حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت سے معمور
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا علمی و تحقیقی خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین : اجمل علی مجددی
ارشادہ باری تعالیٰ ہے :
وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًاO
(بني اسرائيل، 17 : 79)
’’اور رات کے کچھ حصہ میں (بھی قرآن کے ساتھ شب خیزی کرتے ہوئے) نماز تہجد پڑھا کریں یہ خاص آپ کے لئے زیادہ (کی گئی) ہے، یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمٰی جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)o‘‘
اس آیت کریمہ میں ’’عسٰی‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو عام طور پر شک کا معنی دیتا ہے۔ مگر جب اس کی نسبت اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہو تو پھر اس میں یقین کا معنی پایا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ شک والی بات کرے اس کی ہر بات حتمی اور قطعی ہوتی ہے۔ اس لئے ’’عسٰی‘‘ یہاں یقین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اس آیت میں ایک خاص نکتہ پوشیدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : اے محبوب! آپ نمازہ تہجد ادا کیجئے جو کہ نفلی نماز ہے اور آپ کی اس نفلی نماز کا صلہ یہ ہو گا کہ اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرما دے گا۔ یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نوافل میں سے ایک نفلی نماز تہجد کا صلہ یہ دیا کہ انہیں مقامِ محمود پر فائز فرما دیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرائض کے صلے کا عالم کیا ہو گا؟ یہ مقام محمود کیا ہے؟ اس پر ذیل میں تفصیلی بحث کی جاتی ہے۔
مقامہ محمود کا معنی
محمود ایک مقام ہے جس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فائز کیا جائے گا۔ بعض علماء نے اس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام فرما ہونا مراد لیا ہے کہ مقام چونکہ ظرف ہے اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روزہ قیامت جس مقام پر کھڑا کیا جائے گا وہ مقامِ محمود ہے۔ جبکہ بعض علماء نے مذکورہ معنی کی بجائے یہ کہا ہے کہ مقامِ محمود سے مراد وہ خاص مقام، منصب، درجہ، مرتبہ اور منزلت ہے جس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روزہ قیامت فائز کیا جائے گا۔ اس معنی میں زیادہ وسعت، زیادہ صحت اور زیادہ بلاغت ہے۔ مقامِ محمود کی تمام روایات اور احادیث جو مقامہ محمود کو بیان کرتی ہیں انہیں جمع کیا جائے تو یہی معنی ان کی مراد کو سموتا ہے۔ اکثر علماء اور ائمہ تفسیر نے اسی دوسرے معنی کو اختیار کیا ہے۔ یہی معنی مذہب مختار ہے۔ اس مقام کو مقامِ محمود کیوں کہا گیا؟ اس کی تفصیل و تعبیر کتبہ حدیث میں بھی آئی ہے اور تمام تفاسیر میں بھی موجود ہے۔ لیکن سب سے نہیس اور اعلیٰ بات امامہ ابن کثیر نے کہی ہے۔
امام ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ (700 ۔ 774ھ) مقامِ محمود کا معنی ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
إہعل هذا الّذي أمرتک به، لنقيمک يوم القيامة مقامًا يحمدک ہيه الخلائق کلّهم وخالقهم تبارک وتعالي.
(ابن کثير، تہسير القرآن العظيم، 5 : 103)
’’اے محبوب! آپ یہ عمل (نماز تہجد) ادا کیجئے جس کا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے تاکہ روزِ قیامت آپ کو اس مقام پر فائز کیا جائے جس پر تمام مخلوقات اور خود خالقِ کائنات بھی آپ کی حمد و ثناء بیان فرمائے گا۔‘‘
محمود کا معنی
جب ہم قرآن مجید کی تلاوت کا آغاز کرتے ہیں تو اس آیت سے کرتے ہیں : ’’ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‘‘ ’’تمام تعریفیں اﷲ رب العزت کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔ محمود، حمد سے ہے اور اﷲ تعالیٰ کا اپنا اسم گرامی بھی محمود ہے ’’جس کی تعریف کی جائے‘‘۔ محمود اس کو کہتے ہیں جس کے ذاتی کمالات، خصائص، فضائل اور عظمت و کمال کی حمد کی جائے۔
حمد و شکر میں ہرق
حمد کسی کے ذاتی کمال پر کی جانے والی تعریف کو کہتے ہیں جبکہ شکر اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی کے احسان پر کی جائے۔ حمد کسی کی ذاتی عظمت کی تعریف کرنا ہے۔ یہ کہنا کہ وہ ہر نقص سے پاک ہے یہ حمد ہے۔ کسی کی ذاتی خوبیوں، ذاتی حسن، ذاتی عظمت، ذاتی سطوت، ذاتی جلال و جمال کو سراہنا اور اس کی تعریف کرنا اور کیے جانا یہ حمد ہے۔ اس کے احسانات پر تعریف کرنا یہ شکر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کا آغاز ان الفاظ سے نہیں کیا : ’’الشکر للّٰہ رب العالمین‘‘ کہ شکر ہے اس اﷲ رب العزت کا جو سارے جہانوں کا رب ہے۔۔۔ شکر کیوں نہیں کہا؟ اس لئے کہ شکر کی نسبت تو شکر ادا کرنے والے کی طرف ہو گئی کہ وہ شکر ادا کرے گا تو شکر ثابت ہو گا جبکہ ساری دنیا شکر گزار نہیں ہے۔ شاکر بھی ہیں اور شاکی بھی ہیں۔۔۔ کچھ ایسے ہیں کہ ملتا ہے تو اس پر شکر ادا نہیں کرتے بلکہ جو نہیں ملتا اس پر شکوہ کناں رہتے ہیں۔ پھر کافر بھی ہیں وہ اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔ وہ تو اس کی ربوبیت کو ہی نہیں مانتے، اس کے احسانات کو ہی نہیں مانتے تو اس کا شکر کیسے ادا کریں گے۔ لہٰذا اگر وہ یہ کہہ دیتا کہ ’’الشکر للّٰہ رب العالمین‘‘ تو اس کی تعریف محدود ہو جاتی۔ لا محدود کی تعریف محدود ہو جائے یہ اسے پسند نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ شکر وہی کرے گا جسے اس کے احسان کا شعور بھی ہوگا۔ بہت لوگ ایسے ہیں جنہیں اس کے احسانات کا شعور ہی نہیں ہے، اس لئے اس نے شکر کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ حمد کا لفظ استعمال کیا کہ اس کے معنی میں وسعت ہے۔ شکر، حمد کا حصہ ہے مگر حمد، شکر میں شامل نہیں ہے۔ حمد کا دائرہ وسیع ہے اور شکر کا دائرہ محدود ہے۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے جب اپنے کلام کا آغاز فرمایا تو اپنا تعارہ ان الفاظ میں کروایا : ’’ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‘‘ ۔ حمد بڑی عظیم شے ہے ۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس بناء پر وہ محمود بھی ہے۔ وہ اس وقت بھی محمود تھا جب اس کی تعریف کرنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ حمد چونکہ اس کی ذاتی خوبی ہے۔ ذاتی خوبی مخلوق کی احتیاج سے بھی ماوراء ہے۔ وہ تعریف کرنے والوں کا محتاج نہیں ہے۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ سب تعریف کرنے والوں کی تعریف اﷲ تعالیٰ کے لئے ہے۔ اس نے تعریف کرنے والوں کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ کوئی حامد تعریف کرے یا نہ کرے وہ اپنی ذات میں ہر حمد کا حق دار ہے ہر خوبی کا سزاوار وہ ہے۔ اس حمد کی بناء پر وہ محمود ہے۔ اب جو وسعت، جامعیت، ہمہ گیریت اس حمد میں ہے وہی شان محمود میں ہے۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیھم السلام مبعوث ہرمائے مگر کسی کے مقام کا نام مقامِ محمود نہیں رکھا کیونکہ محمود اس کا اپنا ذاتی نام ہے۔ جو حمد کا سزاوار ہے اور حقیقی محمود وہی ہے اس لئے اس نے مقامِ محمود کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چنا ہے۔ آپ غور کیجئے ادھر قرآن حمد سے شروع ہو رہا ہے اور الحمد ﷲ کہہ کر اعلان ہو رہا ہے کہ محمودہ حقیقی صرف اﷲ تعالیٰ ہے۔ حمد سے شروع ہونے والا اس کا کلام اور محمود پر ختم ہو جانے والی ساری تعریفیں، ادھر قیامت پر ختم ہو جانے والی ساری کائنات، ساری مخلوقات و کائنات کا خاتمہ قیامت پر ہو گا اور ساری حمد کا خاتمہ محمود کی ذات پر ہے۔ جب وہ انتہائے کائنات کا دن ہو گا تو مقامِ محمود انتہائے حمد کا مقام ہے وہ مقام کسی اور نبی اور ولی کو نہیں دیا بلکہ فرمایا محبوب! تیری شانِ حمد کا عالم یہ ہے کہ یہاں اس دنیا میں محمود میرا نام ہے اس کو روزہ قیامت تیرا مقام بنا دوں گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کو مقامِ محمود کہہ دینا کوئی اتفاقیہ امر نہیں ہے۔ بلکہ اﷲ رب العزت نے قرآن مجید کے نزول کے وقت یہ کہہ دیا کہ محبوب تو رات کی خلوت میں میری بارگاہ میں حاضر ہوا کر میں تجھے روزہ قیامت پوری مخلوق کے درمیان مقامِ محمود پر فائز فرما دوں گا۔
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے جو مقامِ محمود کا معنی بیان کیا اس کی وضاحت یہ ہے کہ انہوں نے کہا : مقامِ محمود کو مقامِ محمود اس لئے کہا گیا کہ ادھر ساری مخلوق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کر رہی ہو گی اور خود باری تعالیٰ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کر رہا ہو گا۔
لفظہ حمد کا اطلاق
جب ہم حمد کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کے اطلاق کے بارے میں یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ یہ لفظ صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے بولا جا سکتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس لفظ کو استعمال کرنا جائز نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے نعت کا لفظ تو ٹھیک ہے، حمد کا لفظ ٹھیک نہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہی محمد رکھا ہے۔ محمد مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا معنی ہے جس کی بار بار اور بے حد و حساب حمد کی جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمد ہی اﷲ تعالیٰ کی حمد ہے۔ بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمد اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی اور اعلیٰ حمد ہے۔
مثال کے طور ایک کاریگر ہے وہ کوئی عمارت تعمیر کرتا ہے۔ لوگ اس کی تعمیر کردہ عمارت کی خوبیاں بیان کرتے ہیں اس کے حِسنہ تعمیر کو سراہیں تو کیا کاریگر اس تعریف سے ناراض ہو گا؟ پیرس میں ایہل ٹاور ہے، لاہور کی بادشاہی مسجد ہے، شالامار باغ ہے، آگرہ میں تاج محل ہے آپ ان عمارات کی تعریف کریں اور بے حد و حساب اور مبالغہ کی حد تک ان عمارتوں کی تعریف کریں تو کیا اس تعریف سے ان عمارتوں کے معمار ناراض ہوں گے۔ ہاں اگر ساتھ کوئی دوسری عمارت ہے اس کی تعریف کی جائے تو وہ کاریگر ناراض ہو گا لیکن اگر عمارت ہی ایک ہو اور آپ ساری عمر اس کی تعریف کرتے رہیں تو اس عمارت کا تعمیر کرنے والا کبھی ناراض نہ ہو گا۔ کاریگر کو تو کسی نے دیکھا، کسی نے نہیں دیکھا لیکن عمارت تو سب نے دیکھی ہے تو گویا عمارت کی تعریف دراصل کاریگر کی تعریف ہے۔ اسی طرح اﷲ رب العزت کو تو کسی نے نہیں دیکھا لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو سب نے دیکھا۔ اب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرنا دراصل اﷲ تعالیٰ کی ہی تعریف ہے۔
اسی طرح شاعر کی مثال ہے آپ اس کے دیوان کی تعریف کریں اس کی شاعری کی تعریف کریں تو وہ اس بات پر خوش ہو گا۔ شاعری کی تعریہ ہی دراصل شاعر کی تعریف ہے۔ آپ علامہ اقبال کی تعریف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کا کلام بہت عظیم ہے۔ کلام بڑا ہے تو صاحبِ کلام بڑا ہے۔ آپ کوئی پراڈکٹ لے لیں، دنیا کی کوئی صنعت لے لیں جب اس کی تعریف کی جاتی ہے تو وہ اس کی کمپنی کی تعریہ ہوتی ہے۔ یہ پوری کائنات کا قاعدہ ہے۔لہٰذا اب اس بات کا جھگڑا نہیں بنتا کہ اگر کوئی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرتا جائے اور کرتا ہی رہے اﷲ تعالیٰ اس کو سو سال عمر دے اور وہ ساری عمر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرتا رہے تو اس بات سے اﷲ رب العزت کبھی ناراض نہیں ہو گا۔ اس سے بڑھ کر اس کی خوشی کیا ہو گی کہ میں نے ایک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنایا ہے اور ساری کائنات اسی کی تعریف کر رہی ہے۔ مخلوق کی تعریف کرنا دراصل خالق کی ہی تعریف ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں اگر کوئی یہ کہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے حسین ہیں تو یہ دراصل اﷲ تعالیٰ کی تعریف ہے کہ اس نے حسین بنایا ہے۔ اولاد کی تعریف سے ہمیشہ ماں باپ خوش ہوتے ہیں، تصویر کی تعریف سے مصوّر خوش ہوتا ہے، شاگرد کی تعریف سے استاد خوش ہوتا ہے۔ اگر اولاد کی تعریف پر والد ناراض ہو کہ میری اولاد کی تعریف کیے جا رہے ہیں میری کوئی تعریف ہی نہیں کر رہا۔ مصنف کی کتابوں کی تعریف کریں اور مصنف ناراض ہو جائے کہ میری کتابوں کی تعریف کر رہے ہیں میری تعریف ہی کوئی نہیں کر رہا تو ایسا کہنا دراصل دماغ کی خرابی کا باعث ہے ورنہ اولاد کی تعریف والدین کی ہی تعریف ہے اور کتاب کی تعریف دراصل مصنف کی ہی تعریف ہے۔
اس لئے اﷲ تعالیٰ نے ہرمایا : ’’الحمد للّٰہ‘‘ ساری تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ یہ سن کر ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ باری تعالیٰ تو ساری تعریفوں کا حق دار کیوں ہے اس کی کوئی دلیل بھی تو ہو گی؟ اس نے ساتھ ہی جواب دیا : ’’رب العالمین‘‘ اس لئے کہ میں سارے جہانوں کا رب ہوں۔ میں نے سارے جہانوں کو بنایا ہے۔ جو کچھ میں نے بنایا ہے اس کو دیکھ لو کہ میں قابلِ تعریف ہوں یا نہیں۔ جو اﷲ تعالیٰ بناتا ہے اگر وہ قابلِ تعریف ہے تو یہ اﷲ تعالیٰ کی تعریف ہے۔ ہر شے میں اﷲ تعالیٰ کی تعریف ہے۔ اگر کسی نے اولیاء کی تعریف کی تو اﷲ تعالیٰ کبھی ناراض نہ ہو گا کہ اسی نے ہی تو ولایت دی ہے۔ کسی نے انبیاء کرام کی تعریف کی تو اﷲ تعالیٰ کبھی ناراض نہیں ہو گا کہ اسی نے ہی تو نبوت دی ہے لہٰذا ان کی تعریف اﷲ تعالیٰ کی ہی تعریف ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ساری عمر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی تعریف کرتا رہے تو اس سے اﷲ تعالیٰ ناراض نہیں ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف جس جس جہت سے کرتے رہیں وہ سب الحمد للہ کے ضمن میں ہے۔ وہ اﷲ تعالیٰ کی ہی تعریف ہے۔ کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کے بنانے سے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خالق و معمار اﷲ تعالیٰ ہے۔ اس لئے ذہن میں یہ سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ حمد کا لفظ صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے جائز ہے۔
پھر تعریفوں کی بھی ایک حد ہے۔ تعریف کرنے والوں کی بھی ایک حد ہے۔ فرمایا : حمد کا حق دار میں ہوں اور میں ہی محمود ہوں۔ قیامت تک محمود میرا نام رہے گا جب یہ کائنات ختم ہو گی تو محمود اپنے محبوب کا مقام کر دوں گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک شانہ اہلوہیت کو چھوڑ کر، کیونکہ خالق اور اﷲ تعالیٰ ایک ہے، اﷲ تعالیٰ کی جو بھی تعریف کی جاتی رہی روزِ قیامت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان ساری تعریفوں کا عکس بنا دیا جائے گا۔ ساری امت مل کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز نہیں کر سکتی تھی کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا نام ہے اس لئے اس نے اپنے نام کو اپنے محبوب کا مقام بنا دیا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی ہی شان ہے، اﷲ تعالیٰ نے پہلے ہی اپنے بہت سے نام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کر رکھے ہیں۔ جیسے اﷲ تعالیٰ شہید ہے اور اس نے یہ نام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی عطا کر رکھا ہے۔ وہ رحیم ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی رحیم بنا دیا ہے، وہ رؤف ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی رؤف بنا دیا، وہ سمیع و بصیر ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس نے سمیع و بصیر بنا دیا ہے۔ اہس نے بہت سے نام جو اس کی شان کے لائق اس کے تھے پہلے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی شان کے لائق عطا کر دئیے ہیں۔ نام تو پہلے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کر رکھے ہیں لیکن روزِ قیامت جو اپنا نام ہو گا اسے حضور کا مقام بنا دیا جائے گا۔
حافظ ابن کثیر کے بیان کردہ معنی کے مطابق ساری مخلوقات اور ان کا خالق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمد کر رہے ہوں گے۔ قیامت کا قانون بدل گیا۔ دنیا میں تو اﷲ تعالیٰ کی حمد ہوتی تھی جبکہ قیامت کے روز سب مخلوق اپنے خالق سمیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمد کر رہے ہوں گے، ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حمد ایک عمل صالح ہے، یہ زبان کی عبادت ہے، جو اﷲ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے اسے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے اجر ملتا ہے۔ لیکن جس دن قیامت قائم ہو گی سارے عمل ختم ہو جائیں گے اور ان پر ملنے والا اجر بھی ختم ہو جائے گا، قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہو گا مگر اس دن پانچ نمازیں فرض نہیں ہوں گی۔ جو عمل ہو چکا اس کی جزا و سزا کا دن یومِ قیامت ہے۔ اب اس دنیا میں جو اﷲ کی حمد کرتے تھے اﷲ تعالیٰ اس کا اجر دیتا تھا۔ قیامت کے دن قانون بدل دیا جائے گا کہ آج اجر ختم، آج مخلوق بھی آپ کی حمد کرے گی اور میں بھی آپ کی حمد کروں گا۔ ساری کائنات حامد، محبوب تو محمود ہے۔ بے شک اﷲ تعالیٰ کی بھی حمد گی انبیاء اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کریں گے۔ لیکن ساری مخلوق اور خالق مل کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کریں گے۔ اس لئے روزِ قیامت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کیے جانے والے مقام کا نام محمود رکھا اور اس دنیا میں اس مقامِ محمود کے حامل کا نام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکھا۔
محمد مبالغہ کا صیغہ ہے اور اس کا معنی ہے جس کی بہت زیادہ کثرت کے ساتھ تعریف کی جائے۔ محمود کا معنی ہے جس کی تعریف کی جائے۔
ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے باری تعالیٰ بہت زیادہ تعریف تو تیری ہے۔ اس لئے کہ تو خالق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جتنا بھی مرتبہ ہو بہر صورت وہ تیری مخلوق ہیں، تیرے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور تیرے مقرب و محبوب بندے ہیں۔ ایمان اور معرفت کے بغیر عقلِ مادی یہ سوچتی ہے کہ باری تعالیٰ محمد تو تیرا نام ہونا چاہئے تھا کہ سب سے زیادہ تعریف تو تیری ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے اﷲ تعالیٰ بصورتِ معرفت جواب دیتا ہے کہ یہ سوال غلط ہے، میں نے بھی کبھی کوئی نام غلط رکھا ہے، میں غلطی سے پاک ہوں۔ میں نے اگر اپنا نام محمود اور اپنے محبوب کا نام محمد رکھا ہے تو درست رکھا ہے۔ اس لئے کہ میری تعریف ساری مخلوق کرتی ہے۔ اگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی میری تعریف کرتے ہیں تو وہ بھی میری مخلوق ہی ہیں۔ جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں بھی کرتا ہوں اور ساری مخلوق بھی کرتی ہے تو جس کی تعریف میں کروں اس کی بہت زیادہ تعریف ہو گی یا جس کی تعریف صرف تم کرو اس کی بہت زیادہ تعریف ہو گی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محمدیت کا مقام اس لئے ملا کہ اﷲ رب العزت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف بیان کرتا ہے اگر اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف نہ کرتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ محمدیت تک نہ پہنچتے۔ مقامِ محمود تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نوافل کا صلہ تھا اور مقامہ محمدیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرائض کا صلہ ہے۔ مگر اصل بات اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ حمد کسی عمل کے صلہ میں نہیں ہوتی، حمد عمل کے صلہ سے بے نیاز ہے۔ اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کی حمد کرنے والے تو بعد میں بنے لیکن اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اول دن سے محمد کر دیا۔ جس کی تعریف اﷲ کر دے اس کی تعریف حد سے بڑھ گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف تو اﷲ تعالیٰ نے حد سے بڑھا دی ہم کون ہوتے ہیں حد سے بڑھانے والے۔ ہم خود محدود ہیں، محدود کسی کو حد سے کیسے بڑھا سکتا ہے۔ ہم تو خود حد میں ہیں، ہمارا بیان، ہمارا فہم، ہمارا شعور، ہمارا کلام سب حد میں ہے۔ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جتنی بھی تعریف کریں ہم حد سے آگے جا ہی نہیں سکتے۔ ہم انہیں حد سے بڑھا ہی نہیں سکتے۔ حد سے تو اس نے بڑھایا ہے جس نے بنایا ہے اور نام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکھا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام کی ابتداء حمد سے کی، اپنا نام بھی حمد سے نکالا اور نام محمود رکھا ، اور مخلوقات کے نقشہ اول کا نام احمد اور محمد رکھا، سارے لفظ حمد سے نکالے اپنی پہچان بھی محمود کر کے کرائی، اپنا کلام بھی حمد سے شروع کیا، نام بھی محمود رکھا اور محبوب کو مقام بھی محمود دیا۔ اپنے اور اپنے محبوب کے جملہ معاملات و مقامات حمد کے گرد گھمائے۔
حمد نری تعریف کو کہتے ہیں اور جہاں نری تعریف ہو وہاں نقص ہو ہی نہیں سکتا۔ مثلاً جاننا خوبی ہے اور نہ جاننا نقص ہے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محمد بنا دیا سب سے بڑھ کر تعریف کر دی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں علم ہی علم منسوب ہو گا، عدمِ علم کی نسبت ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہیں کر سکتے، نسبت کر دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محمد نہیں رہتے۔ کوئی کام کر سکنا یہ خوبی ہے، نہ کر سکنا یہ نقص ہے۔ نقص ہو تو حمد نہیں ہوتی اگر ایک گوشے سے حمد نکل گئی تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ رہے۔ عطا کرنا خوبی ہے اگر عطا نہ کر سکیں تو یہ نقص ہے اگر نقص آ جائے تو وہ محمد نہ رہے۔ ہم درود و سلام پڑھیں اور وہ وہاں سے سنیں یہ خوبی ہے اگر نہ سن سکیں تو یہ نقص ہے، نقص آ گیا تو حمد نہ رہی، حمد نہ رہی تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ہے مطلق حمد اور حمد ہی حمد۔
محمد کے نام میں وہ خوبی ہے جو اس نے اپنے نام سبحان میں رکھی ہے۔ سبحان کا معنی ہے پاک ہے وہ ذات، ہر نقص، ہر کمی، ہر کجی سے پاک، ہر اس کمزوری سے پاک جو اس کی شان کو گھٹا دے۔ اﷲ تعالیٰ کی شانہ سبحانیت ہے اس کا عکس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محمدیت پر ہے۔ یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اے باری تعالیٰ! تو جو روزِ قیامت اپنے محبوب کی تعریف کرے گا تو کیا تیرا یہ عمل صرف یومِ قیامت کے ساتھ خاص ہے یا یہ کام پہلے بھی کیا ہے؟ فرمایا : مقام کا نام آج رکھا ہے کام پہلے سے کرتا چلا آ رہا ہوں ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذکْرَکَ‘‘ (ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کر دیا)۔ محبوب کی حمد تو میں ہمیشہ سے کرتا چلا آ رہا ہوں اسی سے تو ذکر بلند ہوتا آ رہا ہے۔ کام ایک ہی رہا ہے عنوان بدلتے رہے ہیں۔ کبھی اس کو ’’وَرَفَعْنَا لَکَ ذکْرَکَ‘‘ کے پردے میں سمجھا دیا، کبھی ’’ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO‘‘ کے حکم میں بیان کر دیا اور کبھی ’’عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبّكَ مَقَامًا مَّحْمودًاO‘‘ کے نام سے اجاگر کر دیا کہ میں حمد تو اوّل دن سے کر رہا ہوں اور روزِ قیامت بھی کروں گا۔ حمد کر رہا ہوں تو نام محمد رکھا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفاعتِ کبریٰ فرمائیں گے، جملہ مخلوق آپ کی تعریف کرے گی۔ کیا رفیع الشان مقام ہو گا جب شانِ محمدیت کا کامل ظہور ہو گا اور جملہ اولین و آخرین حمد و ثنائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کر رہے ہوں گے۔ کرمِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجلیاں افزوں تر ہوں گی۔ تمام اہلِ محشر تو پل صراط سے گزرنے میں مشغول ہوں گے مگر حضور شافعِ محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پل صراط کے کنارے کھڑے کمال گریہ و زاری سے اپنی عاصی و گنہگار امت کی نجات کی فکر میں غلطاں و پیچاں اپنے خالق و مالک سے دعا کر رہے ہوں گے ’’ربّ سلم، ربّ سلم‘‘ پروردگارہ عالم انہیں سلامتی و عافیت سے پار لگا دے۔ مولا! ان خطا کاروں کو بچا لے انہیں اپنے دامنِ عفو و کرم میں پناہ عطا فرما دے۔ اے احکم الحاکمین! تجھے تیری رحمت کا واسطہ ان عاصیوں اور سیاہ کاروں کو نجات عطا فرما۔
نفسا نفسی کا عالم ہو گا۔ باپ بیٹے سے بھاگ رہا ہو گا۔ بیٹا باپ کو نہیں پہچانتا ہو گا۔ جن سے کچھ توقّع اور امید تھی وہ سب بیگانے ہو چکے ہوں گے۔ ہاتھ پاؤں اور جسمانی طاقت جواب دے گئی ہوگی۔ ٹوٹی ہوئی کمریں اور اوپر سے گناہوں کا بوجھ عجیب ندامت کا سماں ہو گا۔ کوئی پھسلے اور بھٹکے تو سنبھلنا کیسا؟ اب تمام اوّلین و آخرین کا بار حضور شافعِ محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر آن پڑے گا۔ ایک اکیلی جانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو گی اور جہان بھر کا سامان ہو گا۔ یومِ حشر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مقامات کا دورہ فرمائیں گے۔ کبھی میزان پر جلوہ افروزی فرمائیں گے۔ میزان قائم ہوگی، نامۂ اعمال کھولے جا رہے ہوں گے، ہنگامہ دار وگیر گرم ہو گا اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے اعمال حسنہ میں کمی دیکھیں گے اس کی شفاعت فرما کر نجات دلوائیں گے اور کبھی دیکھو توحوضِ کوثر پر تشریف فرما ہیں اور تشنہ لب پیاسوں کو سیراب فرما رہے ہیں کہ پانی پی کر ہوش و حواس باقی رکھیں۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہی جگہ پر جلوہ افروز رہتے تو اﷲ جانے میزان پر آفت رسیدوں اور غم زدوں پر کیا گزرتی۔ کون سا پلہ بھاری ہو جائے۔ ادھر کرم نہ فرمائیں تو یہ بے کس و بے چارے، بے یار و مددگار برباد ہو جائیں۔ پھر وہاں سے پل صراط پر رونق افروز ہوئے اور گرتوں کو تھام لیا۔ غرض ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کی دہائی ہو گی۔ ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دم ہو گا اور جہاں بھر کی خبر گیری ہو گی۔ اتنا عظیم اژدھام اور اس قدر مختلف کام اور پھر عطائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطر بیز ضوفشانیاں عجیب سماں بندھا ہو گا۔ اس درجہ فاصلوں پر مقام اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر ایک دوسرے سے اس طرح زیادہ پیارا ہے جیسے ماں کا اکلوتا بچہ۔ قلبہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہجومِ آلام ہو گا لیکن زبان پر خدا کا نام ہو گا۔ آنکھوں سے اشک رواں ہوں گے اور ہر طرف بے تابانِ دواں ہوں گے۔ ادھر گرتے کو سنبھال رہے ہوں گے اور ادھر ڈوبتوں کو نکال رہے ہوں گے۔ یہاں روتوں کے آنسو پونچھے جا رہے ہوں گے اور وہاں آگ میں جلتوں کو دوزخ سے نکالا جا رہا ہو گا۔ الغرض ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہائی ہو گی۔ ہر شخص عام و خاص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو پکار رہا ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ محمود پر فائز ہو کر اوّلین و آخرین کو فیضیاب فرما رہے ہوں گے۔(جاری ہے)
تبصرہ