جویریہ سحرش
شاعر مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اُن کی شخصیت، شاعری اور علم و حکمت کے معترف صرف مشرق کے لوگ ہی نہیں بلکہ مغرب والے بھی ان کی فلسفہ زندگی سے متاثر ہیں۔ بچپن سے لے کر جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک ان کی زندگی ایک مومن کی زندگی ہے۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے امت مسلمہ کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ نہ صرف اس دنیا میں شان سے جئے بلکہ روز آخرت میں اپنے رب کے سامنے سرخروئی حاصل کرے۔ علامہ اقبال نہ صرف ہمارے قومی شاعر ہیں بلکہ وہ پوری دنیا کے قومی شاعر ہیں۔ ان کا مجموعہ شاعری انگلش، اردو اور فارسی زبان میں ہے۔
وہ بچپن سے چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھا کرتے تھے اور ان کی پرورش ایک مذہبی ماحول میں ہوئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انہیں خاص عشق تھا۔ ان کی شاعری کو بھی اس عشق میں ڈوبا ہوا دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں مسلمان کو خاص مقام دیا ہے کہ اگر وہ ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرلے تو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتا ہے۔ ان کے ایک شعر سے شر وع کرتے ہیں۔
انداز بیاں اگرچہ میرا شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
جیسے کہ ان کے اس شعر سے ہی ظاہر ہے کہ ان کا انداز بیاں کسی عام شاعر کی طرح رنگ و بو عشق و معشوقی یا کسی رنگین داستاں سے مزین نہیں کہ جس کی طرف نوجوان لوگ زیادہ متوجہ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ امید کرتے ہیں کہ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔ شاید کا لفظ انسان تب استعمال کرتا ہے جب وہ بے یقینی کی کیفیت میں ہوتا ہے ان کی شاعری کا انداز بیاں اوروں سے ہٹ کر ہے۔ رنگین، بناوٹی اور جھوٹی چمک دمک سے مبرا ہے۔ ایک مرد مومن کی زندگی کے لیے جو فلسفہ و فکر انہوں نے اپنی خوبصورت شاعری میں دیا ہے جب اس کو کوئی صاحب علم پڑھتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ اسے قرآن پاک کا ترجمہ شاعری کی صورت میں مل گیا ہو۔ ان کی شاعری سے انسان پر علم و حکمت کے ایسے اسرار کھلتے ہیں کہ وہ دنگ رہ جاتا ہے۔
اتنی گہرائی، مقصدیت حیات و ممات اور کائنات کے اسرار ان کی شاعری میں پائے جاتے ہیں شاید ہی کسی شاعر نے بیان کئے ہوں۔ ان کی شاعری ہر عمر کے لوگوں کے لیے سیکھنے کا پہلو رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں فلسفہ خودی کو پیش کیا جو بہت ہی مشہور ہے۔
نوجوانوں کو وہ شاہین سے مماثلت دیتے ہیں ایک دن ان سے سید ایوب نیازی نے پوچھا کہ آپ کی شاعری میں خودی کا فلسفہ کیا ہے تو انہوں نے ان سے قرآن پاک لانے کو کہا اور یہ آیت پڑھ کر سنائی:
وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا ﷲَ فَاَنْسٰهُمْ اَنْفُسَهُمْط اُولٰٓئِکَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ.
’اے لوگو ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلادیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کردیا۔‘
الحشر، 59: 19
اگر آج ہم اپنی زندگیوں پر غور کریں تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں کے شب و روز میں اتنا گم ہوگئے ہیں کہ ہمیں اپنا رب یاد ہی نہیں نہ اس کے احکام نہ اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ زندگی، تو کیا یہ ہماری بدنصیبی نہیں ہے۔ اس نے ہمیں اپنی یاد سے غافل کردیا ہے۔ علامہ اقبال اپنے فلسفہ خودی سے ہمیں خود شناسی، خدا شناسی کا درس دیتے ہیں۔ خودی کا نظریہ سمجھنے کے لیے ان کی شاعری کا بغور مشاہدہ کریں خودی کیا ہے؟
خودی کا نشیمن تیرے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
خودی کی تلاش کے لئے اے انسان تجھے اپنے دل کو ٹٹولنا ہوگا۔ میں کیا ہوں؟ میں کون ہوں؟ میں کائنات میں کس لیے آیا ہوں؟ میرے آنے کا مقصد کیا ہے؟ اور میں نے کہاں جانا ہے؟ ان سب چیزوں کے سمجھنے کے بعد یہ دنیا تیرے سامنے ایسے بن جائے گی جیسے ایک تل ہو۔
ہے نور تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں
کہ رب کی ذات تو تیرے اس خاک سے بنے جسم سے ظاہر ہے اس کے نورکا تو معجزہ ہے۔ اے انسان تو اتنا غافل ہے کہ اپنے آپ کی پہچان نہیں کرسکا کہ اپنے خالق کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ خودی وہ غیر معمولی روحانی طاقت ہے جو انسان کے اس مٹی کے وجود کا اصل ہے۔ اگر وہی چیز اس کے وجود سے نکال لی جائے تو وہ مٹی کے پتلے کے سوا کچھ بھی نہیں جس کو معاشرہ اپنی انگلیوں پہ نچاتا ہے۔
علامہ اقبال انسان کی اسی طاقت خودی کی تعمیر و تربیت کرتے ہیں اور وہ اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کی تاریخ کی مثالیں پیش کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں کو خود شناسی ہوئی تو اس نے انہیں اوج ثریا تک پہنچادیا تو یہ آج کا انسان کہاں بھٹکتا پھر رہا ہے نہ اسے اپنا ہوش ہے اور نہ ہی اپنی آنے والی نسلوں کا، بس اپنے نفس کا غلام بن کر رہ گیا ہے جس نے اس سے صحیح اور غلط کی تمیز ہی نہیں چھینی بلکہ اس سے اس کی شناخت ہی چھین لی ہے اور اس کی شخصیت کو مسخ کر ڈالا ہے۔ ان کی شاعری قوم مسلم کی غیرت کو جگاتی ہے۔
تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
ان کی شاعری میں پیغام ہے کرب و رنج ہے کہ اے مسلمانوں تم صرف نام کے مسلماں کیوں، تمہارا دل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا نرم، حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا بہادر اور مولا علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ جیسا نڈر بہادر کیوں نہیں ہے۔ ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں اس کی تعلیمات پر عمل کرنا ہم بھول گئے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
تیرا مام بے حضور، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر
ہم نے پتہ نہیں کیسے کیسے لوگوں کو اپنا پیشوا بنالیا ہے کہ ہماری نماز بے روح ہیں جو رب کی بارگاہ میں قبول ہی نہیں۔ جب قبلہ ہی درست نہیں تو نماز کیسے قبول ہوگی۔ فرقہ واریت میں پڑے ہوئے ہیں۔ مسلمان مسلمان کو قتل کررہا ہے۔ اپنے بھائی کے بچوں کا قتل کررہا ہے حالانکہ ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جس میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل شمار ہوتا ہے۔
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے بھی ہمدردی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا
ان کی شاعری میں انہوں نے معاشرے کے جن ناسور کو واضح کیا ہے۔ آج آدھی سے زیادہ صدی ان کی شاعری کو لکھے ہوئے ہوگی ہے وہ تمام چیز ویسی ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ خوفناک شکل اختیار کرگئی ہیں۔
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
عجیب نہیں کہ پریشان ہے گفتگو میری
فروغ صبح پریشان نہیں تو کچھ بھی نہیں
ان کی شاعری مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔ انہیں جگاتی ہے کہ منہ سے صرف مسلمان ہوجانے والو عمل سے بھی مسلمان بنو۔ یہ تو اس عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین ہے جس نے اپنی بیٹی بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کہہ دیا تھا کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم نبی کی بیٹی ہو بلکہ تمہارا عمل ہی تم کو جنت میں لے جائے گا۔
تو ہم تمام مسلم کس خواب غفلت میں کھوکر اپنی زندگیاں برباد کررہے ہیں۔ یہ زمین و آسمان گواہ ہیں کہ جب مسلمانوں کو اپنی خودشناسی یا خودی کی پہچان ہوتی تب انہوں نے پوری دنیا میں اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑے اپنے اخلاق و کردار سے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرلیا۔ نہ صرف دنیا پر راج کیا بلکہ لوگوں کے دلوں پر بھی راج کیا انہیں کے بارے علامہ اقبال کہتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس قوم کو ایسے عالم و رہنما ملے ہوں وہ قوم بھٹکتی پھر رہی ہے۔ جس قوم کا ایسا شاعر ہو جن کی شاعری روح کو تڑپا دے جو مردہ دلوں کو زندہ کردے اس قوم کی بدنصیبی دیکھیں انہیں اپنے شاعر کی شاعری سمجھ نہیں آتی ہے۔ سکولوں، کالجوں میں صبح لب پہ آتی کی دعا تو پڑھائی جاتی ہے لیکن اس کا مطلب کبھی نہیں سمجھایا گیا۔ نوجوان نسل خودی کو ہی سمجھنے میں ابھی الجھی ہوئی ہے۔ مطالب و معنی تو دور کی بات ابھی وہ ادائیگی ہی کے مراحل نہیں طے کر پائی۔ اقبال ڈے پر چند نظمیں پڑھنے اور ان کی قبر پر پھول چڑھانے اور ترانے سُر کے ساتھ پڑھانے پر زور دیا جانا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان قوم کا المیہ ہے کہ تقریباً 70 سال گزرنے کے باوجود بھی علامہ اقبال کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔
ہماری نوجوان نسل تو اپنے نفسوں کی اتنی غلام بن گئی ہے کہ اس نے اپنی خودی روحانی طاقت کو اپنی نفسانی خواہشات کے نیچے روند ڈالا ہے کہ وہ زخمی ہوگئی ہے اور اپنی بے مقصد زندگی پر روتی ہے کہ کب اس کو اس جسم نافرمان سے رہائی ملے اور وہ اس تن مردہ سے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ علامہ اقبال کو ایسے ہی حکیم الامت کا خطاب نہیں دیا گیا۔ ڈاکٹر تو ہمارے ظاہری اعضاء کا علاج کرتا ہے۔ علامہ اقبال اپنی شاعری کے ذریعے ہمارا روحانی علاج کرتے ہیں، روح کی بیماریوں کو دور کرتے ہیں۔ لیکن افسوس! اپنی نسل نو کے لیے امت مسلمہ کے لیے انہوں نے جو لکھا ان کے پاس تو ان کو پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہے نئی نسل کبھی تو مغرب کے علوم چھانتی ہے تو کبھی ان کی بوسیدہ تہذیبوں کی تقلید میں لگ جاتی ہے۔ جن کی حقیقت میں کوئی تہذیب ہی نہیں مسلمان اپنی الہامی تہذیب کو چھوڑ رہے ہیں اور دربدر بھٹک رہے ہیں۔ اے امت مسلمہ، اے نوجوانو! جاگو اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ ہمیں اقبال کے خودی کے فلسفہ کو سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا یہی ہماری کامیابی کا ضامن ہوگا۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، اپریل 2018
تبصرہ