس احمد حمولی نے البحر المحیط کے نام سے الوسیط کی شرح لکھی۔ اس سے امام غزالی علیہ الرحمہ کے فقہ کے موضوع پر لکھی گئی کتب کی افادیت واہمیت اور قبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ امام غزالی نے فلسفہ اور شریعت کے اصولوں میں باہم تطبیق پر جو کتابیں لکھیں اور عقلیات کے مسائل کو جس اَحسن پیرائے میں بیان کیا وہ کتب آج بھی یورپ کے پاس محفوظ ہیں جن سے استفادہ کرنے کے لیے کئی یورپین زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی کیا جا چکا ہے۔ جن میں سرِ فہرست مقاصد الفلاسفہ، المنقذ من الضلال، تہافۃ الفلاسفۃ، میزان العمل وغیرہ شامل ہیں۔
امام غزالی کی اسی جامع شخصیت اور علمی کمالات کے سبب دنیائے علم پر ان کی فکر نے گہرے اثرات چھوڑے اورعلمی حلقوں میں ایسی ذہنی و فکری حریت پیدا ہوئی کہ پوری دنیا آج بھی اس سے فیض یاب ہو رہی ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اَسلاف سے محبت ، ان کی شخصیت کی سمجھ اور اُن کی تعلیمات سے استفادہ اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تبصرہ