تحریر : ایم ایس پاکستانی
اس سال 13 مئی کو امریکہ سمیت دنیا بھر میں مدر ڈے منایا گیا۔ تاریخی اعتبار سے اس دن کا آغاز سن 1870ء میں ہوا جب جولیا وارڈ نامی عورت نے اپنی ماں کی یاد میں اس دن کو شروع کیا جولیا وارڈ اپنے عہد کی ایک ممتاز مصلح، شاعرہ، انسانی حقوق کی کارکن اور سوشل ورکر تھیں۔ بعد ازاں 1877ء کو امریکہ میں پہلا مدر ڈے منایا گیا۔ 1907ء میں امریکی ریاست فلاڈیفیا میں اینا ایم جاروس نامی سکول ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو منانے کی رسم کا آغاز کیا۔ اس نے اپنی ماں این ماریا ریویس کی یاد میں یہ دن منانے کی تحریک کو قومی سطح پر اجاگر کیا یوں ان کی ماں کی یاد میں باقاعدہ طور پر امریکہ میں اس دن کا آغاز ہوا۔ یہ تقریب امریکہ کے ایک چرچ میں ہوئی۔ اس موقع پر اس نے اپنی ماں کے پسنددیدہ پھول تقریب میں پیش کیے۔ اس تحریک پر اس وقت کے امریکی صدر وڈ رولسن نے ماؤں کے احترام میں مئی کے دوسرے اتوار کو قومی دن کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد یہ دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ اس مناسبت سے برطانیہ میں اس دن کو Mothering Sunday بھی کہا جاتا ہے۔ مغربی دنیا میں لوگ اپنی ماؤں کو تحائف پیش کرتے اور ان سے ملاقات کرتے ہیں۔ یوں سال بھر بوڑھے والدین میں سے ماؤں کو اس دن کا انتظار رہتا ہے۔ امریکہ سمیت یورپ بھر میں بوڑھے والدین کو گھروں کی بجائے اولڈ ہومز میں رکھا جاتا ہے۔ اس لیے لوگ اس دن اولڈ ہومز میں اپنی ماؤں سے ملاقات کرتے اور ان کو سرخ پھولوں کے تحائف پیش کرتے ہیں۔ جن لوگوں کی مائیں اس دنیا میں نہیں ہیں وہ سفید پھولوں کے ساتھ اپنی ماؤں کی قبروں پر جاتے اور وہاں یہ گلدستے سجاتے ہیں۔ ہر ملک میں مدر ڈے کو منانے کے لیے مختلف دن مختص ہیں تاہم امریکہ، ڈنمارک، فن لیند، ترکی، اسٹریلیا اور بیلجیم میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو ہی منایا جاتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا اس مدر ڈے سے یورپ خود کو ترقی یافتہ معاشرہ خیال کرتا ہے؟ کیا یورپی دنیا سال میں ایک دن ماں اور ایک دن باپ کے لیے مختص کر کے خود کو عالمی انسانی حقوق کا خود ساختہ چئمپین تصور کرتی ہے؟ کیا ماں باپ کا حق صرف ایک دن کا پیار سرخ پھول اور کچھ شفقت بھرے لمحے ہی ہیں؟
یقینا یہ وہ سوال ہیں آج بھی جواب کے متلاشی ہیں۔ تصویر کے دوسرے رخ کے طور پر اب ہمارے معاشرے میں بھی فادرز ڈے اور مدرز ڈے منائے جا رہے اور ہمارے معاشرے میں بھی اولڈ ہومز بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وہ معاشرہ جہاں ماں کے قدموں تلے جنت اور جہاں باپ کی رضا میں رب کی رضا ہوا کرتی تھی آج وہی معاشرہ اس جنت اور اس رضائے ربانی سے دامن بچا تا نظر آتا ہے۔ تقلید بری بات نہیں مگر اندھی تقلید دین میں ہو یا دنیا میں مہلک ہوا کرتی ہے۔ مغرب کی اندھی تقلید ہمیں بھی مہلک مقام تک لے آئی ہے جس سے ہماری عائلی قدریں پامال اور معاشر ے کی بنیاد ی اکائی یعنی خاندان کی چولیں ڈھیلی ہو رہی ہیں۔ اس اکائی کی بنیاد اور جڑ یعنی والدین کو گھروں سے اکھاڑ کر اولڈ ہومز میں پھینکا جارہا ہے پھر سال کے بعد ان کا ایک دن منا کر حق ادا کر دیا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک مدر ڈے کا تصور کیا ہے؟ اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ اسلام میں تو ہر لمحہ اور ہر دن مدر ڈے اور فادر ڈے ہے۔ اس تصور کو مزید سمجھنے کے لیے والدین کی عزت، تکریم اور خدمت کے پس منظر میں قرآن پاک کی ایک آیت کریمہ اور چند احادیث پیش ہیں۔
اسلام معاشرے کے عمر رسیدہ اَفراد کو کس قدر اَہمیت دیتا ہے، اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک اور نرمی برتنے کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے۔ خصوصاً بوڑھے والدین کے ساتھ نہایت شفقت کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے :
وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًاO وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًاO
(بني اسرائيل، 17 : 23، 24)
’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ’’اُف‘‘ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کروo اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجز و اِنکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو : اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھاo‘‘
قرآن پاک کے بعد معتدد احادیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بزرگوں کی عزت و تکریم کی تلقین فرمائی اور بزرگوں کا یہ حق قرار دیا کہ کم عمر اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں کا احترام کریں اور ان کے مرتبے کا خیال رکھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويؤقر کبيرنا.
’’وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة الصبيان،
4 : 321، 322، رقم : 1919، 1921
2. ابويعلي، المسند، 7 : 238، رقم : 4242
3. ربيع، المسند، 1 : 231، رقم : 582
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ان من إجلال اﷲ إکرام ذي الشيبة المسلم، و حامل القرآن غير الغالي فيه، و الجافي عنه، و إکرام ذي السلطان المقسط.
’’بوڑھے مسلمان کی تعظیم کرنا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا حصہ ہے، اور اسی طرح قرآن مجید کے عالم کی جو اس میں تجاوز نہ کرتا ہو اور اس بادشاہ کی تعظیم جو انصاف کرتا ہو۔‘‘
1. ابو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في تنزيل الناس،
4 : 261، رقم : 4843
2. بزار، المسند، 8 : 74، رقم : 3070
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 421، رقم : 32561
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 163
5. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 21، 22، رقم : 6736
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
إن من إجلالي توقير المشائخ من أمتي.
’’بے شک میری اُمت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔‘‘
1. عسقلاني، لسان الميزان، 6 : 303 2. هندي، کنز العمال، 3 : 172، رقم : 6013
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ليس منا من لم يرحم صغيرنا ويعرف شرف کبيرنا.
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ پہچانے۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة الصبيان، 4 : 322، رقم : 1920 2. منذري، الترغيب والترهيب، 1 : 64، 65، رقم : 171
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے :
من لم يرحم صغيرنا و يعرف حق کبيرنا فليس منا.
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا حقِ (بزرگی) نہیں پہچانتا۔‘‘
1. ابو داؤد، السنن، کتاب الأدب، باب في الرحمة، 4 : 296، رقم : 4943
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 222
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 5 : 214، رقم : 25359
4. حاکم، المستدرک، 1 : 131، رقم : 209
5. حاکم، المستدرک، 4 : 197، رقم : 7353
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ما أکرم شاب شيخا لسنه إلا قيض اﷲ له من يکرمه عند سنه.
’’جو جوان کسی بوڑھے کی عمر رسیدگی کے باعث اس کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس جوان کے لیے کسی کو مقرر فرما دیتا ہے جو اس کے بڑھاپے میں اس کی عزت کرےگا‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في إجلال الکبير، 4 : 372،
رقم : 2022
2. قضاعي، مسند الشهاب، 2 : 20، رقم : 802
3. بيهقي، شعب الايمان، 7 : 461، رقم : 10993 4.
4. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 94، رقم : 5903
5. ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، 4 : 61، رقم
: 6191
6. هندي، کنز العمال، 3 : 172، رقم : 6014
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یارسول اللہ! لوگوں میں حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا : تمہاری والدہ۔ انہوں نے عرض کیا : پھر کون ہے؟ فرمایا : تمہاری والدہ۔ انہوں نے عرض کیا : پھر کون ہے؟ فرمایا : تمہاری والدہ۔ انہوں نے عرض کیا : پھر کون ہے؟ فرمایا : پھر تمہارا والد ہے۔
1. صحييح بخاري، کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة، 2227/5 حديث نمبر562
2. مسلم شريف، کتاب البروالصلة والاداب، باب : برالوالدين وانهااحق به، 1973/4 حديث
نمبر : 2548
3. ابن ماجة : کتاب الادب، ناب بر الوالدين 1207/2 حديث نمبر : 6094
4. صحيح ابن حبان 175/6 حديث نمنر 433
5. المسند ابو يعلي : 486/1 حديث نمبر 6094
اسلام میں والدین کے حقوق کا تصور بڑا واضح ہے۔ دوسری طرف آج جو ہم مدر اور فادر ڈے منا کر مغربی روایات کو فروغ دے رہے ہیں تو یہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دین تو نہیں ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین میں تو ماں باپ کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ وہ گھروں کے تاحیات سربراہ ہوا کرتے ہیں ان کی معزولی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین کے ماننے والوں کو اس کا بھی حساب اسی طرح دینا ہے جس طرح نماز روزے اور زکوۃ و حج کا۔ اگر کوئی یہ چاہے کہ وہ نماز روزہ تو محمد کے دین کا لے لے اور والدین کے بارے میں فادرز ڈے اور مدرز ڈے منانے والوں کا تصور لے لے تو یہ تو اس کا اپنا اختراعی دین ہو گا نہ کہ اسلام۔ والدین کی خدمت کے بغیر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دین ادھورا ہے۔ اور محمد کے رب کا فیصلہ یہ ہے کہ اسے ادھورا دین منظور نہیں۔ (ادخلوا فی السلم کافۃ)
کاش ہم دین میں اس رخنہ سازی کو ترک کر دیں تو پھر محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین اسلام کو کسی غیر مسلم سے خطرہ نہیں ہو گا۔ حقیقت میں ہم اسی دوغلے پن سے دین کو کمزور اور خود کو دنیا کی محکوم قوم بنا رہے ہیں۔
تبصرہ