اکتوبر 1982ء میں حج بیت اللہ کی سعادت کے بعد واپسی ہوئی تو نومبر 1982ء کے پہلے عشرے میں محترم سید اقبال حسین شاہ نے دعوت دی کہ شادمان میں ایک نوجوان سکالر درس تصوف دیتے ہیں، آؤ ان کا درس سننے چلیں۔ میں شاہ صاحب کے ساتھ ویگن میں سوار ہوا، ہم شمع بس سٹاپ پر اترے اور پیدل شادمان میں مسجد رحمانیہ کے قریب ایک کوٹھی میں پہنچے۔ نماز عصر کے بعد ڈاکٹر محمد علی کی رہائش گاہ کے ڈائننگ روم میں تقریباً پندرہ بیس افراد جمع تھے۔ پہلی نظر نوجوان سکالر کے روشن چہرے پر پڑی ایک روحانی کیف و سرور نصیب ہوا، انہوں نے نہایت شیریں، پُر تاثیر اور دلآویز خطاب کیا، جس کا ہر ہر جملہ اور ایک ایک لفظ عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دھلا ہوا تیر کی طرح دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اترتا چلاگیا۔ خطاب کے بعد انہوں نے سوزِ دروں سے معمور ایسی دعا کروائی کہ جس سے ہر آنکھ پُرنم اور ہر دل دردِ عشق سے تڑپ رہا تھا۔ وہ پہلا درس تصوف تھا جس کا فقیر شکار ہوا اور اس قافلہ عشق و مستی کا مسافر بن گیا (دعا ہے اللہ تعالیٰ بقیہ زندگی میں بھی اس مشن سے وابستگی میں استحکام عطا فرمائے) پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ روز بروز شرکاء کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور عشق کی خوشبو ہر گلی کوچے میں پھیلتی گئیں۔ یہ مہک نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو معطرکر گئی۔ یہ اسی عشق کی خوشبو تھی جس میں ڈوب کر مسلمان ایک عظیم انقلابی اور ایمانی طاقت کے طور پر صدیوں تک غالب رہے اور عالم کفر لرزہ براندام رہا۔
حضور شیخ الاسلام کی معیت میں حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ
کی بارگاہ عالیہ میں حاضری دیتے ہوئے
مسلمانان عالم کی تاریخ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ بارہا سیاسی تغیرات کے باوجود ملت اسلامیہ کا مذہبی اور روحانی نظام زوال پذیر نہ ہو سکا بلکہ اس کے ارتقاء کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا کیونکہ رہنمایان ملت اسلامیہ کی تبلیغی مساعی نے ہر دور میں مسلمانوں کے دلوں میں عشق الٰہی اور عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ شمع فروزاں رکھی جس میں ہماری ملی حیات کی بقاء کی ضمانت موجود تھی۔ بانی و سرپرست اعلیٰ تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی فکر عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر لبریز ہے کسی بھی اہل علم پر مخفی نہیں۔
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ
کی بارگاہ عالیہ میں حاضری دیتے ہوئے
بقول اقبال
ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست
بحرو بر در گوشۂ دامان اوست
دور حاضر میں اسلام دشمن استعماری طاقتیں منظم ہو کر مسلمانوں کے دلوں سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبے کو نکالنے کی علمی، فکری اور عملی محاذوں پر مکروفریب کے جال بن رہی ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر مسلمانوں کے دل جذبہ عشق و محبت سے خالی ہو گئے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلا سکتی ہے نہ اصلاح و تجدید کی کوئی تحریک انہیں اپنی منزل مراد تک پہنچا سکتی ہے۔ مغربی استعمار کی اس سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا :
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز ویمن سے نکال دو
(اقبال، ضربِ کلیم : 158)
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ
کی بارگاہ عالیہ میں حاضری دیتے ہوئے
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مغربی استعمار کی تمام سازشوں کے مقابلے میں بند باندھنا شروع کیا۔ آپ مسلمانوں کو فکری اور عملی انقلاب کی دعوت دے رہے ہیں تاکہ ایک صالح، ترقی یافتہ، خوشحالی معاشرہ وجود میں آسکے۔ قرآنی اسرارو رموز کو اس طرح کھولتے ہیں کہ انسان عش عش کر اٹھتا ہے۔ آپ عشق و محبت کو ایک آفاقی احساس سے تعبیر کرتے ہیں یعنی کائنات و آفاق سے ہم آہنگی کا جذبہ عشق کائنات کی ایک حرکی قوت ہے جس مقام پر فلسفہ و استدلال بے دست و پا ہو جاتے ہیں وہاں عشق بے خوف و خطر جان کی بازی لگا دینے پر کمر بستہ ہو جاتا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی
(اقبال بانگ درا، 294)
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ
کی بارگاہ عالیہ میں حاضری دیتے ہوئے
شیخ الاسلام کے نزدیک عقل اپنی افادیت اور اہمیت کے باوجود حقیقت تک رسائی پانے میں عاجز ہے اس کا شرف صرف عشق ہی حاصل کر سکتا ہے۔ اسی بناء پر آپ کے نظام فکر و عمل میں عشق ایک بنیادی نکتے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کا عقیدہ ہے:
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
(اقبال بانگ درا، 298)
شیخ الاسلام کا مشرب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی پیروی ہے جن میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، بلال حبشی رضی اللہ عنہ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ، مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور زید بن حارث رضی اللہ عنہ جیسے بے شمار عشاقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل ہیں۔ ان کے اسی عشق کی قندیلوں سے امت مسلمہ آج تک روشنی حاصل کر رہی ہے۔ قائد انقلاب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کو ہر چیز پر ترجیح دیتے ہیں اور دنیا بھر میں یہ پیغام عام کر رہے ہیں:
محمد کی غلامی دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہواگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
شیخ الاسلام مقام رسالت کی بابت عقل کی دخل اندازی بھی خلاف ادب سمجھتے ہیں چنانچہ آپ عقل کی حدوں کو چھوڑ کر عشق کے راستے کو اپناتے ہوئے یہ پیغام دیتے ہیں:
تیرے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے
تیرا دم گرمیء محفل نہیں ہے
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
(اقبال، بال جبریل : 85)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری تمام عبادات میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنیادی اساس کی حیثیت دیتے ہیں اور اس کے بغیر کی گئی عبادت ناقابل قبول گردانتے ہیں، گویا وہ اقبال کے اس شعر کی ترجمانی کرتے ہیں:
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
(اقبال، بال جبریل : 117)
شام، عراق، ایران، مصر اور سعودی عرب میں بھی کچھ وقت آپ کی صحبت میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس سفر میں الحاج محمد سلیم الدہلوی، الحاج الشیخ محمد رفیع السمنانی، الحاج الشیخ محمد الیاس الموسوی بھی ہمراہ تھے۔ آپ کا دن اسلاف و اخیار کی بارگاہوں میں حاضری اور کتب خانوں میں گزرتا، اور آپ کی راتیں بھی عجیب دیکھیں کہ رات کو نماز تہجد کے وقت اچانک آنکھ کھلی، کان دھرا تو آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت مرحومہ کے درد اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے اللہ کی بارگاہ میں رورو کر دعائیں کرتے سنا۔
مسالک کے مابین محبت اور الفت کا پیغام پہنچانے میں بھی آپ نے قابل تحسین بلکہ ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی ہیں۔ ملک کے کونے کونے میں جب اشتراق و انتشار دیکھتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں:
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک!
فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
(اقبال، بانگِ درا، شکوہ : 214)
بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینا آپ کو وسیع الظرفی اور بلند فکری کی دلیل ہے۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جامع مسجد منہاج القرآن کے دروازے مسیحی بھائیوں کے لئے کھول دیتے ہیں اور یہ پیغام دیتے ہوئے نظر آتے ہیں:
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انسان کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا
(اقبال، بانگ درا : 288)
مسیحی بھائیوں نے ان کی ان کاوشوں کے اعتراف میں حضور شیخ الاسلام کو 2006 کا امن ایوارڈ دینے کا شرف حاصل کیا۔
پاکستانی حالات کو دیکھتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا سیاست کو پیشہ نہیں بلکہ عبادت سمجھا۔ 2002 ایم این اے بنے اور اسمبلی کے فورم پر آواز حق بلند کی جب پیشہ ور سیاستدانوں کے چہروں کو بے نقاب دیکھا تو جذبۂ حسینی چھلکا اور یزیدی سیاست کو ٹھوکر مارتے ہوئے یوں نظر آتے ہیں :
تخت سکندری پہ وہ تھوکتے نہیں
بستر جن کا لگا ہو آقا (ص) تیری گلی میں
اسمبلی کو ٹھوکر مارنے کے بعد پاکستان کی سرزمین سے دور بیٹھ کر قلم اٹھاتے ہیں اور عرفان القرآن کی صورت میں ترجمۂ قرآن مکمل فرماتے ہیں اور حدیث مبارکہ پر المنہاج السوی جیسی عدیم النظیر اور فقیدالمثال پھر مسجد گھمگولیہ میں درس بخاری دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جسے سن کر بڑے بڑے محدثین عش عش کر اٹھتے ہیں اور داد دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
(اقبال، بانگ درا : 283)
سفیر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شیخ الاسلام کی فکر اور تحریک منہاج القرآن کی اثر پذیری دیکھنی ہو تو انسان ٹوکیو سے اوسلو اور نیو یارک اور بارسلونا سے کینیڈا تک سفر کرے ہر جگہ تحریک کے کارکن سر جھکائے عاجزی سے اللہ دے دین کی سربلندی کے کوشاں نظر آئیں گے۔ آپ کے نزدیک عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسا مرکز و محور ہے جس کے گردروح ارضی وسماوی طواف کرتی ہے ملت اسلامیہ کے دلوں کو ادب و تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب سے آشنا کرنے کے لئے آپ اپنی تمام فکری، نظری، علمی، عملی، روحانی اور قلمی صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں آپ بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ جب تک ملت اسلامیہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زادِ راہ نہیں بنائے گی اس وقت تک منزل آشنا نہیں ہو سکے گی۔
میرے قائد نے قوم کو 572 سکول، 8 کالجز، منہاج یونیورسٹی، ایک ہزار کتب جن میں سے ساڑھے تین سو سے زائد چھپ چکی ہیں چھ ہزار موضوعات پر آڈیو، ویڈیو اور سی ڈیز کا ذخیرہ اور 80 ممالک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کا پیغام پہنچانے میں ایک ایک لمحہ اور ایک ایک سانس وقف کر دیا ہے اور اپنا دفتر گوشۂ درود میں تبدیل کر دیا ہے جہاں 24 گھنٹے تلاوت کلام مجید اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں درود شریف کا ہدیہ پیش ہو رہا ہے اور ایک سال میں پڑھا جانے والا درود 58 کروڑ تک پہنچ چکا ہے، لیکن قوم آج تک آپ کو پہچان نہیں سکی، کاش سمجھ جاتی اور آپ کا دست و بازو بن جاتی تو آج امت مسلمہ اپنی صحیح منزل کی طرف گامزن ہو چکی ہوتی۔ آپ کا ایک پیغام جو میں سمجھا ہوں:
عشق سرکار کی اک شمع جلا لو دل میں
بعد مرنے کے لحد میں بھی اجالا ہو گا
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری واقعتاً سفیر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مصطفوی انقلاب کے لئے عملی کاوشوں کے علمبردار ہیں۔ باری تعالیٰ انہیں بطفیل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر خضر عطا فرمائے! اور ہمیں ان کے پیغام کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس کا ابلاغ کرنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
تبصرہ