جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہونے والا پاکستان 70 سال کے بعد بھی حقیقی جمہوریت اور شفاف انتخابی نظام سے محروم ہے۔ اب تک جتنے بھی الیکشن ہوئے انہیں عوامی سطح پر شفافیت کی سندِ امتیاز نہیں مل سکی بلکہ اب تک کے انتخابات کے باعث جھرلو، دھن دھونس دھاندلی، ہارس ٹریڈنگ، انجینئرڈ، پری پول، پوسٹ پول دھاندلی، پنکچرز اور آراوزجیسی اصطلاحات عام ہوئیں۔ الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی مختلف قسم کی رگنگ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس کیلئے سرکاری وسائل بھی بے دردی سے استعمال ہوتے ہیں، من پسند تقرر و تبادلہ کا کلچر بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سیاسی مخالفین کی قتل و غارت گری، لوٹ کھسوٹ کے پیسے کا بے پناہ استعمال اور وفاداریاں بدلنے کیلئے جائز و ناجائز طریقوں کا استعمال انتخابی نظام کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے اور دھاندلی جیسے الفاظ کے استعمال کی روایت 1971ء کے الیکشن میں ملتی ہے کہ جب مشرقی پاکستان کی 126 نشستوں میں سے عوامی لیگ نے 120 نشستیں حاصل کیں اورمغربی پاکستان کی 138 نشستوں میں سے 81 نشستوں پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی مگر یہ نتائج تسلیم نہیں کیے گئے، نتیجتاً پاکستان دو لخت ہو گیا۔ 1971ء کے الیکشن کا سیاسی سبق یہ ہے کہ جب عوام کی رائے کو تسلیم نہیں کیا جاتا تو پھر ملک اپنے وجود کو قائم نہیں رکھ پاتے، 1971ء کے بعد رائے عامہ کو تبدیل کرنے اور ہائی جیک کرنے کے طریقہ کار تو بدل گئے مگر پسندیدہ نتائج حاصل کرنے کی منفی اور غیر جمہوری سوچ جڑ پکڑتی چلی گئی۔ اسی طرح انتخابی تاریخ کے متنازعہ ترین الیکشن 1977ء میں بھی ہوئے۔ زبردستی بلامقابلہ امیدوار منتخب کروائے گئے، امیدواروں کو اغواء کرنے کے واقعات بھی سامنے آئے، نتیجتاً جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ یہاں بھی سیاسی سبق یہی ہے کہ اگر عوام کو ان کے حقیقی نمائندے ان کی مرضی کے مطابق منتخب کرنے دئیے جاتے تو پاکستان تاریخ کے طویل ترین مارشل لاء کے منفی اثرات سے بچ جاتا اور مارشل لائوں کے نتیجے میں پاکستان جن لاتعداد سیاسی، سماجی، معاشی برائیوں کی لپیٹ میں آیا ان سے کسی حد تک محفوظ رہا جا سکتا تھا۔
یہ بحث اس کے علاوہ ہے کہ آیا مرضی کے نتائج کے حصول کی کوشش میں پاکستان بار بار جمہوریت کی پٹڑی سے اترا یا اس کے پس پردہ بیڈگورننس، کرپشن، سول آمریت کا قیام اور بادشاہانہ طرز حکمرانی کار فرما تھی۔ نظام انتخاب کو آئین کے مطابق روبہ عمل نہ لائے جانے کے باعث پاکستان عالمی سطح پر جگ ہنسائی کا باعث بنا اور پاکستان کا اسلامی، جمہوری تشخص بری طرح مجروح ہوا اور پاکستان کے عوام کے حق حکمرانی پر کاری ضرب لگی۔ مثلاً ایک شفاف اور مربوط انتخابی نظام نہ ہونے کے باعث بعض مواقع پر ایسے افراد بھی امپورٹ کیے گئے جو بظاہر تو پاکستانی تھے مگر عملاً ان کا پاکستان کے ساتھ کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ تک نہیں تھا۔ اس کی ایک مثال معین قریشی ہیں۔ معین قریشی کے حوالے سے ایک واقعہ بیورو کریسی کے ہاں زیر بحث رہتا ہے کہ معین قریشی نے نگران وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد قصور میں اپنے والد گرامی کی قبر پر جانے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ان کے والد کی قبر کو تلاش کرنا تھا۔ بسیار غور و فکر کے بعد ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اس نتیجے پر پہنچی کے کسی بھی پرانی قبر پر جس پر آمدورفت کئی دہائیوں سے معطل ہو، اس پر معین قریشی کے والد کا کتبہ نصب کر کے فاتحہ خوانی کروالی جائے اور پھر ایسا ہوا۔
2008ء کے الیکشن میں8 کروڑ12 لاکھ 13 ہزار 2 سو 48 ووٹوں میں سے 3 کروڑ 71 لاکھ 85 ہزار 9 سو 58 ووٹ جعلی قرار پائے۔ 2002ء کے الیکشن بھی کس ماحول اور اثرورسوخ میں ہوئے اور کس طرح وفاداریاں تبدیل کروا کر ایک ووٹ کی اکثریت سے حکومت بنائی اور چلائی گئی، یہ سیاسی معجزہ بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک باب ہے۔ہماری جمہوریت اور نظامِ انتخاب کتنا آئینی اور خودمختار ہے اس کا احاطہ چودھری شجاعت حسین کے اس دعویٰ سے کیا جا سکتا ہے انہوں نے متعدد بار ریکارڈ پر کہا کہ 2008ء کے الیکشن سے قبل ان کے پاس ایک اہم امریکی عہدیدار آئے جنہوں نے انہیں پیشگی آگاہ کیا کہ آئندہ انتخابات میں آپ کی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہو سکے گی یعنی کس نے حکومت بنانی ہے یہ الیکشن سے پہلے طے کر لیا جاتا ہے اور پھر بعدازاں الیکشن کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے، 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی بھی سب کے سامنے ہے، کم و بیش تمام جماعتوں نے اپنے مینڈیٹ کے چوری ہونے کی بات کی اور اس ضمن میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک کمیشن بھی بنا جس نے بہرحال یہ کہا کہ بے ضابطگیاں ہوئیں اور کچھ کامیاب امیدوار اپنی سیٹوں سے محروم بھی ہوئے۔
موجودہ نظام انتخاب کا سب سے برا پہلو ووٹرز کی اکثریت کا پولنگ ڈے کے موقع پر پولنگ سے لاتعلق رہنا ہے اور آج کے دن تک کوئی ادارہ اس کا کوئی حل نہیں ڈھونڈ سکا کہ ملک کی کل آبادی کی تقدیر کے سیاہ و سفید کے فیصلے کے موقع پر لگ بھگ 50 سے 60 فیصد ووٹرز لاتعلق رہتے ہیں۔ 1985 اور 1988ء میں پولنگ کی شرح 53 فیصد تھی، 1990 اور 1993ء میں یہ شرح کم ہو کر 40 فیصد رہ گئی، 1997ء میں پولنگ کی یہ شرح محض 32.49 فیصد تک محدود ہو گئی، 2002ء کے الیکشن میں پولنگ کی شرح محض 41.68 فیصد تھی، 2008ء میں پولنگ کی شرح صرف 40 فیصد تھی۔ 2013ء کے الیکشن میں ٹرن آئوٹ 60 فیصد رہا یعنی کہ 40 فیصد بالغ آبادی نے اپنے ووٹ کے آئینی حق کا استعمال نہیں کیا۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک امر ہے۔ بقیہ 40 سے 50 فیصد ووٹرز کس نظریے اور کس سوچ کے تحت اپنا ووٹ استعمال کرتے ہیں وہ بھی کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ اس میں بھی ذات، برادری، بریانی، سولنگ، نالی، تھانے، کچہری کا خوف، نقد رشوت اور ایک ماہ کے راشن کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہی وہ انتخابی جسم کو لاحق کینسر ہے جس کے علاج کیلئے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمدطاہرالقادری اپنی بے مثال جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، انہوں نے 2012ء میں پوری قوم کو متنبہ کیا تھا کہ سیاست کی بجائے ریاست بچائی جائے اور سیاست برائے ریاست ہونی چاہیے۔ انہوں نے نظام انتخاب کی اصلاح کیلئے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ بھی کیا اور پوری قوم کی توجہ غیر آئینی اور دھاندلی زدہ انتخابی نظام کی طرف مبذول کروائی۔ آئینی الیکشن کمیشن کی تشکیل اور آئین کے آرٹیکل 63/62 کو شفاف الیکشن کی کلید قرار دیا مگر افسوس اس بیداری شعور مہم کے نتیجے میں نظام انتخاب کی اصلاح اور آئین کے آرٹیکل 63/62 کو آئین کی روح کے مطابق نافذ کرنے کی بجائے انہیں کمزور کیا گیا۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کی مداخلت پر آئین کے آرٹیکل 63/62 کے برخلاف تیار کیے گئے کاغذات نامزدگی کے ساتھ ایک بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیا گیایعنی کہ جمہوریت کی جڑوں کو کمزور کرنے والے کوئی اور نہیں ہیں، وہی نام نہاد جمہوریت کے چیمپئنز ہیں جو بظاہر مارشل لاء کا راستہ روکنے کی بات کرتے ہیں مگر اپنی سیاسی بقاء، دھاندلی زدہ انتخابی نظام میں سمجھتے ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا آج بھی وہی موقف ہے کہ جب تک آئین کے مطابق انتخابات نہیں ہوتے اور عوام کو آزاد اورخودمختار ماحول میں ووٹ کے استعمال کا حق نہیں ملتا تب تک حقیقی جمہوریت سے ہم کوسوں دور رہیں گے اور ملک منی لانڈررز، انتہا پسندوں، دہشتگردوں کے ہمدردوں، کرپٹ عناصر اور ذات برادری کی سیاست کرنے والوں کے چنگل میں پھنسا رہے گا۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جولائی 2018ء
تبصرہ