میرِ کارواں اِک مثالِ جاوداں

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

قیادت و امامت کا تصور یہ ہے کہ کسی قوم اور ریاست کی ایسی سربراہی اور راہنمائی جو اس قوم اور اس ریاست کو اپنی منزل مقصود تک پہنچادے، کوئی قوم اور کوئی ریاست صحیح قیادت کے بغیر منظم نہیں ہوسکتی صحیح قیادت کے بغیر قوم و ملت میں انتشار پیدا ہوتا ہے، سیاسی و معاشی استحکام ختم ہوتا ہے۔ قوم کی فکر میں خلفشار کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ قوم کے افکار میں وحدت تب آتی ہے جب قومی قیادت کی فکر ان کی راہنمائی کرتی ہے اور قومی قیادت کا کردار ان کے لیے روشنی بنتا ہے اسی طرح قوم، وحدت فکرو عمل کے ذریعے ہی مضبوط و مستحکم ہوتی ہے، کوئی بھی قوم، ملت، ریاست اپنے نصب العین کی طرف قائد و راہنما اور امام و رہبر کے بغیر گامزن نہیں ہوسکتی۔

معیار قیادت:

آج ہمارے نظام حکومت کو بھی قوم کے اہل، صالح اور محب وطن افراد کی ضرورت ہے۔ اسلام معاشرے کے لیے محض اہل و صالح افراد کا ہی تقاضا نہیں کرتا بلکہ انسانی معاشرے کے لیے صالح نظام کا بھی داعی ہے، اسلام میں قیادت کا مستحق و اہل وہ ہے جو اپنے زمانے کا سب سے زیادہ شعور رکھتا ہے جو اپنے اندر فراست مومنانہ رکھتا ہے جو اپنے کردار میں بے مثال اور لاجواب ہے اسلام ایسی قیادت کے ذریعے معاشرے کے اداروں کی مضبوطی اور استحکام بھی چاہتا ہے اور اداروں کے استحکام کے ذریعے معاشرے سے فتنہ و فساد کا خاتمہ بھی کرنا چاہتا ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ ملک کا نظام ایسی قیادت اور ایسے ممبران مقننہ کے سپرد کیا جائے جو زمام اقتدار سنبھال کر ملک سے ہر طرح کے فتنہ و فساد اور ظلم و جور، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا خاتمہ کریں۔ ایسی ہی انفرادی اور اجتماعی قیادت کو اقبال نے امت کے زوال کا علاج بتایا ہے۔ پاکستان میں قومی قیادت کے انتخاب کے لیے اقبال نے قیادت کی یہ صفات قوم کو بتائی ہیں۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

قیادت کے لیے وصف صداقت:

قوی قیادت کی اہل شخصیت کا پہلا وصف صداقت ہے، وہ قیادت ایسی ہو جو زبان سے سچ بولے اور عمل سے سچ کا اظہار کرے، جھوٹ، فریب، خیانت، بددیانتی اور دوسری برائیوں سے بچتی ہو تاکہ اس کا وصف صداقت اپنے کمال کو پہنچے، سب سے بڑی صداقت یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر اس کا ایمان غیر متزلزل ہو۔زندگی میں ہمیشہ سچ کا داعی ہو، سچے لوگوں کا ساتھ دے۔

وصف عدالت اور صفت قیادت:

قوی قیادت کے لیے دوسرا وصف عدالت کا ہے عدالت سے مراد یہ ہے کہ وہ قیادت خوف خدا رکھنے والی ہو، وہ متقی و پرہیزگار ہو۔ ہر طرح کے گناہ سے کنارہ کش ہو۔ اس کا کردار سیرۃ الرسول کا آئینہ دار ہو۔ وہ اپنے کردار میں بے مثال ہو اور اعلیٰ اعمال کی خوگر ہو۔ وہ قیادت ایسی ہو، جس کا کردار، عدل و انصاف کی اقدار کو فروغ دے، وہ اپنی انفرادی زندگی میں بھی عادل ہو اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی منصف پرور ہو۔

وصف شجاعت کا قیادت کے لیے لزوم:

اس قومی و ملی قیادت کا تیسرا وصف یہ ہے کہ وہ قیادت قومی مسئلوں کو حل کرنے میں دلیری اور بہادری کی صفات سے آراستہ ہو۔ قوم کی قیادت کرنا یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے یہ مشکلات سے گرا ہوا منصب ہے۔ اس میں اپنی ذات کے آرام کو بے آرامی میں بدلنا پڑتا ہے۔ اپنی قیادت کے نفوذ کے لیے طرح طرح کی قربانیوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح سارا دن عوام کی خدمت کرنا پڑتی ہے رات کو بھی ان کی خدمت اور خبر گیری کے لیے گشت کرنا پڑتا ہے تاکہ لوگوں کی تکالیف کا ان کو براہِ راست علم ہو اور پھر ان کا ازالہ بھی ہو۔ قومی قیادت کو قوم کے انواع و اقسام کے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے اور بعض لوگ اچانک بڑے بڑے فتنے پیدا کردیتے ہیں ان فتنوں کو حل کرنے کے لیے مضبوط اعصاب کی قیادت درکار ہے جو جرات و بہادری اور ہمت و قوت سے آراستہ ہو۔ قوم کی قیادت اور ریاست کا نظام چلانا کسی بزدل اور کم ہمت اور آرام طلب آدمی کا کام نہیں ہے۔

اگر قومی قیادت اور لیڈرشپ دلیر اور شجاع ہو تو وہ مردہ قوم کی زندگی میں ایک نئی روح پھونک دیتی ہے بسا اوقات قومی اور بین الاقوامی سطح پر کسی معاملے میں شدید مخالفت ہوتی ہے تو اس وقت ایک دلیر، بہادر اور جرات و شجاعت کی حامل قیادت ملک کو مسائل کی آماجگاہ بننے سے نکال سکتی ہے۔ ایسی ہی قیادت لیے ہی اقبال نے کہا:

نگہ بلند، سخن دلنواز جان پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے

(بال جبرئیل 49/ 341)

نگاہ کی بلندی اور قیادت کی عظمت:

قومی قیادت ایسی ہونی چاہئے جو بلند نگاہ کی حامل ہو اور بلند نگاہی یہ ہے کہ وہ قیادت ایک نظر میں معاملے کی تہ تک پہنچ جائے، وہ دور اندیش ہو اور معاملہ فہم ہو، اس کے سامنے ہر معاملے کا اعلیٰ معیار ہو اور اس معیار کو سامنے رکھ کر وہ امور قیادت سرانجام دے اپنی منزل کو بلند و بالا تصور کرے اور اس کے حصول کے لیے شب و روز ایک کردے جب قیادت کو نگاہ کی بلندی کی صفت ملتی ہے تو وہ نور الہٰی سے اپنے احوال اور پیش آمدہ مسائل اور ان کے حل کو دیکھ لیتی ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اتقوا فراسة المومن فانه ینظر بنور الله.

’’مومن کی فراست سے ڈر اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔

آج کا ہوس پرست انسان یہ سمجھتا ہے کہ نگاہ کا کام بس نظارہ کرنا ہی ہے اور سامنے آنے والے مناظر کو بھی صرف دیکھ لینا ہی ہے، نہیں، نہیں نگاہ کی بلندی یہ ہے کہ قوم کے موجودہ حالات سے اس کے مستقبل کے حالات کو جان لیا جائے، نگاہ کی بلندی قومی قیادت کو قوم کے تمام مسائل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے نگاہ کی بلندی ہی قومی قیادت کو بلند ہمتی کا جذبہ دیتی ہے۔ اس کے ولولوں اور جذبوں کو جانب منزل گامزن کرتی ہے۔ اس کے اندر سے پستی اور کم ہمتی کے احساسات کو ختم کرتی ہے جو قیادت نگاہ بلند نہیں ہوتی ہے اس کا جہاں کرگس کے جہاں کی طرح ہے اور جو قومی قیادت نگاہ بلند ہوتی ہے اس کا جہاں شاہیں کے جہاں کی طرح ہوتا ہے۔ اس لیے اقبال کہتا ہے:

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

تنگ نظری سے انسان کا دل تنگ ہوجاتا ہے اگر نگاہ میں وسعت اور بلندی ہو تو دل بھی کشادہ ہوجاتا ہے جس قیادت میں بلند ہمتی اور عالی ظرفی کی صفات پیدا ہوتی ہیں اسی کے دل میں اپنی قوم کو سنوارنے اور پوری دنیا میں اپنی عظمت و سطوت کے علم کو بلند کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر قومی قیادت کی نگاہوں میں آفاقیت نہ ہو تو پھر یہ علاقائی فتنوں میں گِر کر خود کو اور ملک کو تباہ کردیتی ہے۔

سخن کی دلنوازی اور قیادت کی دلبری:

قومی قیادت کی صفات میں یہ وصف بھی ہے کہ اس کی سخن دلنواز ہو اور وہ قومی قیادت میر کارواں کی حیثیت رکھتی ہے اور میر کارواں وہ ہو جو ایسی بات کرے جس سے لوگوں کے دل مسخر ہوں جس کا ہر مخاطب یوں سمجھے کہ میر کارواں کی بات ہی میرے دل کی بات ہے اور اس قومی قیادت کی بات لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو اپیل کرے۔ اس لیے اقبال کہتا ہے:

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

(بال جبرئیل، 341/ 326)

زباں نشتر کا کام بھی کرتی ہے اور مرہم کا بھی۔ اس کے ذریعے تکلیف کو بڑھایا بھی جاتا ہے اور گھٹایا بھی جاتا ہے۔ ایک اچھے طبیب کی بھی علامت یہ ہے کہ وہ اپنی دلنواز باتوں کے ذریعے اپنے مریض کا آدھا مرض دور کردیتا ہے۔ میر کارواں بھی ٹوٹے ہی دلوں کی ڈھارس باندھتا ہے اور مردہ جذبوں اور دلوں کو ولولہ اور زندگی دیتا ہے۔

قائد کا جذب دروں:

قومی قیادت کا یہ وصف بھی ہے کہ اس میں سوز دروں ہو اور اس کا مفہوم یہ ہے وہ قومی قیادت اپنے فرائض کی تکمیل کا شدید احساس رکھے، اپنے مقصد اور اپنی منزل کے حصول کے لیے بے چین اور بے تاب ہو جس قیادت کا اپنا دل حرارت سے خالی ہو وہ قوم کے دلوں کو گرما نہیں سکتی اس لیے میر کارواں میں سوز دروں کا ہونا ضروری ہے۔ دل میں سوز نہ ہو تو جمود کی کیفیت ہوتی ہے اور عمل کا جذبہ سرد پڑتا ہے۔ اقبال ہمیشہ سوز دروں کے طالب رہے اور کہتے ہیں میں نے عقل سے بہت کام لیا ہے اب مولا مجھے اپنا عشق حقیقی عطا کر تاکہ میں زندگی کی حقیقت اور کامیابی کو پاسکوں۔

عطا اسلاف کا جذب دروں کر
شریک زمرہ لا یحزنوں کر

خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر

(کلیات اقبال، اردو ص: 379)

سوز دروں قیادت کو ہمیشہ متحرک، فعال اور سرگرم رکھتا ہے اور کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے جب بھی کسی دل میں سوز دروں پیدا ہوتا ہے تو وہ دوسرے لوگوں کو سوز دے کر متحرک و فعال بنادیتا ہے۔ اس سوز دروں کی تپش و حرارت سے دلوں کو زندگی ملتی ہے اور اسی حرارت سے ان کی مردہ دلی ختم ہوتی ہے۔ سوز دروں کو حرارت، مقصد حیات کی بلندی سے ملتی ہے اس لیے اقبال کہتے ہیں میں نے سنا ہے میرے کتب خانے میں ایک کتابی کیڑے نے پروانے سے کہا۔

میں ایک عرصہ سے حکیم بوعلی کی کتابوں میں سکونت پذیر رہا ہوں اور اسی طرح مشہور مفکر و فلسفی فارابی کی کتابوں کو بھی چاٹ گیا ہوں لیکن مجھے زندگی کا راز ہاتھ نہیں آیا میری زندگی پہلے کی طرح تاریک ہے۔ پروانے نے اس سے کہا یہ نکتہ تجھے کتابوں میں نہیں ملیں گے اگر تو زندگی اور اس کی حقیقت کو پانا چاہتا ہے تو کسی بلند مقصد اور اعلیٰ مشن کے لیے جینا سیکھ لے تجھے زندگی کا راز معلوم ہوجائے گا۔

اس مثال کے ذریعے علامہ اقبال ان لوگوں اور طالب علموں کو متوجہ کرتے ہیں جو کتابیں تو خوب پڑھتے ہیں مگر اپنی زندگی میں ادھورے ہوتے ہیں۔ انہیں اس مثال کے ذریعے باور کراتے ہیں زندگی فقط کتابوں سے نہیں بلکہ کتابوں کے لکھنے والوں کے اعلیٰ مقصد حیات سے ملتی ہے۔ زندگی میں مقصد ہو تو زندگی ہے، وگرنہ فضول زندگی ہے۔ زندگی تو نام ہی روشنی اور حرارت کا ہے اس لیے مولائے روم کہتے ہیں:

کار مرداں روشنی وگرمی است

اقبال اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں:

تپش می کند زندہ تر زندگی را
تپش می دہد بال و پر زندگی را

حرارت قیادت کو زندہ تر کردیتی ہے اور حرارت ہی زندگی کو بال و پر دیتی ہے۔اس حرارت و سوز کے بغیر انسان کی زندگی تاریک ہے۔

حاضر و موجودہے... بیزاری اور قوم کی رہبری:

قائد و امام وہ بھی ہے جو اپنی قوم کو حاضر و موجود سے بیزار کرے۔ اسے غیب اور غیب داں ذات کی طرف متوجہ کرے اور اللہ کی ذات سے محبت پیدا کرے اور اس کی محبت میں اپنی جان کو بھی لگائے رکھے حتی کہ اس کی اپنی جان پر بھی موت کا خوف باقی نہ رہے، جس قیادت کے دل میں موت کا خوف نکل جائے وہی قیادت ہی قوم کو فتح کامرانی تک پہنچاتی ہے۔ ایسی قیادت ہی بے سرو سامانی کے عالم میں اسلحہ سے لیس کئی گنا زیادہ دشمن سے لڑ جاتی ہے۔ قیادت وہ ہے جس کو اپنی قوم کے احساسِ زیاں کا پتہ ہو اور وہ اپنی قوم کو اس نقصان و خسارے سے نکالنے کے لیے ہمہ وقت تیار و آمادہ رہے۔ خود احساس زباں سے آشنا ہو اور قوم کو بھی احساس زیاں کا شعور دے ایسا نہ ہو اور نہ قوم کو ایسا بنائے کہ وہ احساس زیاں سے محروم ہوجائے۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

(بانگ درا: 187)

قیادت وہ ہے جو قوم کو احساس زیاں کا شعور دے کر اس کے خون کو گرمادے اور حق کو غالب کردے اور باطل کو سرنگوں کردے۔ امام اور قائد میں یہ وصف بھی ہو کہ وہ اپنی قوم کو دنیا کی محبت میں گرفتار نہ ہونے دے اور حلال و حرام کا احساس ان میں باقی رکھے، دولت کی حرص اور ہوس، قیادت کو انسانیت سے محروم نہ کرے۔ حُب زر کی دوڑ میں رند و فقیہہ اور امیر و غریب سب برابر ہوجاتے ہیں۔ ہر شخص دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ دین کو غالب کرنے کی فکر ذہنوں سے محو ہوجاتی ہے۔ انسان سیم و زر کا بندہ بن جاتا ہے۔ زر اور طلب زر سے بچنے کی صورت فقرو استغنا ہے جورو استبداد کا خاتمہ، زور حیدری، فقرِ بوذری اور صدقِ سلمانی میں ہے۔ اس لیے اقبال کہتے ہیں:

مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو کس نے
وہ کیا تھا زور حیدر، فقر بو ذر، صدق سلیمانی

(بانگ درا، 270)

دنیا دار حاکم، خدا کے حکم کو نافذ نہیں کرتے اس لیے کہ وہ چاہتے ہیں ان کا اپنا حکم نافذ ہو جب خدا کا حکم چلتا ہے تو وہ حاکم بھی دوسرے لوگوں کی طرح ان کے برابر ہوجاتا ہے ایسی صورت میں بعض راہنما امت میں بیداری اور خود داری پیدا کرنے کی بجائے حاکم کی وفاداری کا درس دیتے ہیں اور یوں زندہ قوم میں موت کے آثار پیدا ہوتے ہیں اور قوم کو بہت بڑے فتنے سے دوچار کرتے ہیں۔ حقیقی قائد و امام وقت وہی ہے جو امت کو سلاطین کا پرستار بنانے کے بجائے ان کو خدا کا پرستار بنائے اسی قیادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا:

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے

ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی اور بھی تیرے لیے دشوار کرے

دے کے احساس زیاں تیرا لہو گر ما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے

فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلمان کو سلاطیں کا پرستار کرے

(ضربِ کلیم، 49/ 511)

(دائرہ معارف اقبال ص40، 404-408) ج اول پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور شعبہ اقبالیات2006ء)

اقبال کے تصور قیادت کا مصداق اتم:

اقبال کے تصور قیادت کی مصداق عصر حاضر میں جو شخصیت ہے وہ قائد انقلاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات گرامی ہے، جو اپنی ذات میں وصف صداقت سے بھی معمور ہیں، صفت عدالت سے بھی متصف ہیں اور شجاعت و بہادری کی بھی روشن مثال ہیں، نگہ بلند بھی ان کی پہچان ہے ان کی سخن دلنوازی پر زمانہ گواہ ہے، جاں پر سوز ہی تو ہے جو شرق سے لے کر غرب تک کی سرحدیں اور کنارے آپ کی سفر گاہ ہیں۔ دنیا بھر میں آپ کا پھیلا ہوا منہاج القرآن انٹرنیشنل کا تنظیمی نیٹ ورک جاں پر سوز کی عملی شہادت ہے، یہ ایسے میر کارواں ہیں، جن کو حق کی بات کہنے سے زمانے کی بڑی سے بڑی قوت بھی روک نہ سکی، یہ شاہین صفت ہوکر مسلسل اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں، یہ اسلاف کی میراث جذب دروں کی خیرات بھی بے پناہ رکھنے والے ہیں، یہ جس طرف رخ کرتے ہیں وہاں روشنی اور سرگرمی کا ماحول پیدا کردیتے ہیں۔ یہ ہر لمحہ اپنے کارواں کو احساس زیاں کا شعور دے کر جانب منزل گامزن کرتے رہتے ہیں۔ یہ اپنے زمانے کے باطل و طاغوتی قوتوں کے مقابل زورحیدر، فقر بوذر اور صدق سلمانی کے پیکر بنے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اپنی قوم کو حاضر و موجود کے فتنوں سے نہ صرف آگاہ کرتے ہیں بلکہ ان سے بچنے کے لیے ہدایت و راہنمائی بھی دیتے ہیں۔

قیادت و امامت کی ان صفات و علامات کو آپ کے وجود میں ایک بحر بے کنار کی طرح موجزن دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی شخصیت ہی عصر حاضر میں اقبال کے تصور قیادت اور تصور امامت کی مصداق اتم ہے، اقبال کے ان تصورات اور اس کے خوابوں کی عملی تعبیر آپ ہی کی ذات گرامی ہے۔

قیادت مثل ماہتاب و آفتاب:

آپ کی ذات لاہور کے مطلع پر 1978ء میں ایک آفتاب کی مانند طلوع ہوتی ہے اور قومی افق پر 1983ء میں فہم القرآن کی صورت میں آپ کا ظہور ہوا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپ کی دعوت اور آپ کے مشن کو اندرون ملک اور بیرون ملک بے پناہ پذیرائی ملنے لگی۔ ہر طرف تنظیموں کے جال بچھنے لگے، بین الاقوامی سطح پر بھی تیزی سے تحریکی دفاتر قائم ہونے لگے۔ ان کی آواز قومی افق پر مسلسل گونجتی رہی۔ اخباروں اور رسالوں میں بلند ہوتی رہی اور یہ آواز TV چینلز سے بھی نشر ہوتی رہی اور عدالتوں میں بھی دلائل کے ساتھ اپنی دھاک بٹھاتی رہی، شرعی عدالتوں کے تاریخی فیصلوں کو بھی اپنے مضبوط دلائل کی روشنی میں اپنا ہمنوا بناتی رہی۔ ان کا کام ہی ان کا نام ہے، کون سا میدان ہے جو ان کی خدمات کے دائرے سے باہر رہا ہو، تعلیمی میدان میں سینکڑوں تعلیمی ادارے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بنائے، قوم و ملت کو منہاج یونیورسٹی کا تحفہ دیا، علمی میدان میں قرآن کے ترجمہ و تفسیر سے لے کر علم حدیث کے ہر موضوع پر آپ نے لکھا، سیرت رسول سے لے کر اسلام کے ہر موضوع کو آپ کی قلم نے روشنی بخشی، زمانے کے ہر چیلنج کو آپ نے چیلنج کیا، آپ کی زندگی کے جس بھی مرحلے پر اسلام کے حوالے سے کوئی چیلنج اٹھا، پوری دنیا میں سب سے پہلی آواز اس چیلنج کے جواب میں آپ کی گونجی، عصر حاضر کا سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی اور فتنہ خوارج ہے اس کا موثر علمی اور تحقیقی جواب پورے عالم اسلام کی طرف سے آپ نے دیا، غرضیکہ امت مسلمہ کو کوئی بھی علمی چیلنج درپیش ہو اور کسی بھی معاشی چیلنج کا سامنا ہو اور کسی بھی سیاسی چیلنج سے نبرد آزما ہونا ہو اور کسی بھی مذہبی اور دینی چیلنج کا معاملہ ہو، ہر چیلنج میں موثرکن اور انتہائی نتیجہ خیز صدا آپ کی آواز ہی ثابت ہوئی۔

عصری قیادتوں کا اعترافِ قیادت:

وہ قیادت جس کو ان کے زمانے کی قیادتوں نے خراج تحسین پیش کیا ہے اور ان کی عظمت و فضیلت کی گواہی دی ہے یقینا ان کے جوہر قیادت کا آفتاب اپنے دور کے ایک ایک لمحے کو منور و تاباں کررہا ہے، جن کے بچپن میں شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اس بچے پر ہمیں فخر ہے یہ آسمان علم و فن پر نیّر تاباں بن کر چمکے گا، جن کے لیے غزالی زماں علامہ سید احمد کاظمی نے فرمایا اس نوجوان سے ہماری امیدیں وابستہ ہیں۔ یہ ایک عالم کو فیضیاب کرے گا۔ پیر کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان کے وجود پر میرا دل خدا کے حضور احساس تشکر بجا لاتا ہے ہمارے دلوں سے ان کے لیے دعانکلتی ہے اے خدا اس مرد مجاہد کو عمر خضر عطا فرما۔

ڈاکٹر عبدالرحیم علی رکن مجلس شوریٰ سوڈان فرماتے ہیں ان کی ذات میں اتنی خوبیاں دیکھ کر میری عقل ورطہ حیرت میں گم ہے۔ شیخ محمد ابوالخیر الشکری الشامی فرماتے ہیں ان کے وجود میں ایک عظیم لیڈر کی جھلک دیکھی ہے اور ایسے محقق کی صورت دیکھی جس کی مثال مسلم دنیا میں نہیں ملتی۔ اے کے بروہی ماہر قانون فرماتے ہیں۔ میں آپ کی گفتگو سے بے حد خوش اور بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں۔ جسٹس انوارالحق، چیف جسٹس آف پاکستان فرماتے ہیں آپ گہرے علم اور منفرد حکمت کے مالک ہیں اور آپ نے اسلام کی شمع فروزاں کردی ہے۔ جسٹس غلام مجدد مرزا کہتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مشن اسلام کی خدمت ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کہتے ہیں آپ ایک عظیم اور ذہین انسان ہیں، مرزا اسلم بیگ کہتے ہیں ڈاکٹر طاہرالقادری ایک معتبر عالمِ دین، ایک مفکر، ایک روحانی راہنما، ایک معاشرتی مصلح، ایک سیاسی مدبر بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک عظیم لیڈر بھی ہیں۔ جنرل حمید گل سابق سربراہ آئی ایس آئی کہتے ہیں آپ ایک God Gifted انسان ہیں اور آپ اسباب کو موافق بنانے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سابق صدر فاروق لغاری کہتے ہیں۔ آپ تقریر و تحریر اور مدلل گفتگو میں عظیم سیاستدان ہیں۔ سابق وزیراعظم معراج خالد کہتے ہیں وہ اسلام کو بہترین رول ماڈل کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ میاں محمد اظہر سابق گورنر پنجاب کہتے ہیں یہ ایک کرشماتی شخصیت کے مالک ہیں۔ حسن نثار کہتے ہیں طاہرالقادری کے ہاتھ اتنے ہی صاف ہیں جتنے اوروں کے غلیظ ہیں ایاز میر لکھتے ہیں ان کے ہوتے ہوئے کوئی تکفیری فتنہ سر نہیں اٹھا سکتا۔ طاہرالقادری بہت اولوالعزم لیڈر ہیں۔ محمود شام کہتے ہیں ان کے دلائل اور استدلال میں روانی ہے ان کے عزائم پختہ ہیں ان میں استقامت اور جرات ہے۔

مظہر برلاس نے کہا انہوں نے انداز خطابت میں سب لیڈروں کو مات دے دی ہے۔ ان کی تقریروں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ان کی آواز کا سحر اس قدر طاقتور ہے کہ مخالفین کی صفوں میں کھلبلی مچ جاتی ہے، اصغر عبداللہ کہتے ہیں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی سیاست کی بنیاد اسلام کے سماجی مساوات اور انصاف کے تصور پر رکھی ہے۔ زمرد نقوی بیان کرتا ہے ڈاکٹر طاہرالقادری نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں ان سے بڑا کوئی لیڈر نہیں۔ یقینا وہ عصر حاضر کے دنیا کے چند بڑے لیڈروں میں ہیں، وہ مسلم دنیا میں اسلام پر اتھارٹی ہیں اور عالم اسلام میں ان سے بڑا سکالر شاید کوئی نہیں۔ منصور آفاق لکھتے ہیں مجھے قسم ہے کھجور کے تناور درخت کی ڈاکٹر طاہرالقادری لمحہ موجود کی واحد شخصیت ہیں جن کی قامت آوری کسی بیساکھی کی مرہون منت نہیں۔ اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی باتیں لوگوں کے دلوں میں تیروں کی طرح اتر جاتی ہیں۔ نسیم شاہد نے کہا ڈاکٹر طاہرالقادری نے موجودہ نظام کو للکارا ہے اور اب یہ نظام تھر تھر کانپ رہا ہے۔ قیوم نظامی کہتے ہیں اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ صلاحیت، قابلیت اور اہلیت کے اعتبار سے ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے عظیم اور نمبر ون لیڈر ہیں۔

ان سارے خیالات، تصورات، مشاہدات، تجربات اور افکار و آراء کو اگر جمع کیا جائے اور ان کو شعری قالب میں ڈھالا جائے تو اشعار کی زبان میں اس نابغہ روزگار شخصیت و قیادت کے لیے ہر کسی کو یہی کہنا پڑے گا:

اسے پڑھو زندگی ملے گی
اسے سنو آگہی ملے گی
یہ ارتقاء کا پیام بھی ہے
ضمیر نو کا امام بھی ہے
یہ قوم سے ہمکلام بھی ہے
جو کھو چکی ہے شعور دوراں
اے عظیم قائد اے عظیم انساں
تمہیں سلام تمہیں سلام

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2018

تبصرہ