سعدیہ کریم
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی حیات اور خدمات کا بنظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز اللہ تعالیٰ اور نبی کریم محمد مصطفی ﷺ کے نام سے کیا اپنی عمومی اور سیاسی زندگی میں آئین اسلامی اور حدیث نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی راہنمائی کی۔ اُن کی زندگی کا ایک قابل قدر گوشہ جذبۂ عشق رسول ﷺ ہے۔ اپنے پیغمبر کی ذات سے انہیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان کے اقوال و کردار سے بخوبی ہوتا ہے۔
قائداعظمؒ ان خوش قسمت اہل اسلام میں سے ہیںجن کے والدین نے محبت رسول ﷺ کو ان کے نام کا حصہ بنادیا اور ان کا نام محمد علی رکھا۔ ان کی زندگی میں شعور کی ابتداء اسی نام ’’محمد‘‘ کی گونج سنتے اور سمجھتے ہوئے ہوئی بچپن میں جب وہ اذان سنتے تو سمجھتے کہ ان کا نام اذان میں لیا جاتا ہے۔ ایک دن گھر آکر والدہ سے پوچھا تو ماں نے گلے لگاکر بتایا کہ یہ آپ کا نام نہیں لیا جاتا یہ نام ہمارے پیغمبر کا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب و مقرب ہیں۔ انہیں لوگوں کی رہنمائی، تعلیم و تربیت اور آگہی کے لیے بھیجا گیا تھا۔ وہ لوگوں کو توحید کا درس دیتے تھے۔انہی کے نام کی نسبت سے ہم نے آپ کا نام رکھا ہے یہ بات ان کے دل میں جاگزیں ہوگئی۔
قائداعظم محمد علیؒ کا نسب:
قائداعظم کا تعلق گجرات کے خوجا اسماعیلی خاندان سے تھا۔ 1938ء میں شملہ کے قیام کے دوران اپنے دوستوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:
’’ہمارے آبائو اجداد موہانہ راجپوت تھے ان میں سے بعض لوگ پنجاب کے چند حصوں میں ابھی تک موجود ہیں۔ یہ لوگ حضرت غوث الاعظمؒ کے خاندان کے ایک بزرگ پیر عبدالرزاق صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ تجارت ان کا پیشہ تھا اس لیے انہیں خواجہ کہتے تھے بعد میں یہ خوجہ مشہور ہوگئے‘‘۔
رسول اللہ ﷺ سے عقیدت:
قائداعظم کے والدین اسلام اور پیغمبر اسلام سے بہت عقیدت رکھتے تھے وہی حب رسول محمد علی جناح کو وراثت میں ملی تھی۔ اس محبت کا پہلا شعوری اظہار اس وقت ہوا جب انہوں نے انگلستان کی لنکن ان میں داخلہ صرف اس لیے لیا کہ وہاں پر دنیا بھر کے قدیم قانون دانوں میں سب سے اوپر حضرت محمد ﷺ کا نام تھا۔ اس بات کا اظہار انہوںنے 1947ء میں قیام پاکستان سے قبل کراچی بار ایسوسی ایشن کے سپاس نامے کا جواب دیتے ہوئے کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ
’’ایک مسلمان کی حیثیت سے میرے دل میں رسول اکرم ﷺ کی بہت عزت تھی ان کا شمار دنیا کے عظیم ترین مدبروں میں ہوتا ہے۔ ایک دن اتفاقاً میں لنکن ان گیا اور اس کے دروازے پر پیغمبر اسلام کا نام دیکھ کر وہاں داخلہ لیا‘‘۔
یہ واقعہ قائداعظم کے ذاتی رجحانات، دینی عقائد اور پیغمبر اسلام سے ان کی والہانہ عقیدت کا عکاس ہے۔ ان کے کردار میں اسی محبت کا رنگ نظر آتا ہے۔ وہ باکردار، سچے، کھرے اور مخلوق خدا سے محبت کرنے والے رہنما تھے۔
نواب بہادر یار جنگ قائداعظم سے اپنی پہلی ملاقات کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1934ء میں عید میلاد النبی ﷺ کے جلسے میں جب میں نے پہلی مرتبہ محمد علی جناحؒ کو دیکھا اور ان کے بارے میں پوچھا تو جلسہ کے منتظم سیٹھ ذکریا منیار نے بتایا کہ یہ محمد علی جناح ؒ ہیں جو مسلمانوں کی آنکھ کا تارا ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا کا سبق ایک مرتبہ پھر سے پڑھانے کا عزم کرلیا ہے اور خود سب سے چھوٹ کر محمد ﷺ کے آستانے سے وابستہ ہوگئے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے خود کو ایک مذہبی مصلح یا پیشوا کی حیثیت میں پیش کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ یہی کہا کہ میں مولانا یا مولوی نہیں، مجھے دینی علوم میں مہارت کا دعویٰ بھی نہیں لیکن میں اپنے مذہب اور ایمان سے پوری طرح واقفیت رکھتا ہوں اور اپنے عقائد کا ایک ناچیز اور غیور فرمانبردار ہوں۔
قائداعظمؒ کی زندگی شمع رسالت سے اکتساب نور کی مرہون منت تھی:
قائداعظم کی زندگی کے مختلف واقعات اور شواہد پر ایک نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت ظاہرہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی چاہت اور الفت میں کسی ثقہ اور پابند شریعت مسلمان سے کسی طرح بھی کم نہ تھے۔ یہی وجہ ہے تحریک پاکستان کے رہنما مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائداعظم کو اورنگزیب عالمگیر کے بعد دوسرا بڑا مسلمان قرار دیا ہے۔
قائداعظم نے حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب کو ایک خط لکھا جس میں ان کے تحائف کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ:
’’جو شخص اپنے پیغمبر پر درود شریف نہیں پڑھتا اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کیسے نازل ہوسکتی ہے‘‘۔
قائداعظم اکثر عید میلاد النبی ﷺ کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے۔ 5 فروری 1945ء کو رسول اکرم ﷺ کے یوم ولادت کے موقع پر اپنا ایک پیغام لکھوایا جس کا متن کچھ یوں ہے:
’’رسول اکرم ﷺ کے یوم پیدائش کے موقع پر میں آپ کو اس کے سوا اور کوئی پیغام نہیں دے سکتا کہ اسلام کی بہترین روایات اور دین جو ہم تک ہمارے پیغمبر کے ذریعے پہنچیں، دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اسلام جمہوریت، امن اور انصاف قائم کرنے کے لیے دنیا میں آیا تاکہ مجبوروں اور پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسی نصب العین کی خاطر جدوجہد میں گزارا۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ کہیں بھی ہو اس عظیم نصب العین اور اسلام کی شاندار روایات کو قائم رکھے‘‘۔
مولانا شبیر احمد فرماتے ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے 1945ء میں تھانہ بھون کی جامع مسجد میں وعظ کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’تم لوگ کہتے ہیں کہ محمد علی جناح ایسا ہے، ویسا ہے، مگر رات کو جو میں نے خواب میں دیکھا ہے وہ کچھ اور ہی ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک وسیع و عریض میدان ہے جس میں کروڑہا لوگ ہیں۔ درمیان میں ایک مرصع تخت ہے جس کا حسن اور خوبی بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں اس تخت پر حضور اکرم ﷺ اور ایک بے ریش شخص تشریف فرما ہیں۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ تو حضور سرور کائنات نے فرمایا: یہ محمد علی جناح ہے‘‘۔
مولانا مزید فرماتے تھے کہ اس منظر اور بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قائداعظم کو حضور ﷺ سے بےحد محبت تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ حضور ﷺ کے بہت قریب تھے۔
1948ء کو قائداعظم نے عید میلاد النبی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’آج ہم دنیا کی عظیم ترین ہستی کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔ آپ کی عزت و تکریم کروڑوں انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام شخصیات آپ کے سامنے سرجھکاتی ہیں۔ میں ایک عاجز ترین انسان، خاکسار اور بندہ ناچیز اتنی عظیم ہستی کو بھلا کیسے نذرانہ عقیدت پیش کرسکتا ہوں؟ رسول کریم ﷺ عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما تھے، عظیم قانون ساز تھے، عظیم سیاستدان اور عظیم حکمران تھے۔ اسلام کے اصول آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں جیسے تیرہ سو سال پہلے تھے۔ تیرہ سو سال پہلے ہمارے نبی ﷺ نے جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اسلام ہر مسلمان کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے‘‘۔
قائداعظم سچے اور پکے عاشق رسول تھے۔ وہ اپنے قول و کردار میں اقبال کے مرد مومن کا عملی پیکر تھے اور مومن کا سینہ عشق مصطفی ﷺ کا گنجینہ ہوتا ہے۔ آج ہمیں ان کی زندگی کو اپنے لیے مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے۔
گوپال کرشن گوکھلے نے لکھا ہے کہ:
’’جناح میں سچائی ہے اور وہ فرقوں کے تعصبات سے پاک ہیں‘‘۔
گوپال کرشن کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ نے اپنی زندگی سیرت رسولؐ کی اتباع میں بسر کی اور اپنے کردار میں وہ تمام اعلیٰ اوصاف پیدا کیے جن کا حکم پیغمبر اسلام نے دیا تھا۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ لکھتے ہیں:
’’ارے مرد تو وہ ہے، جس بات پر ڈٹا چٹان کی طرح ڈٹ گیا، قہقہوں کے بادل اٹھے، اشکوں کی گھٹا چھائی، خون کی ندیاں بہہ گئیں، لاشوں کے انبار لگ گئے مگر کوئی چیز مسٹر جناح کے عزم، ہمت اور استقلال کو نہ ہلاسکی اور اس نے تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر رکھ دیا‘‘۔
اگر قائداعظم کے بارے میں سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے اس قول کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں دیکھیں تو شعب ابی طالب کی محصوری کا وہ زمانہ یاد آتا ہے جب ہر طرف مشکلات و مصائب کا انبار تھا، بھوک تھی، افلاس تھا، اپنوں کی زیادتیاں تھیں اور پھر جلا وطنی کا عالم تھا لیکن ہمارے عظیم نبی ﷺ کے پایہ استقلال میں لغزش نہ آئی تھی اور وہ دین کی اشاعت اور ترویج میں مصروف عمل تھے۔ قائداعظمؒ کی زندگی کے یہ لمحات و واقعات ان کے محبت رسول ﷺ کے عکاس ہیں۔
قائداعظم کا کردار اور ان کی شخصیت محبت رسول ﷺ کا عملی ثبوت ہیں۔ صدق، اخلاص اور ایمانداری ان کے کردار کے بنیادی جزو ہیں۔ موجودہ دور میں قائداعظمؒ کے اقوال اور ان کا کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، دسمبر 2020ء
تبصرہ